مصیبت کے وقت ہر انسان کی مدد کرنا مسلمانوں کا امتیازی وصف ہے

باسمہ تعالیٰ

ہندستان کے بعض علاقوں اور نیپال وغیرہ ۲۵؍اپریل ۲۰۱۵ء اورما بعد آئے شدید زلزلوں نے وہاں کے لوگوں کی زندگی کو متزلزل کر دیا ہے۔لوگوں کا تین دن کے بعد بھی کہنا ہے کہ اس وقت بھی گویا یوں لگتا ہے کہ ہمارے آس پاس کی تمام چیزیں ہل رہی ہیں۔ اس حادثے میں کتنے توجاں بحق ہو گئے اور کتنے ایسے ہیں کہ اپنے عزیز و اقارب کے غم میں نڈھال ہیں، ان مختصر سے وقت کے لیے آئے زلزلوں نے ہزاروں گھر اجاڑ کر رکھ دیے اور سیکڑوں محلّوں کو تہ و بالا کرکے لوگوں کے لیے عبرت کی گاہ بنا دیا۔ اس موقع پر وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے اس آفت سے محض اپنے فضل و کرم سے محفوظ رکھا ، ان پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے ان بندوں اور حالات کے ماروں کے غم میں شریک ہوں اور ان کی ہر ممکن مدد و تعاون کریں نیز ان کے حق میں بارگاہِ الٰہی میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ انھیں اس کا نعم البدل عنایت فرمائےاور صبرِ جمیل سے نوازے۔ (آمین)

حکومتی سطح پر اس جانب بعض مناسب اقدام کیے جا رہے ہیں اور جگہ جگہ زلزلہ متاثرین کے لیے پناہ گذیں کیمپ بھی نژب کیے گئے ہیں اور راحت کیمپ میں مفت میڈکل سہولیات اور طعام وغیرہ کا بھی انتظام کیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جن کی دنیا اجڑ گئی ان کے لیے یہ چند چیزیں کچھ اہمیت نہیں رکھتیں، لیکن ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ذاتی طور پر بھی اس طرح کی گو نا گو خدمات فراہم کرنے کے لیے خود کو پیش کریں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم مذہبی رواداری اور انسان دوستی کا ثبوت دیں اور اپنے بھائیوں کی مصیبت میں ان کا دست و بازو بن کر کھڑے ہوں اور اس بات کا خصوصیت سے خیال رکھیں کہ اس خیر کے کام کے لیے جنھیں وکیل بنائیں خوفِ خدا رکھنے، والے قابلِ اعتماد افراد ہوں، اس لیے کہ ایسے تباہی کے موقعوں پر بھی بعض بے ضمیر لوگ اپنی جیب گرم کرنے سے باز نہیں رہتے!

ہم اس موقع پر سیرتِ محمدیﷺ کے ایسے چند گوشوں کا ذکر کرنا چاہتےہیں، جن سے لوگوں میں مصیبت زدوں اور حالات کے ماروں کے تئیں ہمدردری اور تعاون کا جذبہ پیدا ہوگا۔ اگر آپ بغور سیرتِ رسولﷺ کا مطالعہ فرمائیں تو محسوس ہوگا کہ سیرتِ رسولﷺ کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ آپﷺ نے بحیثیت ایک پیغمبر اپنے پیروکاروں کو جو نصیحتیں فرمائیں ان سب پر اولاً خود عمل کر کے دکھایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک ملاقات میں علامہ سید سلیمان ندویؒ کے اس سوال پر کہ بقول آپ کے ہندو مذہب اتنا قدیم و پرانا ہے اور ہمارا مذہبِ اسلام جسے صرف تقریباً چودہ سو سال ہوئے ہیں، دنیا میں سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر رائج کیوں ہے؟ربندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا ’’مولانا آپ کو ہیرو ملے ہیں، جنھوں نے جو کہا پہلے اس پر خود عمل کرکے دکھایا، ہمیں ایسے ہیرو نہیں ملے۔ ہمارے یہاں تھیوری تو ہے پر اس کی عملی مثال مفقود ہے‘‘۔
واقعی یہ ناقابلِ انکار حقیقت ہے لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم اس پر فخر تو کر تے ہیں مگر دورِ حاضر میں اس کی ادنیٰ مثال پیش کرنے کا جگر نہیں رکھتے۔رحمۃ للعالمین حضرت محمدﷺ جب ضرورت پڑتی تو لوگوں کے بہت سارے کام کردیتے تھے، بازاروں سے ان کا سودا لا دیتے، غریبوں کی امداد کرتے،ضرورت مندوں کو قرض دیتے یا اپنی سفارش پر کسی سے دلوا دیتے، بسا اوقات ان کے قرض خود ادا کردیتے، بھوکوں کو کھانا کھلاتے، یتیموں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھتے، بیواؤں کی کفالت کرتے، غلاموں کی آزادی کی تدبیریں کرتےاور کمزور طبقوں کو اونچا اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔مختصر يہ کہ آپ ﷺہر وہ کام کرتے تھے جس کی صالح معاشرے کی تعمیر میں ضرورت ہوتی ہے، لیکن ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو ہماری زندگیاں ان بلند و بالا اخلاق سے یکسر خالی ہیں۔

