محمد رفیق اعتصامی
ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ یقینا تمہارے لئے رسول اﷲ ﷺ میں عمدہ نمونہ( موجود)
ہر اس شخص کیلئے جو اﷲ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتاہے اور
بکثرت اﷲ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے ‘‘( الا حزاب :۲۱) آنحضرت ﷺنے اپنے قول و
عمل سے ہرشعبہ زندگی میں امت کی رہنمائی کی اور اﷲ تعالیٰ کا پورا دین
لوگوں تک پہنچایا۔ آخری حج کے موقعہ پر آپﷺ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ کیا
میں نے تم تک اﷲ تعالیٰ کا دین پہنچادیا ہے تو سب نے جواب دیا اے اﷲ کے
رسولﷺ !آپ نے دین ہم تک صرف پہنچایا ہی نہیں بلکہ اسے پہنچانے کا حق ادا کر
دیا ہے یہ سن کر آپﷺ نے تین بار یہ فرمایا ’’ اے اﷲ تو گواہ رہ ، اے اﷲ تو
گواہ رہ، اے اﷲ تو گواہ رہ!! اس موقعہ پر قرآن پاک کی یہ آیات نازل ہو گئیں’’
آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تمہارے لئے اپنی نعمت پوری کر
دی اور اسلام کو بطور دین تمہارے لئے پسند کیا ‘‘(المائدہ :۳)۔
سوال یہ ہے کہ جو پورا دین آپﷺ نے امّت تک پہنچایا تھا وہ اب تک محفوظ چلا
آرہا ہے یا اس میں کوئی تحریف ہو چکی ہے تو جواب یہ ہے کہ وہ اب تک اسی طرح
محفوظ ہے جیسا کہ آپ نے پہنچایا تھا اور تا قیامت محفوظ رہے گا مگر اس میں
بہت سے فرقے پیدا ہو چکے ہیں۔ اسی لئے جب آپﷺ سے پوچھا گیا کہ اسلام کے
متعدد فرقوں میں سے کونسا فرقہ نجات یافتہ ہے ؟ تو آپﷺ نے ما انا علیہ و
اصحابی یعنی جس پر میں اور میرے صحابہ کرامؓ ہیں۔ یعنی وہ فرقہ جسے اہل
سنّت والجماعت کہا جاتا ہے۔
آنحضرتﷺ اور صحابہ کرامؓ کا ہر ہر عمل خواہ وہ عقائد ہوں یا اعمال کتب
احادیث میں محفوظ ہیں سوال یہ ہے کہ حدیث کسے کہتے ہیں اور اسکی تعریف کیا
ہے؟ تو لغوی معنوں میں حدیث بات گفتگو اور نئی چیز کو کہتے ہیں اور اصطلاحی
معنوں میں حدیث کی تعریف یہ کہ’’حدیث وہ ہے جو نبی اقدسﷺ کی طرف منسوب ہو
یعنی جس میں نبی اقدسﷺ کے اقوال و افعال و تقریرات کا ذکر ہو‘‘(حافظ ابن
حجرؒ فتح الباری) اور علّامہ طیبیؒ فرماتے ہیں کہ حدیث عام ہے کہ نبی اکرمﷺ
کا قول فعل ،تقریر ہو یا صحابہ و تابعین رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے اقوال و
افعال و تقریرات ہوں(تدریب الراوی ص:۱)
احادیث کی متعدد کتابیں ہیں جن میں سے چھ کتابیں جنہیں صحاح ستّہ کہا جاتا
ہے خاص طور پر قابل ذکر ہیں یعنی صحیح بخاری، صحیح مسلم،سنن نسائی،جامع
الترمذی،سنن ابوداؤد اور سنن ابن ماجہ اور بعض علماء سنن ابن ماجہ کی بجائے
موطّا امام مالک کو شامل کرتے ہیں۔اسی طرح حدیث کی بہت سی قسمیں ہیں یعنی
حدیث مرفوع، حدیث موقوف،مقطوع،حدیث متواتر،مشہور، عزیز، غریب،حدیث
ضعیف،مدلّس،معلّق اور منقطع وغیرہم۔ انکی تعریف اصول حدیث کی کتب میں دیکھی
جاسکتی ہیں یہاں انہیں بخوف طوالت ذکر نہیں کیا جا رہا، صرف تھوڑی سی تشریح
بیان کی جائے گی:۔
حدیث مرفوع وہ حدیث ہے جسکی سند آنحضرتﷺ تک پہنچتی ہو اور اس میں آپ کا
قول،فعل یا آپکی تقریر کا بیان ہو اور تقریر سے یہاں مراد یہ ہے کی کسی
