شکرہے اﷲ کا کہ پاپڑ ، نمکو یا
چیونگم بیچنے والوں والوں کی طرح مشورے دینے والے بھی گاڑی میں چڑھ کر آواز
نہیں لگاتے کہ لے لو جی ، لو جی مفت مشورے لے لو۔ بالکل مفت۔ فائدہ نہ ہوتو
قیمت واپس۔ اب سوچا جائے کہ مشورہ مفت بھی ہے اور قیمت بھی واپس ہونی ہے تو
قیمت کس قسم کی ہو گی۔ بہت سوچا تو یہی خیال ہو ا کہ جب مشورہ عمل کے قابل
نہ ہوگا، یا عمل پذیر ہو کر فائدہ نہیں دے گا تو مشورے دینے والا اب خود
تیار ہو گا کہ اسکو مشوروں کا پٹارہ حوالہ کیا جائے کہ اب وہ ان سب مشوروں
پر فرداً فرداً عمل کرے۔ اور ہر کوئی اسکے سر پر کھڑا ہو کر مشوروں پر عمل
کرائے۔ (اس کو پرندہ مت سمجھ لیں ، سر پر اور کھڑا ہونا، کہ کھڑے ہونے کے
لیے ٹانگوں کا استعمال ضروری ہے )۔
مشورہ مجھے بھی چاہئے تھا کہ میں کیا کروں کیونکہ میں فارغ رہ رہ کر کسی
برگد کے درخت کی طرح بور ہو چکا تھا۔اسلیے اپنے دماغ کی ڈائریکٹری کو
کھنگالنا شروع کیا۔ایک سے بڑھ کر ایک نام سامنے آتے گئے جو کہ مجھ سے بھی
بڑے ویلے تھے۔خیال آیا کہ اگر ان سے مشورہ لینا شروع کر دیا تو یہ تو جومیں
دو چار منٹ اپنے قیمتی وقت سے مصروفیت کے نکال لیتا ہوں کہیں ان سے بھی نہ
رہ جاؤں۔
لیکن کیا کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں نہ کہ قسمت اور گاہک بنا بتائے کسی وقت بھی
آجاتے ہیں تو میری قست بھی ایک دم جاگ اٹھی۔ میں اپنے خیالوں میں گم بیٹھا
تھا بلکہ لیٹا تھا اور خیالی پلاؤ کے ساتھ ہوائی قلعے بھی تعمیر کر رہا تھا
کہ ایک دھماکے سے دروازہ کھلا۔ ایک طوفان کی آمد ہوئی۔ طوفان کیا تھا
سونامی اور ریٹا بھی اسکے آگے شاید ہاتھ باندھ کر چلیں۔ خیر طوفان ایک
انسان کی شکل میں تھا جو کہ کسی نہ کسی طور میرا کزن لگتا ہے۔ نعرے مارتے
ہوا اور اچھلتے کودتے ہوئے میرے بستر کی پائینتی پر تھوڑا سا ٹکا لیکن پارے
کی طرح کسی پل چین نہ آرہا تھا۔ ساتھ میں اسکا پیٹ بھی تھرک رہا تھا کہ
کوئی بات اسکا پیٹ پھاڑ کر باہر آنے کو بے قرار تھی۔خدا خدا کرکے اسکو
تھوڑا سا قرار ہوا۔ سنبھل کر کرسی پر بیٹھا۔ پھر اسنے اپنا منہ کھولا، چیک
کروانے کے لیے نہیں نہ ہی زبان دکھانے کے لیے بلکہ کچھ اگلنے کے لیے۔ اوہو
، آپ لوگ دل کیوں خراب کرتے ہیں، اس نے وہ بات اگلنی تھی جو کہ اسکے پیٹ کو
پھاڑ کر باہر آنے کو تیار تھی۔
اﷲ اﷲ کرکے اسنے جو الفاظ جوڑے انھیں سن کر تو مجھے لگا کہ غالب، میر ، درد
اپنی قبر میں کروٹیں بدلنے پر مجبور ہو گئے ہوں گے اور احمد فراز مرحوم کے
لواحقین کو اپنے گھر میں دل کے دورے پڑ رہے ہوں گے۔ کیونکہ موصوف نے ایک
عدد غزل اپنی غزل کے لیے لکھ ماری تھی۔ جس کا بحر بحرالکاہل سے بھی گہرا
تھا۔ قافیہ سمجھنا زیادہ مشکل تھا جبکہ تورا بورا کے پہاڑوں میں اسامہ بن
لادن کو ڈھونڈنا آسان۔ اور صرف آخری حرف ملتا تھا ورنہ باقی سب جلتا تھا۔
ردیف کی تکرار ایسی تھی جیسے نصرت فتح علی خان راگ درباری یا ملہار کی
گردان شروع کر دے۔ اور پھر آگے آپ خود سمجھ دار ہیں۔ مجھے لگا کہ میں جو
عرصہ دراز سے نیند میں تھا جاگ گیا ہوں کیوں کہ مجھے بار بار جھٹکے لگ رہے
تھے۔ شاید کوئی یقین نہ کرے کہ اسنے اپنے ہر شعر کو اس طرح پڑھا کہ ہر
مصرعہ وزن میں (اگرچہ ایک مصرعہ قارون کا خزانہ تھا تو دوسرا رائی کا دانہ
