دینی اور ثقافتی وراثت (حصہ اول )

دینی میراث اور اس کے مقدسات کا بعد والی نسلوں میں منتقل کرنا، افکار و عقائد، رسم و رواج اور عمل کا ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کرنے کا نام دینی ثقافت ہے۔ اس میراث کو منتقل کرنے کے کچھ قواعد و ضوابط ہیں؛ جیسا کہ نباتات، اور انسانوں کی زندگی کے لئے بھی کچھ قواعد و ضوابط مقرر کئے گئے ہیں۔
ان قوانین پر عمل کر نے کے سبب، مذہب کو اس کی تمام ذاتی وراثتوں کے ساتھ بخوبی ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل کیا جا سکتا ہے، چنانچہ جس مقام پر گذشتہ نسل کا خاتمہ ہوتا ہے وہیں سے آنے والی دوسری نسل کا آغاز ہوتا ہے۔ انھیں اسباب کے ذریعہ، اس عظیم دینی اور فکری تحریک کا آغاز جو حضرت آدم سے لے کر حضرت ابراہیم، نوح، موسیٰ، عیسیٰ علیھم السلام اور حضرت محمد مصطفےٰص کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے۔ ہم بھی اسی مستحکم اور استوار ماضی کا ایک حصہ اور تاریخ کی گہرائیوں میں انھیں عمیق اور طولانی جڑوں کی شاخوں میں ہمارا شمار ہوتا ہے۔ ان اسلامی معارف اور عقائد کے خزانوں کو دینی میراث کے ذریعہ اس کے مقدسات کو سینہ بہ سینہ اور نسل در نسل منتقل کرنے میں مشغول ہیں۔
بیشک، یکے بعد دیگرے، ان ارتباطی پُلوں کی حفاظت نے، مذہبی وراثت کے انتقال کے کام میں سرعت بخشی ہے، جیسا کہ ان ارتباطی پُلوں میں رکاوٹ ایجاد کرنا اور ان کو ڈھا دینا، ایک نسل سے دوسری نسلوں کے درمیان بہت بڑی رکاوٹ سدّ راہ محسوب ہوگی۔

نتیجتاً اگر ان ارتباطی پُلوں کی فعاّلیت کو سماج میں مذہبی فرائض کی انجام دہی سے روک دیا جائے، تو بیشک نسل حاضر کا گذشتہ نسلوں اور آنے والی تمام نسلوں کے درمیان یکسر رابطہ ختم ہو جائے گا۔
اور وہ اہمیت کے حامل خاص ارتباطی پُل مندرجہ ذیل ہیں:
1. گھر
2. مدرسہ
3. مسجد

ان تینوں ارتباطی پُلوں کے ذریعہ ہمیشہ سیاست اور دین کی جدائی کے مسئلہ میں دینی تحریکیں (یعنی دین اور سیاست میں جدائی ممکن نہیں ہے) ہمیشہ آگے آگے اور پیش قدم رہی ہے، زمانہ حاضر کو گذشتہ زمانہ سے اور اولاد کو ان کے باپ دادائوں (آباء اجداد) سے اس طرح منسلک کر دیا ہے جس طرح تسبیح کے دانوں کو ایک دوسرے سے پرو دیا جاتا ہے۔ گھر، مدرسہ (School) اور مسجد کے اس اہم اور کلیدی کردار کے ذریعہ جو مذہب کی تبلیغ و ترویج اور نسلوں کو ا پس میں ایک دوسرے سے جوڑنے کا وسیلہ ہیں۔ دین اسلام نے ان تینوں مراکز پر خصوصی توجہ مبذول کرائی ہے اور ان کے ساز و کار پر خاص توجہ رکھنے کی سفارش اور نصیحت کی ہے۔ اب ان تمام باتوں کے بیان کرنے کے بعد ہم ان پُلوں کے کلیدی اور اساسی کردار ادا کرنے کے بارے میں درج ذیل عبارت میں اختصار سے وضاحت کررہے ہیں:
گھر
یہاں گھر سے مراد گھرانہ ہے۔ جوانوں میں دینی وراثت کو منتقل کرنے میں گھر اور گھر والوں کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے؛ اس لئے کہ عقائد کی بنیادیں ایک بچہ کی شخصیت کے نکھار پر موقوف ہیں۔ اس کی شخصیت میں نکھار گھر اور گھر والوں سے وجود میں آتا ہے۔ یہ بنیادی چیزیں انسان کی شخصیت کو اجاگر کرنے میں اس کے مستقبل کے حوالہ سے بہت تیزی سے اثر انداز ہوتی ہیں۔
مولائے کائنات امیر المؤمنین حضرت علی نے امام حسن مجتبیٰ سے فرمایا:
اِنَّمَا قَلْبُ الْحَدَثِ کَالْاَرْضِ الْخَالِیَّةِ، مَا اُُلْقَِ فِیْھَا مِنْ شَْئٍِ قَبِلَتْہُ، فَبَادَرْتُکَ بِالْاَدَبِ قَبْلَ اَنْ یَّقْسُوَ قَلْبُکَ وَ یَشْتَغِلُ لُبُّکَ (نہج البلاغة صبحی صالح ص٣٩٣)
''بچہ کا دل اس آمادہ زمین کے مانند ہے کہ اس میں جو بھی چیز ڈالی جاتی ہے، وہ اس کو قبول کر لیتی ہے، اسی لئے میں نے تمھیں پہلے ادب سکھانا شروع کردیا، اس سے پہلے کہ تمہارا دل سخت ہو جائے اور تمہارے سر میں کوئی دوسرا سودا پرورش پانے لگے''یعنی تمہاری فکر تم کو دوسرے امور میں مشغول کردے۔

ہر گھر کی سلامتی اور امنیت اس کے لئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے، لڑکوں کو صحیح تربیت دینے میں سلامتی کے اثرات بہت زیادہ ہیں اور ان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے؛ جیسا کہ گھر کے اندر کا فساد (فاسد گھرانہ) نسل نو کو فساد میں آلودہ کرنے اور جوانوں کو برباد کرنے میں اساسی اور اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جاری ہے
 
محمد اعظم
About the Author: محمد اعظم Read More Articles by محمد اعظم: 41 Articles with 75512 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.