بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
بیسویں صدی عیسو ی کے نصف آخر میں شمالی ہند کے افق سے نمودار ہو تا علم و
دانش اور فکرو خیا ل کا و ہ عظیم ستا رہ جس کی انفرادی شخصیت سے بیک وقت بر
صغیر ہند و پاک کے علاوہ یو رپ و ایشیا کو میحط ومسخر کر تی دعو تی ،تحریکی
،تنظیمی اور قلمی خدمات ہر چہار جانب سے منسلک ہیں۔یعنی چمنستان حافط ملت
کی وہ شگفتہ کلی جنھونے صرف سنگلاخ اوروادی غیر ذی ذرع ہی کو ہر محاظ پہ
اپنی جولان گاہ ِدعوت بنا ئی۔ جس سمت کا رخ کیا نہ جا نے کتنے مساجد ،مدارس،تنظیمیں
اور دعو تی اداروں کے داغ بیل ڈال دیے۔ جو ایک طرف بے مثال مدرس ،مصنف
اورشاعر ہیں تو دوسری طرف ایک کا میاب مناظر،منتظم اورعالی دماغ مبلغ بھی ۔اور
اسی زاویے کو مثلث کر تی تیسری طرف سیاست و سیا دت ،قیا دت و صحا فت اور
خطا بت کے عدیم النظیر شہسوار بھی۔ دیکھیں تو بظاہر گندمی رنگ ،میانہ قدکا
اسلا می لباس میں ملبو س ایک شریف پیکر دکھتا ہے، لیکن تجزیہ کریں تو تنہا
کسی انجمن ،کسی تحر یک اور کسی انقلاب سے کم نہیں ۔ہاں ہاں اپنی خاکستر کی
یہ وہی چنگاری تھی جسے ہم سب قائد اہلسنت ،رئیس القلم، علامہ ارشدالقادری
مصباحی ،قطب مدینہ کے نا م سے جانتے اور پہچا نتے ہیں ۔آپ نے ایک علمی
گھرانے میں آنکھ کھو لی لیکن یہ ایک عجیب ماجرہ ہے کہ آپ کو گھریلو کام کاج
میں لگا دیا گیا۔لیکن علمی تشنگی نے بیچین کیا اور دو روپئے کسی طرح
اکٹھاکرکے گھر سے دبے پاؤں نکل پڑے ۔ابھی عمر ہی کیا ہوئی تھی، نگا ہوں نے
پہلی دفعہ گھر کے باہر کی دنیا دیکھی تھی ۔نا دانی میں یوپی سے دلی اور دلی
سے بہار کا چکر کاٹتے رہے اور بالآخر’’ الٰہ آبا اسٹیشن ‘‘پر اتر پڑے ۔بڑے
بھا ئی کا اسی شہر کے کسی مدرسے میں ہو نے کا ظن بار بار انھیں تلاش و
جستجو کی دعوت دے رہاتھا، جسے سو جتن کے بعد آپ نے یقین میں بدل ہی دیا اور
بھائی کے ساتھ آپ کاداخلہ بھی اسی مدرسے میں ہوگیا جہاں وہ پڑھ رہے تھے ۔
لیکن آپ کی ذہین طبیعت نے آپ کے لیے اور بھی راہ کھول دیے ۔چھ ماہ بعد ہی
آپ کا داخلہ بر صغیر کی عظیم علمی دانش گاہ جا معہ اشرفیہ (مبارک پور)میں
ہو گیا اور حافظ ملت کی تر بیتی چر نوں نے ایک خاک سے ہمدوش ثریا تک کا
طویل سفر طے کرا دیا ۔
آپ کے تبلیغی مشن کو دیکھا جائے توآپ نے ہر پل اعصاب شکن زمینوں کا ہی
انتخاب کیا ۔ تحریر وقلم ،دعوت و تبلیغ کے جملہ رموزو اسرار سے واقف ہوکر
جامعہ اشرفیہ سے فراغت کے بعد آپ مبارک پور سے ناگپور پہونچے،علم کے جوہر
لٹائے اور صالح افراد کی ایک جماعت تیار ہوگئی ۔اسی اثنے میں سر کارحافظ
ملت نے عروس البلاد’’ جمشید پور‘‘ میں ملت کی زبوں حالی کا ذکر کیا اور
وہاں جاکر دینی تبلیغ شروع کرنے کی بات کی ۔پھر کیاتھا،لبیک کہتے ہوئے ایک
اجنبی خطے کی طرف چل پڑے اور جمشیدپور پہنچ گئے ۔ہفتوں چکر کاٹنے کے بعد
