نادرا ۔۔کمیونٹی۔۔ ہائی کمیشن لندن
(Prof Masood Akhter Hazarvi, )
نادرا حکومت پاکستان کا اہم ترین
ادارہ ہے۔ اس کے معرض وجود میں آنے سے پہلے ڈیٹا بیس کا کوئی مربوط اور
منظم اہتمام نہیں تھا۔ 1947سے لیکر نادرا کے قیام تک’’ پاکستانی شناخت‘‘
کئی خامیوں کا شکارتھی۔لوگوں نے کئی کئی ناموں اور دلدیتوں کے کارڈ بنوائے
جس سے جرائم پیشہ افراد نے بھی فائدہ اٹھایا۔ بیشمار افغانی اور دیگر غیر
ملکی لوگوں نے اسی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستانی شناختی کارڈ اور
پاسپورٹ بنوالئے کیونکہ چیک اینڈ بیلنس کاموئثر نظام موجود نہ تھا۔ یہ
کریڈٹ ’’نادرا ‘‘کو جاتا ہے کہ ڈیٹا بیس کا ایک نظام وضع کرکے ’’پاکستانی
شناخت‘‘ کو نقائص سے پاک کردیا۔ نادرا میں خاندان نمبر کے مطابق ہر فرد کو
قومی شناختی کارڈ کا اجرا ہوتا ہے۔ اسی شناختی کارڈ کی بنیاد پرپاسپورٹ
بنتا ہے۔ اسی طرح بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلئے NICOP (قومی شنا ختی
کارڈ برائے اوور سیز پاکستانیز) ہے جس کا اجرا 2003 میں ہوا تھا۔ برطانیہ
میں اُس وقت اِس کی فیس دس پونڈ تھی اور دس سال کیلئے بنایا جاتا تھا۔بعد
ازاں دس سالہ مدت میں تخفیف کرکے سات سال کردی گئی ۔ شروع میں لوگوں کا
زیادہ رجحان اس کارڈ کی طرف نہیں تھاکیونکہ اس وقت ویزہ کی فیس صر ف چھتیس
پونڈ تھی اورہائی کمیشن سے ہی ویزہ کا اجراء بآسانی ہوجاتا تھا۔ بعد ازاں
نہ جانے کیوں حکومت پاکستان نے ویزہ کے اجراء کا کام Gerry’s کے سپرد کردیا
او ر چھ ماہ کے ویزہ کی فیس بھی بڑھا کر 144 پونڈ کردی۔ جبکہ سات سال کیلئے
جاری ہونے والے کارڈ کی فیس صرف 44 پونڈ ہے۔ اس طرح لوگوں کا رجحان کارڈ کی
طرف بڑھا اور نادرا نے یو کے میں 2014 تک بارہ لاکھ کارڈ بنائے۔ اصل
صورتحال یہ ہے کہ جو کارڈ 2003/4 میں دس سال کیلئے بنے وہ 2013/14 میں
منسوخ ہوگئے۔ ساتھ ساتھ آبادی میں بھی مسلسل اضافہ ہوا۔اسی طرح پاکستان میں
اٹھارہ سال کی عمر میں شناختی کارڈ بنتا ہے جبکہ یہاں ہر پیدا ہونیوالے بچے
کو سفری دستاویز کے طور پر اس کارڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح مختصر عرصے
میں لاکھوں کی تعداد میں نئے کارڈوں کے اجرا کی اشد ضرورت محسوس ہوئی جوکہ
کمیونٹی کیلئے مشکلات جبکہ ہائی کمیشن کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار
کرگئی۔NICOP کارڈ اسلئے بھی اہم ہے کہ یہ صرف سفری سہولت ہی نہیں بلکہ
پاکستان میں پاسپورٹ، پاور آف اٹارنی، ڈیتھ سرٹیفیکیٹ، جائداد کی خرید و
فروخت، سم کارڈ کے اجرا، نکاح اور طلاق وغیرہ کیلئے بھی ہر جگہ درکار
ہوتاہے۔ اگر یہ کارڈ نہیں ہو گا تو چھٹیاں منانے لوگ دیگر ممالک کا رخ کریں
گے جس سے نسل نو کا پاکستان سے تعلق کمزور ہوگا اور زر مبادلہ میں بھی کمی
آئے گی۔
سیاسی تعیناتیوں میں بعض اوقات ناتجربہ کار لوگ بھی ہائی کمشنر کا منصب
سنبھال لیتے ہیں لیکن موجودہ ہائی کمشنر برائے پاکستان جناب سید ابن عباس
پیشہ ورانہ خدمات کے حوالے سے ایک کہنہ مشق اور تجربہ کار بیوروکریٹ ہیں۔ان
کا شمار فارن آفس کے سینئر ترین افسران میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اس ساری صورت
حال کا جائزہ لے کر اپنے رفقاء سے مشاورت کے بعد اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے
موئثر حکمت عملی تشکیل دی۔ وزیر اعظم پاکستان کی خصوصی منظوری کے بعد
ڈاکٹراسرار حسین کو فوکل پرسن اور کمیونٹی ویلفئر منسٹر مقرر کیا تاکہ
مسائل حل ہوں۔ ڈاکٹر اسرار حسین نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو استعمال
کرتے ہوئے کمیونٹی کے اس اہم مسئلہ کے حل کیلئے ہنگامی بنیادوں پرکام شروع