صحابی نے آپکے سامنے دین کا کوئی کام کیا اور آپ اسے دیکھ رہے تھے مگر آپ
نے اسکے اس فعل میں کوئی غلطی نہیں نکالی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کام
صحیح ہے اور اسکی آپ ﷺ طرف سے اجازت ہے۔
حدیث موقوف وہ حدیث ہے جسکی سند کسی صحابیؓ تک پہنچتی ہو اور اس میں اس
صحابی کا قول و فعل بیان کیا گیا ہو۔اور مقطوع وہ حدیث ہے جس میں کسی تابعی
کا قول و فعل بیان کیا گیا ہو۔لہٰذا حدیث کے دو حصے ہیں (۱) سند حدیث(۲)متن
حدیث، مثلاً امام بخاریؒ ایک حدیث بیان کرتے ہیں کہ’’ ہم سے حدیث بیان کی
حمیدی نے وہ کہتے ہیں کہ ہم سے یہ حدیث بیان کی سفیان نے، سفیان کہتے ہیں
کہ ہم سے حدیث بیان کی یحییٰ بن سعید الانصاری نے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس
حدیث کے بارہ میں بتایا محمد بن ابراہیم التیمی نے ، انھوں نے ابن وقاص
اللیثی سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے حضرت عمر بن خطّابؓ سے سنا وہ ممبر پر
یہ کہہ رہے تھے کہ میں نے نبی پاکﷺ سے سناہے وہ فرما رہے تھے کہ اعمال کا
دارومدار نیّتوں پر ہے اور انسان کیلئے وہی ہے جس کی اس نے نیّت کی پس جس
شخص نے اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی طرف ہجرت کی( یعنی انکو پانے کی نیت کی) تو
اسکی ہجرت اﷲ اور اسکے رسولﷺ کی طرف ہے(یعنی اسے ا ﷲ اور اسکے رسولﷺ مل
جائیں گے) اور جس نے دنیا کو حاصل کرنے یا کسی عورت کہ پانے کی نیت کی تو
اسے اس کی نیت کے موافق اجر ملے گا۔( اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا)
اس میں’’ہم سے حدیث بیان کی سے لیکر حضرت عمر بن خطّابؓ تک سند حدیث ہے اور
اس آگے جو آنحضرتﷺ کا فرمان ہے وہ متن حدیث ہے۔(ماخوذ از قطرات العطرشرح
نخبتہ الفکر)
اس حدیث میں امام بخاری ؒ نے اپنے زمانے کے جس استاذ سے یہ حدیث پڑھی ہے اس
کا نام انھوں نے اس سند میں درج کیا ہے پھر انھوں نے اپنے استاذ کا پھر
انھوں نے اپنے استاذ کا نام بتایا اس طرح یہ سلسلہ چل کر خلیفہ دوم حضرت
عمربن خطّابؓ پر ختم ہوا پھر انھوں نے آنحضرت ﷺ کا فرمان نقل کیاہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب امام بخاریؒ نے تمام لوگوں کا نام بتا دیا تو بات
ختم ہو جانی چاہئے تھی کہ وہ غلط بیانی سے کام تو نہیں لیں گے مگر ابھی
نہیں اب جتنے لوگوں کے نام اس سند حدیث میں بیان ہوئے ہیں ان سب کی خفیہ
تحقیق ہے کہ یہ کیسے لوگ تھے ان میں کوئی اخلاقی برائی تو نہیں تھی وہ جھوٹ
تو نہیں بولتے تھے؟(یعنی صفت عدل) اور دوسری بات یہ کہ انہیں نسیان کا
عارضہ تو نہیں تھا کہ بات کرتے وقت بھول جاتے تھے اور کچھ کا کچھ کہہ دیتے
تھے؟(یعنی صفت ضبط) اگر یہ صفات ان میں موجود ہوں گی تو ان سے حدیث لی جائے
گی ورنہ وہ قابل قبول نہ ہوگی۔ اس تحقیق پر مشتمل لاکھوں راویوں کے حالات
’’ اسماء الرجال‘‘ کی کتابوں مثلاً تہذیب التہذیب ، اور الکمال فی اسماء
الرجال وغیرہم۔ لہٰذا عقائد و اعمال کے بارہ میں وہ حدیث زیادہ قابل ترجیح
اور قابل عمل ہو گی جسکی سند جتنی زیادہ قوی ہوگی یعنی اسکے راویوں کی علمی
