پاکستان میں ضمنی انتخابات کے حوالے سے ۲۳ اپریل کا دن
بڑی اہمیت کا حامل رہے گاکیونکہ اس دن کے بعد بہت سی زبانیں بولنا بند ہو
گئی ہیں۔اس دن کی اہمیت اس پہلو سے بھی بہت زیادہ ہے کہ دھاندلی کا جو شور
ہر روز اٹھا کرتا تھا اس میں اب کمی آ گئی ہے ۔ا لیکشن ۲۰۱۳ کے بارے میں
ایک تاثر یہ دیا گیا تھا کہ کراچی میں ایم کیو ایم ٹھپے لگاتی ہے اور پولنگ
سٹیشنوں پر دھونس اور دھاندلی کا مظاہرہ کرتی ہے،مخالف جماعتوں کے پولنگ
ایجنٹوں کو اندر گھنسے نہیں دیتی جس کی وجہ سے اس کی مخالف جماعتیں
انتخابات ہار جاتی ہیں۔یہ تاثر شائد پچھلے انتخابات میں درست بھی ہو گا
کیونکہ یہ ہر سیاسی جماعت کا وطیرہ ہے کہ جہاں پر اس کا بس چلتا ہے وہ جعلی
ووٹ ڈالنے سے باز نہیں آتی ۔ایم کیو ایم چونکہ کراچی کی سب سے مضبوط جماعت
ہے اس لئے جعلی ووٹ ڈالنے میں وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہوگی لیکن یہ کہنا
کہ وہ صرف دھاند لی کی وجہ سے ہی جیتتی ہے بالکل غلط ہے۔ایک مضبوط جماعت اس
وقت مضبوط ہوتی ہے جب وہ مقبو ل ہوتی ہے۔جو جماعت مقبول ہی نہیں ہے وہ
زبردستی ووٹ کیسے ڈالے گی؟ کسی جماعت کا مقبول ہونا اس کیلئے دھاندلی کا
باعث بنتا ہے اور اس سے ایم کیو ایم کو بھی استثناء نہیں ہے۔اسے حسنِ اتفاق
کہا جائیگا کہ حلقہ این اے ۲۴۶ سے نبیل گبول نے چند ہفتے قبل استعفی دیا تو
پھر ہر جماعت کا مطالبہ تھا کہ اس الیکشن کو فوج کی نگرانی میں منعقد
کروایا جائے تا کہ دھاندلی کا سدِ باب ہو سکے۔حکومت نے سیاستدانوں کی اس
بات کو قبول کر لیا اور یوں ۲۳ اپریل کو منعقد ہونے والاانتخاب فوجی نگرانی
میں ہوا۔پاکستان تحریکِ انصاف جو اس خیال کو پچھلے کئی سالوں سے اچھال رہی
تھی کی کراچی اب ایم کیو ایم کا گھڑھ نہیں بلکہ پاکستان تحریکِ ا نصاف کا
ہو چکا ہے اسے اپنی قوت آزمانے کا موقع مل گیا اور اس نے تاثر یہ دیا کہ وہ
یہ انتخاب جیت جائیگی ۔ان کا کہنا یہ تھا کہ ایم کیو ایم جبر اور غنڈہ گردی
سے عوام کا مینڈیٹ چرا لیتی ہے لیکن فوج کی موجودگی میں وہ ایسا نہیں کر
پائے گی جس سے پا کستان تحریکِ انصاف کی جیت کی امیدیں روشن ہو جائیں
گی۔عمران خان نے پورا زور لگا یا کہ کراچی ایم کیو ایم کی گرفت سے نکل جائے
لیکن ان کی شب و روز کی محنت کے بعد بھی کراچی کا ووٹر ٹس سے مس نہ ہوابلکہ
وہ آج بھی ایم کیو ایم کے ساتھ کھڑ اہے۔اس الیکشن میں جماعت اسلا می بھی
کسی سے پیچھے نہیں تھی۔اس نے اپنا امیدوار کھڑا کر رکھا تھا۔کوشش بہت کی
گئی کہ جماعت اسلامی کا امیدوار تحریکِ انصاف کے حق میں بیٹھ جائے اور یوں
ون ٹو ون مقابلے میں ایم کیو ایم کو ٹف ٹائم دیا جائے لیکن خوش فہمیوں نے
جماعت اسلامی کو اپنا امیدوار دست بردار نہ کرنے دیا جس کا نفسیاتی فائدہ
ایم کیو ایم کو پہنچا۔اگر جماعت اسلامی اپنا امیدوار دست بردار کروا لیتی
تو پھر ایم کیو ایم دباؤ میں آجاتی اور بہت سے خاموش ووٹر ز متفقہ امیدوار