رحمۃ للعالمینﷺ نے اپنے امتیوں کو جن اعلیٰ تعلیمات سے نوازا من جملہ ان کے ایثار و ہمدردی کی تعلیم بھی ہے۔ آپﷺ نے اس کی تعلیم ہی نہیں دی بلکہ اپنی ذات مبارک میں اس کا بہترین نمونہ بھی پیش کیا۔ جگر گوشۂ رسول سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپﷺ کو جو محبت تھی جگ ظاہر ہے مگر انھوں نےنہایت عسرت و تنگدستی میں جب کہ چکی پیستے پیستے ہتھیلیوں پر نشان اور مشک میں پانی بھر بھر کر لانے سے سینے پر نیل پڑجاتے تھے، حاضرِ خدمت ہو کر ایک خادمہ کی خواہش ظاہر کی تو ارشادِ رحمتﷺ ہوا ؛ اے فاطمہ! اب تک صفہ کے غریبوں کا انتظام نہیں ہوا ہے، میں تمھاری خواہش کیسے پوری کروں؟ ایک روایت میں ہے آپﷺ نے ارشاد فرمایاکہ یتیمانِ بدر تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ ہم غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس قدر نعمتوں سے نوازا ہے کیا ایسے میں ہماری یہ ذإے داری نہیں بنتی کہ ہم اپنے بھائیوں کے کام آئیں۔ گھر کے پُرانے برتن اور اُترن نکال کر دے دینا زیاہ مشکل نہیں، اسی بہانے گھر کی صفائی بھی ہو جاتی ہے لیکن کیا صرف اتنا کرنے سے کسی ایک گھرانے کی زندگی میں بھی سُدھار آ سکتا ہے؟جس خدا نے ہمیں اتنا سب دیا ہے کیا ہم اس کے بندوں کے لیے ذرا بھی کچھ ایثار نہیں کر سکتے؟

ایک المیہ ہمارے ساتھ یہ ہے کہ ہمارے یہاں نیک و بہتر انسان اسے سمجھتے ہیںجو زیادہ سے زیادہ نوافل کا اہتمام کرتا ہو، بلاشہ یہ ایک مستحسن عمل ہےلیکن صرف یہی تو دین نہیں!اسلام تو ہمیں اس شاہ راہ پر چلنے کی دعوت دیتا ہے جس پر بنفسِ نفیس محسنِ انسانیت، رحمۃ للعالمین ﷺ گامزن تھے۔ دیکھیے اللہ تعالیٰ نے کس قدر واضح انداز میں نیکی کی تعریف بیان فرمائی ہے:
’’نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی نازل کردہ) کتاب پر اور نبیوںپر ایمان لائے، اللہ کی محبت میں(اپنا) مال قرابت داروں، یتیموں، محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والے(یعنی ضرورت مندوں) اور غلاموں کی آزادی پر میں خرچ کرے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکاۃ دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں، سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی متقی ہیں۔‘‘(سورہ بقرہ: ۱۷۷)

