بچوں کا مستقبل محفوظ مگر گیسے؟

تحریر ثنا ء سیٹھی
بچوں کو پروگرام تو ہر دور میں دیکھے جاتے تھے اور کارٹون تو ہمیشہ سے ہی بچوں کو بہت پسند ہیں جب ہم چھوٹے تھے تو دو تین چینل ہوتے تھے اور ان پر مخصوص وقت میں ایک گھنٹے کے لیے کارٹون لگتے تھے جو ہم سب گھر والے بہت دلچسپی اور شوق سے دیکھتے تھے وہ کارٹون بہت سبق آموز ہوتے تھے۔ ان میں لوگوں کی مدد کرنا سکھایا جاتا تھا کہ کس طرح ہم مصیبت ز دہ لوگوں کی مدد کر سکتے ہیں اور وہ انگریزی زبان میں ہوتے تھے جس کی وجہ سے بچوں کو انگریزی سمجھنے صلاحیت بھی ابھرتی تھی کچھ کارٹون ڈبنگ کے ساتھ بھی آئے مگر اس کو پاکستان میں ڈبڈ کرنے کی وجہ سے خالص اُردو زبان میں ترجمہ کیا گیا مگر اب درجنوں کے حساب سے تو چینل ہیں وہ بھی ہر وقت کارٹون دیکھاتے رہتے ہیں ۔

جس کی وجہ سے بچے ٹی وی کے سامنے سے اُٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے ، پڑھنے کو ان کا دل ہی نہیں کر تا ہیں ان چینل میں کارٹون نیٹ ورک CN) (اور پوگوpogo))سر فہرست ہیں جو کہ ہندو کلچر اور ہندو زبان کو فروغ دینے کے لیے Cable پر پاکستان میں دیکھا ئے جاتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے بچارے بچے روز مرہ کی زندگی میں اسلام اور اسلامی روایات سے زیادہ ہندو تہذیب کو اپنا رہے ہیں ۔

اس کے علاوہ بے حیائی بھی ہر پروگرام میں نظر آتی ہے۔ جو ماں باپ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کارٹون پروگرام دیکھتے ہیں ۔ اتفاق کریں کہ ان میں ہر وہ بات کھول کر بیان کی جاتی ہے جس کو ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں بچوں سے پوشیدہ رکھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جو ایک خاص اور فکر مندی و الی بات ہے یہ ہے کہ اپنے مذہب سے دور اور ہندو مذہب کے قریب ہوتے نظر آرہے ہیں ۔ مجھے کئی مرگے والے گھروں میں سننے کو ملتا ہے کہ امی اس کو کب جلائیں گے ۔شاید یہ ایک جملہ ہی ہمارے ضمیر کو چھنجوڑ نے کے لیے کافی ہے ۔ کہ ہمارے مسلمان بچوں کو یہ بھی نہیں پتا کہ اسلام میں مرد ے کو دفنایا جاتا ہے نہ کہ جلایا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ وہ گھر وں اسکولوں میں سالا شکتی شالی، میں کرشناہوں، میں بھیم ہوں ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں ۔ ہمیں یہ چاہئیے کہ ہم سب سے پہلے اپنے بچوں کو ان سب خرافات سے آہستہ آہستہ نکالنے کی کوشش کریں بچوں کو لرننگ پروگرام بھی دیکھایا کریں ۔ کہ بچے صاف ستھرے پروگرام کی طرف مائل ہوں۔ جن میں ان کی اصلاح کا پہلو بھی نظر آئے ۔ اس سلسلے میں اقدامات بہت محدود پیمانے پر ہو رہے ہیں ۔ جہاں بھارت اپنے کلچر کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہی ایک بھارتی ہدایت کارمنے مورل ویزن کے نام سے کارٹون سر یریز نکالی ہیں ۔ جس میں اسلام کے سب قوائد و ضوابط اور طور طریقے نظر آتے ہیں ۔ جو کہ میرے خیال میں مسلمانوں کے بچوں کے لیے اچھا اقدام ہے جس کا فائدہ پاکستان کو ہی نہیں بلکہ جو بھی اُرودو زبان سمجھتا ہے ان سب کو ہو گا لیکن ان کارٹون کو Cabel ٹی وی پر نہیں دکھا یا جاتا ہے۔ بلکہ یہ صرفInternet پر ہی دیکھ سکتے ہیں اگر ہماری حکومت چاہے تو ایک چینل ایسا بنائے جس میں صرف بچوں کے پروگرام ہوں جو کہ سائنس ، آرٹ فنون لطیفہ اور بہت سارے اور مختلف موضوعات پر مبنی ہوں جن سے ہمارے بچے یہ طریقے سیکھ سکیں۔

