تو مصطفوی ہے(۳)
(Dr Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
یہاں جب یہ اعتراض ہوا کہ ہمارا
رسولﷺ تو عربی ہے اور ہم عجم؟تو اس کا جواب یہ دیا گیا کہ اب تم مسلمانوں
کی گلوبل زبان ایک ہی ہے اور وہ عربی ہے،آپ ﷺ نے فرمایا: جو بھی عربی بولے
گا وہ عرب شمار ہوگا،ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اب تک اپنے آ پ کو قوم ِ
رسولِ ہاشمی ﷺ کہلانے سے کتراتے ہیں،عربوں کی فضیلت کا انکار کر بیٹھتے
ہیں،عرب وعجم قانون کی نگاہ میں برابر ہیں،مگر عرب قوم، زبان اور بلادکے
فضائل سے انکار نہیں کیا جاسکتا،اگر کسی کو بھی یہی فضائل در کار ہیں، تو
وہ عربوں سے نفرت کے بجائے ان میں ضم ہوجائے،بعض لوگ ترک وایرانیوں اور
عربوں میں پڑوس کی چپقلش کی وجہ سے مخمصے کا شکار ہوجاتے ہیں،کہ کس کو
ترجیح دی جائے،عرض ہے کہ ایران کا عجم ہونا اگر کوئی بڑا مسئلہ نہیں بھی
ہے،تو اپنی مجوسی ثقافت پر فخر اور اس کے لئے عربوں سے پھڈے کرنا ایک مئلہ
تو ہے،یہی بیماری ترکوں کی بھی ہے، اللہ کرے ہم پاکستانی اس زعم میں مبتلا
نہ ہوں۔
‘‘بعض لوگوں کو( بِلِسَانِ قَومِہ) کے لفظ سے خصوصِ بعثت کا شبہ ہوگیا اور
یہ وہم ہوگیا کہ آپ ﷺ کی نبوت صرف عرب کے لئے تھی، جیساکہ بعض یہود کہتے
تھے کہ آپ ﷺ فقط قوم عرب کےلئے مبعوث ہوئے ہیں ،یہ بیان اور خیال قطعاً غلط
ہے،اس لئے کہ بے شمار آیاتِ قرآنیہ اور احادیث متواترہ سے یہ امر ثابت ہے
کہ آنحضرت ﷺ عرب وعجم اور تمام عالم کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ آنحضرت ﷺ
چونکہ تمام اقوام عالم کی طرف مبعوث ہوئے اس لئے یہ تو مناسب نہ تھاکہ
ہرقوم کی زبان میں علیحدہ علیحدہ قرآن اترتا، اس صورت میں نزاع اور اختلاف
کا دروازہ کھل جاتا اورہر قوم اپنی زبان کے اعتبار سے ایسے معنی کی مدعی
بنتی جسے دوسری قوم نہ سمجھ سکتی اور آنحضرت ﷺ چونکہ قوم عرب میں مبعوث
ہوئے اور لغت عرب تمام لغات عالم میں سب سے اشرف اور اکمل اور افصح اور
ابلغ ہے اس لئے اآپ ﷺ پر عربی زبان میں کتاب الہی کا نزول اَولٰی اور انسب
ہوا اور حضور پُر نور ﷺ چونکہ اشرف الرسل اور اکمل الرسل ہیں، اس لئے آپ ﷺ
پر کتاب اسی زبان میں نازل کی گئی، جو تمام لغات میں سب سے اشرف اور اکمل
ہے، کسی زبان میں عربی زبان جیسی نہ لغات تھیں اور نہ صرف ونحو اور نہ
بلاغت ہے ،کافیہ اور تلخیص المفتاح کا توکیا ذکر کروں ،امریکہ اور برطانیہ
کے پاس انگریزی زبان کے قواعد کی میزان منشعَب اور پنج گنج اور نحو میر بھی
اگر ہے، تولائے اور دکھلائے ۔ (معارف القرآن کاندھلویؒ)۔
بہر کیف ،اللہ تعالیٰ نے قرآن میں امت اور قوم کو ہم معنی لفظ بھی استعمال
کیا ہے،مثلاً :ثمَّ اَرْسَلْنَا رسلنا تَتْرَاکُلَّ مَاجَاء اُمَّۃً
رَّسُوْلُھَا کَذَّبُوْہُ فَاَتْبَعْنَا بَعْضَھُمْ بَعْضاً ،وَجَعَلْنَاھُمْ
اَحَادِیْثَ فَبُعْداًلِّقَوْمٍ لاَّیُوْمِنُوْنَ (۲۳:مومنون)،پھر ہم پے در
پے اپنے رسول بھیجتے رہے، جب کسی’’امت‘‘کے پاس اس کا رسول آتا تھا، تو وہ
اسے جھٹلا دیتے تھے ،تو ہم بھی بعض کو بعض کے پیچھے لاتے رہے اور ان اقوام
