تعلیم کا حصول ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن ملک کی
معاشی صورتحال اور لوگوں کی محدود آمدنی بچوں کو تعلیم دلانے میں بڑی رکاوٹ
ہے ،بھاری فیسوں کی وجہ سے بچے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں اس وقت ملک بھر
میں ہزاروں ایسی این جی اوز کام کر رہی ہیں جو بظاہر غریب بچوں کو’’ فری
‘‘تعلیم دلانے کی دعویدار نظر آتی ہیں مگر ان میں سے اکثر تنظیمیں محض
’’پیسے بٹورنے ‘‘تک محدود ہیں ۔ فروغِ تعلیم کے نام پربیرونی ممالک سے آنے
والی امداد اور حکومتی سطح پر ملنے والے فنڈزبھی ’’خرد برد‘‘کی نذر ہو جاتے
ہیں ۔بہت سے لوگ اپنی انفرادی حیثیت میں بھی اسی مشن میں سرگرم عمل نظر آتے
ہیں اس کے باوجود آج بھی لاکھوں غریب لوگ تعلیم جیسی نعمت سے محروم ہیں ،
ملک میں ناخواندگی اور جہالت کے سائے دن بدن گہرے ہوتے جا رہے ہیں جو ایک
بڑا المیہ ہے ۔ماضی میں ’’پڑھا لکھا پنجاب‘‘ پروگرام نے بہت شہرت پائی
بعدازاں اسی کانام ’’پڑھو پنجاب ‘‘ رکھ کر اس کام کو آگے بڑھایا گیا۔لیکن
ماضی کی طرح ہی وزیر اعلی ٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا ’’پڑھوپنجاب‘‘
پروگرام بھی اپنی افادیت کھونے لگا کیونکہ حکومت پنجاب کے زیر کنٹرول چلنے
والے تعلیمی اداروں میں نئے تعلیمی سال کے آغاز کے ساتھ ہی ’’انگلش میڈیم
‘‘ ذریعہ تعلیم کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا ۔جس کی وجہ سے والدین اور
بچوں میں مایوسی پھیل گئی ، ایک طرف وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے
صوبے میں پرائمری کی سطح پر چھوٹے بچوں کے داخلوں میں 100 فیصد اضافے کو
یقینی بنانے کا ’ٹاسک ‘‘ تعلیمی اداروں کے سربراہان کو سونپا ہے ،دوسری طرف
بچوں کیلئے مفت کتابیں وغیرہ اور مفت تعلیم کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے مگر
امسال راولپنڈی میں اور غالباً پنجاب بھر میں پیشتر سرکاری سکولوں کو صرف
’’اُردومیڈیم ‘‘ کی کتابیں ’’فری‘‘ مہیا کی گئی جبکہ کسی بھی سکول کوماضی
کی طرح ’’انگلش میڈیم ‘‘ نصاب کی کتابیں نہیں بھجوائی گئیں ۔یوں سرکاری
سکولوں کے ذمہ داران نے بچوں کو’’ انگلش میڈیم ‘‘ کی بجائے ’’اُردو میڈیم
‘‘ ذریعہ تعلیم کو اپنانے پر مجبور کرنا شروع کر دیا ۔ پیدا شدہ صورتحال کی
وجہ سے والدین نے بچوں کے سکول تبدیل کئے مگر دوسرے سکول جانے پر بھی
بعدازاں یہی کہاگیا کہ حکومت پنجاب نے ’’انگلش میڈیم ‘‘ذریعہ ء تعلیم
پرائمری کی سطح تک ختم کر دیا ہے ۔اس کی وجہ سے بعض والدین نے اپنے بچوں کو
پرائیویٹ سکولوں میں داخل کرا نا شروع کر دیا کیونکہ اگر بچے ابتدائی تین
کلاسوں میں تعلیم ’’اُردو میڈیم ‘‘ میں حاصل کریں تو انہیں چوتھی کلاس کے
بعد اور آگے ’’انگلش میڈیم ‘‘ میں پڑھنا دشوار ہو جاتا ہے یوں وہ اپنی
تعلیم کے دوران ’’انگریزی ‘‘ کو سمجھتے سمجھتے زندگی برباد کر لیتے ہیں اور
