امام صادق نے بھی ارشاد فرمایا
(مَنْ عَلَّمَ خَیْراً فَلَہُ بِمِثْلِ اَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِہ. قُلْتُ:
فَأِنْ
عَلَّمَہُ غَیْرُہُ یَجْرِی ذَلِکَ لَہُ ؟ قَالَ(ع) اِنْ عَلَّمَ النَّاسَ
کُلَّہُمْ جَریٰ لَہُ. قُلْتُ: و َاِنْ مَاتَ ؟ قَالَ(ع): و َاِنْ مَاتَ)۔(
بحارالانوار ج٢ ص١٧)
ہر وہ شخص جو خیر کی تعلیم دے، اس کا اجر اس شخص کے جیسا ہے جس نے اس پر
عمل کیا ہو۔ راوی نے سوال کیا: اگر وہ شخص جس نے اس (استاد) سے براہ راست
تعلیم حاصل کی ہو اور بعد میں دوسرے شخص کو تعلیم دے، تو اس کا اجر کیا
ہوگا؟ آپ نے فرمایا: اگر دوسرا فرد (یعنی سیکھ کر سکھانے والا) روئے زمین
پر بسنے والے تمام لوگوں کو بھی اس کی تعلیم دے دے، پھر بھی سکھانے والے
پہلے استاد کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ راوی نے پھر سوال کیا: اگر پہلے
والا استاد دنیا سے اٹھ چکا ہو تو کیا ہوگا ؟ تو حضرت نے (اس سوال کے جواب
میں) فرمایا : پھر بھی اس کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی اور اس کو
(یعنی پہلے والے استاد اور معلم کو) وہی اجر دیا جائے گا۔''
حضرت امام صادق نے رسول خدا ص اسے یوں نقل فرمایا:
یَجِیُٔ الرَّجُلُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَ لَہُ مِنَ الْحَسَنَاتِ
کَالسَّحَابِ الرُّکَامِ اَوْ کَالْجِبَالِ الرَّوَاسِی، فَیَقُولُ:
یَارَبِّ اَنّٰی لِی ھٰذا و َلَمْ اَعْمِلْہَا؟ فَیَقُولُ: ھٰذا عِلْمُکَ
الَّذِی عَلَّمْتَہُ النَّاسَ یُعْمَلُ بِہ بَعْدَکَ(بحارالانوار ج٢، ص١٨)
''قیامت کے دن ایک شخص عرصہ حساب میں لایا جائے گا، اس عالم میں کہ اس کی
نیکیاں بادلوں کی طرح آفاق میں پھیلی اور مستحکم پہاڑوں کی طرح استوار ہوں
گی۔ وہ شخص آتے ہی (یہ سب نیکیاں دیکھنے کے بعد) بڑی حیرت اور بے چینی سے
بول پڑے گا: اے میرے پروردگار! اور اے میرے پالن ہار! میں کہاں؟ اور اتنی
ساری نیکیاں کہاں؟! میں نے ان سب نیکیو ں کو ہرگز انجام نہیں دیا۔ خدایا!