جگہ تلاش کی، ایک برآمدہ ہاتھ لگا ،اپنی کملی سے جاروب کشی کی اوردرس
وتدریس کا سلسلہ چل پڑا۔کبھی دیواروں اور درختوں کی چھاؤں میں تو کبھی کھلے
آسمان کے نیچے سیکڑوں طالبانِ علوم نبویہ کی تشنگی بجھاتے رہے۔اﷲ کی رحمت
شامل کرم تھی، رفتہ رفتہ حالات ساز گار ہوئے، فضا تیار ہوئی اورآپ نے ’’ٹا
ٹا کمپنی ‘‘سے رابطہ کیا ۔ پھر کیاتھا ٹاٹاکمپنی نے ۱۹۵۲ء میں ایک زمین
مدرسے کے لیے الاٹ (وقف)کردیا، جہاں علم کا ایک مضبوط قلع بنام ’’فیض
العلوم ‘‘وجود پذیر ہو گیا۔سیما بی طبیعت نے پڑوس کی خبرلی توصوبہ بہارکی
راجدھانی پٹنہ کی خبر سن کر آنکھیں اشکبار ہوگئیں جہاں کفرو الحاد کے
روزافزوں بڑھتے اثرات نے آپ کے دل کو مضطرب کر دیا۔ پھر کیا تھا بڑے پیمانے
پر’’ بہار صوبائی سنی کانفرنس ‘‘بلائی اور ۱۲مئی ۱۹۹۶ کو’’ادارۂ شرعیہ ‘‘کی
داغ بیل ڈال دی ،جس سے بڑی حد تک مطلوبہ نتائج نکلے اور اسلام ومسلمین پر
گرتے خطرات کے بادل کاکافی حد تک مداواکیاگیا ۔ تاحال وہاں سے اسلام وسنیت
کا کام پڑے پیمانے پرجاری وساری ہے۔
حکومتی سطح پر مسلم مسائل کے تئیں دہلی کا سفر آپ کے چولی دامن کا ساتھ
رہاہے۔ لیکن جمشید پور سے دہلی کے ٹھیک اسی سفر سے ہم گزرے ،میر گزرے ،فقیر
گزرے، سب گزرے،لیکن جب نباض قوم گزراتو بیماریوں کودورسے ہی پہچان گیا ۔یہ
۱۹۸۴ء کا سفر تھا ’’سہار نپور اسٹیشن ‘‘نگاہوں کے سامنے تھا جہاں سے سواد ِاعظم
کے پانچ سو سے زائد اہل اﷲ کی پاک رو حیں آپ کے استقبال کو تیار تھیں ،قطب
ِعالم شیخ عبد القدوس گنگوہی کی دعاؤں نے آپ کاساتھ دیا اور آپ سہارنپور
وارد ہوئے ۔ ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد تین بگہہ قطعہ اراضی میں’’ جامعہ
غوثیہ رضویہ‘‘ نامی ایک سنہرا قلعہ وہاں معرض وجود میں آگیا ۔
دہلی میں پوری دنیا کی خبر آنِ واحد میں پہونچ جاتی ہے ،علامہ کو کانوں کان’’
گوہاٹی‘‘ (آسام)کی بھی خریت معلوم ہوئی اور پھر وہی ہوا جو بار ہا
ہوتاآرہاتھا،آپ فورا آسام روانہ ہوے اوربالآخر’’ سیجون‘‘ نام کی ایک پہاڑی
میں ’’دار العلوم مخدومیہ‘‘ کی تاسیس کرکے طو فانوں کی زد میں ایک چراغ
روشن کرہی دیا اور اس طرح آسام میں بھی ایک تبلیغی مشن کا آغاز ہوگیا۔ لیکن
اب آپ ہندو پاک کے سنگلاخ وادیوں میں چلتے چلتے ،مشقتوں کی برداشت کے عادی
ہو چکے تھے۔ اب بحر عرب کے گرداب ِبلاخیز اور تلاطم خیز موجوں سے مقابلہ کر
نا تھا ، حتی کہ صحرائے افریقہ اور وادی اسپین کے کلیساؤں سے بھی مقابلہ
کیا اور بیسویں صدی عیسوی کے ربع آخر میں لندن میں ایک عا لمی
تحریکــ’’ورلڈ اسلامک مشن ‘‘کا آغاز فر مایا اور تثلیث کے پجا ریوں کو تو
حید ی پرچم کے سا یہ تلے بلا نے کی کا میاب کو شش کر دکھا ئی ۔پھر کیا تھا
دن میں سفررا توں میں دعوت و تبلیغ کاتسلسل سا بن گیا ۔۱۹۸۳ء میں کچھ احباب
