ڈاکٹر انعام الحق کوثر:وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا

 غلام شبیر
پاکستان کے ممتاز ادیب اور دانش ور ڈاکٹر انعام الحق کوثر خالق حقیقی سے جا ملے۔علم ادب کا وہ خورشید ِ جہاں تا ب جو 1931میں جالندھر سے طلوع ہوا ،وہ چودہ دسمبر 2014کی شام لاہور میں غروب ہو گیا۔ لاہور کے نواح میں واقع کینا ل سٹی شہر خموشاں کی زمین نے عالمی ادبیات کے اس آ سمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا۔ وہ فرشتہ سیرت، درویش منش اور عجز و انکسار کا پیکر دانش ور جس نے اپنے اشہبِ قلم کی جو لانیوں سے پاکستانی ادبیات کو عالمی ادبیات کے برابر لا کھڑا کیا اب ہمارے درمیان نہیں رہا ۔ وطن ،اہل ِ وطن اور پوری انسانیت کے ساتھ ٹوٹ کر محبت کرنے والا مفکر ہماری بزم وفا سے کیا اُٹھا کہ بے ثبات کارِ جہاں سے ہمارا اعتماد ہی اُٹھ گیا ہے ۔وطن عزیز کا ہر شہر سوگوار ہے اور گلشنِ ہستی کے درو دیوارحسرت و یاس کی تصویر پیش کر ر ہے ہیں،اب دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے ۔اپنی ایک سو کے قریب وقیع تصانیف سے ڈاکٹر انعام الحق کو ثر نے اُردو ادب کی ثروت میں جو اضافہ کیاوہ تاریخ ِ ادب کے اوراق میں آبِ زر سے لکھا جائے گا۔ان کے بارِ احسان سے علم و ادب سے والہانہ محبت اورقلبی وابستگی رکھنے والوں کی گردن ہمیشہ خم رہے گی۔تاریخ ہر دور میں ان کی عظیم الشان علمی ،ادبی، قومی اور ملی خدمات اور فقید المثال تخلیقی کام کی وجہ سے اُن کے نام کی تعظیم کرے گی۔ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی زندگی کا زیادہ عرصہ پاکستان کے صوبہ بلو چستان میں گُزرا ،اس لیے ان کی تخلیقی ،تنقیدی اور تحقیقی فعالیتوں کا محور بلوچستان ہی رہا۔ بلوچستان کی قدیم تاریخ ،تہذیب و تمدن ،ثقافت اورمعاشرت ،علم و ادب اور فنون لطیفہ کی تحقیق پر انھوں نے توجہ مرکوز رکھی۔ان کی تخلیقی کامرانیوں نے بلوچستان اور اس علاقے کے باشندوں کو خود اپنی نظروں میں معزز و مفتخر کر دیا۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں بلو چستان کی علمی ،ادبی ،سماجی ،سیاسی اور معاشرتی زندگی کے جملہ نشیب و فراز ان کی تحریروں میں ایک شان دل ربائی کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔بلوچستان کے بارے میں ان کی گُل افشانی گفتار نے انھیں جو ممتا ز و منفرد مقام عطا کیا اسے ان کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز سمجھا جاتا ہے۔بلوچستان کے باشندوں کی ثقافت کا احوال بیان کرتے ہوئے اُنھوں نے اس علاقے کے لوگوں کے رہن سہن ،رسوم و رواج اور اُن کے جبلی عکس جس مہارت،صداقت اور خلوص سے الفاظ کے پیکر میں ڈھالے ہیں وہ ان کا بہت بڑا اعزاز و امتیاز ہے ۔کاروانِ ہستی مسلسل رو میں ہے ، ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر زندگی کا یہ سفر سفاک ظُلمتوں میں بھی جاری رکھا اور کبھی دل بُرا نہ کیا۔پُوری دُنیا میں ان کی تصانیف کی دُھوم مچ گئی۔ان کی جن معرکہ آرا تصانیف نے اکنافِ عالم کے گوشے گوشے میں ان کی فکر پرور اور بصیرت افروز تخلیقی فعالیت کی دھاک بٹھا دی ،ان میں درجِ ذیل تصانیف ناقابلِ فراموش ہیں:
بلوچستان میں فارسی شاعری (1968)،بلوچستان میں اُردو(1968)،دیوانِ ناطق مکرانی(1969)،بلوچستان میں فارسی مخطوطات(1973)،تاریخ صوفیائے بلوچستان(1976)، تحریکِ پاکستان بلوچستان میں(1980) ،بلوچستان میں اُردو کی قدیم دستاویزات(1985) اوربلوچستان میں بولی جانے والی زبانوں کا تقابلی مطالعہ(1991)

ایک عظیم محب وطن کی حیثیت سے ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے وطن ،اہلِ وطن اور استحکامِ پاکستان کے ساتھ اپنی قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کا بر ملا اظہار کیا ۔انھوں نے ماضی یا مستقبل کی نسبت حال پر زیادہ توجہ دی۔ وہ ایک مضبوط ،مستحکم اور صحت مند انداز فکر کی شخصیت تھے۔قیام پاکستان کے بعد حالات نے جو رخ اختیار کیا وہ کسی سے مخفی نہیں ۔ منزلوں پر ان موقع پرستوں نے غاصبانہ قبضہ کر لیا جو شریکِ سفر ہی نہ تھے ۔تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں انھوں نے اقتضائے وقت کے مطابق قومی تعمیر و ترقی کے کاموں میں حصہ لیا اور اپنی تحریروں سے مثبت شعور و آ گہی کو پروان چڑھانے کی سعی کی۔زندگی کی برق رفتاریوں نے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی ہے ۔ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی کی کیفیت کو دیکھ کر انھوں نے مرحلہء شوق طے کرنے کی یہ صورت نکالی کہ تقلید کی مہلک روش سے بچ کر افکار تازہ کی مشعل تھا م کر سفاک ظلمتوں کوکافور کر کے جہانِ تازہ کی جستجو پر اپنی توجہ مرکوز کر دی۔ان کی تحریروں میں جو سادگی ،سلاست ،خلوص ،دردمندی اور بے ساختگی پائی جاتی ہے وہ ان کے منفرد اسلوب کی دلیل ہے۔