یہ میرے اعمال نہیں ہیں،
میں نے ا ن تمام اعمال کو انجام نہیں دیا تو اسے بتایا جائے گا: کہ یہ وہی
علم ہے جس کو تونے لوگوں کو سکھایا ہے اور انھوں نے تیرے اس دنیا سے اٹھ
جانے کے بعد اس پر عمل کیا ہے۔''
عبد الرحمٰن سَلَمِی نے حضرت ابا عبد اللہ امام حسین ـ کے بیٹوں میں سے
ایک بیٹے کو سورۂ حمد کی تعلیم دی۔ جب اس بچے نے سورہ حمد کو اپنے والد
گرامی
(حضرت امام حسین ـ) کے حضور تلاوت کی تو امام نے بہت سارا مال زیورات اور
گہنے اپنے بیٹے کے معلم کو بخش دیئے اور اس (معلم) کے منھ کو موتیوں سے
بھردیا۔ جب آپ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
''مال اور زیورات کی اتنی تھوڑی سی مقدار اس (استاد) کے تعلیم دینے کی اجرت
کے برابر ہرگز قرار نہیں پاسکتی!''(المناقب ابن شہر آشوب، مطبوعہ نجف اشرف،
ج٣، ص٢٢٢؛ مستدرک الوسائل، ج١، ص٢٩)
مسجد
ارتباطی پلوں کی قسموں میں سے تیسرا اور آخری پل جو تہذیب و ثقافت کے
اعتبار سے ایک نسل کو دوسری نسل سے جوڑتا ہے،وہ مسجد ہے۔ (یعنی وہ تیسرا
وسیلہ جس کے ذریعہ دین میں وسعت دیکر اس کی حفاظت کی جائے۔) اسلام میں
مسجد، عبادت اور فکری ارتقا نیز انتظام و انسجام کا بہترین مرکز ہے،
اخلاقی، سیاسی اور نیک کاموں کی انجام دہی پر تعاون اور یہ (مسجد) خدمت خلق
کا بہترین مرکز ہے، اور اس طرح کی کوشش اور
فعالیت میں کلیدی اور بنیادی کردار ادا کرتا ہے؛ نیز یہ جگہ ایک مقدس فریضہ
کو اپنے دامن
میں لئے ہوئے ہے۔
درج ذیل بیان مسجد کے کردار اور اس کے ابدی نقوش اور اس کی اہمیت اور حیثیت
کو اسلام نے بڑے آب و تاب کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے۔
مولائے کائنات مولائے کائنات امیر المؤمنین حضرت علی نے اس سلسلہ میں اس
طرح فرمایا:
مَنِ اْخْتَلَفَ اِلیٰ الْمَسْجِدِ، أَصَابَ اِحْدیٰ الثَّمَانِ: ١۔أَخاً
مُسْتَفَاداً فِی اللّٰہ ٢۔أَوْ عِلْماً مُسْتَطْرِفاً ٣۔أَوْ آیَةً
مُحْکَمَةً ٤۔أَوْ رَحْمَةً مُنْتَظِرة ٥۔أَوْ کَلِمَةً تَرُدُّہُ عَنْ
رَدیً
٦۔أَوْ یَسْمَعُ کَلِمَةً تَدُلُّ عَلیٰ الْھُدیٰ ٧۔أَوْ یُتْرَکُ
دُنْیَا خَسِیْسَةً ٨۔أَوْ حَیَائً( بحارالانوار ج٨٣، ص٣٥١)
''جو شخص بھی مسجد میں رفت و آمد رکھتا ہے ، اس کو ان آٹھ چیزوں میں سے ایک
چیز ضرور حاصل ہو جاتی ہے: ١۔ دین میں بھائی چارگی؛ ٢۔ نت نئی اور جدید
معلومات؛ ٣۔ مستحکم نشانی؛ ٤۔ اور ایسی رحمت و بخشش جس کا انتظار کیا جا
رہا ہو؛ ٥۔ ایسی بات جو ہم کو پستی اور ذلت (ہلاکت) سے دور کردے ؛٦۔ ایسی
بات پر کان دھرنے اور غور سے سننے کی توفیق جو انسان کو صحیح راستہ دکھائے
اور اس کی ہدایت کر سکے؛ ٧۔ اور اس ذلیل اور پست دنیا کو ترک کر دے اور اس
سے لو نہ لگائے؛٨۔ حیا کو اپنا پیشہ بنالے۔''
اسلامی تاریخ میں، مسجدیں، دینی اور مذہبی مدارس، وہ منبر جو اخلاق اور
تربیت کے رواج اور اس کو وسعت دینے میں مددگار ہیں، فعالیت و کوشش اور جد و
جہد کے مراکز، معاشرتی، سماجی اور سیاسی خدمات میں سماجی اور معاشرتی
مراکز، اور ایسے پرکار (فعاّل) ادارے، مسلمانوں کی زندگی میںاسلامی تمدن کی
وراثت کو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے میں بنیادی ذمہ داری اور
کلیدی حیثیت کے حامل ہیں، جیسا کہ یہی مراکز اسلامی افکا رکے مضبوط قلعے
اور مقدسات اسلامی بھی شمار کئے جاتے ہیں۔ انھیں محاذوں کے ذریعہ مسلمان
اپنی فکری اور مذہبی وراثت کو جاہل دشمن کی غارت، یلغار اور لوٹ پاٹ سے بچا
لیتے ہیں۔
|