کی جان راغب ہو جاتے۔لیکن جب دونوں امیدوار اپنی اپنی جگہ جم کر کھڑے ہو
گئے تو دونوں کی جیت کے امکانات ختم ہو گئے جس کی وجہ سے خاموش ووٹرز ایم
کیو ایم کے مضبوط امیدوار کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔جماعت اسلامی کسی زمانے میں
کراچی کی مضبوط جماعت تھی اور اسے خوش فہمی تھی کہ نائن زیرو پر رینجرز کے
چھا پے کے بعداس کی بحالی کے امکانات بہت روشن ہیں اس لئے قسمت آزمائی میں
کوئی حرج نہیں ہے۔غیر جانبدار مبصرین کی رائے ہے کہ جماعت اسلامی کراچی میں
اپنی اننگز کھیل چکی ہے لہذا اسے تحریکِ انصاف کا ساتھ دینا چائیے تھا تا
کہ کراچی میں تبدیلی کو محسوس کیا جا سکتا لیکن جماعت اسلامی اپنے فیصلے پر
نظر ثانی کرنے کیلئے تیار نہ ہوئی اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔(ہم تو ڈوبے
ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گئے )۔،۔
مجھے امید ہےکہ تحریکِ انصاف کو حقائق کو سمجھنے میں اب زیادہ مغز ماری کی
ضرورت نہیں پڑے گی ۔ہر چیز بالکل واضح ہو کر سامنے آ گئی ہے لہذا عمران خان
اب کو سمجھ لینا چائیے کہ مہاجر اپنی پوری محبت کے ساتھ الطاف حسین کی پشت
پر کھڑے ہیں ۔الطاف حسین سے ان کے اندازِ سیاست پر اختلاف کیا جا سکتا ہے
لیکن اس بات پر تو کوئی دو رائے نہیں کہ الطاف حسین کراچی کے مقبول ترین
قائد ہیں۔منی لانڈرنگ کیس اپنی جگہ،قتل کا الزام اپنی جگہ اوربھتہ خوری اور
ٹارگٹ کلنگ کا الزام بھی اپنی جگہ لیکن اس کے باوجود بھی مہاجر الطاف حسین
سے دوری کا سوچ نہیں سکتے کیونکہ ان کے ذہن میں اس بات کو راسخ کر دیا
گیاہے کہ ان کی بقا ایم کیو ایم کے جھنڈے تلے ہی ہے۔ میں اس بات کو سمجھنے
سے قاصر ہوں کہ تحریکِ انصاف نے حالات کو پڑھنے میں ا تنی سنگین غلطی کا
مظاہرہ کیوں کیا؟اسے علم ہو نا چائیے تھا کہ مہاجرزالطاف حسین کا ساتھ نہیں
چھوڑ سکتے لیکن انھوں نے یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ تحریکِ انصاف ایم
کیو ایم کی جگہ لے رہی ہے اور کراچی کے عوام عمران خان کے لئے چشم براء
ہیں۔ان کا یہ دعوی اس لئے قدرے وزن رکھتا تھا کیونکہ انھوں نے ۲۰۱۳ کے
انتخا بات میں آٹھ لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے اور امید کی جا سکتی تھی کہ وہ اب
رینجرز کی سرپرستی میں ہونے والے انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ
کریں گئے لیکن وہ اپنے دعووں کو حقیقت کا جامہ پہنانے میں مکمل طور پر
ناکام رہے۔ایم کیوایم کو ہرانا تو دور کی بات ہے وہ اپنے پچھلے انتخابات
میں حاصل شدہ اکتیس ہزار ووٹو ں کا ہدف بھی چھو نہ سکے۔ ان کے ووٹ کم ہو کر
بائیس ہزار پر آگئے ہیں جو تحریکِ ا نصاف کیلئے بھی لمحہ ِ فکریہ ہے۔اس کے
معنی یہ نہیں کہ تحریکِ انصاف مقبول نہیں ہے بلکہ سچ یہ ہے کہ کراچی ایم
کیو ایم کا گھڑھ ہے اور اس سے اسے چھیننا فی الحال ممکن نہیں ہے ۔،۔
مجھ جیسے کتنے ہی لوگ تھے جو اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ایم کیو ایم
