دینی اور ثقافتی وراثت (حصہ دوم )

رسول اکرم ۖ سے روایت کی گئی ہے:
مَا مِنْ بَیْتٍ لَیْسَ فِیْہِ شَْئ مِنَ الْحِکْمَةِ اِلاَّ کَانَ خَرَاباً.( مجمع البیان ج١، ص٣٨٢)
''جس گھر میں حکمت کا یکسر گذر نہ ہو، (یعنی حق و حقیقت کا بالکل نام و نشان بھی باقی نہ رہے) بلا شک و شبہہ یہ گھر بربادی کے دہانے پر ہے۔''
اس کے بر خلاف، صالح اور نیک گھرانہ؛ ایسا گھرانہ ہے جو اس بات پر قادر ہے کہ نسلوں کی اصلاح اور اس کے سنوارنے اور سدھارنے کی صلاحیت اور قدرت کو بڑی ہی جد و جہد اور عرق ریزی کے ساتھ بروئے کار لائے۔ مذہب کے مقدسات اور اس کی وراثت کو بڑی ہی دیانت اور امانت داری کے ساتھ اس نسل کے حوالہ کردے جس کی وہ خود پرورش کر رہا ہو۔
مولائے کائنات امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے دین، دینداری اور تاریخی معلومات اور درآمدات کا خلاصہ نیز اس کے ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کی کیفیت کو اپنے بیٹے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے اس طرح بیان فرمایا:
اَْ بُنََّ! اِنِّ وَ اِنْ لَمْ اَکُنْ عُمِّرْتُ عُمْرَ مَنْ کَانَ قَبْلِْ، وَ قَدْ نَظَرْتُ فِ اَعْمَالِہِمْ وَ فَکَّرْتُ فِ اَخْبَارِہِمْ و َسِرْتُ فِ آثَارِہِمْ، حَتیّٰ عُدْتُ کَاَحَدِہِمْ، بَلْ کَاَنِّ بِمَاْ اِنْتَہیٰ اِلَّ مِنْ اُمُورِہِمْ قَدْ عُمِّرْتُ مَعْ اَوَّلِہِمْ اِلیٰ آخِرِہِمْ فَعَرَفْتُ صَفْوَ ذَلِکَ مِنْ کَدِرِہ، وَ نَفْعِہ مِنْ ضَرَرِہ، فَاْسْتَخْلَصْتُ لَکَ مِنْ کُلِّ اَمْرٍ نَخِیْلَہُ وَ تَوَخَّیْتُ لَکَ جَمِیْلَہُ، صَرَّفْتُ عَنْکَ مَجْہُولَہ۔( نہج البلاغة نامہ ٣١)
''اے میرے لخت جگر! اگرچہ میں نے اتنی عمر نہیں پائی جتنی اگلے لوگوں کی ہوا کرتی تھی، لیکن میں نے ان کے اعمال میں غور و خوض کیا ہے، ان کے اخبار میں غور و فکر اور دقت کی ہے؛ ان کے آثار میں سیر و سیاحت کی ہے۔ میں صاف اور گندے کو خوب پہچانتا ہوں۔ نفع و ضرر میں امتیاز (کی صلاحیت) رکھتا ہوں۔ میں نے ہر امر کی خوب چھان بین کرکے اس کا نچوڑ اور حقیقت سامنے پیش کر دیا ہے اور سب سے اچھے کی تلاش کر لی ہے اور بے معنی چیزوں کو تم سے دور کر دیا ہے۔''
مدرسہ
مدرسہ سے مراد وہ دینی مراکز، وسائل اور ذرائع تبلیغ ہیں، جو انسان کی زندگی کے مختلف مراحل میں لوگوں کی دینی تحریک اور جوانوں کو تعلیم دینے کا واحد وسیلہ اور ذریعہ ہیں اور اس کا میدان بہت وسیع ہے۔ مدرسہ، کتاب اور جوانوں کی تعلیم کے لئے مختلف طریقۂ کار، تعلیم دینے والے افراد، اور مدرسین، دینی و مذہبی نیز ثقافتی و تربیتی کو ششیں، رسم الخط، ( طرز تحریر) زبان، مذہب، تبلیغات، اور اخبارات وغیرہ وغیرہ سب کو شامل ہے۔

اس وسیع دائرہ کے تحت مدرسہ ان اہم ترین پلوں میں سے ایک ہے جو دینی وراثت کو ایک نسل سے دو سر ی نسل میں منتقل کرنے، بعض نسلوں کو بعض دوسری نسلوں سے جوڑنے اور اسی طرح ترقی یافتہ نسل کو پست او ر عقب ماندہ نسل سے جوڑ کر ان میں آپس میں میل ملاپ کی ذمہ داری کا حامل ہے۔

چنانچہ یہ (مدرسہ) تمام لوگوں کی پہلی اور ابتدائی تعلیم گاہ، گھر ہی میں سمٹ جاتی ہے، اور ہر انسان اپنی ابتدائی تعلیم کو گھر ہی سے حاصل کرنا شروع کرتا ہے، اس لئے بلا شک و شبہہ دوسرے درجہ میں، یعنی اس کی تعلیمات کا دوسرا مرکز مدرسہ اور اسکول (School ) ہے؛ جہاں اس کی عقل میں نکھار آتا ہے۔
اسلامی قوانین اور اس کے دستور میں استاد کی عظمت و منزلت اور اس کے احترام کے بارے میں بہت زیادہ تاکید اور شفارش کی گئی ہے، ہمارے اور آپ کے پانچویں امام، حضرت امام محمد باقر ـ نے رسول خدا ۖ سے نقل کرتے ہوئے فرمایا:
اِنَّ مُعَلِّمَ الْخَیْرِ یَسْتَغْفِرُ لَہُ دَوَابُّ الْاَرْضِ و َحِیْتَانُ الْبَحْرِ وَ کُلُّ ذِ رُوحٍ فِ الْھَوَائِ وَ جَمِیْعُ اَھْلِ السَّمَائِ وَ الْاَرْض (بحارالانوار ج٢، ص١٧)

جو استاد نیکیوں کی تعلیم دیتا ہے، اس کے لئے زمین پر تمام بسنے، چلنے اور رینگنے والے، دریا کی مچھلیاں، ہوا اور فضا میں زندگی بسر کرنے والے، اسی طرح زمین و آسمان میں بسنے والی (خداوند عالم کی) تمام مخلوق اس استاد (اور معلم) کے لئے استغفار کرتی ہیں۔''
 
محمد اعظم
About the Author: محمد اعظم Read More Articles by محمد اعظم: 41 Articles with 68661 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.