اس ارشادِ ربانی نے اصل نیکی کے مفہوم کو پورے طور پر اضح کر دیا، جس میں حتی المقدور بلا تفریق ہر ایک ضرورت مند کی حاجت براری کرنا بھی داخل ہے۔اس آیتِ مبارکہ میں محض عبادات کو نیکی تصور کرنے کی بھی تردید کر دی گئی اور صرف سماجی خدمات کو نیکی سمجھ لینے کی بھی۔ممکن ہے کسی کو اس موقع پر یہ اشکال ہو کہ یہاں جن لوگوں کا ذکر ہے ان سے مُراد صرف مسلمان ہیں، تو واضح رہے کہ اسلام انسانیت کے ناطے تمام بندوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے بجز چند معاملات کے۔ جیسے اسلام میں زکاۃ کے ادا کرنے کے لیے تو یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ جسے زکاۃ دی جائےوہ مسلمان ہو لیکن نفلی صدقات کے لیے اس طرح کی کوئی شرط نہیں لگائی گئی، اس لیے نفلی طور پر اس مَصرف میں خرچ کرنا بھی کارِ ثواب ہوگا۔ ان شاء اللہ

علامہ سید سلیمان ندویؒ سیرۃ النبیﷺ( ۶؍۱۶۲)میں لکھتے ہیں:
اسلام کا یہ عام فلسفہ ہے کہ زکاۃ کے علاوہ دوسرے عام صدقے غیر مسلموں کو دیے جا سکتے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے ایک یہودی خاندان کو صدقہ دیا، ام المؤمنین حضرت صفیہؓ نے اپنے دو یہودی رشتے داروں کو تیس ہزار کی مالیت کا صدقہ دیا، امام مجاہدؒ نے مشرک رشتے دار کا قرض معاف کرنے کو بھی ثواب کا کام بتایا ہے ، ابن جریح محدثؒ کہتے ہیں کہ قرآن نےسورہ دہر میں ’اسیر‘ کے کھلانے کو ثواب بتایا ہے اور ظاہر ہے کہ صحابہ کرامؓ کے قبضے میں مشرک ہی قید ہوکر آتے تھے۔ خود آنحضرت ﷺ نے بعض صحابہؓ کو اُن کے مشرک والدین کے ساتھ صلہ رحمی کی اجازت دی ۔ تفسیر کی روایتوں میں ہے کہ جب صحابہ کرامؓ مذہبی اختلاف کی بنا پر غریب مشرکوں کی مدد سے کنارہ کرنے لگے تو یہ آیت اُتری:’’ان کو راہ پر لے آنا تمھارے اختیار کی بات نہیں لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے راہ پر لے آتا ہے اور جو بھلائی(مال) تم خرچ کرو وہ تمھارے لیے ہی ہے۔‘‘ (سورہ بقرہ: ۳۷)یعنی تم کو تمھاری نیکی کا ثواب بہر حال ملے گا۔

مصیبت و آفت کے وقت میں بلا تفریقِ مذہب ہر انسان کی مدد کرنا اور ہمدردری و تعاون کا معاملہ کرنا مسلمانوں کا امتیازی وصف ہے، جس کی متعدد مثالیں رحمۃ للعالمینﷺ کی سیرتِ مبارکہ میں موجود ہیں یہاں ایک کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے؛’’ایک سال مکہ مکرمہ کے لوگ قحط کا شکار ہوئے تو حضرت نبی کریمﷺ نے ابو سفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ کے پاس پانچ سو درہم روانہ کیے تاکہ وہ مکہ مکرمہ کے ضرورت مندوں اور محتاجوں میں تقسیم کردیں۔‘‘ (رد المحتار، کتاب الزکاۃ)

جو لوگ سیرتِ نبویﷺ کی ادنیٰ معلومات بھی رکھتے ہیںوہ جانتے ہیں کہ اہلِ مکہ نے آپﷺ پر کس قدر ظلم ڈھائے تھے، لیکن یہ رحمۃ للعالمینﷺ کی رحمت تھی کہ مصیبت کے وقت میں خود آگے بڑھ کر ان کی امداد کی۔ ہمدردی و روادار کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ اہلِ اسلام پر مظالم کے مختلف النوع پہاڑ توڑنے کی یوں مدد کی جائے، اس لیے ہمیں بھی رحمۃ للعالمینﷺ کے اس مبارک عمل کی ڪاتباع کرنی چاہیےاور زلزلہ متاثرین کی بڑھ چڑھ کر امدادکرنی چاہیے۔ اس کے بعد بھی مذہبی و اعتقادی یا کسی اور اختلاف کے باعث آپ کے دل پر کوئی کدورت چھائی ہوئی ہو تو دل کو یہ کہہ کر سمجھا لیں؛
وہ ظرف تمھارا تھا، یہ ظرف ہمارا ہے
Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 347247 views (M.A., Journalist).. View More