یہ جو دو دہشت گرد ہم نے پکڑے ہیں انہوں تسلیم کیا ہے کہ
یہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’ را‘‘ کے ایجنٹ ہے۔ یہ اور ان جیسے کئی دیگر دہشت
گردوں کو ہندوستانی حکومت اور انکی خفیہ ایجنسی را تربیت دیتی ہے اور پھر
ان کو پاکستان بھیج کر یہاں پر دہشت گردی کرائی جاتی ہے۔ ان دہشت گروں جن
کے نام جنید اور طاہر لمبا ہے۔ انکا تعلق متحدہ قومی مومنٹ سے ہے۔ متحدہ
قوی مونٹ کے قائد الطاف حسین ،ندیم نصرت اور محمد انور کے ہندوستانی خفیہ
ایجنسی را سے بڑے قریبی تعلقات ہے۔ الطاف حسین ’’را‘‘ سے احکامات لے لندن
سیکتریٹ کے ندیم نصت اور محمد انور کو دیتے ہیں۔ وہ کراچی میں ایم کیو ایم
ہیڈ کوارٹر میں موجود حماد صدیقی اورفاروق سلیم کو اور وہ انہی ہدایات کو
متلعقہ سیکٹر کے حوالے کردیتا ہے ۔ جس کے بعد اس پر کاروائی شروع ہوجاتی
ہے۔ایم کیو ایم طالبان سے بھی زیادہ خطرناک تنظیم ہے۔ کیونکہ طالبان صرف
معصوم لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ جبکہ ایم کیو ایم براہ راست دشمن ملک
ہندوستان اور اس کے خفیہ ایجنسی سے رانطے میں ہے اور ملک کو نقصان پہنچانے
میں مصروف ہے۔ یہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔ میرے خیال میں اس پر پابندی عائد
ہونی چاہیے اور میں اس کے لیے سفارش کروں گا۔ کراچی میں ایس ایس پی ملیر
راؤ انوار کاانکشافات بھری پریس کانفرنس ختم ہوئی تو ہر طرف ہلچل مچ چکی
تھیں۔ اہل وطن بالخصوص اہل کراچی منتظر تھے کہ اب ایم کیو ایم کا کیا ردعمل
آئے گا۔گوکہ شہر میں جاری ٹارگٹد اپریشن اور دہشت گردوں کے خلاف قانوں نافذ
کرنے والے اداروں کی مؤثر کارروائیوں کے بعد یہ امکان تو نہیں تھا کہ ایم
کیو ایم کسی ہڑتال وغیرہ کی کال دے گی۔ لیکن اس بات کا امکان ضرور تھا کہ
ایم کیو ایم اپنے اعلان کردہ پریس کانفرنس میں ضرور کسی قانونی چارہ جوئی
کے لیے عدالت جانے کا اعلان کرسکتی ہے۔ کچھ دیر میں جب ایم کیو ایم کی پریس
کانفرنس شروع ہوئی تو اس میں انہوں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی سختی سے
تردید کی اور پاکستان کے ساتھ بھر پور وفاداری کا اظہار بھی کیا۔ اپنے اس
روایتی پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم کے رہنماء حیدر عباس رضوی نے ایس ایس
پی راؤ انوار کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ان کو قاتل اور کرپٹ ترین پولیس
اافسر قرار دیا۔ بلکہ حیدر عباس نے انہیں سندھ میں حکمران جماعت پاکستان
پیپلز پارٹی کا چیلہ بھی قراردیا۔
قارئین کرام ! ان دونوں پریس کانفرنسز پر بحث ابھی جاری تھی اور بہت سارے
لوگ اور تجزیہ نگار راؤ انوار کے بریک گراؤنڈ کو دیکھ کر کشمکش میں مبتلاء
تھے کہ اچانک متحدہ قائد بذریعہ ٹیلیفون لائن اکھاڑے میں کھود پڑے۔ موصوف
نے سب سے پہلے’’ مہاجروں‘‘ کو یہ تلقین کی کہ وہ ہر قسم کے حالات کے لیئے
خود کو جسمانی طور پر تیار رکھیں ، کارکنان اسلحہ چلانا سیکھیں اور اس کے
لیے کلفٹن جاکر مشق کیجیے۔ کارکنان کو ’’نصیحت‘‘کے بعد بھائی اپنے روایتی
حریف یعنی پاک آرمی پر بھی خوب گرجے۔ پھر ان کو جی ایچ کیو ، کامرہ بیس
وغیرہ پر دہشت گردانا حملون کا طعنہ دیتے ہوئے کہا : کہ پہلے اپنے اندر کے
مجروں کو تو سنبھالو بعد میں ہماری طرف دیکھنا۔ اس کے بعد بھائی نے دھاڑتے
