بالی

موزوں متوازن سبک سی ناک میں پڑی ہوئی بالی نے سارے جہاں کو احاطے میں لے رکھا تھا شربتی کاجل سے سجی آنکھوں اور شنکرفی ہونٹوں کے بیچ گلابی سی ناک اﷲ اﷲ حسن کی حشرسامانیاں !

شمیمہ کو آئینے کے روبرو اپنا جائزہ لیتے دیکھا تو صبا سے نہ رہا گیا۔ یہ آج کس کس پر قیامت ڈھانے کا ارادہ ہے ۔ سفاک تیکھے لہجے میں جواب ملا، جو بھی آئے گا راہ میں ۔ نصرت تم بھی چلو بے شک دو اسٹاپ پہلے اتر جانا اورپروین سے نوٹس لے لینا تمہیں تو پتہ ہی ہے نا؟ اس نے اصرار کر کے اسے ساتھ لے لیا۔

بس میں پہلے خودنے قدم رکھا اور سامنے کی واحد خالی سیٹ پر بیٹھ گئی۔نصرت کو مجبوراً چار سیٹ پیچھے بیٹھنا پڑا وہیں بیٹھے بیٹھے شمیمہ پر نگاہیں جم گئیں اس کا میرون کامدار دوپٹہ رخساروں پر سرخیاں بکھیرنے سے باز نہیں آ رہا تھا۔بس کی رفتار اور ساتھی ہی گنگناتی ہوئی ریکارڈنگ ایک دم تیز تر ہوی تو وہ چونکے بغیر نہ رہ سکی۔ موسیقی کی تیز لہریں اور جذبات کو گرما دینے والے بول!
عشق سے کہہ دو کہ لے آئے کہیں سے ساون

اب کہیں سے لانے کی کیا ضرورت تھی ساون تو سامنے تھا جس کی بوندیں اس نوجوان، خوبرو، صحت مند، تواناڈرائیور کے احساسات کی تپتی دھرتی پر تسلسل سے برس رہی تھیں پھر کیوں نہ بہکی بہکی نگاہیں سرخی پر مائل ہوتیں۔ افسوس ۔۔۔ کی تیز لہر نے اس کے پورے وجود کو اندوہناک سناٹے سے دو چار کر دیا نگاہیں سامنے جم کر رہ گئیں۔چھوٹی سی چاندی کی بالی نے اس توانا وجود کو کس مضبوطی سے گرفت میں لے رکھا تھا کہ باوجود کوشش کے اپنے آپ کو آزاد نہیں کر پا رہا تھا ۔اسی جدوجہد میں اچانک بریک پر پاؤ ں جا پڑا تیزی سے چلتی ہوئی بس نے جھٹکا لیا اور اس لمحے نے آزادی کے بجائے زیادہ ہی جکڑ لیا کامدار دوپٹہ نے جرأت دکھائی اور سر سے اڑ کر قدموں میں آن گرا۔

تب رعنائی خیال نے زقند بھر کر کہاں سے کہاں پہنچا دیا یہ تو وہی جانتا تھا جو آزمائش میں مبتلا تھاقدموں میں گرے ہوئے دوپٹے کو سر تک آنے میں چند ہی لمحے لگے…… مگر ان کوتاہ لمحوں نے ایک ذمہ دار فرائض کی بجا آوری میں مصروف شخص کو ہوش و خرد کی دنیا سے کوسوں دور پھینک دیا۔

بس کی رفتار اور موسیقی میں تیزی آتی گئی اور ساتھ ہی جنوں خیزیوں میں اضافہ ہوتا گیا آخر اسٹیئرنگ قابو سے باہر ہو گیا۔ جب اپنا آپ سنبھلا رہے تو بڑی سے بڑی ذمہ داری کوئی سنبھالی جا سکتی ہے! ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ اگلے لمحے ایک دھماکہ ہوا اور بس۔

زندگی ایسے ہی دھماکہ کی منتظر ہوتی ہے جو نظر اور نظارہ دونوں کو ختم کر دے!

کاش اسے اسپتال میں ہوش نہ آتا کاش وہ یہ سب کچھ نہ دیکھتا!کاش وہ اس عاقبت نا اندیش لڑکی کو بس سے باہر دھکیل سکتا جس نے کئی گھرانوں کا سکون لوٹ لیا مگر وہ کس کس کو دھکے دے سکتا ہے ؟اس کا جواب کسی کے پاس نہ تھا!
Aasia Abdullah
About the Author: Aasia Abdullah Read More Articles by Aasia Abdullah : 23 Articles with 22403 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.