کیا۔ پہلے یوں ہوا کرتا تھا کہ لوگ صبح سویرے جا کر ہائی کمیشن بیٹھ جاتے۔
ٹوکن لیتے اور سارا دن انتظار کرتے۔ کچھ وہ بھی ہوتے جو ناکام واپس لوٹ آتے۔
کبھی کبھار جھگڑوں تک بھی نوبت چلی جاتی جو بدمزگی کا باعث بنتی۔ ڈاکٹر
اسرار حسین نے اپائنٹمنٹ نظام رائج کر کے اس صورتحال کا ازالہ کیا تاکہ
لوگوں کے لئے آسانی ہو۔ علاوہ ازیں اس سے پہلے صرف ہفتہ اور اتوار کو ہی
سرجری ہوتی تھی جس میں ایک دن میں 75 کارڈ بنائے جاتے تھے۔ اس کو بڑھا کر
125 تک کردیا گیا ہے۔پھر بھی جب مسئلہ حل نہ ہوا تو پائلٹ پراجیکٹ کا آغاز
کیا گیا۔ اس وقت تک تین پائلٹ پراجیکٹ ہو چکے ہیں۔ ہائی ویکمب میں چار دن
میں چار سو۔ لوٹن میں چار سو پچاس اور سلو میں چار سو ستر کارڈ بنائے
گئے۔یہ پہلی دفعہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ڈاکٹر اسرار حسین خود جا کر سرجریوں
کا وزٹ کرتے ہیں اور کمیونٹی میں مل جھل کر مسائل سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔
نادرا کی ایک ٹیم ہائی کمیشن میں آنے والے سائلین کیلئے کام کرتی ہے جبکہ
دوسری پائلٹ پراجیکٹ چلا رہی ہے۔ اس سے پہلے ہائی کمیشن میں ہر روز ایک سو
کارڈ بنتا تھا مگر اس کی تعداد بڑھا کر دو سو سے دو سو پچاس کر دی گئی ہے۔
امید کی جا رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ سے ایک سال تک اس مسئلہ کو
مستقل بنیادوں پرحل کرلیا جائے گا۔ اگر اس سے پہلے بھی اسی رفتار سے کوششیں
جاری رکھی جاتیں تو شاید مسائل کا یہ انبار نہ لگتا۔ مینیجر نادرا لندن عمر
ریاض اور ان کے رفقائے کار بھی ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں جو لوگوں کی دہلیز
پہ جا کر ان کے مسائل حل کرتے ہیں اور ان ماؤں، بہنوں، بیماروں اور معذوروں
کی دعائیں لیتے ہیں جن کیلئے ہائی کمیشن جانا مشکل ہے۔نادرا کارڈ کے مقابلے
میں پاسپورٹ کی مانگ کم ہے اسی لئے شکایات بھی نہیں البتہ فیاض حسین ڈپٹی
ڈائریکٹر پاسپورٹ اور ان کی ٹیم بھی فرض شناسی سے کام کر رہی ہے ۔ جن لوگوں
کے کارڈ عنقریب ختم ہو رہے ہیں اور انتظار بھی نہیں کرنا چاہتے، وہ
پاکستانی پاسپورٹ بنوا کر دس سال تک سفری دستاویز کے طور پر استعمال کرسکتے
ہیں۔ اب ھائی کمیشن نے پاسپورٹ ہوم ڈیلیوری سروس کا اجراء بھی کردیا ہے جو
کہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔ برمنگھم کے کونسلر جنرل سید احمدمعروف ، مانچسٹر
کے کونسلر جنرل ڈاکٹر ظہور الہی اور بریڈ فورڈ کے کونسلر جنرل خلیل باجوہ
بھی ہائی کمیشنر کی ٹیم کے باوقار لوگ ہیں جو اپنے اپنے علاقے میں عوام کے
مسائل کو حل کر نے کیلئے مصروف عمل ہیں۔ لیکن ابھی بھی برمنگھم اور
بریڈفورڈ میں نادرا کارڈ کے حوالے سے کمیونٹی میں کئی شکایات موجود ہیں۔
ہائی کمیشن کی ان تمام کاوشوں کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن اس کے
ساتھ ساتھ یہ گزارش ہے کہ اس تمام تگ و دو کے باوجود کارڈز کے سلسلے میں
ابھی بھی مسائل موجود ہیں۔ بیشمار لوگ ہیں جنہیں کارڈ زکی اشد ضرورت ہے۔
کمیونٹی کا مطالبہ ہے کہ جہاں کثیر تعداد میں پاکستانی رہ رہے ہیں وہاں
سٹاف بڑھا کر یا کچھ عرصے کیلئے مقامی نوجوانوں کو ایڈہاک بنیادوں پر
تعینات کر کے( نادرا ٹیم کے زیر نگرانی ) اس وقت تک کارڈز کے اجرا کا سلسلہ
جاری رکھا جائے جب تک کہ ہنگامی صورت حال ختم نہیں ہو جاتی۔ایک تجویز یہ
بھی ہے کہ ہر علاقہ میں کمیونٹی کی سطح پر ہائی کمیشن ایسی کمیٹیاں تشکیل
دے جو برادری ازم سے پاک اورغیر متنازع ہوں۔ وہ کمیٹیاں علا قائی سطح پر
مسائل کا ادراک کرکے ہائی کمیشن تک پہنچائیں اور ان کے حل کیلئے قابل عمل
تجاویز دیں۔ |
|