ہر ايك گناہ اور برا كام ان
اسباب وعلل كى وجہ سے سر زد ہوتا ہے جو كہ انسان كے اندر ہى اندر پروان
چڑھتے رہتے ہيں ، لہذا اگر ان علل و اسباب کا سد باب نہ کیا جائے تو ایک دن
یہ انسان کیلئے انتہائی خطرناک بیماری کا روپ دھار لیتے ہیں اور انسان
گناہوں کی دلدل میں اتنا دھنس جاتا ہے کہ دوبارہ عادی زندگی کی طرف اس کا
پلٹنا بہت مشکل ہو جاتا ہے جھوٹ بولنا بھی ايك ايسى برى عادت ہے كہ جس كے
كئي اسباب بتائے گئے ہيں۔
یہاں ہم اختصار كے ساتھ ان علل اور اسباب کو بیان کریں گے ۔
الف: احساس كمتري
بعض لوگ چونكہ اپنے آپ ميں اپنى اہميت يا كوئي خاص ہنر محسوس نہیں کرتے ،
لہذا كچھ جھوٹى اور بے سروپا باتوں كو جوڑ كر لوگوں كے سامنے اپنى اس كمى
كى تلافى كرتے ہيں اور اپنے آپ كومعاشرہ كى ايك اعلى شخصيت ظاہر كرنے كى
كوشش كرتے ہيں، يہى وجہ ہے كہ رسول خدا (ص) فرماتے ہيں :
''جھوٹا شخص ' احساس كمترى كى وجہ سے ہى جھوٹ بولتا ہي''_
ب: سزا اور جرمانہ وغیرہ سے بچنے كيلئے
كچھ لوگ سزا كے خوف سے جھوٹ كا سہارا ليتے ہيں اور اس طرح وہ يا تو سرے سے
ہى جرم كا انكار كرديتے ہيں يا پھر اپنے جرم كى توجيہہ ميں غلط بيانى كرتے
ہيں اور اپنے جرم كا اقرار كرنے پر قطعاً آمادہ نہيں ہوتے اور اپنے جرم كى
سزا بھگتنے يا جرمانہ ادا كرنے كے لئے کسی صورت میں تيار نہيں ہوتے اس لئے
جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں تا کہ کسی طرح اپنے آپ کو بچا سکیں ۔
ج: منافقت اور دوغلى پاليسي
منافق اور دوغلی پالیسی والے لوگ خوشامد اور چاپلوسى كے پردے ميں جھوٹ بول
بول كر ايسى حركتوں كے مرتكب ہوتے ہوتے ہيں ان کا مقصد معاشرے كے افراد كى
توجہ اپنى طرف مبذول كرناہوتا ہے اور اسی طرح وہ اپنے ناپاك عزائم كو پورا
کرنے کیلئے ہر ہربہ استعمال کرتے ہیں
خداوند عالم نے سورہ بقرہ كے اوائل ميں اس طريقہ كار كو منافقين كى صفت
قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے
'' واذ القو الذين امنوا قالوا امنا واذا خلوا إلى شياطينہم قالو انا معكم
انما نحن مستھزئون'' سورہ بقرہ_ آيت 14
''جب منافقين' مومنين سے ملتے ہيں تو كہتے ہيں كہ ہم ايمان لائے ہيں' اور
جب اپنے شيطان صفت لوگوں سے تنہائي ميں ملاقات كرتے ہيں تو كہتے ہيں كہ ہم
تو تمہارے ساتھ ہيں' ہم تو (مومنين كے ساتھ ) ٹھٹھا مذاق كرتے ہيں''_
د: ايمان كا فقدان
قران مجيد اور روايات سے پتہ چلتا ہے كہ جھوٹ بولنے كى ايك بنيادى وجہ
ايمان كا كلى طور پر فقدان يا ايمان كى كمزورى ہي_ قرآن مجيد ميں ارشاد ہو
رہا ہے
''انما يفترى الكذب الذين لا يومنون بايات اللہ و اولئك ہم الكاذبون''
''جھوٹ تو صرف وہى لوگ گھڑتے ہيں جو خدا كى آيات پر ايمان نہيں ركھتي' اور
يہى لوگ ہى جھوٹے ہيں
سورہ نحل _آيت 105
حضرت على عليه السلام فرماتے ہيں :
'' كثرة الكذب تفسدالدين'' شرح غررالحكم _ ج 7 _ ص 344
جھوٹ كا علاج
اجمالى طور پر جھوٹ كے اسباب كو اوپر بيان كرديا گيا ہے _ اختصار كے ساتھ
اس كا علاج بھى قلم بند كرر ہے ہيں
الف : احساس كمترى كو دور كيا جائے
ب: شجاعت وجوانمردى كى صفت كو تقويت دى جائے تاكہ بے خوف وخطر اور بغير
جھوٹ كا سہارا لئے حقائق اور واقعات كو كسى كم وبيشى كے بغير بيان كرسكے'
اور اگر كبھى اس كے نتيجے ميں جرمانہ يا سزا ہوجائے تو اسے خندہ پيشانى سے
قبو ل كرلياجائے _
ج: دوغلى پاليسى اور منافافقت كا علاج كياجائے جو كہ جھوٹ كى اصلى وجہ ہے
د: اپنے اندر ايمان اور تقوى كے درجات كو بلند سے بلندتر كياجائے ' كيونكہ
ايمان اور تقوى كا درجہ جس قدر بلند تر ہوگا' جھوٹ اور برى عادتوں سے اسى
قدر جان چھوٹ جائے گي_
ھ: قرآن مجيد كى ان آيات اور احاديث معصومين (ع) كا زيادہ سے زيادہ مطالعہ
كياجائے اور ان ميں خوب غور وخوض كياجائے كہ جو جھوٹ كى مذمّت ميں وارد
ہوئي ہيں اور اسے ہلاكت اور بدبختى كا موجب قرار ديتى ہيں_
و: اس بات کو زیادہ سے زیادہ بیان کیا جائے كہ جھوٹ بولنے سے انسان كى قدرو
قيمت معاشرے ميں گرجاتى ہے، كوئي شخص اس كى باتوں پر عتماد نہيں كرتا اور
نہ ہى اس كا احترام كرتاہے۔
ي: ايسى آيات اور روايات ميں خوب غورفكر كياجائے جو صدق و سچّائي كى مدح
كرتى ہيں، حضرت امام جعفر صادق عليه السلام نے اپنے ايك صحابى سے فرمايا :
''غور كروكہ حضرت على علیہ السلام كو كن وجوہات كى بنا پر پيغمبر اكرم (ص)
كے ہاں اس قدر قرب اور مقام ومنزلت حاصل ہوئي ' تم بھى وہى كام كرو 'يقينا
على _ سچّائي اور ايماندارى كى بناء پر آنحضرت (ص) سے اس قدر قريب ہوئے
تےل''
(جامع السعادات_ ج 2_ ص 334)
|