کی دعوت پر ہا لینڈ پہو نچے بسا طِ تد ریس و تبلیغ بچھا ئی،زمین ہموار ہوئی
اور ’’جامعہ مدینۃ الاسلام‘‘ نا می ایک منا رہ ٔعلم ہالینڈ میں وجود پذیر
ہو گیا ۔دوبارہ ۱۹۸۸ء میں ایک بار پھروہاں پہو نچے ۔ اس بارمنصوبہ بڑا وسیع
تھا ،اسلام کے آفاقی پیغام کو وہاں کی مادری زبان کے ذریعہ دلوں میں اتارنا
تھا ،خدا ورسول کی عنا یتیں بڑھیں اور کیتھو لک عیسا ئیوں کا ایک وسیع کا
لج کا سو دا کر لیاگیا۔ لیکن ایک خطیر رقم کی ادئیگی نے آپ کو چا روں کر وٹ
رلا یا اور آخر کاراﷲ کے کرم سے اس میں بھی کامیابی مل گئی ۔مشقتوں بھرایہ
کام کچھ طرح پوراہواکہ آپ نے ایک جلسہ کیااور دعوتی ضرورت پرایک پرزورخطاب
کی اور پھر اجتماعی دعاکا اہتمام کیا ،جس میں آپ اس مقصد میں کامیابی کے
لیے اﷲ کی بارگاہ میں اتنا روئے اتنا روئے کہ دعامیں شامل ایک مر د خدا سے
نہ رہاگیاکہ آخر ایک اجنبی انسان دیارِغیر میں دوسروں کے لیے اس طرح کیوں
گڑگڑاکر رورہا ہے ؟ اس نے ماجرادریافت کیا، پتہ چلا کہ کالج کا جو
سوداکیاگیا ہے اس کے نصف ہی کااب تک انتظام وانصرام ہوسکا ہے اور اسی لیے
وہ رورہے ہیں۔پھر ہوا یہ کہ اس مردِ خدانے بقیہ نصف خر چ بر داشت کرلیا
اوراس طرح سے یہ کا م بھی پورا ہو ا۔ ۱۹۸۸ء میں آپ نے سورینام (جنوبی
امریکہ)میں قدم رکھا مشکلات نے یہاں بھی راہ میں روڑے اٹکائے لیکن طوفانوں
سے سینہ زوری کی مشق نے اسے ہلکے ہاتھوں لیا اور سرینام کی راجدھانی
’’پاراماری بو‘‘میں’’ دار العلوم علیمیہ‘‘ اور دوسری طرف ایک مؤثر سیاسی
تنظیم ’’سورینام مسلم پولیٹیکل کونسل ‘‘لگے ہاتھوں قائم کیے۔
عالم گیر سطح پر دعوت وتبلیغ کے مسدود راہوں کو واکر نے کی غرض سے ۱۹۸۲ ء
میں ’’دعوت اسلامی ‘‘کا قیام ’’دارالعلوم کراچی ‘‘کے اندر عمل میں آیا جوآج
علامہ الیاس عطارقادری کی قیادت میں ایک انٹرنیشیل غیرسیاسی تحریک بن چکی
ہے اور تقریبا ساٹھ سے زائد ممالک میں دعوت وتبلیغ کا کام انجام دے رہی ہے
اور آج یقینا اپنے ہدف میں رشک لیلیٰ بنی ہوئی ہے ۔اسی طرح ’’دارِ ارقم‘‘
مکہ مکر مہ کی سر زمین پر، مبلغ اسلام علامہ شاہ احمد نورانی، علامہ ارشد
القادری ، علامہ عبد الستار خان نیاز ی اور علامہ شا ہ فرید لحق کے اشتراک
سے ’’الدعوۃ الاسلامیہ العالمیہ ‘‘نامی تنظیم کی بنیاد رکھی گئی جس کا
عالمی مرکز ۱۹۳۷ء میں’’بریڈفورڈ‘‘ (برطانیہ)میں قائم کیا گیا ۔
۱۹۹۲ ء میں قلب ہند دہلی میں ’’جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء‘‘ کا قیام آپ
کی زندگی کا ایک عظیم باب ہے جس کیلئے آپ نے کیا کچھ نہ کیا۔ یقینا یہ ایک
مدرسہ ہی نہیں ،صحیح معنوں میں ایک تحریک ہے جس کے خوش آئند نتائج بھی بر
آمد ہوئے اور آج تک ہو رہے ہیں ۔یہ وہی ادارہ ہے جس کا ہندستانی مدارس میں
سب سے پہلے الحاق جامعہ ازہر ،قاہر ،مصر سے ہوا اور وہاں کے فارغین سب سے
پہلے جامعہ ازہر کے خوشہ چیں ہوئے ۔ آج تقریبا ہرمجال میں وہاں کے فارغین
اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک میں دعوت و تبلیغ میں
مصروف ہیں۔یہ اپنے انداز کا ایک منفرد ادارہ ہے جہاں مدارسِ اسلامیہ کے
فارغین کو لیاجاتاہے اور انھیں عالمی سطح پر عالمی زبانوں میں دعوت و تبلیغ
کے مناہج پڑھائے جاتے ہیں اور عملاانھیں ٹرینڈ کیے جاتے ہیں اور تخصص فی
الادب والدعوۃ کا دوسالہ کورس پورا کرایا جاتاہے جس میں جامعہ، طلبہ کی
پوری مفت کفالت کے ساتھ ساتھ انھیں ماہانہ وظیفے بھی دیتی ہے اور یہ سب عام
مسلمانوں کے تعاون سے پورے ہوتے ہیں۔یہ ادارہ اس وقت علامہ نے دہلی میں
قائم کیا جب پورے دہلی میں اہل سبت والجماعت اور صوفی مدارس اور وسطیت پسند
علماء کے لیے سامان رکھنے تک کی جگہ نہیں تھی۔
علامہ یسین اختر مصباحی (بانی وسرپرست جامعہ دارالقلم دہلی، جو ایک سینئر
اسلامی صحافی اور سیکڑوں کتابوں کے مصنف ہیں )انھوں نے اس سلسلے میں طلبۂ
جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء سے جامعہ کی ایک تقریب میں خصوصی طورپر
بتایاکہ:
۱۹۷۰ء تک دہلی کی صورت حال یہ تھی کہ صوفی علماء کے لیے وہاں قیام تو دور،
سامان رکھنے کی بھی کوئی جگہ نہ تھی، ہر طرف بدعقیدہ اور شدت پسند گروہوں
کا قبضہ تھا۔ لیکن علامہ ارشدالقادری جب ۱۹۷۵ء میں دہلی پہنچے اور تبلیغی
وارشاد کا آغاز کیا اور پھر جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء قائم کی،رضا مسجد
بنائی تب کہیں جاکر دہلی میں صوفی سنی مسلمانوں کی نشأۃ ثانیہ ہوسکی اور
پھر جگہ جگہ سنی مساجدومدارس قائم ہونا شروع ہوے ۔ اس طرح چھپے ہوئے سنی
مسلمان رفتہ رفتہ ظاہر ہونے لگے اور مقبوضہ مساجد کی بازیافت بھی ہوئی اور
صوفیت وسطیت کی تبلیغ کے لیے راہ پورے طور پر ہموار ہوئے۔آپ نے دہلی میں
مکاتب ،مدارس،مساجد اور تنظیم بھی قائم کیے اور دہلی کے تاریخی میدان ’’رام
لیلی‘‘ گراؤنڈ میں عالمی اجتماع بھی کیا جو تاریخ ِہند میں پہلی بار آپ کی
سرپرستی میں بالکل بھر گیا تھا۔ اور اہلسنت کا ٹھاٹھیں مارتا سمند گویا
دہلی میں جمع ہوچکا تھا۔ اور اس طرح صرف اور صرف آپ کی کوششوں سے مسلمانان
دہلی اپنے کھوئے ہوئے ورثے اور وقار کی بازیافت کرنے میں کامیاب ہوئے۔اﷲ ان
کی قبر پر اپنی رحمتوں کی گہر باری کرے! آمین یارب العالمین۔
یہ تو آپ کی زندگی کے صرف چند زرین گوشے تھے جسے ہم نے خراج تحسین کے طور
پر چیدہ چیدہ نذر قارئین کیا۔ ورنہ انکی زندگی کو نوک قلم کے ذریعہ کماحقہ
قر طاس ابیض پر لانا بہت اوپر کی چیز ہے ۔ہم اسکی سوچ بھی نہیں سکتے ۔کہ آپ
کے شب و روزکے جو ذرے جس جگہ اورجس طرح ہیں وہیں آفتاب ہیں۔
کیا لوگ تھے جو راہ وفا کرگذر گئے
جی چا ہتا ہے نقش قدم چومتا چلوں
ازقلم: ڈاکٹر منیٰ حندقہا
شعبہ اردو جامعہ ازہر ،قاہرہ،مصر
مترجم:محمد نورالدین
شعبہ عربی ادب جامعہ ازہر قاہر مصر |