بدزبانى کے نقصانات اور اس کا علاج

بد زبانی سے نجات پانے کے لئے کچھ نکات مہم ہیں کہ جن پر عمل کرنے سے انسان بد زبانی سے بچ جاتا ہے

الف: انبياء اور آئمہ عليہم السلام انسانى روح كے طبيب ہيں ، چونكہ اخلاقى رذائل اور برى صفات انسانى روح اور جان كے لئے مضر ہيں لہذا ہميں چاہئے كہ ہم ان كے فرامين كو پوری توجہ سے سنيں اور اپنے روحانى درد اور امراض كاعلاج كریں ۔
حضرت اميرالمومنين عليه السلام فرماتے ہيں:
'' ايّاك وما يستھجن منَ الكلام فإنَّہ يَحبس عليك اللئام و ينفرعنك الكرام''
''بدزبانى اور بے حيائي كى باتوں سے اجتناب كرو' كيونكہ بدزبانى كى وجہ سے پست اور ذليل لوگ تمہارے گرد جمع ہوجائيں گے 'شريف اور معزّز لوگ تم سے دور بھاگيں گي) ميزان الحكمة _ ج 8_ ص 436 و شرح غرر الحكم ج2 ص 314 )

يہ اس امام كا كلام ہے جس نے كبھى بھى كوئي نازيبا بات منہ سے نہيں نكالي، اس فرمان پر اگر غور كياجائے تو بدزبانى كا انجام انسان كے ذہن ميں مجسم ہوكر آجاتا ہے ' يعنى اگر انسان بدزبان بن جائے اور زبان پر كنڑول نہ كرے تو اس كايہى نتيجہ نكلے گا كہ اچھے اور صالح لوگوں كارابطہ اس سے منقطع ہوجائے گا او رلاابالى اور خدا سے بے خبر لوگوں كا اس سے تعلق استوار ہوجائے گا اور وہ اس كے ساتھى بن جائيں گے، اور يہ بات تو اظہر من الشمس ہے كہ بدكار لوگوں كى ہم نشينى كا انجام اچھا نہيں ہوتا اور انسان اس قسم كے لوگوں كى دوستى وہم نشينى سے اس وقت پشيمان ہوتا ہے جب ندامت كوئي فائدہ نہيں ديتى _

قرآن مجيد ايسے لوگوں كے بارے ميں فرماتا ہے كہ جو بُرے لوگوں كے ساتھ اپنى نشست وبرخاست ركھتے ہيں ' كيونكہ ان كى دوستى نے انہيں اس طرح تباہ وبرباد كرديا ہے كہ آخر كار پشيمان ہو كر اپنى تباہى و بربادى كا ماتم كرتے ہيں _ ملاحظہ فرمائیں
''ويوم يَعضُّ الظالم على يديہ يقول ُ ياليتنى اتَّخذتُ مع الرسول سبيلاً' ى ويلتى ليتنى لم اتخذُ فلاناً خليلاً ''
'' او رجس دن ظالم اپنے ہاتھوں كو كاٹے گا اور كہے گا اے كاش ميں نے پيغمبر (ص) (كے دين) كا راستہ اختيا ركرلياہوتا ' اے كاش كيا اچھا ہوتا كہ ميں فلاں كو اپنا دوست نہ بناتا''_ سورہ فرقان _ آیت 27اور 28
لہذا اگر ہم اس قسم كے انجام سے بچنا چاہتے ہيں تو ہميں چاہئے كہ نازيبا اور ناروا باتوں اور بد زبانى سے اپنے آپ كو بچائيں تاكہ اچھے لوگ ہمارے ساتھ دوستى كريں ۔
ب: قرآن مجيد نيك وشائستہ گفتگو كے بارے ميں فرماتا ہے
''إلَيہ يَصعَدُ الكم الطّيب''_1
''پاك وپاكيزہ كلام ہى اس (اللہ تعالى ) كى طرف جاتا ہے
بنابريں اگرانسان نيك اور پاك كلام زبان پر جارى كرے تو خداوند عالم ايسى باتوں كو سنتا ہے' ورنہ ناپسنديدہ اور بيہودہ باتوں كا سننے والا کوئی نہیں ہے _
اللہ تبارک و تعالی بیہودہ باتيں كرنے والوں كو پسند نہيں کرتا اور كتنى برى بات ہے كہ مومن جس زبان سے اللہ تعالى كا ذكر كرتا ہے ' نماز پڑھتا ہے اور قرآن پاك كى تلاوت كرتا ہے' اسى زبان سے فحش' ناشائستہ' نازيبا اور ناروا الفاظ ادا كرتا ہے۔
ج: سكوت او رخاموشى بھى زبان پر كنڑول كرنے كا ايك ذريعہ ہے_ جہاں پر حق بات بيان كرنے كا موقع نه ہو وہاں زبان كو بند ركھنا كس قدر اچھا لگتا ہے كيونكہ زيادہ باتيں كرنا اور زبان كو بے لگام چھوڑدينا 'ناشائستہ گفتگو كرنے كا سبب بن جاتا ہے حضرت على عليه السلام فرماتے ہيں :
''ايَّاك وكثرةَ الكلام فإنَّہ يكثرُ الزلل ويورثُ الملل''
''زيادہ باتيں كرنے سے پرہيز كرو كيونكہ اس سے لغزشيں زيادہ ہوتى ہيں اور سننے والے كے لئے نفرت كا موجب بن جاتى ہيں''_ ميزان الحكمة _ ج 8_ ص 439
ايك اور مقام پر آپ فرماتے ہيں:
'' الكلام كالدّوائ قليلہ ينفع وكثيرہ قاتل ''
''گفتگو دواء كى مانند ہے جس كا كم شفا بخش اور كثرت موت ہي''_ (ميزان الحكمة_ ج 8 _ ص 444)
 
حسن جمشید
About the Author: حسن جمشید Read More Articles by حسن جمشید: 5 Articles with 8151 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.