از خوابِ گراں خیز
(Muhammad Shahbaz, Kamalia)
حالات جس طرف بھی انسان کو لے
جائیں ہم بطور مسلمان اسے بس اپنا نصیب مان لیتے ہیں اور پھر اسی پہ سر
تسلیم خم کر کے اپنی تمام باقی و لازمی چیزوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
معاشرہ جب بھی کسی شکست و ریخت کا شکار ہوا ہے تو وہ ہماری اپنی ہی غلطیوں
کی وجہ سے ہوا ہے۔ مگر ہم ہر وقت اسے نصیب کا نام دے کر خود کو محفوظ سمجھ
لیتے ہیں۔ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ اشرف کا مطلب بڑا اور مخلوق کا مطلب
خلق کی گئی شے ہے۔ اور جب ہم اس چیز پر انحصار کرتے ہیں جس چیز سے ہم خود
افضل ہیں۔ تو پھر ہماری کامیابی کا معیار بھی وہیں پر رک جاتا ہے۔ خدا سے
بڑا تو کوئی نہیں ہے۔ اور جب خدا اپنے بارے میں یہ فرماتا ہے کہ اے میرے
بندے میں تیرے گمان کے مطابق ہوں۔ تو جب پوری کائنات کا مالک خود کو اپنے
بندے کے گمان میں ڈھال لیتا ہے تو پھرکیا اس کے لئے اس کا نصیب وہ اس کی
مرضی سے منتخب نہیں کرے گا۔ جسے وہ اپنا نائب بنا چکا ہے۔ ہمارا آج المیہ
یہ ہے کہ ہم خود کو بغیر کسی مصروفیت کے بہت مصروف سمجھتے ہیں۔ اور دانا
بھی یہی کہتے ہیں کہ فارغ مصروف بہت زیادہ مصروف ہوتا ہے۔ کیونکہ اسے اپنی
اس فارغ مصروفیت سے فراغت ہی نہیں ملتی۔ جب بھی کسی ایسے شخص سے ملاقات
ہوتی ہے جو خود سدھرا ہوا ہوتا ہے یا پھر حالات کی تلخیوں نے اس کے مزاج کی
لذت کو متوازن کر دیا ہوتا ہے۔ تو پھر اپنی طرف بھی سوچ اس طرح مبذول ہوتی
ہے جیسے میں نے اپنی زندگی کا مقصد ابھی تک حاصل ہی نہیں کیا۔ کھلی کتابیں
ہمیشہ اپنا اثر چھوڑتی ہیں۔ اور خصوصاََ اگر وہ فلسفہ سے بھری ہوئی ہوں۔
کیونکہ فلسفہ تو لکھا ہی خونِ جگر سے جاتا ہے۔اور خون نہ خود کو کبھی معاف
کرتا ہے اور نہ ہی دوسرے کو ، بس بھلا دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی حالات ایسے
ہوتے ہیں کہ عقل سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے، شدت بلندیوں تک پہنچ جاتی ہے اور
خماری تو جیسے بیدار ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ مگر اس کے پیچھے بھی ہماری
اپنی ہی مزاجی کیفیت پوشیدہ ہوتی ہے۔ بات صرف ہماری پختگی کی ہے کہ ہم کسی
بھی معیار کا کتنا معیار مقرر کرتے ہیں۔ اگر کسی کی زندگی دکھوں سے بھری ہے
تو یقینا اس نے بھی کسی کی زندگی کو دکھوں سے بھرا ہو گا یا پھر وہ خود کو
اس کے بعد بہت بڑی خوشی میں مصروف پائے گا۔ آزمائش بھی تب شروع ہوتی ہے جب
ہم توکل کا صحیح معیار نہیں سمجھتے۔ کسی چیز کی خواہش خدا کے سامنے ظاہر کر
کے اسے پھر کسی دوسرے در سے بھی تلاش کرنے لگ جاتے ہیں اور ہم خود اس تلاش
کے لئے بھی کچھ نہیں کرتے۔ بقو علامہ اقبالؒ
توکل اس کو کہتے ہیں کہ خنجر تیز رکھ اپنا
پھر اس خنجر کی تیزی کو مقدر کے حوالے کر
زندگی اگر کسی ایک مقام پر رکنا ہوتی تو یقینا یہ اسی مقام پر رکتی جہاں پہ
خود زندگی کو تکلیف پہنچتی ہے۔ اور جب اْسے کسی ایسے کے نام کر دیا جاتا ہے
جسے اْس کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ مگر زندگی نے اپنا نام بھی "دکھوں کا
ڈھیر"رکھا ہے۔ کیونکہ ڈھیر کو چھوٹی چھوٹی چیزیں ڈھیر نہیں کر سکتیں اور
زندگی کی بجائے ا س زندگی کے مالک لوگ ہی ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ بات صرف ہماری
اپنی جستجو اور جد و جہد کی ہے کہ کیا ہم نے وہ تمام کام جو ہم کرنے کی
جرات نہیں رکھتے ، نصیب کا نام دیکر چھوڑ دینے ہیں یا کہ پورے عزم و حوصلے
کے ساتھ انہیں بخوبی سر انجام دیناہے۔ جب ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے
ہوئے ہم ساتھ یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ ہم ہی سب سے بلند و بالا ہو جائیں
اور ہم ہی علم و سخن میں سب کے استاد بن جائیں تو پھر ہمیں اپنی سوچ کو بھی
بدلنا ہو گا۔ اور ان کھوکھلی جڑوں کو بھی کاٹنا ہو گا جو کہ عرصہ دراز سے
زمین میں دھنسی ہوئی ہیں۔ کیونکہ جو زمین میں ہے وہ پرواز نہیں کر سکتا اور
ساری عمر ہی اپنی قسمت کو روتا رہتا ہے۔ کہ میرا تو نصیب ہی ایسا تھا
حالانکہ کہ غلطی نصیب کی نہیں بلکہ ہماری اپنی ہے۔ بقول علامہ اقبال ؒ
جہاں میں لذتِ پرواز حق نہیں اس کا
وجود جس کا نہیں جذبِ خاک سے آزاد
آج وقت ہے کہ ہم خود کو بدلیں ، اپنی سوچ کو بدلیں اور اپنے اعمال کو بہتر
کریں کیونکہ اگر ایسا نہ ہواتو پھر ہم بھی درخت کی طرح مرغ ِصحرا سے صرف
شکایت ہی کرتے رہیں گے کہ کاش خدا مجھے بھی بال و پر عطا کر دیتا۔ اقبال ؒ
بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اب جاگ جاؤ اور اپنی خودی کو پہچان کر اپنے
مخالفین کو شکست دو کیونکہ اگر تم ابھی بھی اس گہری نیند سے نہ جاگے تو پھر
ہمیشہ کے لئے سْلا دئیے جاؤ گے۔ |
|