کو احادیث(تاریخی حکایات وکہانیاں) بناتے رہے، پس جو ’’قوم‘‘ ایمان نہیں
لاتی ،ان پر لعنت ہو۔وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلُ (۱۰:یونس) اور ہر ’’امت
‘‘کے لئے ایک رسول ہے ۔وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ (۳:رعد)اور ہر ’’قوم‘‘ کے
لئے ایک ہدایت کرنے والا رہنما(پیغمبر) ہے۔ یعنی ان آیات کے مطابق قوم اور
اُمت تھوڑے سے فرق کے ساتھ ہم معانی الفاظ ہیں،پھرظاہر سی بات ہے جب نبوت
کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا، تو آخر میں پوری انسانیت کے لئے ایک ہی
رسول جنابِ محمد عربیﷺ کی بعثت ہوئی۔
عربی لفظ قوم کا اصل مادہ (ق۔و۔م۔)ہے جس کے معنی کھڑے ہونا، متوازن ہونا،
کسی جگہ پر ٹھہر جانا،رک جانا کے ہیں، اسی مادہ سے لفظ (قِوام) بنیاد ،عدل
اور توازن ،(قامۃ) آدمی کا قد، (قیامت) کھڑے ہونا ،(مستقیم) سیدھا ، درست
راستہ وغیرہ نکلے ہیں ، (قوم) کے معنی وہ گروہ ہے، جو ایک جگہ ایک ساتھ
رہائش پذیر ہوں، جن کی زبان او ر ثقافت ایک ہوجائے ،وہ گروہ ’’قوم‘‘ کہلاتا
ہے،امت لفظ کا مادہ (ا۔م۔م۔) ہے ،جس کے معنی اِرادہ، اَساس، بنیاد
،مرجع،مرکزی اور اصل کے ہیں اوراسی مادہ سے لفظ (اُمّ) ماں ، (امام) آگے،
سامنے، مستقبل ،(امام) جو شخص آگے ہو، (اِمامۃ) آگے ہونا، (اُمی) اُم
القریٰ (بستیوں کی ماں، مکہ مکرمہ) کے رہنے والے، سب قوموں سے آگے قوم،
مادرزاد اَن پڑھ ،کوئی بھی ان پڑھ وغیرہ نکلے ہیں، (اُمت) کے معنی وہ گروہ
ہے ،جن کی تمام بنیادی اَساس شروع سے ایک ہو،یعنی دین،تہذیب وتمدن
،ثقافت،زبان وغیرہ، مسلمین کا گروہ اس تعریف پر پورا اُترتا ہے ،جن کی
مائیں قرآن نے ’’اَزواج الرسول ﷺ‘‘ کو قرار دیا ہے۔واَزْوَاجُہُ
اُمَّھَاتُھُمْ (۳۳:احزاب)آپ ﷺ کی بیبیاں مسلمین کی مائیں ہیں،گو کہ
بظاہررشتہ مجازی ہے،مگربالکل حقیقی جیسا ہے:وَلَاَأَنْ تَنْکِحُوْْ ا اَ زْ
وَجَہٗ مِنْ بَعْدِ ہِ اََبَدً ا (۳۳احزاب) کہ ازواجِ مطہراتؓ سے اپنی
حقیقی ماؤں کی طرح آپﷺ کے بعد کوئی بھی نکاح نہیں کرسکتا،عبد اللہ ابن
مسعود ؓ کی ایک روایت میں آپ ﷺ کو پوری امت کا باپ قرار دیا گیا ہے:(
وَہُوَ اَ بٌ لَہُم)،اب آپ ہی بتایئے کہ جب آپﷺ اور ازواجِ مطہرات ؓامت
کے ماں باپ ہوئے،تو لا محالہ ہم ایک ہی قوم ہوئےاور ہماری اپنی بولیوں کو
اپنی حالت پر باقی رکھکر بھی ہماری مذہبی اور عالمی زبان عربی ہوئی ،اس کا
یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم عربی کے علاوہ کوئی اور زبان بول سکتے ہیں نہ سیکھ
سکتے ہیں،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عربی ضروری ہے باقی کی اجازت ہے ۔
قرآن میں مسلمین کے لئے ’’قوم‘‘ کا لفظ بھی آیا ہے، وَقَالَ الرَّسُوْلُ
یَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوْا ھَذَا الْقُرْآنَ مَھْجُوْراً (۲۵:
فرقان)اور رسول ﷺ کہیں گے،اے میرےرب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو مہجور(
متروک) کیا ہواہے،یعنی قرآن سے ہدایت نہیں لیتے ہیں ، جبکہ قرآن میں ہے :’’
