ہوا زندگی کا پتہ دیتی ہے

آپ تو بہت ہواوں میں اُڑتے ہو۔ہو کے دوش پروغیرہ جیسے جملے سننے کو ملتے ہیں ۔جب غور کرتے ہیں تو پتا چلتاہے کہ واقع ہی یہ ہوا بلند کی طرف لے جاتی ہے ۔وہ کاغذ کا ٹکڑاہویا منوں ٹنوں وزنی ہوائی جہازیہ ہوا اسے بلندیوں پر لے جاتی ہے ۔خیر ہم اپنے موضوع کی جانب آتے ہیں ۔

میں زندہ ہوں ۔زندگی اللہ عزوجل کی نعمت ہے۔کبھی اس جانب توجہ گئی کہ زندہ رہنے کے لیے کن عناصر کی بے حد ضرورت ہے ۔تو ایسے میں دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ بے اختیار ہماری زبان سے نکلتاہے کہ ہوا۔جی ہاں ہواایک اہم عنصر ہے ۔اس میں کچھ شک نہیں ۔میں نے سوچا کیوں نہ اپنے قارئین کو ہوا کی اہمیت افادیت کے متعلق ہی کچھ آگاہ کردوں ۔

ہواؤں کا وجود انسان کے سانس لینے کا مادہ ہے۔ اگر ایک لمحہ کے لئے بھی ہوائیں بند ہو جائیں ۔تو انسان اور حیوان میں سے کوئی ذی روح زندہ نہ رہ سکے۔ انسان اپنی زندگی کی بقاء میں ہوا۔ پانی اور خوراک کا محتاج ہے۔ ان میں سب سے زیادہ احتیاج اور ضرورت ہوا کی ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر کوئی ذی روح ایک پل بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کے بعد پانی کی ضرورت ہے۔ کیونکہ خوراک کی بہ نسبت انسان پانی کا زیادہ محتاج ہے۔ نظامِ قدرت پر غور کیجئے کہ انسان کو اپنی بقاء کے لئے جس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ جس کے بغیر وہ ایک منٹ بھی زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔اس کا حصول اس نے سب سے سہل اور آسان کردیا ہے کہ انسان ہو یا حیوان۔وہ بغیر کسی مشقت کے ہر وقت اور ہر جگہ ہوا کو بآسانی حاصل کرسکتا ہے۔ اس کے حصول کے لئے اس کو نہ کوئی قیمت اور ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ نہ کسی کا زیر احسان ہونا پڑتا ہے۔ پانی کی ضرورت بقائے انسانی کے لئے ہوا کی بہ نسبت کم ہے، اس لئے اس کا حصول بھی اس قدر عام نہیں ہے، تاہم ایک ذی روح دن میں متعدد بار پانی پینے کی ضرورت محسوس کرتا ہے ۔

ہواؤں سے ہم فقط سانس ہی نہیں لیتے۔ دریاؤں میں روانی، سمندروں میں طلاطم، اطراف عالم میں کھیتوں اور باغات کی نشو و نما، سمندروں میں جہازوں کی آمد و رفت؛، بادلوں کی گردش اور بارشوں کا حصول، یہ تمام امور اس صناع مطلق کی پیدا کردہ ہواؤں کے سبب سے ہیں۔ اگر وہ چند ساعتوں کے لئے بھی ہواؤں کو چلنے سے روک لے تو ساری کائنات کا نظام معطل ہوکر رہ جائے گا۔جیسا کہ قران مجید میں ارشاد فرمایامفہوم آیت کچھ اس طرح ہے کہ ''اللہ تعالی کی قدرت پر نشانیوں میں سے ایک نشانی سمندروں میں رواں دواں پہاڑوں کی مانند جہاز ہیں، اگر اللہ چاہے تو ہواؤں کو روک لے اور یہ جہاز سمندر میں کھڑے کے کھڑے رہ جائیں (الشوریٰ)۔نیز فرمایا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے بعض یہ ہیں کہ وہ ایسی ہوائیں بھیجتا ہے، جو تمھیں بارش کی آمد کی خوش خبری دیتی ہیں، تاکہ تم اس سے حظ رحمت لے سکو اور ان ہی ہواؤں سے اس کے حکم سے جہاز چلتے ہیں ۔تاکہ تم (تجارت کے ذریعہ)اللہ کا فضل ڈھونڈ سکو اور اس نعمت پر اس کا شکر ادا کرسکو۔(الروم)

