عشقِ رسول ﷺ جنت سے بڑھ کر (18)

بوڑھا آسمان جو روزِ اول سے بے شمار غیر معمولی نظاروں کا چشم دید گواہ ہے اُس نے آج تک ایسا منظر نہ دیکھا تھا کہ نسلِ انسانی کے سب سے عظیم انسان ‘ محبوب خدا‘ وجہ تخلیق کائنات ‘رحمتِ دو عالم ‘مجسمِ رحمت ‘سرور کونین ‘تاجدار ِ انبیاء ‘فکرِ دوعالم ﷺ منٰی کے مقام پر مشرکین کو دعوت ِ حق دے رہے ہیں کفارِ مکہ پر یہ پیغام ِ حق گراں گزر رہا تھا۔ کچھ ظالموں نے پیغامِ حق سننے کی بجائے مذاق اڑانا شروع کر دیا اور کچھ جہنمیوں نے آپ ﷺ کے جسم اقدس پر پتھر برسانا شروع کر دیے ۔ چشمِ فلک حیرت سے یہ منظر دیکھ رہی تھی کہ لوگ رحمتِ مجسم ﷺ پر پتھر برسا رہے ہیں اور شہنشاہِ دو عالم ﷺ ظالموں کو دعائیں دے رہے ہیں ‘ظالموں کی عقلوں پر پردے پڑ چکے تھے وہ پتھر برسا رہے تھے ‘تاجدار ِ دو عالم ﷺ زخموں سے چور ہو جاتے ہیں ‘جسمِ اطہر مبارک زخمی ہو جاتا ہے کہ اچانک ایک معصوم پاک باز بچی شدید پریشانی کے عالم میں دیوانہ وار عالم اضطراب میں بھاگی ہوئی آتی ہیں ا،س دوران اُس پاکیزہ مصوم مقدس بچی کا دوپٹہ سر سے ڈھلک کر کندھوں پر آجاتا ہے بچی کے ایک ہاتھ میں پانی اور دوسرے ہاتھ میں رومال تھا یہ پاکیزہ بچی دیوانہ وار نبی کریم ﷺ سے چمٹ جاتی ہے اپنے ننھے منے پیارے پیارے ہاتھوں سے رحمت ِ دو جہاں ﷺکو پانی پلاتی ہے اور رومال سے تاجدار انبیاء ﷺ کے جسم اطہر مبارک کے زخموں سے خون صاف کرتی ہے اِس دوران معصوم بچی کی آنکھوں سے شدت ِ کرب اور غم سے آنسوؤں کی برسات جاری ہوتی ہے ‘کسی نے پوچھا یہ بچی کون ہے تو جواب آیا زینب بنت ِ محمد ﷺ نورِ مجسم رحمتِ عالم عالمیاں ﷺ نے جب اپنی معصوم بیٹی کو پریشان و بے قرار اور مضطرب دیکھا تو سینے مبارک سے چمٹا لیا اور فرمایا زینب میری بچی اپنے سر کو ڈھانپ لے ‘سیدہ حضرت زینب ؓ کو شدید عالم پریشانی میں احساس تک نہ ہوا تھا کہ کب دوپٹہ مبارک سر اقدس سے ڈھلک کر دوش پر آگرا تھا فوراً دوپٹہ سے سر مبارک کو ڈھانپ لیا تو رحمتِ مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا میری پیاری بیٹی تو غم نہ کر اﷲ تعالی کے راستے میں بابا جان کی ہلاکت کا خوف نہ کر وہ میرا حامی و ناصر ہے ۔سیدہ حضرت زینب ؓ اپنی بہنوں میں سب سے بڑی تھیں وہ جب بھی سنتی تھیں کفارِ مکہ نے محبوب ِ خدا فخرِ دو عالم ﷺ دونوں جہانوں کے مالک اِن کے والد اقدس کو اذیت یا کوفت پہنچائی ہے تو معصوم بیٹی کانازک و مطہر دل باپ کی محبت میں صدمہ سے پارہ پارہ ہو جاتا ۔