مرد اور عورت کے درمیان مصنوعی تقسیم کا راگ الاپنے والوں
کے لیے لمحہ فکر یہ ہے کہ جس عورت کو مرد کے ساتھ برابری کی بنیاد پر حقوق
دینے کی بات کی جارہی ہے.اس کے بنیادی حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے جو
اسے مذہب اسلام نے دیے..جنکی بدولت ایک مسلم عورت معاشرے کے لیے فعال کردار
ثابت ہو سکتی ہے.
تخلیق عورت کے بعد جو سب سے پہلا رشتہ عورت کو تفویض کیا گیا ..
وہ ایک بیوی کا تھا.آپ سب اس سے اچھی طرح واقف ہیں..بحیثیت مسلمان ہم اس
بات پر بلا اختلاف یقین رکھتے ہیں.بالکل حضرت آدم علیہ اسلام جب بی بی حوا
سے رشتہ ء ازدواج میں منسلک ہوئے وہیں سے نسل آدم کا یا یوں کہیے بنی نوع
انسان کے ایک نا ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہوا قیامت تک.
اور یہیں سے عورت کے دوسر ے تمام رشتوں کا آغاز ہوا..عورت جس روپ اور حیثیت
میں رہی اسے ایک قابل قدر مقام حاصل رہا.گذرتے وقت کے ساتھ اگر تاریخ کا
مطالعہ کیا جائے تو عورت کی حیثیت بدلتے معاشرے کے ساتھ تبدیل ہوتی
رہی..عزت اور عصمت کا تصور معاشرے سے ناپید ہوگیا.عورت کی ذہنی اور جسمانی
تذلیل کی جاتی رہی.ایک وقت ایسا بھی آیا.کہ انسانوں میں وراثت کا تصور
اجاگر ہونے لگا.اسے اپنی جائداد کے تحفظ کا خیال ستانے لگا..اس دور میں
شادی کے لیے ایسی خواتین کا چناؤ کیا جاتا.جو پہلے سے ماں بننے کے مرحلے سے
گذر رہی ہوں.معصو م لڑکیاں راہ گذر پر کھڑے ہوکر راہ گیروں سے التجا کرتیں.
تاکہ انکے گھر بس سکیں. گذرتے وقت نے انسان کی اس سوچ میں بھی بدلاؤ کی لہر
دوڑائ اور دھیرے دھیرے اپنی نسل کا ہی خیال پروان چڑھنے لگا.یہ وہ دور تھے
جب عورت کو صرف دل بستگی اور وقت گذاری کا سامان سمجھا جاتا تھا. تہزیبیں
بدلتیں رہیں چاہے وہ سامری ہو بابلی ہو یا آشوری نہیں بدلا تو عورت کا
مقام.عورت کی جنسی تذلیل، اسکو وجہء عناد بنا کر اسکا قتل عام، فتوحات کے
نتیجے میں بستیوں سمیت تاراج کرنا،دیوی دیوتاؤں کے نام پر عورت کی بلی دینا
یا قربانی دینا،فرعونی دور میں بھی جب دریا خشک ہوجاتا یا سیلاب کا اندیشہ
ہوتا تو ایک کنواری لڑکی کا چناؤ کر کے اسے دریا برد کردیا جاتا.تاکہ وہ
انکی قربانی قبول کرکے اس آسمانی آفت سے نجات دلا سکیں اللہ تعالی نے ہر
دور میں اپنے انبیاء مبعوث کیے.جنکی اولیں تعلیمات میں عورت کے احترام کو
بھی جگہ دی گئ.لیکن ان تعلیمات اور عقائد کو بھی چند گمراہ لوگوں نے مسخ
کرنے کی کوشش کی.یہی وجہ ہے کہ آج یہودیت یا نصرانیت اور عیسائیت اپنی اصل
شکل سے بالکل الگ ہے.اللہ کے دین میں بگاڑ اس بات کی طرف اشارہ تھا. کہ اب
اسکے تحفظ کا ذمیہ خود وہ زات باری اٹھائے جو پوری کائنات کی خالق ہے.یہی
وجہ ہے کہ دین اسلام جس شکل میں اتارا گیا آج بھی اور تا قیامت اسی شکل میں
قائم دائم رہے گا..دین اسلام کا آغاز جس قوم سے کیا گیا اسکی تمدنی حالت کے
ساتھ ساتھ اسکی اخلاقی اور سماجی حالت بھی مکمل طور پر تباہ تھی.عورتوں کی
کوئ عزت نہیں تھی.زنا کاری عام تھی.شراب میں بد مست ہوکر بے حیائ اور بد
کاری کی انتہا تک پہنچنا انکے لیے معمول کی بات تھی.لڑکیاں پیدا ہونے پر
زندہ دفن کردیں جاتین.ایک عورت کئ بیویاں رکھ سکتا تھا.باپ کے مرنے پر
سوتیلی مائیں بھی جائداد کی طرح تقسیم ہوتیں.عورتوں کو جوئے میں لگایا
جاتا.بے حیائ، بے شرمی ایک ہنر سمجھی جاتی اور اپنے معاشقوں کی داستانیں
مجمعوں میں فخر سے سنائیں جاتیں..غلاموں کے ساتھ ساتھ لونڈیوں کی بھی خریدو
فروخت کی جاتی.اس بات سے آپ اچھی طرح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس دور میں
عورت کس تکلیف سے گذر رہی ہوگی.