ڈاکٹر انعام الحق کوثر بچوں سے بہت محبت کرتے تھے۔انھوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اصلاحی، مفید اور دلچسپ کہانیاں لکھیں ۔ ان کہانیوں کو نہ صر ف پاکستان میں بل کہ عالمی سطح بہت پذیرائی ملی۔اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے ان کہانیوں کو شائع کیا اور دنیا کی بڑی زبانوں میں ان کہانیوں کے تراجم کیے گئے۔ سادہ ،سلیس اور عام فہم انداز میں لکھی جانے والی ان کہانیوں میں اسلوب کی وہی شگفتگی ،اصلاح اور مقصدیت پائی جاتی ہے جو مولوی نذیر احمد، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم،شفیع عقیل،اسماعیل میرٹھی اور ابن انشا کے اسلوب میں موجود ہے۔

قیام پاکستا ن کے بعد یہاں تخلیق ادب کے نئے امکانات سامنے آئے ۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے اپنی تخلیقی فعا لیت سے ید بیضا کا معجزہ دکھایا۔انھوں نے حرفِ صداقت لکھنا اپنا دستور العمل قرار دیا اور ہر قسم کی مصلحت سے بے تعلق رہے۔لفظ کی حرمت انھیں دل و جان سے عزیز تھی ،اپنی تحریروں میں انھوں نے نہایت موثر انداز میں اپنے اور قوم کے ضمیر کی ترجمانی کی۔ وہ چاہتے تھے کہ پرورش لوح و قلم کے دوران ایک ایسی فکری اور ذہنی فضا تیار کرنے کی سعی کی جائے جس کے اعجاز سے نئی نسل صحیح سمت میں روشنی کا سفر جاری رکھ سکے ۔ان کی زندگی میں کئی نشیب و فرازآئے لیکن انھوں نے ہمیشہ صبر و استقامت کا دامن تھام کر کٹھن حالات میں بھی منزلوں کی جانب اپناسفر جاری رکھا ۔ ہوائے جورو ستم میں بھی انھوں نے خلوص، مروت ، ایثار،وفا اور دردمندی کی شمع فروزاں رکھی ۔ وہ مصلحتِ وقت کے قائل نہ تھے جو بات بھی ان کے دل ، دماغ ، ذہن و ذکاوت اور ضمیر کی تر جمانی کر تی وہ ببانگ دہل کر تے ۔ عظیم انسان کی پہچان یہ ہے کہ وہ کسی کو حقیر نہیں سمجھتا ۔ یہی وجہ ہے کہ کئی موقع پرست ،ابن الوقت ،مار آستین اور سانپ تلے کے بچھوان کے در پئے آزار ہوجاتے ہیں ۔سادیت پسندی کے ایسے مُوذی مریضوں کی نیش زنی کے باوجود ڈاکٹر انعام الحق کوثر ان کے بارے میں رائے زنی کر نا اپنے شایانِ شان نہیں سمجھتے تھے ۔جب وہ تیر کھا کر کمین گاہ کی طرف نظر دوڑاتے تو پرانے آشنا چہروں کو دیکھ کر بھی دل بر ا نہ کر تے اور ان کے لیے صرف یہی کہتے کہ پروردگار عالم ان کو ہدایت دے اوران کا دامن خوشیوں اور راحتوں سے معمور کر دے ۔ قدرت کاملہ نے انھیں ہمیشہ اسی طرح محفوظ رکھا جسے بتیس دانتوں میں زبان محفوظ رہتی ہے۔معاشرتی زندگی میں بے لوث محبت ، بے باک صداقت ، خلوص ، درد مندی اور تعاون و اشتراک عمل سداان کا دستور العمل رہا۔الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کے ادبی مسلک کے خلاف تھا۔ہزار خوف میں بھی ان کی زبان ان کے دل کا ساتھ دیتی اور جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے اُنھوں نے حریت فکر کا علم بلند رکھا ۔وہ خوف اور مصلحت سے نا آشنا تھے اس لیے وقت کے کسی فرعون یا نمرود کے سامنے سپر انداز ہونے سے انھوں نے ہمیشہ انکار کیا ۔وہ آتشِ نمرود میں بے خطر کود پڑنے کو جذبہء عشق کے لیے نا گزیر سمجھتے تھے۔ وہ زندگی کو جوئے شِیر و تیشہ و سنگِ گراں خیا ل کرتے تھے اور اس بات کی نصیحت کرتے کہ سعیء پیہم کے بغیر کسی جو ہر کا کھلنا ممکن ہی نہیں ۔فرہاد کی کٹیا میں اُمید کی کرن شرر ِ تیشہ کی مر ہونِ منت ہے ۔ان کا خیال تھا کہ زندگی میں توازن اور اعتدال کو ہر حال میں ملحو ظ رکھنا چاہیے۔زندگی کے معمولات اور جملہ دلچسپیاں اگر اعتدال اور توازن کی حدود میں رہیں تو زندگی کی رعنائیاں بر قرار رہتی ہیں اگر ہوا و ہوس میں حدسے گزر جائیں تو زندگی کے بے ہنگم ارتعاشات اور بد وضع کجیاں افراد کے لیے شرمندگی کا باعث بن جاتی ہیں۔ اپنے ہاتھوں اپنی تخریب کے ایسے مہلک اقدامات ایک دردِ لا دوا بن جاتے ہیں،جس کا مداوا ممکن ہی نہیں۔
خوش اخلاقی کو وہ ایک بہت بڑی نیکی اور صدقہء جاریہ سمجھتے تھے۔ ڈاکڑانعام الحق کوثر سب سے اخلاق اور اخلاص سے لبریز سلوک روا رکھتے تھے ۔ حُسنِ سلوک کو ایک ایسی نیکی سے تعبیر کرتے تھے جو بہارِ بے خزاں کے مانند ہے ۔وہ اس بات پر اصرار کرتے کہ خوش اخلاقی کی مثال ایک ایسے سدا بہار گُلِ تر کی ہے جسے خزاں کی مسموم ہوا سے کوئی خطرہ نہیں۔اس کی عطر بیزی سے قریہء جاں مہک اُٹھتا ہے اور اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر اہتمام یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ خوش اخلاقی کے لیے کسی تپسیا یا دولت وثروت کی احتیاج نہیں بل کہ خلوص اور دردمندی پر مبنی رویہ خوش اخلاقی کے جذبات کو مہمیز کرتا ہے۔اسی کے اعجاز سے دلوں کو مرکزِ مہر و فا کیا جا سکتا ہے اور خوش اخلاقی کے اعجاز سے قلب و نظر کو مسخر کیا جا سکتا ہے۔ اپنی عملی زندگی میں جو بھی شخص خوش اخلاقی کو شعار بناتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خوش اخلاقی اس کی فطرت ِ ثانیہ بن جاتی ہے اور اس کے معجز نما اثر سے انسانی شخصیت میں شگفتگی اور نکھار کی مسحور کن کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔خوش اخلاق انسان ایک چاند کی صورت میں روشنی کا سفر جاری رکھتا ہے جس کی تابانیاں کبھی ماند نہیں پڑ سکتیں۔ ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی زندگی کے متعدد داخلی تجربات ، نفسیاتی کیفیات اور روحانی تاثرات ان کی تحریروں میں رچ بس گئے تھے۔توحید ،قرآن حکیم،رسالت اور درودِ پاک جیسے اہم روحانی اور پاکیزہ موضوعات پر ان کے فکر پرور اور خیال افروز مضامین قاری پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتے اور ان کے مطالعہ سے فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے۔جہاں تک خارجی حالات کا تعلق ہے اُنھوں نے زندگی کے مشاہدات اور تجربات،معاشرے کو درپیش مسائل و مضمرات اور سماجی برائیوں پر کُھل کر لکھا۔اپنے گرد و نواح کے حالات ،زندگی کے ارتعاشات اور ماحول سے اُنھوں نے جو اثرات قبول کیے اُنھیں بلا کم و کاست زیبِ قرطاس کیا ۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ داخلی زندگی میں تو خلوت نشینی کے قائل تھے لیکن خارجی معاملات میں وہ محفلوں کے انعقاد اور انجمن آرائی کے دلدادہ تھے۔ سیرت کا نفرنسوں،ادبی نشستوں ،علم و ادب کی تنقیدی نشستوں ،سیمینارزاور محافل میں شرکت کے لیے وہ ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔علم و ادب کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی اوروالہانہ محبت انھیں ان تقریبات میں کشاں کشاں لے جاتی تھی۔ اُن کی موجودگی سے ہر محفل کشتِ زعفران بن جاتی ان کے بغیر یہ محفلیں سُونی سُونی دکھائی دیتی تھیں ۔

ڈاکٹر انعام الحق کوثر نصف صدی سے زیادہ عرصے تک اُفقِ علم و ادب پر مثلِ آفتاب ضوفشاں رہے۔اُن کے افکار کی ضیا پاشیوں سے اکنافِ علم و ادب کا گوشہ گوشہ بقعہء نور ہو گیا۔موت ایک اٹل حقیقت ہے لیکن موت میں اتنا دم خم کہاں کہ ایسی ہفت اخترشخصیات کے اشہبِ قلم کی جو لانیوں،تصنیف و تالیف کے شعبے کی کامرانیوں اور اصلاحی و فلاحی خدمات کی تابانیوں کو ماند کر سکے۔ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے بے لوث خدمت ،اصلاح ِ معاشرہ اور قومی تعمیر و ترقی کو ہمیشہ اولیت دی اور اپنی تحریروں میں ان موضوعات پر مدلل انداز میں روشنی ڈالی۔ اردو تنقید و تحقیق کو انھوں نے اپنے عالمانہ انداز سے مالا مال کر دیا یہی وجہ ہے کہ ان کی تحقیقی و تنقیدی کامرانیوں نے جریدہء عالم پر اُن کا دوام ثبت کر دیا۔ جب تک دنیا باقی ہے مقصدیت سے لبریز ان کا تخلیقی کام اندھیروں کی دسترس سے دُور روشنی کے مانند سرگرمِ سفر رہے گا ۔ وہ علی گڑھ تحریک اور سر سید احمد خان اور ان کے نامور رفقائے کار کی علمی ،ادبی اور قومی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ڈاکٹر انعام الحق کوثرنے اپنی تخلیقی فعالیت کو بروئے کار لاتے ہوئے اصلاح اور مقصدیت کی جو شمع فرواں کی وہ ہمیشہ ضو فشاں رہے گی اور وقت گزرنے کے سا تھ ساتھ اُس کی تابانیوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ہر دور کے علم و ادب میں ان کی تعمیری سوچ کے آثار ملیں گے۔ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے پُورے خلوص سے قومی استحکام اور ملی وحدت کا وہ ساز چھیڑا جس کے معجز نما اثر سے دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے میں مدد ملی۔یہ سوچ کر کلیجہ منہہ کو آتا ہے کہ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اس ساز کے تار توڑ دئیے جو گزشتہ آٹھ عشروں سے کانوں میں رس گھول رہا تھا۔وہ ساز خاموش ہوگیا لیکن اس کی صدائے باز گشت تا ابدفضاؤں میں گُو نجتی رہے گی۔ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے جو گراں قدر خدمات انجام دیں،ان کا پُوری دنیا میں اعتراف کیا گیا۔وہ اقبال اکادمی پاکستان کے تا حیات رکن تھے ۔ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی علمی ،ادبی اور قومی خدمات کے اعتراف میں انھیں حکومت ِ پاکستان کی طرف سے پرائڈ آف پر فارمنس کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی ہر دل عزیز شخصیت کی یادیں اب تو زندگی کا بیش بہا اثاثہ ہیں۔
پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تیری یادیں
جس سمت نظر اُٹھی آواز تیری آئی