و عملی حیثیّت کو دیکھا جائے گا۔
سند بیان کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اگر کوئی شخص یہ دعوٰی کرے یہ حدیث ہے
تو اسے فوراً قبول کیوں نہ کر لیا جائے؟
مگر ایسا کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اگر سند نہ ہوتی تو جس شخص کے جی جو آئے
کہہ دیتا اور اسے حدیث کا نام دے دیتا اورآپﷺ کی ذات اقدس کے بارہ میں ایسی
باتیں منسوب کر دیتا جو آپ نے نہیں کہیں اس لئے یہ متفقہ اصول ہے کہ’’
اسناد دین میں سے ہے اگر سند بیان کرنا نہ ہوتا تو جو چاہتا اپنی پسند کا
کہتا‘‘(مسلم ص۱۲) اور ابن سیرین کہتے ہیں کہ’’ یہ علم دین ہے پس تم دیکھو
کہ کس سے اپنا دین لے رہے ہو‘‘(دارمی ص۶۴۔۶۵، مسلم ص۱۱)
اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ آج کے دور میں کوئی’’ اہلحدیث ‘‘یہ دعوٰی کرے کہ
نماز روزہ یا دیگر اعمال کی ادائیگی کی دلیل یہ حدیث ہے تو اسکی بات کو
آنکھیں بند کر کے تسلیم نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے یہ دریافت کا جائے گا
کہ جو حدیث آپ نے بیان کی ہے وہ سند کے لحاظ سے دوسری حدیث سے کیسے قابل
ترجیح اور قوی تر ہے جس پر دوسرے مسلک والے عمل کرتے ہیں؟اہلحدیث غیر مقلد
یہ کہتے ہیں کہ ہم نبوی نماز پڑہتے ہیں جبکہ امام ابو حنیفہؒ کے مقلدین
’’حنفی نماز‘‘ پڑہتے ہیں اور ہم حدیث پر عمل کرتے ہیں جبکہ یہ لوگ اپنے
امام صاحبؒ کی رائے پر عمل کرتے ہیں، ہم انہیں کہتے ہیں کہ آؤ! حدیث پر عمل
کرو! مگر یہ کہتے ہیں کہ نہیں! ہم تو اپنے امامؒ کی بات پر عمل کریں گے
کیونکہ ہم انکے مقلد ہیں۔
سوال یہ ہے کہ احناف کے بارہ میں جو پروپروپگینڈا اہلحدیث حضرات کرتے ہیں
اس میں کہاں تک صداقت ہے اور کیا فی الواقعی ایسا ہی ہے؟ تو اسکا جواب یہ
ہے کہ یہ ایک بے بنیاد عوٰی ہے جسکی انکے پاس کوئی دلیل نہیں حیرت کی بات
یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے چودہ سو سال سے زائد عرصہ بیت
چکا ہے اس دوران لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کے حساب سے متبحر عالم،شیخ الحدیث،
اولیاء کرام اور اﷲ کے دیگر نیک بندے گذرے مگر کسی ایک شخص کو بھی یہ بات
سمجھ نہیں آئی کہ ایک طرف تو آنحضرتﷺ کی صحیح احادیث ہیں اور دوسری طرف اما
م ابو حنیفہؒ کی ذاتی رائے، تو میں کس پر عمل کروں؟ اور کسی کو بھی یہ خیال
نہیں آیا کہ آپ ﷺ کے فرمان کے آگے امام صاحب کی رائے کی کیا حیثیّت ہے اور
وہ کس کھاتہ میں ہیں؟ امام صاحب نے تو صرف یہ تحقیق کی کہ عقائد و اعمال کی
احادیث میں یہ احادیث سند کے لحاظ سے زیادہ قوی ہیں لہٰذا ان پر عمل کیا
جائے! یہ نہیں کہا کہ’’ احادیث کو چھوڑو اور میری بات پر عمل کرو اور مجھ
سے اسکی دلیل بھی طلب نہ کرو بس جس طرف میں کہتا ہوں آنکھیں بند کر کے ناک
کی سیدھ اسی طرف چلتے جاؤ ‘‘وغیرہ۔
اس طرح کی باتیں کر کے انھوں نے پیروکاروں میں احناف کے خلاف ایک ایسا تعصب
اور اسٹیم بھر دی ہے کہ جہاں کہیں احناف اورغیر مقلد اہلحدیث حضرات کے
درمیان اختلافی مسائل مثلاً فاتحہ خلف الامام، رفع یدین یا آمین با لجہر
