بسم اﷲ الرحمن الرحیم
حضرت سید جلال الدین سرخ پوش رحمۃ اﷲ علیہ
(۵۹۵ھ؍۶۹۰-۱۱۹۹ھ؍۱۲۹۱)
وہ عوامل جس نے صوفی تحریک کو جنم دیا یہ وہ خطرناک عناصر تھے جس کے طوفان
بلاخیز سے بارہویں صدی عیسوی کی پوری مسلم سوسائٹی دوچارتھی۔دوسری طرف مسلم
سیاسی ڈھانچہ زیزہ ریزہ ہوچکا تھا ان کے اندر سے اخلاق و بھائی چارہ کا
اجتماعی ڈھانچہ فنا کے دہانے پر تھا اور امت مسلمہ کے بیچ سے مضبو ط قیادت
رخصت ہوچکی تھی جو ان کی شیرازہ بندی کرے۔ لیکن اس تاریک دور کے حسین
مستقبل کی بازیافت کچھ اس طرح ممکن ہوسکی کہ اس چیلنج کو مسلم سوسائٹی کے
ایک طبقے نے اپنے ذاتی وسائل اور موروثہ قوت و توانائی ،اخلاق و کردار اور
دور اندیشی اور حکمت عملی کے ذریعہ بڑی کامیابی سے سامنا کیا۔بلفظ دیگر اس
سنگین چیلنج کا جواب ہی صوفی تحریک تھی۔جس نے نہ صرف مسلمانوں کو ایک نئی
طرز زندگی سے متعارف کرایا بلکہ ایک ایسے نامعلو م افق سے بھی شناسا کرایا
جہاں بصیرت افروزی اور باریک بینی اور وسعت فکرو نظر کا ہی گذرممکن تھا۔جو
بعد میں صوفی تحریک سے پہچانی گئی۔جس نے ایسا شاندار اور نیر و تاباں کردار
دنیا کے سامنے پیش کیا جس کی انسانی تاریخ میں نظیر ہے نہ اس پر پہلے کسی
نے سبقت کی۔
سیکڑوں وفاشعارکارکنان اور دنیاوی متوالے یکایک گھر بار چھوڑکرنامعلوم
علاقوں کی طرف نکل پڑے اور ایسے عجیب وغریب اور خوفناک وادیوں اور زمینوں
کو طئے کیا جہاں ہرطرف بے سروسامانی کا عالم تھا،تنگ دستی چولی دامن کے
ساتھ تھی ،رسدوامداد کی ساری امیدیں دم توڑچکی تھیں اور سامنے دوریاں کھڑی
تھیں ایسے ناگفتہ حالات میں بھی وہ انجام سے بے پرواہ بلاکسی خوف و خطر کے
آگے برھتے رہے ،فاصلے مٹاتے اور رکاوٹیں دورکرتے ہوئے زمینوں کو فتح کرتے
رہے اور آخر کار کامیاب و کامران ہوئے۔سوال یہ ہے کہ آخر ان کی کامیابی کا
راز کیا ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ جہاں ان کے پاس مضبوظ کردار تھا وہیں سختیوں
پر صبر کرنے اور مصیبتوں کو سہنے کی ہمت بھی تھی اور وہ اپنے مقصد کے تئیں
اتنے خوددار تھے کہ وہ کسی بھی طرح کی آزمائشوں کے لیے ہمہ تن تیارتھے۔
صوفی ازم بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی میں منظم ہوچکی تھی اورایک مستقل
صوفی مدرسہ تیار ہوچکاتھا جس کے دوعظیم بزرگ شیخ عبد القادر جیلانی اور
حضرت ابو حفص عمر سہروردی علیہ الرحمہ ہیں ۔اور اسی سہروردی سلسلے کے ایک
مضبوط کڑی حضرت سید مخدوم جلال الدین احمد بخاری سرخ پوش علیہ الرحمہ ہیں