بعض نابغہء روزگار شخصیات سے مل کر زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم ممکن ہو جاتی ہے اورزندگی سے قلبی وابستگی اوروالہانہ محبت کے جذبات پروان چڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ڈاکٹر انعام الحق کوثر کا شمار ایسی ہی عظیم ہستیوں میں ہوتا تھا ۔انسانیت کے وقاراور سر بلندی کی خاطر انھوں نے اپنی زندگی وقف کردی ۔ان کی اصلاحی اور فلاحی خدمات نے خزاں کے بے شمار لرزہ خیز مناظر میں بھی طلوعِ صبحِ بہاراں کے امکانات کو روشن تر کر دیا۔دنیا کا نظام ایسی ہی یگانہء روزگار ہستیوں کا مرہونِ منت ہے جن کا وجود شجرِ سایہ دار کے مانند ہوتا ہے وہ خود تو آلا م ِروزگار کی تمازت بر داشت کرتے ہیں لیکن آنے والی نسلوں کے لیے سکون اورراحت کی ٹھنڈی چھاؤں کا اہتمام کرتے ہیں۔قیام پاکستان کے بعد سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی حالات کے بارے میں ڈاکٹر انعام الحق کوثر کے تجزیاتی مطالعات قارئین کو مثبت شعور و آگہی سے متمتع کرنے کا موثر وسیلہ ثابت ہوئے۔یقینِ محکم اور عمل پیہم کی مظہر یہ تحریریں جہاں ان کی حب الوطنی کی مظہر ہیں ،وہاں آج کی پُر آشوب زندگی میں یہ اپنی حقیقت سے آ شنا ہونے کا ولولہ عطا کتی ہیں۔ان کا خیال تھا کہ یقین تو خلیلؑ کے مانند آتش نشینی کا حوصلہ عطا کرتا ہے ۔یہ یقین ہی ہے جو توحید کی مستی سے سرشار کر دیتاہے۔وہ بے یقینی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کے متمنی تھے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بے یقینی کے تارِ عنکبوت ہٹانے کی مقدور بھر کوشش کی۔ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی معاشرہ بے یقینی اور بے حسی کے مسموم ماحول کی بھینٹ چڑھ جائے تو تہذیب و تمدن کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ۔اس کے نتیجے میں سماجی زندگی کو ناقابل اندمال صدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اجتماعی زندگی کے پیچیدہ مسائل کے بارے میں ڈاکٹر انعام الحق کوثر کے اسلوب کی انفرادیت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے اور یہ انداز تحریر پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتا ہے۔ان کے تجزیات،خیالات اور جذبات و احساسات کے سوتے ان کے تجربات و مشاہدات سے پُھوٹتے ہیں۔معاشرتی زندگی کے مادی نشیب و فراز ،مسائل و مضمرات اور تضادات و ارتعاشات کا وسیع تر مطالعہ ،مشاہدہ اور تجربہ ان کے اسلوب میں اساسی حیثیت کا حامل ہے۔

دنیا بھر سے محققین ڈاکٹر انعام الحق کوثر سے علمی اعانت کے سلسلے میں مسلسل رابطے میں رہتے۔ گبریل گارسیا مارکیز، رالف رسل ،این میری شمل،ژاک دریدا اور گراس گنٹر نے زندگی بھر ڈاکٹر انعام الحق کوثر سے علمی موضوعات کے سلسلے میں رابطہ رکھا اور ان کی علمی ،ادبی ،تہذیبی ،ثقافتی اور تمدنی خدمات کے معترف رہے۔ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی علم دوستی ،ادب پروری اوردست گیری متعدد نو آمو ز محققین کے لیے خضرِ راہ ثابت ہوتی۔ان سب کو بنیادی مآخذ کی فراہمی میں وہ ذاتی دلچسپی لیتے اور ممکنہ حد تک بیش تر تحقیقی مواد وہ خود اپنے ذاتی کتب خانے سے یا دوسرے اہم کتب خانوں سے عکسی نقول کی صورت میں بذریعہ ڈاک ارسال کر دیتے۔جن محققین نے اس آفتابِ علم وادب کی ضیاپاشیوں سے استفادہ کیا ان کی فہرست طویل ہے ۔میں صر ف چند نام لکھ رہا ہوں جنھوں نے مجھے ذاتی طور پر ان کی بے لوث محبت ،خلوص اور دردمندی سے لبریز حسن سلوک سے مطلع کیا ۔خوشاب ،پنجاب پاکستان میں مقیم ایم۔فل اردو کی طالبہ محترمہ ذکیہ بدر کو اپنے تحقیقی مقالے ’’خواجہ دل محمد حیات و ادبی خدمات ‘‘پر تحقیقی مواد کے حصول میں مشکلات کا سامنا تھا ۔ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے اپنے ذاتی کتب خانے سے اس پُر عزم طالبہ کو اہم ترین بنیادی مآخذکی عکسی نقول فراہم کیں ۔وہ ان کی اس قدر ممنون تھیں کہ جب بھی اس عظیم دانش ور اور محسن کا ذکر آتا تو سر جھکا دیتیں اور ممنونیت کے جذبات سے اس زیرک طالبہ کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں۔ حافظ حاجی محمد حیات کا تعلق سرگودھا کے ایک دُور اُفتادہ قصبہ ہریانوالی سے تھا۔اس قصبے کا ماحول پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا تھا جہاں کتب خانے سرے سے موجود ہی نہ تھے اور علمی و ادبی کتب کا کہیں اتا پتا نہ ملتا تھا ۔ اپنے مضمون نفسیات میں’’ عصبیت کے نفسیاتی محرکات اور اس کے اثرات‘‘ کے موضوع پرایم۔فل کا تحقیقی مقالہ لکھ رہے تھے کہ تجزیاتی مطالعات اور بنیادی مآخذ کا حصول مقالے کی بر وقت تکمیل کی راہ میں سد سکندری بن کر حائل ہو گیا۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی اور ڈاکٹر انعام الحق کو ثر کی دست گیری نے خضر راہ کا کام کیا اور تمام دشواریوں پر قابو پالیا گیا۔سگمنڈ فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفسی کے موضوع پر ڈاکٹر انعام الحق کو ثر کے تبحر علمی ،وسیع مطالعہ اور عالمانہ تشریح نے اس محقق کے فکر و نظر کو اس طرح مہمیز کیا کہ کتب خانوں کے مایوس کُن تجربات نے یاس وہراس کی جو فضا پیدا کر دی تھی وہ ختم ہو گئی اور مستعدمحقق کو طلوع صبحِ بہاراں کا یقین ہو گیا ۔