دھاندلی سے جیتتی ہے لیکن ۲۳ اپریل کے انتخاب نے ہر چیز کو ننگا کر
دیاہے۔بڑھکیں مارنے سے انتخاب نہیں جیتے جا سکتے بلکہ انتخابات واقعی کسی
جماعت کی مقبولیت کا پیمانہ ہوتے ہیں ۔جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف اس
بات پر تکیہ کئے ہوئے تھیں کہ حالیہ اپریشن کی وجہ سے عوام ایم کیو ایم کا
دھشت گرد کاروائیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے اس سے متنفر ہو گئے ہیں اور
یہی وہ موقع ہے جب ایم کیو ایم پر یلغار کر کے اسے پسپا کیا جا سکتا ہے۔ان
کی حکمتِ عملی درست تھی لیکن عوام نے حالیہ اپریشن میں ایم کیو ایم پر لگنے
والے الزامات کو سنجیدہ نہیں لیا بلکہ اسے ایم کیو ایم کے خلاف انتقام سے
تعبیرکیا ۔وہ سمجھتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے جس کا
حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ در اصل جب کوئی شخص ہیرو کی مسند پر بیٹھ
جاتاہے تو پھر اسے شکست دینا اتنا آسان نہیں رہتا اور قائدِ تحریک الطاف
حسین کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ اپریشن
کے بعد ایم کیو ایم قدرے گھبراہٹ کا شکار تھی لیکن پھر دھیرے دھیرے عوامی
حمائت نے ان کی اس گھبراہٹ کا خا تمہ کر دیا۔دو امیدواروں کی موجود گی نے
بھی اس مزید حوصلہ عطا کیا۔ایم کیو ایم نے جس طرح انتخابی مہم چلائی وہ بھی
بڑی زور دار تھی۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ضمنی انتخابات میں ووٹوں کا ٹرن
آؤٹ کم ہو تا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ۹۳۱۲۲ ووٹ ھاصل کرنا کسی معجزے سے
کم نہیں۔یقین کیجئے میرے لئے ضمنی انتخابات میں اتنے ووٹ حا صل کر لینا
حیرانگی کا باعث تھا کیونکہ ضمنی انتخابات میں اتنے ووٹ کاسٹ نہیں ہوتے
لیکن ایم کیو ایم نے ثابت کیا ہے کہ الطاف حسین کی قیادت کے سحر کا کوئی
سامنا نہیں کر سکتا ۔میرے لئے الطاف حسین کی مقبولیت کو محسوس کرنے کا یہ
پہلا مو قع تھا کیونکہ اس دفعہ رینجرز کے سخت پہرے میں ووٹنگ کا عمل مکمل
ہو رہا تھا لہذا دھاندلی کا الزام لگانا ممکن نہیں تھا ۔مجھے خبر نہیں تھی
کہ ایم کیو ایم اتنی زیادہ مقبول جماعت ہے؟ایک شخص لندن میں بیٹھ کر جماعت
کو کنٹرول کر رہا ہے لیکن اس کا ووٹر اس کے در وازے سے کہیں نہیں جاتا تو
اس سے سمجھ لینا چائیے کہ مہاجر اپنی شناخت چاہتے ہیں اور انھیں یقین ہے کہ
ان کی یہ شناخت الطاف حسین کے وجود سے ہے۔جہاں تک ایم کیو ایم کی سیاست کا
تعلق ہے تو مجھے اس سے اختلاف ہے کیونکہ میں لسانی بنیادوں پر سیاست کے
خلاف ہوں۔شائد یہ این اے ۲۴۶ کی جیت کا خمار تھا کہ الطاف حسین نے یکم مئی
کو وہ یقریر کر ڈالی جس سے پورا پاکستان غصے میں بپھرا ہوا ہے کیونکہ ان کی
تقریر پاکستان کے خلاف کھلی بغاوت تھی ۔انھوں نے جس طرح را کو مدد کیلئے
پکارا اور فوج پر جس طرح تنقید کی اس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔،۔
|