ہوئے ’’را‘‘ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔ کہ رااا والوں ایک بار تو ہماری مدد
کو آجانا۔ تاکہ میں دیکھ لوں کہ مخالفین میں کتنا دم خم ہے۔
سوچتا ہوں کہ بھائی تو پریس کانفرنس کے بعد لندن میں چائے کا چسکا لیتے
ہوئے خوب لطف اندوز ہو چکے ہوں گے۔ کیونکہ جو بات بھائی پچھلے کافی عرصے سے
اشاروں میں اہل پاکستان کو سمجھارہے تھے لیکن اہل وطن بالخصوص سیاسی
جماعتوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی۔آج صاف صاف اور بغیر کسی لگی لپٹی بیان کرکے
اپنے دل کے بوجھ کو ہلکا کردیا تھا۔لیکن کیا حال ہوا ہوگا پاکستان میں پریس
کانفرنس کرنے والے متحدہ رہنماؤں بالخصوص حیدر عباس رضوی کا۔ کیونکہ کچھ ہی
دیر پہلے بے چارے حیدر عباس رضوی وطن عزیز پاکستان سے محبت کا دم بھر رہے
تھے، وہ اس پاک دھرتی سے وفاداری کی قسمیں کھارہے تھے۔لیکن بھائی نے آکر اس
کے منہ پر ایک ایسا طمانچہ رسید کیا جس کی تپش وہ تادیر محسوس کریں گے۔
بشرطیکہ حیدر عباس رضوی نے جھوٹی نہیں سچی قسمیں کھائی ہو۔ میں اس بات پر
بھائی کا انتہائی مشکور ہوں کہ انہوں بغیر کسی لگی لپٹی کے اپنے مؤقف کو
بیان کیا اور منزل تک پہنچنے کے لیے راستے کا تعین بھی کرلیا۔ بھائی کے اس
بیان کے بعد ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھے تجزیہ نگاروں کی مشکل بھی آسان
ہوجائیں گی کیونکہ وہ بے چارے کافی عرصے سے اس فکر میں مبتلاء تھے کہ اگر
متحدہ ملک دشمن تنظیم اور بھائی کے ’’را‘‘ سے رابطے ہے تو اس کا ثبوت کیا
ہے۔ اب امید ہے کہ بھائی کی باتوں سے انہوں کچھ نہ کچھ اندازہ لگالیا ہوگا۔
اگر ان کو اب بھی اندازہ نہیں ہورہا تو پھر بہتر ہوگا کہ وہ بھی بڑے سائیں
جناب قائم علی شاہ صاحب کے پاس تشریف لے جائے۔ کیونکہ وہ ایک شریف النفس
انسان ہے اور بدمزگی کوہرگز پسند نہیں کرتے ۔ اسی وجہ سے وہ ٹارگٹ کلنگ میں
مارے جانے واکے پولیس آفیسرز اور جوانوں کے جنازوں کو کندھا دینے کا جذبہ
رکھتے ضرور ہے۔ لیکن بدمزگی پیدا ہوجانے کی خدشے کے پیش نظر وہ ایسا کرتے
نہین۔ البتہ بدمزگی دور کرنے کے لیے کسی پولیس آفسر کی قربانی دینی پڑجائے
۔تو شاہ صاحب اس سے بالکل نھی دریغ نہیں کرتے۔ کچھ یہی حال شاہ صاحب کی
پارٹی کے دیگر رہنماؤں کا بھی ہے اب تک ’’بھائی‘‘ کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔
جہاں بات ہے بادشاہ مفاہت تو ان کا اب تک جو مؤقف سامنے آچکا ہے وہ وزیر
اعظم کا نہیں بلکہ ایم کیو ایم کے کسی کارکن کا لگ رہا ہے۔ البتہ ان کے
چھوٹے بھائی پرنس آف پنجاب میاں شہباز شریف نے ’’بھائی‘‘ کی باتوں کو ملک
سے غداری کا مترادف قراردیا ہے۔ وزیر دفاع نے بھی اس بار اپنے منصب کا خیال
رکھتے ہوئے بھائی کی باتوں کی سخت الفاظ یں مذمت کی ہے۔ لیکن جس چیز نے پیر
آف لندن کی غبارے سے ہوا نکال دی ہے ۔ وہ ہے ISPRکی یاجانب سے جاری بیان ۔
جس کے بعد پیر آف لندن چنگاڑنے کی بجائے منمناتے نطر آرہے ہیں۔ لیکن شائد
اب کے بار منمنانا کام نہ آئے کیونکہ ہر غلطی معاف ہوسکتی ہے لیکن ’’را‘‘
سے مدد مانگنا ہرگز نہیں۔ آخر میں صرف اتنا کہ جو کام بلوچستان اسمبلی نے
’’بھائی‘‘ کے ہرزہ سرائی کے خلاف قراردادمنظور کرکے کیا ہے۔ اہل وطن اس پر
بلوچستان کے غیور عوام کو سلام پیش کرتی ہے۔ |