پاکستان اور ہندوستان صرف دو ممالک ہی نہیں بلکہ دو مختلف مذاہب اور ثقافت کے حامل ہیں ۔ قیام پاکستان کے وقت اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کا وجود عمل میں لایا گیا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان نے بھارت نے تین دفعہ پاکستان پر حاوی ہونے کی کوشش کی مگر ہر دفعہ اسے منہ کی کھائی پڑ ی ۔ اس دفعہ اس نے بظاہر جنگ کرنے کی بجائے ہماری ثقافت اور ہماری دینی اقتدار پر بذریعہ اپنے میڈیا اور ٹی وی کے ذریعے چڑھائی کی ۔ جس میں وہ کامیاب ہو گیا ۔ آج کے دور میں درجنوں بھارتی چینل جو کہ ہمارے ملک میں چو بیس گھنٹے چلتے رہتے ہیں ۔ جس پر وہ اپنے ملک کے ڈرامے، فلمیں اور کارٹون وغیرہ لگاتے ہیں ۔ ڈراموں کی طرف اائیں تو کہانی کے علاوہ ہر چیز نظر آتی ہے منٹ کے ڈرامے میں پو جاپاٹ اور اپنے مذہبی تہوار منانے کے علاوہ رنگ برنگ پہنے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔اگر فلمیں دیکھیں تو نہ کوئی سبق ملتا ہے اور نہ ہی کوئی نصیحت ہو تی ہے نہ ہی کوئی اصلاح کا پہلو نظر آتا ہے بلکہ بے حیائی اور زنا عام کرنے کا پورا پورا انتظام موجود ہوتا ہے۔

ان سب خرافات سے ہمارے ملک میں خاص کرکے عورتوں اور بچوں بہت زیادہ متاثر ہورہے ہیں ۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے کے لباس ، زیورات اور بنگلے جب ہمارے ملک میں بیٹھی ایک عام عورت دیکھتی ہے تو وہ اپنے پسندیدہ کردار ہے متاثر ہو کر پانی زندگی میں ویسے ہی رنگ بھرنا چاہتی ہے جیسے کہ وہ دیکھاتے ہیں ۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ وہ حقیقت نہیں بلکہ ایک ڈرامہ ہے اور وہ یہ نہیں جانتی کہ خود بھارت میں نصف بھارتی غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی جی رہے ہیں ۔ ہماری مستقبل کے معمار یعنی ہمارے بچے جو کہ کچے ذہنوں کے مالک ہوتے ہیں ۔ بلکہ اچھی بات تو شاید دیر سے اپنا تے ہیں ۔ لیکن کسی کی غلط عمل یا بری بات فورا اپنا لیتے ہیں ۔

ہماری پیمرا سے درخواست ہے کہ وہ انڈین چینلز جو بے حیائی اور مذہبی مذہبی رجحان ہم پر مسلط کردیے ہیں ان کو فورابند کر دیا جائے ۔ ان کی جگہ عربھی و تر کی یا مختلف مسلح ممالک کے جو چینلز ہیں وہ خالص اُردو زبان کے ساتھ پیش کیے جائیں ۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو بیشتر ہی کہ ہمارے بچے انگلش ہی میں پروگرام دیکھیں تا کہ وہ لچہ اور بازاری زبان سے محفوظ رہ سکیں ۔ ہمارے پاکستانی بھائیوں سے بھی اپیل ہے کہ خدارا اپنے نیوز چینل آئن ایئر جارہے ہیں ۔ ایک چینل تو کم از کم بچوں کے حق ہے کہ جس میں صرف اور صرف ہمارے بچوں کے لیے انٹرٹینمنٹ دکھائی جائے اس کے علاوہ ان کو تعلیم و تربیت کے پروگرام بھی کھیل کھیل میں سکھائیں جائیں تا کہ آگے چل کر وہ ملک و قوم کو بہتر طور پر چلایا جاسکے۔
ہماری التجا ہے کہ خاص ان پروگراموں کے لیے جو خالصتابت ، کرشنا ،گنیش ، یاد یگر ہندو رسم رواج مثلا ہو لی ، شبدا تیر یا دیوالی وغیرہ کھاتے ہیں ۔ مثلا چھوٹا بھیم ، کرشنا ، وغیرہ ان پروگراموں کو فورا بند کیا جائے ۔ تاکہ ہندو مذہب سے ہمارے بچے متاثر ہوں اسکے علاوہ میری صدر اور وزیر اعظم صاحب سے اپیل ہے کہ وہ اس سلسلے میں بیشتر اقدامات کریں تاکہ ہماری آئندہ آنے والی نسلیں اسلام کی روایات کی پاسداری کرسکیں اور اپنے کردار کے ذریعے اس ملک کو دُنیا میں زندہ اور روشن مثالی بنا دیں ۔ (آمین )
پرواز لیے دونوں کی اسی فضا میں ہے ۔
کر گس کا جہاں اور بے شاہین کا جہاں اور
الفاظ معنی میں تفاوت نہیں لیکن
ُملا کی اذان او رہے مجاہد کی اذان
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141827 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.