ھُدًی لِّلنَّاس ‘‘ (۲:البقرہ:۱۸۰) ’’قرآن تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے
۔‘‘ اگر قرآن میں رسولﷺ کی مخاطب ’’میری قوم‘‘ تمام مسلمین ہے، تو
گلوبلائزیشن کے اس دور میں لازمی طور پرتمام مسلمین کو عالمی سطح پربھی
قرآن کے مطابق ایک ہی قوم بننا اور مانناہوگااور جب یہ ثابت ہوگیا کہ مسلم
ایک ہی قوم کا نام ہے ،تو ان کے ملک کو اسلامی کہنے میں کیا حرج ہے۔
اسی لئےاقبال کے نزدیک اسلامی قومیت کی بنیاد اسلام پر ہے، ملک و نسب ،نسل
یا وطن وجغرافیاپر نہیں، اس تصور کی انہوں نے عمر بھر شدو مد سے تبلیغ کی ،
ہر مسلمان اسی تصور کو تسلیم کرتا ہے اور اس کی سچائی سے انکار ہرگزنہیں
کیا جاسکتا ،لیکن مسلم ریاستوں کے اتحاد اور دنیا کے تمام مسلمانوں کے ایک
قوم بن جانے کا حوصلہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا، جب تک وطنیت اور قومیت کے
مغربی نظریہ کی گرفت کمزور نہیں پڑجاتی، قریب قریب سارا عالم اسلام کافی
عرصہ تک مغربی اقوام کا محکوم رہا ہے اور جدید اسلامی ریاستوں میں سے بہت
سی ایسی ہیں، جن کی تشکیل ہی مغربی نظریہ قومیت کی بنیاد پر ہوئی ہے، اس
طرح انہیں مغربی نظریات کے سحر سے آزاد ہونے میں کچھ عرصہ لگے گا، لیکن
امید کی جا سکتی ہے کہ اقبال کے اس خواب کی تعبیر بھی ایک نہ ایک دن ضرور
پوری ہوگی اور دنیا کے تمام مسلمان ملت واحدہ کی شکل اختیار کرکے ایک
عالمگیر برادری کی شکل میں ڈھل جائیں گے،بلکہ او آئی سی کی کمزور صورتِ
حال کے باوجود اب بھی مسلمان مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک ایک ہی
برادری میں ڈھلے ہوئے ہیں۔
اقبال اس نتیجے پر پہنچے تھےکہ نسلی ، جغرافیائی ، لسانی حوالے سے اقوام کی
تقسیم لفظ ‘‘خلافت و جہاد’’ سے شدید خوف زدہ مغربی لوگوں کا چھوڑا ہو ا
شوشہ ہی نہیں ایک منظم پلاننگ بھی ہے،جس کا مقصد صرف اور صر ف مسلمانوں کو
تقسیم کرنا ہے،اگر بنظرِ غائر دیکھا جائے ،توسب سے پہلے پاکستان ،سب سے
پہلے مصر،سب سے پہلے اردن وغیرہ یہی چکر ہے،فرقہ واریت کا عفریت بھی یہیں
سےآیا،اہل حدیث سعودیہ کو ، شیعہ ایران کو،دیوبندی بریلوی ہندوستان کو،کچھ
لوگ خوارج کو،جماعتی اخوان کواور تجدد پسند مغرب کو فالو کر تے ہیں اور ان
کے لئے باہم لڑتے ہیں، جغرافیائی وطنیت سے قبل یہ فرقے آپس میں اتنے شدید
دشمن نہیں تھے،حالانکہ سورۂ حجرات میں اللہ پاک نے فرمایا کہ قبائل اور
شعوب میں تمہاری تقسیم صرف تعارف کے لئے ہے،لڑنے جھگڑ نے کے لئے نہیں ہے،
اس لئے علامہ مرحوم نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنے ‘‘نظریہ ٔ ملت ’’سے
ایک ہونے کا پیغام دیا اور وطنیت کی قمیص کو مذہب کا کفن قرار دیا، تاکہ
مغرب کی ان سازشوں کو ناکام بنا یا جا سکے اور مسلمان اقوام ِعالم مں اپنا
کھویا ہوا مقا م ایک بار پھر حاصل کر سکیں۔آیئے سب مل کے ان کے ساتھ ان کا
یہ شعر بھی گنگنا تے ہیں:
بازو تر اتوحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے، تو مصطفوی ہے
تو مصطفوی مصطفوی مصطفوی ہے
تو مصطفوی ہے |
|