) یوں دوسرے مصرعے کے برابر ہوتا کہ بے اختیار عیش عیش (عش عش نہیں) کرنے
کو جی چاہتا کہ کاش اسکی غزل میں ہوتا۔
بڑی مشکلوں سے اسکی چار شعروں پر مشتمل غزل ختم ہوئی تو میں نے جو اس سے
پہلی بات کی کہ اسکے پاس کوئی ڈسپرین کی گولی ہے ایک نہیں دو۔ تو کہنے لگا
کیوں اتنی ہی بری تھی اسکی غزل کہ سر میں درد ہو گیا۔ میں نے کہا کہ قصور
اسکی غزل کا نہیں وہ تو سراپا غزل ہے جب چلتی ہے تو بے اختیار ہرن یاد
آجاتا ہے، جب نظر اٹھا کر دیکھتی ہے تو جنگل میں کالی اندھیری پھیلی ہوئی
نظر آتی ہے، جب گیلی زلف کو جھٹکتی ہے تو گھنگھور گھٹا چھائی ہوئی دکھتی ہے۔
اس نے تڑ سے کہا کہ ارے میں اس غزل کی بات کر رہا ہوں جو کہ کاغذ پر لکھی
ہوئی ہے نہ کہ اس غزل کی پشاور میں رہتی ہے۔ میں نے کہا کہ جو کچھ لکھا ہے
نہ لکھتے بس اپنی غزل سے ملا دیتے تو ایک ہی بات تھی۔وہ اس بات پر ناراض ہو
گیا۔ اور منہ بسور کر اٹھ کر چلا گیا۔ لیکن جاتے جاتے وہ بات کر گیا جو کہ
میری قسمت بدل گیا۔ اسنے کہا کہ خود تو لکھ نہیں سکتا تو دوسروں کے لکھے پر
تنقید کرتا ہوں۔ کیونکہ حسد کرتاہوں، اور یہ بھی کہا کہ تب ہی غزل کا پہلا
شعر پڑھتے ہی جلنے کی بوآنا شروع ہو گئی تھی۔
یہ تو مجھے نہیں معلوم کہ جلنے کی بو آئی تھی کہ نہیں لیکن ایک خوشبو ضرور
دماغ کو معطر کر گئی۔ وہ خیال کی خوشبو تھی، پروین شاکر کے شعری مجموعے کی
نہیں۔ خیال یہ آیا کہ کہیں پر پڑھا تھا کہ اگر کوئی نو (9) کتابیں پڑھ لے
تو دسویں کتاب لکھ سکتا ہے۔ اگر میرا یہ کزن بغیر کسی کی رہنمائی کے چار
گھنٹے لگا کر چار اشعار پر مشتمل ایک غزل لکھ سکتا ہے تو میں تو بہت سی نو
عدد کتابیں پڑھ چکا ہوں۔ میں کتنی ہی دسویں کتابیں لکھ سکتا ہوں۔بس اسکا یہ
طنزیہ مشور ہ میرے لیے وقت گزاری کا مرہم بن گیا۔ اور میں نے بلاواسطہ کتاب
لکھنے کا ارادہ شروع کر دیا۔
پیارے ہموطنو! میں آج آپ کو ایک نئے لکھاری سے ملانے جا رہا ہوں۔۔۔۔ کوئی
ستر، اسی کتابیں شروع کیں، سب کا آغاز کچھ اس جملے سے ملتا جلتا ہوتا۔ گو
کہ ٹائٹل جدا ہوتا لیکن اسکا بنیادی خیال ایک ہی ہوتا کہ میں خود کو ایک
ہیرو تصور کرتا اور ہیروئن کی تلاش میں قلم دوڑاتا۔ کبھی بھی دوسرے صفحے سے
تیسرا صفحہ نہ ہوا۔ میں نے بھی ہمت نہ ہاری۔ ایک دن لکھتے لکھتے غزل لکھ
ماری۔ کالج کا زمانہ تھا، آتش جوان تھا۔ سابقہ صوبہ سرحد کے مشہور شاعر
غلام محمد قاصر صاحب ہمارے کالج میں اردو کے پروفیسر تھے۔ انکو غزل زبردستی
دکھائی گئی (میرے ایک دوست نے میری نوٹ بک سے کاپی کر کے یہ کام کیا تھا)
تو اگلے دن ان کی کلاس میں جو میری کلاس لگی اسکی روداد اگر بیان کر بیٹھا
تو پوری ایک رپورتاژ بن جائے گی۔ خیر سارے جہاں سے اچھا ہے یہ گرم خون
ہمارا، ہم بھی لکھتے رہے ، وہ تکتے رہے، ہم لکھتے رہے وہ جہاز بنانے کے لیے
باقی کلاس کو میرے صفحے تھماتے رہے۔ اگر ہمت ہار بیٹھتے تو آج یوں آپ کے
سامنے یہ سب کچھ نہ لکھ رہے ہوتے۔
توحضرات کہنا صرف یہ تھا کہ کبھی کبھی مفت مشورہ بغیر مانگے ہوئے بھی کام
کر جاتا ہے۔ بشرطیکہ آپ اسکو دل پر لے لیں۔ ویسے ہر بات دل پر نہیں لی جاتی۔
کیونکہ
کچھ باتوں کو بے پرکی میں اڑا دینا
دل پر لوگے ، تو جان سے جاؤ گے۔۔۔ |