جن سے جلالی سلسلے کی بنیاد پڑی اور سہروردیہ سلسلے کی ایک نئی شاخ معرض
وجود میں آئی۔
نام و نسب:
سید شریف : جلال الدین حسین بن علی بن جعفربن محمدبن محمودبن احمدبن عبد اﷲ
بن علی بن جعفر بن علی بن محمد بن الامام علی رضا
(نزہۃ الخواطر وبہجۃ المسامع والنواظر ص:۹۴،ج اول)
آپ کے حسب ونسب اور تاریخ وکارنامے بالتفصیل ان کتابوں میں دیکھی جاسکتی
ہے:
مظہرجلالی،اخبارالاخیار،روضۃ الاحباب،معراج الولایت،مناقب
قطبی،سیرالاقطار،سیرالعارفین اور مناقب الاصفیاء وغیرہ۔(یہ کتابیں بشکل
مسودہ آج تک بخاری سیدین کی ملکیت میں ہیں)
حضرت سید جلال الدین المعروف سرخ پوش بخاری،قطب الاقطاب،مخدوم جہانیان جہاں
گشت سلسلۂ سہروردیہ کے ایک بہت ہی معروف بزرگ او رمبلغ اسلام ہیں۔انھیں سرخ
پوش اس لیے کہاجاتاہے کہ وہ ہمیشہ سرخ چوغہ اوڑھے رہتے تھے۔اصل نام جلال
الدین ہے اورجلال اعظم ،میرسرخ پوش بخاری وغیرہ یہ سب آپ کے القاب ہیں۔آپ
کی پیدائش ۵؍ذی الحجہ ۵۹۵ھ میں بخارا(ازبکستان )میں ہوئی۔
آپ سید علی المعید کے بیٹے اور سید جعفرحسین کے پوتے ہیں۔ابتدائی تعلیم
والدکی سرپرستی میں گھر پر ہی ہوئی اور سات سال کی چھوٹی عمر میں آپ علم سے
فارغ بھی ہوگئے ۔بچپنے میں ہی آپ سے کرامتوں کا ظہور شروع ہوگیا تھا اور
یہی وجہ تھی کہ عنفوان شباب ہی میں ۱۵۰۰ سے زائد پڑھا لکھا طبقہ آپ کو اپنا
پیشوااورروحانی رہنما تسلیم کرچکے تھے۔آپ نے پوری زندگی سیروسیاحت اور
تبلیغ و ارشادمیں گذاری اوراس دوران متعددقبائل مثلا
سومرو،ساما،چدھار،سیال،داہر،مزاری،اور وارین وغیر آپ کے ہاتھوں مشرف بہ
اسلام ہوے۔
بخارامیں آپ نے حضرت سید قاسم رحمۃ اﷲ علیہ کی دختر نیک اختر سیدہ فاطمہ سے
شادی کی جن سے دواولادیں سید علی اورسید جعففر ہیں۔پہلی بیوی کی وفات پر آپ
اپنے دونوں صاحبزادوں کے ہمراہ بخارا سے بھکار،پنجاب ۶۳۶ھ میں چلے آئے
۔تاریخ کی مستند کتاب مخدوم جہانیان جہان گشت از محمد ایوب خان قادری کے
مطابق یہ دونوں صاحبزادے کچھ دنوں بعد واپس بخارا لوٹ گئے ۔
ولادت:
آپ کی پیدائش ۵؍ذی الحجہ ۵۹۵ھ میں بخارا(ازبکستان )میں ہوئی۔
فضل وکمال:
آپ ایک بڑے عالم ،فقیہ،زاہد،صالح اور صاحب کرامت بزرگ تھے ،آپ سے ایک دنیا
نے اکتساب فیض کیا اور آپ کا یہ فیض آپ کی نسل سے تاقیامت جاری وساری ہے،آپ
وقت کے سب سے بڑے داعی اور سفیر اسلام تھے ۔آپ کے ہاتھوں پر متعد قبائل نے
اسلام قبول کیا۔آپ پوری زندگی دعوتی وتبلیغی دورے اور وعظ و ارشاد اور خدمت