جیسے مسائل پر بات چیت ہوتی ہے تو مسلک اہل حدیث سے تعلق رکھنے والے احناف
کی بات سننے کیلئے ہی تیار نہیں ہوتے اور بعض جگہ راقم الحروف نے خو د
دیکھا ہے کہ کچھ نادان اس موقع پر آستینیں چڑھا کر اور گردن کی رگیں پھلا
کر لڑائی پر اتر آتے ہیں اور صاف ہی کہہ دیتے ہیں کہ تمہاری نماز صحیح نہیں
بلکہ تمہارا کوئی عمل بھی سنت کے مطابق نہیں، تم احادیث کو چھوڑ کر صرف ایک
شخص کی رائے پر عمل کرتے ہو اور گمراہ ہو۔
وقت گذرتا رہا کہ اچانک ہندوستان کے چند اعلیٰ تعلیم یافتہ اہل حدیث حضرات
کو یہ خیال آیا کہ یہ کیا!! پوری کی پوری امت مسلمہ سنت کے مطابق نبوی نماز
ادا نہ کر کے گمراہی کی طرف جا رہی ہے جن میں صحابہ کرامؓ، تابعین کرامؓ ،
تبع تابعین ، علماء، صلحاء وغیرہم شامل ہیں تو کیوں نہ انہیں ’’صحیح طریقہ
نماز‘‘ سے آگاہ کر دیا جائے تاکہ باقی لوگ تو اس گمراہی سے بچ جائیں ۔
لہٰذا انھوں نے اعلان کر دیا کہ لوگو! تم جو صدیوں سے نمازیں ادا کرتے چلے
آرہے ہو وہ ساری غلط ہیں کیونکہ تم حنفی نماز ادا کرتے ہو، آؤ ہم تمہیں
بتائیں کہ نبوی نماز کونسی ہے؟ اگر اپنی دنیا و آخرت کی سلامتی چاہتے ہو تو
یہ نماز ادا کرو۔
آپ حیران ہونگے کہ کیا صحابہ کرامؓ کی نمازوں میں بھی غلطی تھی؟ تو انکے
نزدیک ایسا ہی ہے۔ اسکا ثبوت یہ ہے ک جو احادیث مقتدی کو امام کے پیچھے
فاتحہ پڑھنے سے منع کرتی ہیں اور جو اہلحدیث کے نزدیک بھی مسلّم ہیں مثلاً
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کی حدیث (سنن نسائی)، حضرت ابو ہریرہؓ کی حدیث جس
میں یہ الفاظ ہیں کہ’’فا نتھی الناس عن القراۂ خلف رسول اﷲ ﷺ‘‘ کہ لوگ
آنحضرت ﷺ کے پیچھے نماز کی ادایئگی کے وقت سورہ فاتحہ پڑہنے سے رک گئے(جامع
الترمذی)، اور حضرت جابرؓ کی حدیث جس کے یہ الفاظ ہیں کہ’’ من کان لہ امام
فقرا ۂ الامام لہ قراۂ‘‘ کہ جو شخص امام کے پیچھے نماز ادا کرے تو امام کی
قراۂ ہی مقتدی کی قراۂ ہے یعنی امام کی قراۂ مقتدی کو کافی ہے(سنن ابن
ماجہ)۔
سوال یہ ہے کہ جن دوچار دس بیس یا کم و بیش صحابہ کرامؓ نے آنحضرت ﷺ کے اس
فرمان پر عمل کرتے ہوئے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی تلاوت نہیں کی توانکی
نمازیں بھی صحیح ادا ہوئیں یا نہیں؟ تو یہ کہتے ہیں کہ نہیں ہوئیں، شاید
انھوں نے بھی نبوی نماز کی بجائے ’’حنفی نماز‘‘ ادا کی ہو گی۔
جو احادیث امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑہنے کے متعلق ہیں تو یہ لوگ ان پر عمل
کرنے کی بجائے ان میں’’تطبیق ‘‘ دے کر انھیں اپنے مسلک کے مطابق فٹ کر لیتے
ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ تطبیق کا حق انہیں کس نے دیا ہے، کیا اﷲ و رسولﷺ
انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے؟ کیونکہ انکا قو ل ہے کہ ’’ اہلحدیث کے دو
اصول، قال اﷲ و قال الرسولﷺ اور قیاس کار ابلیس ہے۔کیا اﷲ و رسولﷺ نے یہ
کہا ہے کہ جو میری صحیح احادیث ہیں ان پر بعینہ عمل کرنے کی بجائے ان میں
تطبیق دے کر انہیں ا پنے مسلک کے مطابق ڈھال لیا جائے؟ |