اللہ تعالٰی نے ہوائیں دو قسم کی پیدا فرمائی ہیں، آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ۔ ہم سانس کے ذریعہ آکسیجن لیتے ہیں، پھر ہمارے جسم اور خون میں جو گندے اور زہریلے مادے ہیں، وہ اس آکسیجن کو کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل کردیتے ہیں اور جب ہم سانس باہر چھوڑتے ہیں تو وہ ہوا کاربن سے بھری ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالی نے درختوں میں یہ خاصیت رکھی ہے۔ کہ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرلیتے ہیں۔ اور تازہ آکسیجن چھوڑتے رہتے ہیں۔ غور کیجئے کہ اگر درختوں کا وجود نہ ہوتا یا درختوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے کی خصوصیت نہ ہوتی تو یہ فضاء ہمارے سانسوں کے ذریعہ چھوڑی ہوئی کاربن ڈائی آکسائیڈ سے پراگندہ ہو جاتی ہے۔ سانس لینے کے لئے تازہ آکسیجن کا ملنا محال ہو جاتا اور زہریلی و بدبودار ہواؤں میں ہم گھٹ گھٹ کر مرجاتے۔ ہماری ضرورت کے مطابق درختوں میں کاربن کو جذب کرنے اور آکسیجن کو چھوڑتے رہنے کی خصوصیت ہواؤں میں جو خصوصیات، حکمتیں اور فوائد مضمر ہیں، یہ صرف اور صرف اللہ عزوجل کی قدرت کا ثمرہ ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: اللہ ایسی ہوائیں بھیجتا ہے جو بخارات کو بادل بنادیتی ہیں، ان بادلوں کو فضاء میں پھیلا دیتا ہے جس طرح چاہتا ہے۔ (الروم)

اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتیں انسان کو دی ہیں ان تمام نعمتوں میں سے ہوا ایک خاص نعمت ہے جس کے ذریعے دنیامیں انسان کا وجود زند ہ ہے ۔ یہ ہوا کچھ منٹوں کے لیے ختم ہو جائے توجانداروں کا وجود اس دنیا سے ہی مٹ جائے انسان پانی کے بغیر کچھ دن زندہ رہ سکتاہے اس لیے ہمیں اللہ تعالٰی کا جتنا شکر ادا کرنا چاہیئے وہ کم ہے۔

ہو ا بہت سی گیسوں کا مجموعہ ہے اور گیسوں کے ساتھ ساتھ اس میں نمکیات اور اور کچھ پانی کی مقدار بھی ہوتی ہے اس میں سب سے زیادہ نائٹروجن گیس موجود ہے اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن کی مقدار بھی کافی زیادہ ہے اس میں پانی کی مقدار بہت ہی کم ہے پانی کی ہوا میں موجودگی موسم کو خوشگوار اور بارش کا سبب بناتی ہے جب ۔

ہوا کے زریعے ہی بادل ہوا میں اٹھتے ہیں اور یہ ہوا ہی بادلوں کو گرم زمین کی طرف دھکیلتی ہیں اس کے بعد یہ بادل زمین پر بارش کرتے ہیں ہوا کسی جگہ پر صاف ہوتی ہے تو کسی جگہ پر یہ ہوا آلودہ ہوجاتی ہے ۔کھلے میدانوں اور کھیتوں والی جگہ پر ہواصاف ہوتی ہے کیوں کہ کھلے میدانوں اور کھیتوں والی جگہ پر ہوا میں موجود اجزاء کی مقدار مناسب ہوتی ہے لیکن آبادی اور صنعتی علاقوں میں ہوا آلودہ ہو جاتی ہے اس کی وجہ یہ ہوتی کہ یہ ہوا میں موجود اجزاء کی مقدار غیر مناسب ہو جاتی ہے۔
قران مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :وَہُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ حَتّٰۤی اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِہِ الْمَآء َ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ کَذٰلِکَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰی لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ()
اور وہی ہے کہ ہوائیں بھیجتا ہے اس کی رحمت کے آگے مژدہ سناتی یہاں تک کہ جب اٹھالائیں بھاری بادل ہم نے اُسے کسی مُردہ شہر کی طرف چلایا پھر اس سے پانی اتارا پھر اس سے طرح طرح کے پھل نکالے اسی طرح ہم مُردوں کو نکالیں گے کہیں تم نصیحت مانو ۔
ایک اور مقام پر ارشاد :
وَ اَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ لَوٰقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآء ِ مَآء ً فَاَسْقَیْنٰکُمُوْہُ وَ مَآ اَنْتُمْ لَہ بِخٰزِنِیْنَ ()(سورۃ الحجر،آیت ٢٢،پ٢٤)
ترجمہ :اور ہم نے ہوائیں بھیجیں بادلوں کو باروَر کرنے والیاں (ف) تو ہم نے آسمان سے پانی اتارا پھر وہ تمہیں پینے کو دیا اور تم کچھ اس کے خزانچی نہیں ۔[
قران مجید میں ربّ عزوجل ارشاد فرماتاہے :
وَہُوَ الَّذِیْۤ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ وَ اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآء ِ مَآء ً طَہُوْرًا ()
ترجمہ :اور وہی ہے جس نے ہوائیں بھیجیں اپنی رحمت کے آگے مژدہ سناتی ہوئی اور ہم نے آسمان سے پانی اتارا پاک کرنے والا ۔۔

محترم قارئین :امید ہے کہ مذکورہ بالا معلومات آپ کے لیے نفع بخش ثابت ہوگی ۔اپنی رائے سے ضرور مطلع فرمائیے گا۔

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 543778 views i am scholar.serve the humainbeing... View More