ناکامی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے ۔ بعض والدین نے مجبوراً ’’اُردو میڈیم ‘‘ میں
ہی بچوں کو تعلیم دلانے پر اکتفا کر لیا ۔یوں تو بہت سے سرکاری سکولوں کو
یہ مسئلہ درپیش رہا لیکن امسال تعلیمی سال کے آغاز پر گورنمنٹ شملہ گرلز
ہائی سکول بی بلاک سیٹلائٹ ٹاؤن میں بچیوں کو ’’اُردو میڈیم ‘‘ کی کتابیں
’’فری ‘‘ دی گئیں لیکن ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ جو بچیاں ’’انگلش میڈیم ‘‘
میں پڑھنا چاہتی ہے وہ یا تو تما م کتب باہر سے خرید کر لائیں بصورت دیگر
’’اُردو میڈیم ‘‘ میں ہی پڑھیں ۔ جس پر بعض والدین نے اپنے بچوں کو ایم سی
گرلز ماڈل ہائی سکول بی بلاک سیٹلائٹ ٹاؤن میں داخل کرانے کیلئے ٹیسٹ
دلوایا تو انہیں کہا گیا کہ یہاں ’’انگلش میڈیم ‘‘بھی ہے مگر داخلے کے وقت
انہیں یہ نوید سنائی گئیں کہ یہاں بھی ’’انگلش میڈیم ‘‘ حکومت نے ختم کر
دیا ہے اس لئے ’’اُردو میڈیم ‘‘ ہی چلے گا ۔ یوں والدین کی پریشانی اور بھی
بڑھ گئی ۔ والدین اس حوالے تذبذب کا شکار ہیں کہ اگر پرائمری کی سطح پر
بچوں اور بچیوں کو ’’اُردومیڈیم ‘‘ کے ذریعے پڑھایا گیا تو چوتھی اور
پانچویں کلاس میں جا کر بچے کس طرح ’’انگلش میڈیم ‘‘ میں درست طریقے سے پڑھ
سکیں گے ۔’’فری ‘‘ تعلیم کا پروگرام صرف ’’اُردو میڈیم‘‘تک محدود رکھنا
سراسر زیادتی ہے ۔جبکہ بعض سکولوں میں ’’فری ‘‘تعلیم کے باوجود سٹوڈنٹ
ڈائری اور کارڈکی مدّ میں 200سے 250روپے تک وصولی کے ساتھ ساتھ ’’فروغ ِتعلیم
فنڈ‘‘ کے نام سے ماہانہ20,20روپے فیس کی وصولی کا دھندہ بھی تسلسل کے ساتھ
جاری ہے مگر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔ ہر تعلیمی سال کے آغاز پر نصاب میں
تبدیلی سمیت نت نئی پالیسیاں بنانے کا سلسلہ تکلیف دہ ہوتا جا رہا ہے،حکومت
پنجاب اور محکمہ تعلیم کے اس قسم کے فیصلے ’’پڑھو پنجاب‘‘ پروگرام کو
کامیاب کرانے میں بڑی رکاوٹ ہیں ۔اس روش سے معصوم ذہنوں پر اچھے اثرات مرتب
نہیں ہورہے۔ والدین کی اس صورتحال پر تشویش بجا ہے ۔وزیر اعلیٰ پنجاب میاں
شہباز شریف اور صوبائی وزیر تعلیم اگر اس جانب توجہ دیں تو یہ بچوں کے
مستقبل کیلئے بہتر ہوگا ۔وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف پرائمری سطح پر
’’انگلش میڈیم ‘‘ ذریعہ تعلیم کو بحال رکھنے کیلئے اقدامات اٹھائیں تو یہ
چھوٹے بچوں اور اُن کے والدین پر احسان ہوگا۔اس لئے انہیں چاہئے وہ کہ
سرکاری سکولوں (جن میں گورنمنٹ شملہ گرلز ہائی سکول بی بلاک سیٹلائٹ ٹاؤن
اور ایم سی گرلز ماڈل ہائی سکول بی بلاک سیٹلائٹ ٹاؤن وغیرہ شامل ہیں)میں
پرائمری کلاسوں یعنی نرسری ، پہلی، دوسری اور تیسری کلاس میں ’’اردو میڈیم
‘‘کے ساتھ ساتھ ’’انگلش میڈیم ‘‘ ذریعہ تعلیم کی سہولت برقرار رکھنے کے
احکامات صادر فرمائیں تاکہ بچوں اور بچیوں کو بڑی کلاسوں میں حصول علم میں
دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
|