خلق میں گذاردیے۔
ابتدائی تعلیم آپ نے گھر ہی اپنے والد بزرگوارکی سرپرستی میں حاصل کی اور
سات سال کی عمر میں ہی فارغ التحصیل ہوگئے۔آپ پیدائشی ولی تھے بچپنے ہی سے
آپ کے ہاتھو ں کرامتوں کا ظہور شروع ہوگیا تھا۔
(تذکرۃ السادۃ البخاریۃ بقلم علی اصغر گجراتی)
حالت زندگی کے چندگوشے:
آپ نے منگول کے چنگیزخان سے بھی ملاقات کی اور انھیں اسلام کی دعوت دی لیکن
بدلے میں اس نے آپ کو زندہ چلادینے کا حکم صادرکیا۔مگر رحمت خداوندی کچھ
یوں شامل حال تھی کہ بڑھکتی آگ یکایک گلابوں کی شکل اختیارکرگئی پھرکیاتھا
چنگیزخان مسلمانوں اور اسلام کے تئیں بالکل موم ہوگیاحتی کہ سید جلال الدین
بخاری کو اپنی بیٹی نکاح میں دینے کی پیش کش کی ۔ابتداء ا آپ نے یہ پیش کش
ٹھکرادی لیکن کوئی ہاتف غیب سے کہہ رہاتھا کہ ’’اس کی نسل بہت آگے بڑھے گی
اور خوب پھلے پھولے گی اور اس میں قطب بھی پیداہوں گے‘‘جب آپ نے یہ ندا سنی
تو فورا شادی پر رضامند ہوگئے۔اور آگے چل کر کچھ ایسا ہی ہوا کہ اس نسل میں
بہت سے اہل اﷲ پیداہوے اور بہت سے سیدی گھرانے آج بھی پنجاب،سندھ،اترپردیش
ہند،کچھ،اور حیدرآباد میں پھیلے ہوئے ہیں جن کی اصل اوچ شریف ہے۔
آپ نے دوسری شادی سید بدرالدین بن صدرالدین الحسینی کی صاحبزادی سیدہ زہرہ
سے کی جن سے سید محمد غوث ہیں۔سیدہ زہرہ کی وفات پر آپ نے سید بدرالدین کی
دوسری بیٹی سے عقدفرمائی جن سے سید احمد کبیر پیداہوئے جو مخدوم جہانیان کے
والد بزرگ وار ہیں۔
۶۴۲ھ میں جب شمس الدین التمش کا بیٹا نصیرالدین محمد سلطنت دہلی کے حاکم
بنے اسی دورمیں سید جلال الدین بخاری اوچ شریف وارد ہوئے تھے ۔اس وقت اس
کانام وہاں کے ہندوحاکم کی نسبت سے دیوگھر تھا۔وہاں پہنچتے ہی آپ تبلیغ
وارشاد میں لگ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگ قطاردرقطار آپ سے فیض لینے آنے
لگے اور کثیر تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کردیا۔جس سے راجا
دیو سنگھ کافی مصیبت میں پڑگیا اور بدلے میں اس نے آپ کو پریشان کرنے میں
کوئی کسر نہ اٹھارکھی۔پھر کیا ہوا کہ آپ نے اپنی کرامت سے اسے اوچ سے اڑاکر
ماروار پہنچادیا۔اس سلسلے میں اور بھی کئی کرامتوں کا ذکر ملتاہے جو آپ کی
طرف منسوب ہیں۔
آپ کی عظمت وبزرگی کا یہ عالم تھا کہ حاکمین سلطنت آپ کے سامنے کھڑے ہوجاتے
اور آپ کی تعظیم بجالاتے اور آپ کی بارگاہ نیاز میں ازخود پہنچ کر
سرجھکاتے۔مثال کے طور پر۶۴۲ھ میں شمس الدین التمش کے بڑے بیٹے نصیر الدین