یہ دین اسلام ہی تھا جس نے عورت کو پستیوں سے اٹھا کر عزت کی مسند پر
براجمان کیا. عور ایک نئے مقام اور مرتبے سے روشناس ہوئ اور عطمت کی فعتوں
کو پایا..ماں کی صورت خدمت پہ جنت جیسا انعام،بیٹی کی پرورش کرنے والے پر
دوزخ کی اگ حرام کردی گئ،بیوٰی کی حیثیت سے اسکے حقوق اور ضروریات کو پورا
کرنے پر انعام و ثواب کا اعلان.سرکار دوعال کے دور سے خلفائے راشدین، بنو
امیہ، بنو عباس یہانتک کہ حکمران ہند کے سلسلے میں بھی ان روایات کو اپنی
تہذیب کا حصہ بنایا گیا.کیا اسکی مثال کسی اور مذہب میں ممکن ہے.ہندو
معاشرے میں آج بھی عورت کی جس طرح تذلیل کی جاتی یے وہ ڈھکی چھپی بات
نہیں.اگر آج کے معاشرے میں عورت کے ساتھ صحیح سلوک نہیں ہورہا اگر اسکے
ساتھ مختلف قسم کے ظلم روا رکھے جارہے ہیں تو یقین جانیے اسکا ذمہ دار مذہب
اسلام نہیں. بلکہ ہم خود ہیں ہم نے نظریاتی آزادی بھلے ہی حاصل کرلی ہو مگر
ذہنی طور پر آج بھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ ے ہوئے ہیں.اپنے گردو پیش نظر
د.وڑایئے.کیا یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ نہیں.کیا ہم میں وہ تمام خرافات
نہیں پیدا ہورہیں جو ہندو معاشرے میں ایک عورت کے لیئے مشکلات کا سبب ہیں
کیا ہماری بچیوں کی شادی سسرالیوں کے من پسند جہیز کے بغیر ممکن ہے؟
کیا ہم وراثت میں بہن بیٹی کا حق جائز سمجھتے ہیں؟
کیا شوہر بیوی کو اپنی جاگیر نہیں سمجھتا جس کے ساتھ وہ جب جیسا چاہے سلوک
کرے اسے کوئ پوچھنے والا نہیں؟کیا آج بھی بنا کسی قصور میری بہت سی بہنوں
کو طلاق کا تحفہ نہین دیا جاتا؟کیا ہمارے معاشرے میں بیوہ یا بانجھ عورتوں
کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے؟ کیا عورتوں کے دوسری شادی پر یا خلع لینے
پر سوال نہیں اٹھائے جاتے؟
کیا بیٹے کی پیدائش پر بیٹی سے زیادہ خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا؟کیا آج
بھی ہم لڑکیوں کے تعلیم حاصل کرنے کو وقت اور پیسے کا ضیاع نہیں سمجھتے؟یا
انکے راستے میں اس حوالے سے مشکلات کھڑی نہیں کی جاتیں؟کیا گھر سے کسی بھی
ضرورت کے تحت نکلنے والی عورت پر آوازیں کسنا چھیڑنا یا اسکا پیچھا کرنا فن
نہیں سمجھا جاتا؟کیا آج بھی رسمون اور روایات کے نام پر عورت کو قربان نہیں
کیا جاتا؟کاروکاری، ونی جیسی رسمین کیا عورت کی تذلیل نہین؟کیا اکلوتی لڑکی
دوسرے خاندان مین جانے نہ پائے صرف اسلیئے اسے نعوز باللہ قران پاک کے عقد
میں نہین دے دیا جاتا؟کیا آج بھی لڑکیوں کو پیدائش پر مار نہیں دیا جاتا
بلکہ بعض اوقات تو رحم مادر میں ہی قتل کردیا جاتا ہے.الٹرا ساؤنڈ جیسی
جدید سو نو گرافی کے ذریعہ معلوم کرکے. معاف کیجئے گا یہ مذہب اسلام کی