اس کے علاوہ وطنِ عزیز کے جو ممتاز ادیب اس سر چشمہء فیض سے سیراب ہوئے ان میں رحیم بخش شاہین،محسن بھوپالی ،بشارت خان، گد احسین افضل،محمد فیروز شاہ،ارشاد گرامی، صہبا لکھنوی ،محمد محمود احمد ،محمد اسحاق ساقی،شبیر احمد اختر، رانا ارشد علی ،عزیز احمد، عتیق احمد،اشفاق احمد ،شفیع عقیل،اقبال زخمی،محمد آصف خان،راجا رسالو،سید اختر حسین اختر،نور احمد ثاقب ، شبنم رومانی،دیوان احمد الیاس نصیب،غلام علی چین، اﷲ دتہ سٹینو،فیض محمد خان ارسلان ،سردار خان، اطہر ناسک ،عاشق حسین فائق،محمد حیات خان سیال،سید جعفر طاہر ،محمد شیرافضل جعفری،بشیر سیفی،صابر کلوروی،صابر آفاقی،عطا شاد،خضر تمیمی،کبیر انور جعفری،سید مظفر علی ظفر،خادم مگھیانوی اور خاطر غزنوی کے نام قابل ذکر ہیں۔اپنے سب عزیزوں اور تشنگان علم کو وہ اپنی تصانیف کے سیٹ تحفے میں ارسال کرتے اورصرف دعا کی استدعا کرتے تھے۔انتہائی نا مساعد حالات میں بھی انھوں نے حریتِ فکر کا علم بلند رکھا اور جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے حرفِ صداقت لکھنا اپنا مطمحِ نظر بنایا۔ان کی سوچ تعمیری اور مثبت تھی کسی قسم کی تخریب اور تنقیدِ بے جا سے ان کا کوئی واسطہ نہ تھا ۔ انھیں اس بات پر تشویش تھی کہ مسلسل شکستِ دل کے باعث معاشرتی زندگی بے حسی کی بھینٹ چڑ ھ گئی ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ دور کا لرزہ خیز اور اعصاب شکن سانحہ یہ ہے کہ جامد و ساکت پتھروں اور سنگلاخ چٹانوں کے رو برو حساس تخلیق کار کو دکھی انسانیت کے مصائب و آلام کا احوال بیان کرنا پڑتا ہے ۔کالا دھن کمانے والوں ،تاریکی پھیلانے والوں اور ملک، قوم اور انسانیت سے دشمنی کرنے والوں کے گھناونے کردار اور اوچھے ہتھکنڈوں کو دیکھ کر وہ بہت دل گرفتہ ہوتے لیکن سفاک ظلمتوں میں بھی وہ حوصلے اور اعتماد کے ساتھ روشنی کا سفر جاری رکھنے کی تلقین کرتے ۔ صعوبتوں کے سفر کے باوجودانھیں اس بات کا پُختہ یقین تھا کہ ظلم کی یہ رات ڈھل جائے گی،جبر کاپرچم آخر کار سر نگوں ہو گا اور صبحِ اُمید کی کرن جلد ہر سُو اُجالا کر دے گی۔
تنقید ،تحقیق اورلسانیات میں ڈاکٹر انعام الحق کوثر کی اختصاصی مہارت کا ایک عالم معتر ف تھا ۔انھوں نے جدید لسانیات کے مطالعہ پر توجہ مرکوز رکھی اور افکارِ تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھنے پر اصرار کیا۔جدیدیت ،مابعد جدیدیت ،ساختیات ،پس ساختیات اور تخلیقی تجربات کے بارے میں ان کے خیالات فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرتے ہیں۔ ممتاز ماہرین لسانیات سوسئیر ،رولاں بارتھ،دریدا،بیلسی،ژاک لاکاں اور جیکب سن کے نظریات پر انھیں کامل دسترس حاصل تھی۔مشرق و مغرب کے علوم و لسانیات کو انھوں نے معیار و وقار کی جس رفعت سے آشنا کیا اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔اپنے منفرد اسلوب میں ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے فکری ،فنی اور لسانی اعتبار سے متعدد نئے تجربات پر توجہ مرکوز رکھی۔تخلیق فن میں متنوع تجربات سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔ان کا خیال تھا کہ ادب میں یکسانیت اور جمود افکارِ تازہ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔فنی تجربات ایک مستعد تخلیق کار کو پامال راہوں سے بچ کر نئے امکانات کے حصول اور نئے آفاق تک رسائی کی استعداد سے متمتع کرتے ہیں۔ تفسیر،روحانیات،سیرت اور سوانح ،تاریخ ،لسانیات ،آثار قدیمہ،یاد نگاری،ادیان عالم ،طب ،فلسفہ اور جغرافیہ ہر شعبے میں انھوں نے ندرت فکر اور اپنے منفرد دلکش تجربات سے وہ سماں باندھا کہ قاری حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ اپنی خدادا صلاحیتوں کی تجسیم کر کے زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات کی اسا س پر انھوں نے اپنے اسلوب کا جو سر بہ فلک قصرِ عالی شان تعمیر کیا وہ تا ابد دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرتا رہے گا۔ان کی تخلیقات میں ذہنی ،طبعی ،قلبی اور روحانی فعالیتیں اسلام، حب الوطنی اور انسانی ہمدردی کے مدار میں گھومتی ہیں۔وطن کی محبت ان کے جسم ،جاں اور روح سے عبارت ہے ۔ان کی جس تحریر کو بھی اُٹھا کر دیکھیں ایک ہی دعا قلب و نظر کو متوجہ کرکے فکر و خیال کو مہمیز کرتی ہے۔وہ دعا کیا ہے ایک عظیم محب وطن کی دلی آرزو ہے :
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشہء زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے صدیوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