محمد ازخود حاضر باگاہ ہوکر آپ سے فیضیاب ہوئے۔
تبلیغ وتربیت خلفاء:
آپ نے بالخصوص سندھ ،جنوبی پنجاب میں اسلام کی اشاعت کی اور سمورا اور ساما
وغیرہ کئی قبیلے آپ کے ہاتھوں داخل اسلام ہوئے ۔آپ نے اوچ میں ایک دینی
مدرسہ بھی قائم کیا ۔آپ بغرض تبلیغ ایک بار بخاری چلے گئے تھے لیکن دوبارہ
۱۲۴۴ء میں واپس آکر مستقل یہیں قیام پذیر ہوگئے۔
آپ سلسلۂ سہروردیہ کے جلالی فرع کے بانی ہیں جو آپ ہی کے نام سے منسوب ہے
آپ کے اس سلسلے کے کچھ خلفاء گجرات چلے گئے اور بہت مشہور ہوئے۔احمد کبیر
جلال المعروف مخدوم جہانیان بھی اسی سلسلے کے خلیفہ ہیں آپ نے ۳۶؍بار مکہ
مکرمہ کا سفر کیا اور وہاں مجاہدہ وعبادت وریاضت کی۔اسی طرح ابو محمد عبد
اﷲ المعروف بہاء الدین قطب عالم المتوفی۱۴۵۳ء اور سید محمد شاہ عالم
المتوفی ۱۴۷۵ء بھی اسی سلسلے کے چشم و چراغ ہیں۔
تیرہویں صدی عیسوی کے عظیم صوفی تحریک کے پیشوا اور رہنما جو جنوبی ایشیاء
کی نمائندگی کرتے تھے اورچاریار(چارساتھی) کے لقب سے مشہور ہوئے یہ حضرت
بابا فرید الدین گنج شکر پاکستان(۱۱۷۴ء۱۲۶۶-ء) ،اور جلال الدین بخاری اوچ
شریف (۱۱۹۲ء۱۲۹۴-ء) ،اور بہاء الدین زکریا ملتان(۱۱۷۰ء۱۲۶۷-ء)،اور لال
شہباز قلندر سہوان(۱۱۷۷ء۱۲۷۴-ء) ہیں ۔
تاریخ میں آتاہے کہ سترہ بڑے قبائل بابا فرید الدین گنج شکر کے ہاتھوں داخل
اسلام ہویے۔بعض قبائل یہ ہیں : کھرلس،دھودھیان،ٹوبیان اور واٹو(واٹو یہ ایک
راجپوت قبیلہ تھا)۔جلال الدین بخاری نے اولا سومرو اور ساما سند ھ کے دوبڑے
قبائل کو داخل اسلام کیااورپھر جلد ہی سیال ،چدھار،داہراور وارن جنوب پنجاب
کے قبیلے اور سند ھ کے قبیلے مزاریس اور دوسرے کئی بلوچی قبائل آپ کی
کوششوں سے داخل اسلام ہوئے۔
مروی ہے کہ آپ بخارمیں مخدوم شاہ(مدفون بنگال،ہندوستان)سے بھی ملے جہاں آپ
نے انھیں بھورے فاختے کا ایک جوڑا ہدیہ کیا جو اس وقت نیک تمناؤں کے اظہار
کی ایک ریت تھی۔بخاری سے مخدوم شاہ کا گروہ بنگال ہند کی طرف بڑھا اور
شہزادپور میں متوطن ہوا جو ایک قصبہ تھا اور ایک ہندو حاکم کے زیرنگیں ایک
ضلعے کے تحت تھاجس کی سلطنت یوپی سے بہار تک پھیلی ہوئی تھی۔ظالم حاکم نے
مخدوم جہاں اور ان کے ساتھیوں کو اپنے قلم رو سے باہر نکالنے کا حکم
صادرکیا اس لیے نتیجۃ دونوں فریق کے بیچ ایک گھماسان جنگ چھڑگئی جس میں
مخدوم شاہ اور ان کے سارے مریدین سوائے خواجہ نورالدین نورانی کے جام شہادت
نوش کرگئے۔
سیال(کشمیر)کے مئی ہیر قبیلے کی ہیررانجھاجو چوچک سیال کشمیر کی ایک مشہور