تعلیمات نہیں اپنی فرسودہ روایات اور ترجیحات کو دین سے جوڑنے کا جواز نہیں
ڈھونڈیئے. ہمارا مذہب امن و آشتی کا مذہب ہے جو معاشرے کءے ہر رکن کو باعزت
طریقے کے ساتھ پورے حقوق دیتا ہے تاکہ وہ ایک ذمہ دار اور معز ز فرد کے روپ
میں سامنے آسکے.وی عورتوں کو حدود مین رہتے ہوئے انکے تمام معاملات میں سب
سے بہتر حقوق اور اصلاحات دیتا ہے.چاہے وہ زندگی کے ساتھی کا چناؤ ہو.یا
تعلیم کا بنیادی حق.چاہے گھر سے نکلنے کے مسائل کا بیان ہو یا انکے ملبوسات
سے متعلق حکام، پیدائش سے لے کر جوانی اور بڑھاپے تک وہ ہر جگہ عورت کو
برابری کی بنیاد پوری آزادی دیتا ہے ویسی نہیں جیسی آج کل ہمارے تصور میں
ہے.اور اسکا اصل مقصد یہی یے کہ عورت کو تحفظ دیا جائے جسکی وہ مستحق ہے.
انشاء اللہ ہم عورت کے بناؤ سنگھار اور حجاب کے حوالے اسلامی احکام کا
جائزہ لیں گے آئندہ آر ٹیکل میں. ہوسکے تو روز جلدان سے قرآن پاک نکال کر
تلاوت کرکے لپیٹ کے رکھنے کے بجائے اسکا ترجمہ کے ساتھ تھوڑا تھوڑا کرکے
تفصیلی مطالعہ کریں.مختلف مسالک کے زیر اثر یا علماء کرام کی اندھی تقلید
کے بجائے خود کو سوچنے کا موقع دیں.میں یہ نہیں کہتی کہ وہ غلط ہیں یا غلط
ہوسکتے ہیں بلاشبہ انکے
آپ سے زیادہ علم ہے.مگر کوشش تو کیجئے یہ جاننے کی کہ جو آپ سے کہا جاریا
ہے یا جو سمجھایا جارہا ہے اسکی وجہ اصل کیا ہے؟آپکو اسکی تعلیمات کیوں دی
جارہی ہیں؟ہمارے مذہب میں تاریخ میں کئ جگہ مناظروں کی مثالیں ملتی ہیں جن
میں مختلف مکاتب فکر اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنء والے علماء کو دعوت دی
گئی؟
ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کا جواب ڈھونڈنا گناہ عظیم نہیں اور نہ ہی یہ
شرک کے زمرے میں اتا ہے؟ یہ صرف چند لوگوں کی ہیدا کردہ سوچ ہے؟جب اپ مکمل
طور پر ذہنی اور دلی طور پر مطمئن ہوں گے تبھی تو پورے دل کے ساتھ اس ذات
باری کے آگے جھکیں گے اندھی تقلید کیوں یا سجدوں میں سر پٹکنے کا کیا فائدہ
جس نے جو کہا اسکے پیچھے چل دیئے معذور لوگ بھی اپنے حواس خمسہ سے مدد لیتے
ہیں اپ تو ایک ماشاء اللہ باصلاحیت اور جسمانی اعتبار سے مضبوط انسان
ہیں.کچھ نہیں تو قرآن پاک کی ترجمے کے ساتھ روز تلاوت کریں بہت آسان الفاط
میں ہدایات ہیں ہر معاملے سے مطابق راستہ چننا آپکا کام ہے اور ہدایت دینا
اس ذات باری کے ہاتھ.تو مہربانی کرکے اپنے دین کا غلط تصور دنیا کے آگے پیش
کرنے کے بجائے اسکی صحیح رہنمائ کا بندوبست کیجئے اپنے لیئے بھی اور دوسروں
کے لیئے بھی.تعلیم کا حصول شرط ہے.قوم کی فلاح و بہبود کے لیئے بھی اور ایک
جاندار اور فعال معاشرے کے لیے بھی.
اجازت آئندہ عورتوں کے حجاب و سنگھار سے متعلق مسائل لے کر حاضر ہوں گے
شکریہ |