اپنی مٹی سے بچھڑنے کی سزا ملتی ہے

گردش ایام،فکر معاش اور آرزوتن سکھ نے انسان کو طائر نیم بسم اور غریب الدیار بنا دیا ہے۔ جسم اور روح کے رشتے کو برقرار رکھنے کی تگ ودومیں اسے اتنے کوسوں دور جانا پڑتا ہے کہ جہاں رنگیتی جہاں اس کے شعورپہ وہ قفل دیر پا لگاتی ہے جس کی پاداش میں اسے کبھی زہر قاتل بھی پینا پڑتا ہے اور وہ مانند کٹی پتنگ کبھی نو کیلی شاخوں سے جا ٹکراتاہے تو لہو کے دھارے زمین پر آ کر فریاد بننے کی بجائے اس کے اپنی ہی تن کو داغ دار کرتے ہیں تو کبھی وہ اتنا بے حواس ہو جاتا ہے کہ وہ گز ری ساعتوں سے رشتہ توڑ لیتاہے۔ یہی کچھ صورتحال ہے ہمارے علاقے کے فلک پرواز نوجوانوں کے ساتھ جو چند سہانے خوابوں کے جزیرہ میں جانے کے لئے پاک دھرتی کو خیر باد کہ کراغیار کے شانوں کا رخ کرتے ہیں ۔نند یا پورے کے یہ باسی فن بیچ کر دھن کا سودا کرتے ہیں ۔وقتِ نا صر گزرتارہتا ہے وطن کی مٹی بارہاپکارتی ہے ۔ گھر میں بجھتے چولہوں کا دھواں ، خالی برتنوں کی کھنکھناہٹ ، فاقوں کے اندیشے قرض خواہوں کے تقاضے ،تنگ دستی کے گرداب، موت کی چاپ اور درد کی ہوک بھی اسے واپس پلٹنے پر مجبور نہیں کرسکتیں ۔
ذہنی غلامی کا یہ طوق اتار کراگریہ لوگ کبھی ضمیر کے بند کواڑوں میں جھانک کر دیکھیں تو ہر شام راہ تکتی بے چاری ماں، بستر مرگ پر پڑے باپ کی کراہیں ،شریک حیات کی پرنم پنکھڑیاں اور ماں کی سسکیوں سے پیاس بجھاتی منی کی ٹوٹتی صدااور نہ جانے کون کونسی انگنت رفاقتیں یہ کہنے پر مجبور ہوجاتی ہیں کہ شام کو پنچھی بھی گھر لوٹ آتے ہیں۔

سوالیہ نشان یہ ہے کہ کس کے خوابوں کی تعبیر کے لئے ؟کس کے ارمانوں کی نگری سجانے کے لئے ؟ کس کی زندگی کے پیچ و خم سنوارنے کے لئے یہ لوگ پردیس میں وطن سے دور خود کو مایوسیوں اور ناامیدی کے لق ودق صحراؤ ں میں دھکیل کر نفس پر ستی ، خود بینی اور خود سری کے سرابوں میں کھو جاتے ہیں ۔اپنے وطن کی مٹی سے شاید اس لئے دور بھاگتے ہیں کہ یہ کیمیائے سعادت ان کی عیاشیوں اوباشیوں، چہرہ پرستیوں اور عیش و نشاط کی راہوں میں سنگ گراں نہ بن جائے ۔ غیر کی جھولی کے چھید اگردراحساس پہ دستک دیں تو وطن کی مٹی حجراسود سے کم نہیں ۔

جنون آوارگی میں غیر وں کی شہریت کا نازاں ارض پاک پر قدم رکھنے کا دھیان نہیں دیتا اور بے بسی کے عالم میں باپ کو تنہائی نہیں ڈستی جب کہ زند گی کی زلفوں کو سنوارنے کی تگ ودو میں بیٹی کو زمانے کی ناگن ڈس لیتی ہے۔ رگوں میں دوڑتی عریاق سانسوں کی ڈور توڑدیتی ہے ۔گھر کے دیپ بجھے گردش ایام کا چکر پوا ہوتا ہے ۔خوشیوں کی سیج سجانا تودور کی بات ،ڈولی کو کندھا دینا تو کجا ،باپ کی قبر پر مٹی ڈالنا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ زمانے کے جھنجھٹ سے رہائی پانے کے بعد باپ واپس لوٹتا ہے تو حالات یکسر بد ل چکے ہوتے ہیں ۔ارض وسما سے صرف ایک آواز آتی ہے کہ لوٹ جا ! تیرا یہاں کو ئی نہیں ۔ماضی کی رفاقتوں کا سہارا لے کر وہ خونی رشتوں سے تصفیہہ چاہتا ہے لیکن دھن کے دلدادوں کے سوا کوئی اسے اپنا سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔ چندے ماہتاب بیٹی کی قبر پر جانے کا خواہاں ہے لیکن پرستان کے اس مکین کو قبر ستان اجنبیت سے دیکھتا ہے۔ پھول کی پتیاں نچھاور کرے تو کس قبر پر ؟ شاید اس کے کانوں میں مٹی کے ڈھیرسے یہی آواز سنائی دے رہی ہو! جان سے پیارے ابو ! میں نے تو سنا تھا بیٹیاں رحمت ہوتی ہیں ۔جنت ماں کے قدموں تلے ہوتی ہے آ پ یہ سب کچھ چھوڑ کرکہاں چلے گئے تھے ۔ہم نے تو ہر پل آپ کے لوٹنے کے قدموں کی آہٹ سنی مگر یہ سب کچھ فریب نظر کے سوا کچھ بھی نہ تھا ۔

یہ ایک کہانی ہے ان لوگوں کی جو وطن کو چھوڑ کر مغرب اور عرب کے دور دراز علاقوں میں جابستے ہیں ۔اور جب کبھی وہاں حالات ابتر ہوتے ہیں تو انہیں سہارا صرف اور صرف وہ وطن دیتاہے جس کو انہوں نے کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیا ہوتا ۔ جس ملک کا نام لیتے ہوئے انہیں شرم محسوس ہوتی ہے آج اسی وطن کا جہاز ان کیلئے ناخدا بن جاتاہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کیلئے پی آئی اے پر سفر کرنا باعثِ تکلیف اور باعث ذلت ہوتاہے ۔ آج کس طرح حسرت بھری آنکھوں سے اسی پی آئی اے کے منتظر ہیں۔ آج سے پچیس سال پہلے انہیں گہنگار آنکھوں نے کچھ اسی طرح کا منظر دیکھا تھا جب عراق نے کویت پر حملہ کیا تھا ۔ مصر ہو یا کویت ، شام ہو یا یمن منظر ہمیشہ یکساں رہا۔ آخری سہارا صرف پاکستان ہی ٹھہرا ۔ ان نادانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اپنی شناخت کو کبھی نہ بھولیں ۔ اپنی صلاحیتوں ، اپنی توانائیوں ،اپنی قابلیتوں اور اپنے ہنر کو وطن پر صرف کرنا چاہیے ۔ انہیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے
وطن چمکتے ہوئے کنکروں کا نام نہیں
یہ تیرے جسم ، تیر ی روح سے عبارت ہے
Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 114778 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More