خاتون تھی اور سید احمد کبیر حفید حضرت جلال الدین بخاری کی شاگردہ ومریدہ
تھیں ان کا خاندان ہندستان میں ترکی دور حکومت اور تغلق قباچہ نیز دہلی کی
مملوک دور حکومت میں ایک مشہور مسلم گھرانہ رہا ہے جن کی نسلیں نقوی بخاری
سے جانی جاتی ہیں آج کل اوچ کی اس شاخ کو جو آج بھی اوچ میں مقیم ہیں اوچ
بخاری سے معروف ہیں۔یہاں ان کے خلفاء اور تلامذہ کے حسین مقبرے بھی ہیں جن
میں حضرت جہانیان جہان گشت ،حضرت راجن قتال ،بی بی جاوندی اور چنان پیر
وغیرہ بہت سے ان خلفاء اور مریدین شامل ہیں جو ٹھٹا کے گردونوح میں مکلی
اور بھنبھور میں مدفون ہیں۔ان کی اس نسل میں بہت سے مذہبی قائدین اور صوفی
بزرگ ہیں انھیں میں حضرت شاہ محمد غوث بھی شامل ہیں۔جو اوچ سے ہجرت کرکے
پنجاب میں متوطن ہوئے۔نیز حضرت شاہ جمال جو اوچھرا لاہور میں ہیں ۔اور ان
کے علاوہ بھی بہت سے خلفاء وہاں ہیں۔
آپ کے خاندان کا ایک حصہ واپس ترکستان بھی چلا گیا تھا جو بخارکے ایک حاکم
قبیلہ تاتاری منگولیوں کے ساتھ ازدواجی رشتے سے منسلک ہوئے۔روایتوں میں ہے
کہ انھوں نے چنگیز خان کی بیٹی سے بھی شادی کی تھی۔ساتھ ہی ایک شاخ ان کے
خاندان کی آگے چل کر ترکی منتقل ہوگئی تھی جو آج کل ’’برسا‘‘کے نام سے ترکی
میں مشہور ہیں۔
کشمیر میں رشی مسلم روایت میں آپ کا رول:
آپ کی مریدہ لال دید(لالیشوری)جو حضرت نورانی کے پہلی استاد روحانی بھی
تھیں ، ان کی روحانی ترقی اور سلوک میں نمایاں کرداربھی اداکیا اور ان کی
بنیادی روحانی تربیت کی۔لال دید کی زندگی نامعلوم اور قصے کہانیوں کی
نذرہوگئی تھی۔ان کی حالت زندگی پر پہلی تصنیف فارسی زبان میں ان کی وفات کے
بہت سالوں بعد آئی جس کے مطابق وہ سامورا کے ایک گاؤں میں پیداہوئی تھیں
جوسری نگر کشمیر کے قریب ہے۔یہ تیرہویں صدی عیسوی کا ایک کشمیری پنڈت کے
خاندان سے تھیں ۔خاندانی ریت کے مطابق ان کی شادی چھوٹی عمر میں ہی ایک
برہمن سادھوپجاری سے کردی گئی جو پدمان پورہ گاؤں سے تھا(حالیہ دنوں یہ
گاؤں پنبورہ کے نام سے موسوم ہے)ان کی ساس کے بارے میں ہے کہ وہ ان کے اور
ان کے شوہر پر بہت ظلم ڈھاتی تھی اور ان کی روحانی کاوشوں اور لوگوں میں ان
کی بڑھتی مقبولیت سے بہت حسد کرتی تھی اور اسی وجہ سے انھیں گھرسے بے گھر
کردیا گیاتبھی وہ جنگل میں نکل پڑی اور برہنہ گشت صحراء ہوگئی اور حصول
معرفت حقیقی میں گم ہوگئی ۔آخر کار ان کی ملاقات جلال الدین بخاری سے ہوئی