اپنے توانا اسلوب سے ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے تخلیقِ ادب کو ایک دھنک رنگ منظر نامہ عطا کیا ۔زندگی کی حقیقی معنویت کی توضیح اور نئے حقائق کی جستجوان کا نصب العین تھا۔قیام ِ پاکستان کے بعد معاشرتی زندگی میں فکر ونظر کی کایا پلٹ گئی اور قومی تشخص کی صورت گری کی نئی صورت سامنے آئی۔تخلیقِ ادب میں اس جانب بھر پور توجہ دی گئی اور پاکستانی ادب کی ثروت میں اضافہ کرنے کی خاطر تخلیق کاروں نے اہم کردار ادا کیا۔ ایک محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے ہمیشہ قومی تشخص کو پیشِ نظر رکھنے پر اصرار کیا ۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں وہ اندازِ انجمن پیشِ نظر رکھا جائے کہ وطن اور اہلِ وطن سے وابستگی ہی زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار کی شناخت قرار پائیں۔ قیام پاکستان کو وہ بر عظیم کی ملت ِ اسلامیہ کی علمی ،ادبی اور تاریخی متاع کے تحفظ اور فکر و خیال کی روح پرور اور بصیرت افروزا نا کی توسیع کے ایک ایسے عمل سے تعبیر کرتے تھے جس کے ابد آ شنا اثرات لمحات نہیں بل کہ صدیوں پر محیط ہوں گے ۔قیام ِ پاکستان کے بعد کے بعدفکر و خیا ل کی اس روح پرور توسیع کے اعجاز سے تخلیقِ فن کو نئی جہات سے آ شنا کرنے میں مدد ملی۔ آزادی کے بعد یہاں تخلیقِ ادب کی فکری منہاج میں انقلاب بر پا ہو گیا اورحریت ضمیر سے جینے کی روش پروان چڑھی ۔ تاریخ کے مسلسل عمل پر ان کی گہری نظر تھی وہ اکثر کہاکرتے تھے کہ زندگی کی برق رفتاریوں نے قومی زندگی کی ترجیحات کو اس حیران کُن وسعت اور تنوع سے آ شنا کیا ہے جس کی حشر سامانیوں سے زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو شدید خطرات کا سامنا ہے۔اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ ہماری صفوں میں ایسے لوگ مو جود ہیں جو اپنی ہی تخریب کے جان لیوا کھیل میں مصروف ہیں۔مسلسل شکستِ دل کے باعث ایک مستقل نو عیت کی بے حسی کا عفریت معاشرتی زندگی پر منڈلا رہا ہے۔انھیں اس بات کا شدید قلق تھا کہ سمے کے سم کے تباہ کُن اثرات نے ز ندگی کی تما م رُتیں ہی بے ثمر کر دی ہیں۔خوف اور دہشت کی لرزہ خیز ،اعصاب شکن فضا میں سب بلائیں مجبور انسانیت کا کام تما م کر چکی ہیں، اب تو قسمت سے محروم مظلوم انسانیت کو مرگِ نا گہانی کا انتظار ہے کہ کب یہ کرب ناک کہانی اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔وطن ،اہلِ وطن ،قوم ،ملت اور پُوری انسانیت کے ساتھ ان کی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی ان مستحکم شخصیت کا امتیازی وصف تھا۔ ان کی تصانیف کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سارے جہاں کا درد اُن کے دل و جگر میں سمٹ آیا تھا ۔

عالمی کلاسیک کے تراجم کے ذریعے ڈاکٹر انعام الحق کوثر اردو ادب کی ثروت میں اضافے کے آرزو مند تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ایک زیرک ،باکما ل اور زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس رکھنے والا ترجمہ نگار تراجم کے ذریعے دو ہرے تجربات سے حظ اُٹھاتا ہے ۔ایک تو وہ خود بدیسی زبان کی نادر و نایاب متاع علم وادب سے فیض یاب ہوتا ہے دوسرے وہ قارئین ادب کو اپنے تراجم کے وسیلے سے اس میں شرکت کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ تراجم سے نہ صرف قارئین ادب کے ذہن و ذکاوت کو وسعت نصیب ہوتی ہے بل کہ تہذیب،ثقافت ،تمدن اور معاشرت کو بھی ایک جہانِ تازہ کے حسین جلووں سے مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے اور نادر افکارِ تازہ کی نمود کا غیر مختتم سلسلہ جاری رہتا ہے ۔انھوں نے نئے محققین پر یہ بات واضح کر دی کہ ادب ،سائنس اور فنون لطیفہ کی ترقی تراجم ہی کی مر ہونِ منت ہے ۔اس وقت دنیا کی بڑی زبانوں میں علم و ادب کی جو متاعِ بے بہا محفوظ ہے، تراجم کے ذریعے اردو زبان میں اس کی منتقلی وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔تخلیق فن کے لمحوں میں ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے عالمی ادب کے تراجم کو ہمیشہ اولیت دی ۔ان کی اس جدت سے اظہار و ابلاغ کے نئے در وا ہوتے چلے گئے،نئی اصنافِ ادب اور نئے اسا لیب کی صد رنگی سے نگاہیں خیرہ ہونے لگیں۔

