شرم ہم کو، مگر تم کو نہیں آتی
(Zulfiqar Ali Bukhari, Rawalpindi)
ہمارے ملک میں آوئے کا آوا ہی
بگڑا ہوا ہے یہاں کوئی سیاست دان یا لیڈریا اعلی افسران کسی بھی حوالے سے
کسی بارے میں جواب طلبی کرنے میں یا جوابدہی میں دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔جوں
جوں وقت گذرتا جا رہاہے ۔محترم طاہر القادری اور عمران خان کی تمام تر
باتیں سچ ثابت ہوتی جا رہی ہیں کہ اس ملک میں جب تک ہر شعبے میں قانون کے
مطابق عمل درآمد نہیں ہوگا حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہو پائے گی۔آپ لوگ اگر
موجود ہ حکومت کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو پتا چلے گا کہ جس عوام نے جو
کچھ سوچ کر موجود ہ حکمران جماعت کو اقتدار میں لانے کا سوچا تھا وہ بہت حد
تک پورا نہیں ہو پایا ہے اور نہ ہی اس بات کی کوئی توقع ہے کہ وہ کچھ خاص
تبدیلی رونما ہو سکے گی۔طاہر القادری صاحب کے بارے میں جو گروہ بھی بات
کرتا ہے وہ بے بنیاد بات کرتا ہے وگرنہ سب جانتے ہیں کہ وہ ’’حمام میں ننگے
‘‘ ہو چکے ہیں مگر باتوں کے شیر عملی طور پر بالکل ناکام ہو چکے ہیں۔ڈاکٹر
طاہر القادری اور عمران خان اگر انقلاب کی بات کرتے ہیں تو تمام تر شعبوں
میں اس پر عمل درآمد کے خواہاں ہیں اور اسکی شروعات جب تک الیکشنز سے نہیں
ہوگا تو کچھ بھی تبدیل نہیں ہو پائے گاآپ خود دیکھ لیں جناب کہ الیکشن میں
کیا کچھ ہوا تھا آج تک کی اخبارات کا بغور معائنہ کرلیں سب ظاہر ہو جائے گا
او ر یہ بھی معلوم ہو جائے گاکہ عوام کی بھلائی کس قدر ممکن ہو پائی ہے؟جو
سلسلہ کرپشن کے حوالے سے اور میرٹ کے قتل کا ماضی کی حکومتوں نے جاری کیا
تھا وہ آج کسی نہ کسی شکل میں جاری و ساری ہے۔یوں سمجھ لیں کہ کام وہی ہے
جو باقی کرتے رہے ہیں مگر چہرے بدل گئے ہیں اب ہمیں نظام بدلنا ہوگا یا پھر
نظام کو چلانے والوں کو بدلنا ہوگا تب ہی تبدیلی حقیقی رونما ہو سکے گی؟
مگر عوام کے ووٹ لے کر انہی کے لئے مسائل کھڑے کرنے والوں کو شرم نہیں آتی
ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں مگر آج ہماری پاکستانی عوام کا ایک بڑا طبقہ
شرمسار ضرور ہوگا کہ انہوں نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی چلوا کر اپنے آپ کو
تکلیف میں ڈالا ہے جس کا ازالہ اگر وہ آئندہ الیکشن میں کرلیں تو ملک کے
ساتھ انکی بھی قسمت سنور سکتی ہے؟
اس کے ساتھ ساتھ سوال یہ ہے کہ کیا اس وطن عزیز میں اپنا حق حاصل کرنے کے
لئے اگر میرٹ ناکافی ہے تو کیا لوگوں کو محنت اور لگن کی بجائے کسی
وزیر،مشیریا جاگیر دار کی سفارش ڈھونڈنی پڑے گی یا پھر اپنی زندگی کی جمع
پونجی بطور رشوت کسی افسر کی جیب کی نظر کرنی پڑے گی؟ یہ بھی اس لئے کہہ
رہا ہوں کہ میرا ذاتی تجربہ ایساحال ہی میں ہوا ہے کہ ایک نائب تحصیل دار
نے محض ذاتی عداوت اور رشوت نہ دینے کی بنا پرہمیں 17مرلے زرعی اراضی سے
محروم کر دیا اور اسکی دیدہ دلیری دیکھئے کہ وہی رقبہ محض چند ماہ میں
دوسرے افراد کے نام بھی منتقل بھی کروا دیا حالانکہ اصولی طور پروہ رقبہ
بھی حقیقی وارثان کے نام آنا چاہیے تھا مگر جناب ذاتی انا اور رشوت نہ
دیناشریف آدمی کو شرافت کی قیمت اداکرواتی ہے؟اب اس کیلئے میں تو کوئی
قانونی چارہ جوئی خود کروں گا لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے محکمے ازخود درست
طور پر کام کیوں نہیں کرتے ہیں؟ ہر بار سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لے لے کر
ہی عوام کی بھلائی کے کام کرنا ہونگے آخرعوام کب اس ملک میں میرٹ کے اوپر
تمام تر کام ہوتا دیکھیں گے؟کیا دوسرے ممالک میں جا کر کام کرنے والے یہاں
پاکستان میں قانون کی پاسداری نہیں کر سکتے ہیں؟آخر ہم کب سدھریں گے؟اب
تصویر کا دوسرا رُخ اگر میں آپ کو دکھانا چاہوں تو یہ دیکھ لیجئے کہ لیاقت
پور میں محترم محمد مظہر فرید اسسٹنٹ ڈائریکٹر لینڈریکارڈ صاحب نے روایتی
دفتری کاروائی کی بجائے اپنی ذمہ داری و فرائض یوں نبھائے کہ آج میں اُنکا
گروید ہوگیا ہوں کہ انہوں نے میرے جائز کام کو فورا سے پایہ تکمیل تک پہنچا
دیا،حالانکہ جس قدر اُنکی مصروفیت کا عالم تھا میرے جائز کام میں چند دن
صرف ہوسکتے تھے مگر انہوں نے احساس کیا جس کی بنا پر میں تاحیات اب اُنکا
مشکور رہوں گا۔جناب بات کہنے کی یہ ہے کہ اگر ہمارے سرکاری دفاتر میں محترم
محمد مظہر فرید اسسٹنٹ دائریکٹر لینڈریکارڈ صاحب جیسے لوگ اپنی ذمہ داری کا
احساس کر لیں تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں وگرنہ میرے محترم نائب
تحصیل دار صاحب کی طرح وہ تاخیری حربے استعمال کرکے مسائل بھی کھڑے کر سکتے
ہیں اور آپ کو کچھ دیئے بنا چارہ نہیں رہتا ہے ؟ مگر ایسے میں آپ مجبورا
کچھ دے کر شرمسارتو ہو جاتے ہیں مگر لینے والوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے
کہ وہ ایسا کر کے آخر روز محشر اﷲ تعالیٰ کو کیا جواب دہ ہونگے؟ |
|