اور انھیں کے ہاتھو ں وہ داخل اسلام ہوئیں اور سلوک و معرفت کی منزلیں طئے
کیں اور پھر ان ہی کے ہمراہ پورے کشمیر کا دورۂ تبلیغ کیا۔انھیں لالہ عریفہ
اور لالہ مجذوبہ اور رابعۂ ثانی جیسے مختلف القاب سے بھی یاد کیا
جاتاہے۔مقامی روایت کے مطابق ان کی وفات ۱۴۰۰ء میں ہوئی۔چوں کہ ان کے ہندو
پیرؤں نے انھیں آگ میں جلا دیا تھا اس لیے ان کے مسلم مریدین نے مذہب اسلام
کے مطابق ان کی باقیات کو دفن کیا۔بیج بہرہ میں ٹھیک جامع مسجد کے باہر آج
بھی ان کا مقبرہ موجود ہے۔حضرت نورالدین نورانی اسی خاتون کی تربیت ہافتہ
تھے جو ہندو مسل ہرایک کشمیری کے مسلم صوفی بزرگ اور مربی مانے جاتے
ہیں۔اور اسی لیے انھیں علمبردارکشمیر اور شیخ المسلمیں جیسے خطابات سے یاد
کیا جاتا ہے۔(Muslim Rishis of Kashmir By Yoginder Sikand)
وفات:
آپ ۱۹؍جماد الاولی ۶۹۰ھ مطابق ۲۰؍مئی ۱۲۹۴ء کو اوچ شریف ،پنجاب میں غیاث
الدین بلبن کے دور حکومت میں اس دارفانی سے کوچ کرگئے اور سوناک بیلا میں
جو اوچ سے تین میل کے فاصلے پر ہے مدفون ہوئے۔لیکن گاگرہ ندی جو آپ کے
مقبرے سے بالکل متصل بہتی تھی اس لیے آپ کے اقارب نے آپ کے جسم مبارک کو
اوچ شریف منتقل کردیااور حضرت صدرالدین راجن قتال کے مقبرے کے پاس دفن
کردیاپھر ۱۰۲۷ھ میں محمد نصیرالدین کے بیٹے شیخ حامد صاحب سجادہ نے باقی
ماندہ کو نکال کر دوبارہ وہاں دفن کیا جہاں آج آپ کا مزارمبارک
موجودہے۔۱۲۶۱ھ میں نواب محمد بہاول خان ثالث نے اس میں کچھ ترمیم اور ایک
تالاب اور کنواں بھی بنوایااور اس لیے اس احاطے کو خان سراء بھی
کہاجاتاہے۔۱۳۰۰ھ میں نواب صادق محمد خان رابع نے اس کی از سرنو مرمت کی اور
کچھ توسیع بھی کی ۔ملک اور بیرون ملک کے بہت سے ہندو اور مسلم آج بھی اس
خانقاہ سے کافی گہری عقیدت رکھتے ہیں اور اپنی منتیں وہاں سے پوری کرتے
ہیں۔
مصادر ومراجع:
جامع السلاسل از مجدالدین علی بدخشانی
اخبار الاخیار از عبد الحق الدہلوی
بحرالانساب مخطوط
ہدایۃ السعداء مخطوط
الانتباہ فی سلاسل اولیاء اﷲ از والد دہلوی
ایضاح لطافۃ المقال از رشیدالدین دہلوی
الفرع النامی از صدیق حسن خان
Encyclopeadia of Islamic mystics and mysticism.global
Jalaluddin Surkh-Posh Bukhari Wikipeadia
Jump up with the title: Hazrat Syed Jalaluddin Surkh-Posh Bukhari
The Muslim Rishis of Kashmir: Crusaders for love and Justice ,a web page
by Youginder Sikand
ازقلم
محمد نورالدین ازہری
جامعہ ازہر قاہرہ مصر
۳۱؍مارچ ۲۰۱۵ ء |