قوت عشق ، تمناؤں کی ہمہ گیری ، امنگوں کی مسحور کن کیفیات جذبات و احساسات کی بو قلمونی ، تخیل کی جولانیاں اور تخلیقی عمل کی مثبت انداز میں صورت گری سے ڈاکٹر انعام الحق کوثرکے قلب و نظر میں جو بصیرت ، یقین اور سعی پیہم کی لگن پروان چڑھی ، اس کے معجز نما اثر سے وہ حقیقت ِمطلق کے راز ہائے سر بستہ کی گرہ کشائی کی صلاحیت سے متمتع ہوئے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اسلوب میں حقیقتِ منتظر جس میں معرفتِ پروردگار،عرفانِ ذات اور معروف سب کے سب ایک مسحورکُن آن بان کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ یہ سب کے سب ایک ایسے معجز نما حرکی کُل کی صورت میں نہاں خانہء دِل میں جا گُزیں ہو تے ہیں کہ ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی کی کیفیت سے سرشار راہ نورد کا مر حلہء شوق کبھی طے نہیں ہو پاتا۔ راہِ طلب میں جب آبلہ پا مسافر سر کے بل گرتے ہیں تو معرفت انھیں سنبھال لیتی ہے۔ڈاکٹر انعام الحق کوثر اپنی قلبی کیفیات کا الفاظ میں نقشہ کھینچ کر رکھ دیتے ہیں اور وہ جس موضوع یا شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں ،ان کے اسلوب میں وہ شخصیت محوِ تکلم دکھائی دیتی ہے۔ڈاکٹر انعام الحق کو ثرکے خاندان نے تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصہ لیا ۔ حریتِ فکر کے ایک مجاہد کی حیثیت سے اُنھوں نے حریتِ ضمیر سے جینے کو بے پناہ اہمیت دی۔انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ آزادی کی تڑپ افراد کے ذہن و ذکاوت ،فکر و خیال اور شعور کے ترفع کی علامت ہے۔تاریخ کے مسلسل عمل کو وہ بہت اہمیت دیتے تھے اس لیے کہ یہ افراد کو اس قدر با اعتماد بناتا ہے کہ وہ قوم کی تقدیر سنوار کر جریدہء عالم پر اپنا دوام ثبت کر سکیں۔

اپنی زندگی کے آخری ایام میں ڈاکٹر انعام الحق کو ثرنے تفسیر ،حدیث اور سیرت کے مطالعہ پر اپنی توجہ مرکوز کر دی تھی۔ ان کی شخصیت کا خلوص،روحانیت اور دردمندی ان کی تحریروں میں جلوہ گر ہے ۔ان کا خیال تھا کہ دائمی مسرت کے وہ سوتے یہیں سے پُھوٹتے ہیں جن سے کشتیء جاں سیراب ہوتی ہے اور جن کے فیضان سے نبضِ ہستی ازل سے تتپش آمادہ ہے اور یہ سلسلہ ابد تک جاری رہے گا۔قرآن حکیم اورحدیث ِپاک کی ابد آ شنا آفاقی تعلیمات سے دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے اور حریمِ کبریا سے آ شنا کرنے میں مدد ملتی ہے۔مذہب،ادب اور زندگی کے اہم ،جامع اور ہمہ گیرموضوعات کو باہم مربوط کر کے انھوں نے اپنے منفرد اسلوب سے دلوں کو ایک ولولہء تازہ عطا کیا ۔تاریخ کے مسلسل عمل اور تاریخی شعور کی تفہیم پر انھوں نے بہت توجہ دی۔ انھوں نے اس جانب متوجہ کیا کہ وہ اقوام اور ملل جو تاریخ کے مسلسل عمل سے غافل رہتی ہیں،ان کا جغرافیہ یکسر بدل جاتا ہے اوروہ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں میں خس وخاشاک کے مانند بہہ جاتی ہیں۔ نظامِ کہنہ کے سائے میں عافیت سے بیٹھ کر داد عیش دینے والوں پر انھوں نے واضح کر دیا کہ نظامِ کہنہ تو گرتی ہوئی عمارت ہے ،اس کی جستجو تو سرابوں میں بھٹکنے کے مترادف ہے۔فطرت کی سخت تعزیروں کی زد میں آنے کے بعد تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے نیست و نابود ہو جاتے ہیں لیکن تہذیب اس سے محفوظ رہتی ہے۔ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے تعلیم و تربیت کے ذریعے نئی نسل کو تہذیبی میراث کی منتقلی پر اصرار کیا ۔انھوں نے ا س حقیقت کی جانب اشارہ کیا کہ موجودہ دورکو غارت گروں نے ایک صنم کدہ بنا دیا ہے، یہ دور اپنے براہیمؑ کی تلاش میں ہے۔آج انسانیت کو بے شمار مسائل ،مشکلات اور چیلنج درپیش ہیں۔اس وقت عصری آگہی کو پروان چڑھانا اقتضائے وقت کے عین مطابق ہے ۔ان حالات میں تہذیب و تمدن اور ثقافت و معاشرت کی ترویج ،اشاعت اور نمو کی خا طربدلتے ہوئے حالات کے چیلنج کا موثر جواب دینا لازم ہے۔ان کی دلی تمنا تھی کہ ملت اسلامیہ کو تاریخ کے مسلسل عمل اور تاریخ کے شعور سے آگا ہ کیا جائے اور عصری آگہی کے بارے میں مثبت شعور و آ گہی کی ایسی خیال افروز فضا پید ا کی جائے جہاں افرادِ معاشرہ زندگی کی حقیقی معنویت تک رسائی حاصل کر سکیں اور تہذیبی رویوں اور تمدنی معائر کے ارفع مظاہر سامنے آ سکیں۔ قومی استحکام اور ملی وحدت کے لیے وہ تہذیب و تمدن کے آئینہ دار مثبت رویوں کی نمو کو نا گزیر خیا ل کرتے تھے۔

تاریخ اسلام اور تحریک پاکستان کے موضوع پرڈاکٹر انعام الحق کوثرکی تحریریں ان کی اسلام پسندی، حب الوطنی اورانسان دوستی کی مظہر ہیں۔ان اہم موضوعات پر انھوں نے فکر پروراورخیال افروز مباحث کو پروان چرھانے کی مقدور بھر سعی کی۔اپنی تحریروں میں انھوں نے نئی نسل پر زور دیا کہ وہ اپنے اسلاف کے کارہائے نمایاں کو محض تاریخی واقعات کے اندراج پر محمول نہ کریں بل کہ یہ تو ایامِ گزشتہ کی یادوں پر مبنی ایک ایسی عظیم یادگار کتا ب ہے جس کی عطر بیزی سدا جاری رہے گی ۔اس کتاب میں ماضی کی متعدد بصیرتیں ،غیر معمولی حالات و واقعات،زندگی کے نشیب و فراز،تقدیرِ اُمم،سماج اور معاشرے کے رنج و غم،تہذیب ،ثقافت اور تمدن کے زیر و بم اور ذہن و ذکاوت کے ارتقا کی چشم کشا صداقتیں پوری قوت کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ایام گزشتہ کی کتاب کے ان اوراق میں قوسِ قزح کی پوری ر نگینیاں اور رعنائیاں سمٹ آئی ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وادیء خیال میں رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعارے تاریخ کی اسی کتاب کا عطیہ ہیں۔ ڈاکٹر انعام الحق کوثرکے اسلوب میں تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے اثرات نمایاں ہیں۔ماضی کی تاریخ اور حال کے واقعات میں ان کی دلچسپی زندگی بھر بر قرار رہی ۔وہ تاریخ کے معتبر حوالوں کی ر وشنی میں لمحہء موجود کے واقعات اور زمانہ آئندہ بل کہ بعید آئندہ کے امکانات کا سائنسی انداز فکر اپناتے ہوئے جو غیر جانب دارانہ تجزیہ پیش کرتے ،اس سے جمود کا خاتمہ ہوتا اور فکر و نظر کو مہمیز کرکے اسے صحیح سمت عطا کرنے میں مدد ملتی۔اپنی عملی زندگی میں جب وہ خود کو ہجومِ غم میں گھرا ہوا محسوس کرتے اور یہ دیکھتے کہ ان کا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا گیا ہے تو ہ دِل بُرا نہ کرتے بل کہ ایسے اعصاب شکن حالات میں بھی وہ اپنی ذات کے حصار سے باہر نکل کرقوم ،ملک ،معاشرے ،سماج اور بنی نوع انسان کو درپیش کٹھن حالات پر اپنی توجہ مرکوز کر دیتے۔وہ مدلل اندازِ گفتگو اپنا کر تزکیہ ء نفس کی صورت تلاش کر لیتے۔وہ فرد کے معاشرے کے ساتھ ربطِ باہمی پر اصرار کرتے اور اس جانب متوجہ کرتے کہ فصلِ خزاں میں بھی ڈالی کو شجر سایہ دار سے اپنا ناتہ بر قرار رکھنا چاہیے تاکہ سحابِ بہار سے اس میں نمو کے آثار پیدا ہو سکیں۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی خاطرا نھوں نے جو فقید المثا ل جد و جہد کی ،پوری دنیا میں اسے قدر کی نگاہ سے دیکھاگیا۔ انسان دوستی اور انسان شناسی کا جو ارفع معیار ان کے منفرد اسلوب اور ان کی تخلیقی تحریروں میں موجود ہے وہ اوروں سے تقلیداًبھی ممکن نہیں۔ان کے اسلوب کی انفرادیت کا ثبوت یہ ہے کہ اُنھوں نے اجتماعی زندگی کے تمام حالات ،واقعات ،ارتعاشات اور نشیب و فراز کی پوری دیانت کے ساتھ لفظی مرقع نگاری کی ہے۔انھوں نے دکھی انسانیت کے ساتھ درد کا جو رشتہ اور عہدِ وفا استوار کیا ،اسے علاجِ گردشِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے زندگی بھر اس پر عمل کیا ۔حیف صد حیف ایک سراپا خلوص شخصیت نشیبِ زینہء ایام پر عصا رکھتے ہوئے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئی۔تقدیر کے چاک کو سوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا۔ دائمی مفارقت دے کر پیوندِ خاک ہو نے والوں کے الم نصیب مداح اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سیرجہاں کا حاصل حیرت اور حسرت کے سوا کچھ بھی تو نہیں۔قلم میں اتنی سکت نہیں کہ تقدیر کے ستم حر ف حرف لکھ کر اپنے جذباتِ حزیں کا اظہار کر سکے۔ہماری محفل کے وہ آفتاب و ماہتاب جو غروب ہو گئے ہیں ہم انھیں پُر نم آنکھوں سے یاد کر کے اپنے دل کی انجمن میں ان کی حسین یادوں کی شمع فروزاں رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ڈاکٹر انعام الحق کوثر اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان علم وادب تھے ،ان کی وفات ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے ۔ اس پر ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ سے جوئے خوں رواں ہے ۔ یہ دنیا بلا شبہ دائم آباد رہے گی لیکن ڈاکٹر انعام الحق کو ثر کی وفات کے بعد جوخلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہیں ہو سکتا ۔ بہ ظاہر اپنی ذات میں سمٹے ہوئے اس تخلیق کار کی زندگی ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز پرورش لوح و قلم میں گزری لیکن ان کے افکار میں سمندر کی سی بے کرانی ہے ۔زندگی کا کوئی بھی عکس سامنے آئے ہر عکس میں ان کے خد و خال قلب و نظرکو مسخر کر لیتے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ادبی محفلوں میں ضو فشاں چراغوں کی روشنی ماند پڑ گئی ہے اور وفا کے سب ہنگامے عنقا ہو گئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اب دنیا میں کہیں ایسا دانش وردکھائی نہیں دیتا جسے ڈاکٹر انعام الحق کوثر جیسا کہا جا سکے ۔ وہ بلاشبہ نابغہء روزگار ادیب عدیم النظر نقاد اور محقق ا ور نایاب انسان تھے۔ڈاکٹر انعام الحق کوثر کا اسلوب لافانی ہے وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔دنیا میں جہاں بھی بزمِ ادب سجے گی وہاں ان کا ذکر ضرور ہو گا اور ہر عہد کے ادب میں ان کے اسلوب کے مثبت اثرات موجود رہیں گے ۔ علم و ادب کا یہ خورشید جہاں تاب کبھی غروب نہیں ہو سکتا یہ کسی اور اُفق پر اپنی تابانیاں پھیلا رہا ہو گا۔بلھے شاہ نے سچ کہا تھا ؂
بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور
Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 680072 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.