اعلان ِ نبوت کے بعد جب ساقی کوثر ﷺ نے کفارِ مکہ کو پیغام ِ حق دیا تو صدیوں سے بتوں کے پجاریوں اور ظلم بربریت کے اندھیروں کے مسافروں نے رحمتِ دو جہاں ﷺ کو اذیت دینے کے لیے اپنے دانت تیز کر لیے اور طرح طرح کے ہولناک منصوبے بنانے شروع کر دیتے ۔رحمتِ دو جہاں ﷺجن راستوں سے گزرتے توراہوں میں کانٹے بچھا دیتے ‘آپ پر گندگی گرا دیتے ‘آوازیں کستے ‘لیکن کیا شان ہے رحمتِ دو جہاں ﷺ کی ان ظالموں کے لیے کبھی بھی بد دعا نہ کی ۔ان تکلیف دہ مراحل میں سرور کونین ﷺ کی جانثار بیٹی اکثر و بیشتر ہمراہ ہوتی تھیں اور اپنی ہمت و طاقت سے بڑھ کر اپنے والد ماجد کی خدمت بجا لاتی تھیں۔ نبی کریم ﷺ اکثر اپنی بیٹی پر ہونے والے مظالم کا ذکر بہت دکھ سے کرتے تھے‘ ایک دن رحمتِ دو جہاں ﷺ محبوبِ خدا اپنے عشاق کے جھرمٹ میں جلوہ افروز تھے ‘عشاق بڑے ادب سے بیٹھے ہوئے تھے ۔ فضا میں سناٹا اور ایسی خاموشی محیط تھی جس میں ان کی اپنے محبوب تاجدار ِ دو جہاں ﷺ سے محبت و عشق کی حسین قوس قزح رقص کناں تھی واہ‘ عشقِ رسول ﷺ کی سعادتوں اور حلاوتوں سے ہمکنار تھے سرور و مستی کا ماحول تھا عشاق منتظر تھے کہ اُن کے آقا و مولا ﷺ کی روح پرور دل پسند آواز مبارک ان کی سماعتوں میں رس گھولے ۔ تھوڑی دیر بعد محبوب خدا ﷺ راحت انس و جاں ﷺ نے اپنے لب لعلین مبارک کو جنبش دی اور ارشاد فرمایا۔ زینب ؓ میری بیٹیوں میں سب سے پیاری ہے جو میری محبت میں کافروں کے ہاتھوں سب سے زیادہ ستائی گئی ہے ۔

اعلانِ نبوت کے بعد جب مشرکین مکہ کے شدائد و مظالم کی انتہا ہو گئی رحمت دو جہاں ﷺ نے مدینہ ہجرت فرمائی ۔ تو حضرت زینب ؓ غمِ جدائی میں سسکیاں بھر کر رونے لگیں ایک تو مشفق و محبت کرنے والے عظیم باپ سے جدائی کا غم اور دوسرا نبی کریم ﷺ سے دوری کا غم ان دونوں غموں نے حضرت زینب ؓ کو نڈھا ل کر دیا ۔حضرت زینب ؓ کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ابو العاص سے ہوئی نبی کریم ﷺ کو جب منصب رسالت عطا ہوا تو حضرت خدیجہ ؓ اورآپ ﷺ کی صاحب زادیاں آپ ﷺ پر ایمان لائیں مگر ابو العاص شرک پر قائم رہا ۔ جنگ بدر میں مشرکین مکہ کے ساتھ ابو العاص بھی آئے اور گرفتار ہو گئے تو حضرت زینب ؓ نے ان کے بھائی کے ہاتھ مکہ سے فدیہ میں وہ ہار بھیجا جو حضرت خدیجہ ؓ نے حضرت زینب ؓ کو پہنا کر شادی کی تھی ۔

جب رحمت دو جہاں ﷺ نے یہ ہار دیکھا تو آپ ﷺ پر رقت طاری ہو گئی اور حضرت خدیجہ ؓ کا مبارک زمانہ یاد آگیا اور اپنی لاڈلی بیٹی زینب کی یاد بھی ۔ آقا کریم ﷺ کے ارشاد سے صحابہ ؓ نے فدیہ واپس کر دیا اور ابو العاص کو بھی چھوڑ دیا اور نبی کریم ﷺ نے ابو العاص سے وعدہ لیا کہ مکہ جاکر حضرت زینب ؓ کو مدینہ بھیج دیں گے۔ حضرت زینب ؓ کو لانے کے لیے سرور کونین ﷺ نے زید بن حارثہ ؓ کو بھیجا ۔ ابو العاص کو دیکھ کر حضرت زینب ؓ بہت خوش ہو ئیں لیکن ابو العاص تصویر غم بنے ہو ئے تھے ۔ہار واپس کیا اور کہا فدیہ میں تم کو مدینہ بھیجنا ہے تو حضرت زینب نے اپنے خاوند سے پوچھا آپ کے ساتھ اﷲ کے رسول ﷺ نے کیا سلوک تو ابو العاص بولے وہی جو ایک شریف اور کریم شخص کر تا ہے ۔ اِس کے با وجود آپ اپنے ابا و اجداد کے دین پر قائم رہیں گے تو ابو العاص خاموشی سے زمین کو دیکھنے لگے ۔ لیکن دل میں و ہ فیصلہ کر چکے تھے کہ وقت آنے پر وہ اسلام قبول کر لیں گے ۔حضرت زینب ؓ کی سفر کی تیاری مکمل ہو گئی تو اونٹ پر سوار ہو گئیں اورروانہ ہو گئیں کفا ر مکہ کو جب علم ہوا بنتِ محمد ﷺ کی تلاش میں ایک جماعت روانہ ہوئی اور جاکر اِس عظیم و مطہر مسافرہ کا راستہ روک لیا اور کہا واپس مکہ جاؤ ‘حضرت زینب ؓ کو روک کر وہ نبی کریم ﷺ کو ذہنی کوفت پہنچانا چاہتے تھے ۔حضرت سیدہ زینب ؓ نے اپنے والد ِ ماجد سے ملنے کو بے تاب و بے قرار تھیں بولیں میں واپس مکہ نہیں جاؤں گی‘ جب کفار نے دیکھا کہ حضرت زینب ؓ ہر حال میں مدینہ جانا چاہتی ہیں تو ظالموں میں سے ایک نے پتھر اٹھا کر کھینچ مارا جو سیدہ زینب ؓ کو پیٹ مبارک پر تووہ زخمی حالت میں اونٹ سے زمین پر گر گئیں ان دنوں حضرت زینب ؓ امید سے تھیں ۔ لہذا حمل ساقط ہو گیا ۔ ہشام خنجر تان کر آگے بڑھا تاکہ بنتِ رسول ﷺ کو قتل کر دے اِسی اثنا میں ابو العاص کا بھائی کنانہ آگے بڑھا اور پوزیشن سنبھال لی کہ اب اگر کسی نے حضرت زینب ؓ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو تیروں سے چھلنی کر دونگا سب اپنی جگہوں پر رک گئے تو ابو سفیان آگے بڑھا ابھی لڑائی بند کرو اگر تم اعلانیہ بنتِ محمد ؓ کو لے جاؤ گے تو لوگ اسے ہماری بذدلی اور کمزوری کہیں گے ہمیں محمد ﷺ کی بیٹی کو روکنے کی ضرورت نہیں اِس وقت تم واپس لوٹ چلو جب ہنگامہ ٹھنڈا ہو گا تو چوری چھپے چلے جانا۔چند دنوں بعد جب حضرت زینبؓ کی طبیعت سنبھلی تو ایک روز حضرت زینب ؓ ، زید بن حارثہؓ کے ساتھ مدینہ روانہ ہو گئیں جب زید بن حارثہ ؓ حضرت زینب ؓ کو لے کر بارگاہ ِ رسالت میں حاضر ہوئے تو اپنی لاڈلی بیٹی کو دیکھ کر شہنشاہِ دو عالم ﷺ کی چشمان ِ مبارک نم آلود ہو گئیں ۔ ہجرت مدینہ کے وقت جو زخم حضرت زینب ؓ کو لگا وہ بعد میں پھر دوبارہ ہرا ہو گیا اور یہ زخم جان لیوا ثابت ہوا اور اسی زخم کی وجہ سے حضرت زینب ؓ درجہ شہادت پر فائز ہوئیں۔
Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 736885 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.