‘‘تو مصطفوی ہے’’(2)
(Dr Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
اگر اردو کا کوئی قصور تھا بھی ،تو
صرف اتنا کہ اس زبان میں عربی رسم الخط اور عربی زبان کے الفاظ کی کثرت تھی
،اس زبان نے اہل ِہندکے شاندار ماضی ،ان کے بہادروں ، عالموں اولیاء کرام
او رسپہ سالاروں کے کارناموں اورکرداروں کو اپنے نثری وشعری اصناف اور
دبستانوں میں محفوظ کیا ہوا ہے، اس موقع پرکئی مسلمان رہنماؤں نے ہندوؤں کو
سمجھانے کی کوششیں کیں ،ان پر واضح کیا گیا ،کہ اردو انڈو اسلامک آرٹ کا
ایک لازمی جزو بن گئی ہے، کوئی لاکھ بار چاہے، تو بھی جنوبی ایشیا کی
ثقافتی ورثے سے اس انمول ہیرے کو نکال باہر نہیں کرسکتا، مگران دلائل کا
متعصب اور تنگ نظرہندوؤں پر کوئی اثر نہ ہوا۔
سرسید احمدخان بھی اپنی تمام تر مصالحتی کوششوں میں بری طرح ناکام رہے ،کیونکہ
سرسید ہی کے قائم کردہ سائنٹیفک سوسائٹی آف انڈیا کے ہندو اراکین بھی عربی
والی اردو کے خلاف تحریک میں پیش پیش تھے،ہندی اور اردو کے درمیان اس قضیے
کا نتیجہ بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات کی صورت میں برآمد ہوا،طرفہ تماشا
یہ ہوا کہ اس موقع پرثقافتوں وتہذیبوں کے اس ٹکراؤ نے سرسید کے خیالات
وافکارمیں بھی ایک نیاانقلاب برپا کر دیا۔سرسید احمد خان ہندی اردو جھگڑے
سے پہلے ہندو مسلم اتحاد کے بڑے علمبردار تھےاور متحدہ قومیت کے حامی تھے،
لیکن اس پھڈے کے باعث ان کو اپنے سیاسی نظریات یکسر تبدیل کرنا پڑے، ہندو
مسلم اتحاد کی بجائے اب وہ انگریز مسلم اتحاد کے داعی بن گئےاور متحدہ
قومیت کے بجائے ہندوستان میں مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کے عظیم پیامبر بن
کر ابھرے،چنانچہ سرسید نے وقت کی ضرورت کوتو محسوس کرتے ہوئے انگریزی تعلیم
پر زور دیا اور مسلمانوں کے لئے اس کا انتظام کیا ،نیز ان کامشرکین کے
مقابلے میں اہل کتاب سے یہ اتحاد قرآن وسنت کے مزاج کے مطابق تھا،لیکن اس
کے ساتھ چونکہ مسلمانوں کو اپنے ثقافتی ورثے سے منسلک رکھنے کے اقدامات
مؤثر نہیں کئے گئے تھے، اس لئے آہستہ آہستہ مسلمان اپنی تہذیب کو بھولتے
گئے ،اہل اسلام و اہل عرب سے ہٹ کرمغربی تہذیب اور انگریزوں کا طور طریقہ
اپنانے میں فخر محسوس کرنے لگے ،یہاں سے جسمانی و جغرافیائی کے بجائے صحیح
معنوں میں مسلمان تہذیبی،نظریاتی ،ذہنی اور فکری طور پر غلام بننا شروع
ہوئے، حیف ہے کہ پاکستان بننے کے بعد بھی اس اہم پہلو کی طرف توجہ نہیں دی
گئی۔دوسری طرف علما نے جس نصاب کو اپنایا ،وہ صحیح معنوں میں زمانے کے
تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں تھااور اب بھی نہیں ہے، اس میں بہت کچھ تبدیل کرنے
کی شدید ضرورت ہے،اگر چہ وہ قوم کے ایک بڑے حصے کو مغربی ذہنیت سے بچانے
میں توکامیاب رہے،مگراسلامی تہذیب کے اصل سر چشمے (عربی) پر لے جانے کے
بجائے وہ قوم اور ان کے نو نہالوں کو عجمی شاخوں کے میدان ِ تِیہ میں
سرگرداں پھراتے رہے،آپ نے دیکھا ہوگا ،کیسا پسینہ آتا ہے ہمارے مولویوں
کواگر کسی عرب سے بات کرنے کا بدقسمتی سےموقع آجائے ۔
بہر حال بات کچھ لمبی سی ہوگئی،لیکن یہ تھا وہ جھگڑا جس نے ہندو مسلم اتحاد
کی حقیقت کو طشت ازبام کا ، حقیقت یہ ہے کہ ہندی اردو جھگڑے کی صورت میں ہم
ان دونوں مختلف ثقافتوں کا ٹکراؤ دیکھتے ہیں، جو باوجود اس حقیقت کے کہ
صدیوں تک ایک ہی خطے میں پروان چڑھی تھیں، لیکن ریل کی دو پٹریوں کی طرح یا
بجلی کے ایک ہی کیبل کے اندر دو تاروں کی طرح اور یا پھر ندی کے دو کناروں
کی طرح نہ کبھی ماضی میں آپس میں گھل مل گئے اور نہ کبھی مستقبل میں ان کے
گھل مل جانے کا کوئی امکان ہے۔
اب مسلم قومیت قرآن وسنت کے تناظر میں کیاہے،ذرہ ملاحظہ ہو: اِنَّ ھَذِہِ
اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَاحِدَۃً وَاَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنَ۔
وَتَقَطَّعُوْا اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ کُلُّ‘ اِلَیْنَا رَاجِعُوْنَ (۲۱:انبیاء)
"بے شک(مسلمانو ں)یہ تمہاری اُمت/قوم، ایک اُمت/قوم ہے اور میں تمہارا رب
ہوں ،توتم میری ہی بندگی کرو ،پس انہوں نے اپنے امر (یعنی مسلم قومیت) کو
باہم ٹکڑے ٹکڑےکردیا (تو) وہ سب ہماری طرف رجوع کرنے والے ہیں( گویا اس
بارے میں ہم ان سے ضرور پوچھ گچھ کرینگے)۔یعنی اب تمام مسلمین ایک ہی
اسلامی ثقافت کی حامل ایک اُمت اور قوم ہے اور اس اُمت کی علاقائی نہیں بھی
سہی ،قومی اور بین الاقوامی زبان عربی ہی ہے، چونکہ ’’زبان‘‘ امت کے تمدن،
ثقافت اور تہذیب کی آئینہ دار ہوتی ہے، بلکہ ثقافت اور تمدن کو پیدا کرنے ،نیزبیدار
رکھنے کے لئے ایک معاون کی حیثیت بھی رکھتی ہے اور قومی تشخص پر بھی اثر
انداز ہوتی ہے۔
تمام مسلمین ایک قوم ہے،عربی کی لغت /قاموس میں ’’قوم Nation\ ‘‘ اس گروہ
کو کہا جاتا ہے، جن کی زبان اور ثقافت مشترک ہواور’’ اُمت‘‘ اس گروہ کو کہا
جاتا ہے، جس کی ثقافت، تمدن، زبان،دین، لباس، تاریخ اور تہوار وغیرہ مشترک
ہوں ۔
قرآن مجید کے مطابق بھی قوم کے لئے ایک زبان کا ہونا ضروری ہے۔ وَمَا
اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُولٍ اِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہِ لیُبَیِّنَ لَھُمْ
(۴: ابراہیم)اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا ،مگر اس رسول کی قومی زبان کے
ساتھ، تاکہ انہیں (احکام الٰہی) کھول کھول کر بتائے۔ یعنی ماضی میں ہر قوم
اور ہر زبان میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول بھیجے ہیں،ہمارا رسول ﷺ عالمی
اور ابدی ہے،اس لئے ان ﷺ کو ایک عالمی زبان عربی کے ساتھ مبعوث
فرمایا،اسلام کو لینا اور عربی کو چھوڑدینا ، ایساہی ہے کہ کوئی لاالٰہ الا
اللہ کو تو مانے اور محمد رسول اللہ سے انکار کرے۔ |
|