تحریک انصاف کے چیرمین عمران
خان نے شور مچاکر جس طرح پورے انتظامی اور سیاسی ڈھانچے کو زمین بوس کرنے
کا تہیہ کررکھا ہے اوراین اے 125کے حلقہ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے
دوبارہ انتخاب کااعلان کیا ہوا وہ نہ صرف خوشی سے ہر طرف شادیانے بجاتے پھر
رہے ہیں بلکہ اب حلقہ این اے 122کے تعاقب میں بھی ہیں اس پر سوائے حیرت کے
کچھ نہیں کہاجاسکتا۔
الیکشن کمیشن نے حلقہ این اے 125کے الیکشن کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ
باقاعدہ دھاندلی نہیں ہوئی چھ ساتھ پولنگ اسٹیشنوں پرپولنگ عملے کی جانب سے
لاپرواہی اور غیرذمہ داری کا مظاہرہ ہواہے ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ
1970ء سے لے کر آج تک جتنے بھی قومی صوبائی اور بلدیاتی الیکشن ہوئے ہیں
اگر کسی بھی حلقے کا جائزہ لیا جائے تو اب تک ہونے والے تمام الیکشن ایسی
ہی لاپرواہیوں اور غیر ذمہ داریوں سے بھرپور دکھائی دیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ
نہ تو الیکشن کمیشن کااپنا کوئی الگ انتظامی ڈھانچہ ہے اور نہ ہی مستقل
عملہ ۔ مختلف سرکاری اداروں سکولوں اور کالجزسے مستعار لیے جانے والے لوگوں
کو مناسب تربیت ٗ اہلیت اورحفاظتی تحفظ کے بغیر ذمہ داری سونپ کرپولنگ کے
لیے خطرناک ترین علاقوں میں بھیج دیاجاتاہے جہاں موسمی صعوبتوں سے بچانےٗ
رات کو سونے اور جان بچانے کے انتظامات بھی نہیں ہوتے۔حتی کہ کھانا بھی
امیدواروں کے مسلح کارکن ہی پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچاتے ہیں۔جس کی لاٹھی اس
کی بھینس والا معقولہ ہر جگہ صادر آتا ہے ۔پھر جب شام کو گنتی کے بعد نتیجے
کا وقت آتا ہے تو پولنگ اسٹیشن کو مسلح گروہوں نے چاروں اطراف سے گھیر
رکھاہوتاہے۔ہارنے والے امیدوار کے مسلح کارندے پولنگ عملے کی جان کے دشمن
بن جاتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ پولنگ عملہ وہاں سے بچ کر نہ جائے۔پولیس
اہلکارجو عملے کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں مسلح افراد کو دیکھ کر موقعہ
واردات سے ہی رفوچکر ہوجاتے ہیں ان لمحات میں جبکہ الیکشن عملے کی اپنی
جانیں بھی داؤپر لگی ہوں انہیں یہ بھی یقین نہ ہو کہ وہ اپنے ریٹرنگ افسر
کے دفتر تک زندہ پہنچ بھی جائیں گے یا نہیں ۔ یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ
وہ اپنے فرائض کو صحیح انداز میں انجام دیں گے۔ بھارت میں بھی انتخابات
ہوتے ہیں ہارنے والے ہار قبول اور جیتنے والے مبارکیں وصول کرتے ہیں وہاں
الیکشن کمیشن نہ صرف حکومتی اثر و رسوخ سے آزاد ہے بلکہ تمام ریاستوں میں
اس کا مستقل اور تجربہ کار عملہ بھی ہے جس کو وقتا فوقتا مزید تربیت دی
جاتی رہتی ہے اگر پولنگ عملے کے کسی فرد کی وفاداری یا اہلیت پر شک گزرے تو
اسے ملازمت سے برخاست کردیاجاتاہے۔
بھارتی الیکشن کمشنر اس قدر طاقتور ہے کہ ایک مرتبہ وزیر اعلی اپنی کابینہ
کے ارکان کے ساتھ کسی وضاحت کے لیے الیکشن کمیشن کے دفتر آئے انہیں الیکشن
کمشنر کے حکم پر سرکاری ہیلی کاپٹروں کو چھوڑ کر اپنی جیب سے کرایہ اداکرکے
عام بسوں میں واپس جانا پڑا ۔ بھارت میں الیکشن کمشنر اتنا طاقتور ہے کہ وہ
وزیر اعظم کو بھی طلب کرسکتا ہے الیکشن کمشنر کے اہلکار ویڈیو کیمروں کے
ذریعے حلقہ کے ہر امیدوار کے اخراجات اور تقریروں پر کڑی نظر رکھتے ہیں ۔
خلاف ورزی کرنے والاکتنا بھی بااثر کیوں نہ ہو و ہ سزا سے نہیں بچ سکتا۔سزا
ہمیشہ کے لیے نااہلی بھی ہوسکتی ہے اور قید کی صورت میں بھی ۔ عمران سمیت
شاید ہی کوئی سیاسی جماعت ایسی ہوگی جسے 2013ء کے انتخابات پر اعتراض نہ ہو
۔اس وقت جبکہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری سے ترقی و خوشحالی کا ایک نیا
دور شروع ہونے والا ہے تو سیاست دان اپنے گناہوں کے پلندے اور گندے پوتڑے
لے کر عدالتی کمیشن میں پہنچ چکے ہیں ان میں سے ہر کسی کی کوشش ہے کہ
موجودہ حکومت رخصت ہو دوبارہ الیکشن کا اعلان ہوچینی سرمایہ کاری منصوبے رک
جائیں اور پاکستانی قوم ہمیشہ کے لیے بے روزگاری ٗ لوڈشیڈنگ ٗ بدحالی کی
دلدل میں اتری رہے ۔عمران خان کتنا منصف مزاج ہے اس کا ثبوت تحریک انصاف کے
پارٹی الیکشن بھی ہیں جو شخص اپنے پارٹی الیکشن میں دھونس اور دھاندلی کو
نہیں روک سکا وہ حکومتی ایوانو ں میں پہنچ کر کونسی توپ چلا ئے گا۔جو خیبر
پختوانخواہ میں ڈھنگ کا کوئی کام نہیں کرسکا وہ نیا پاکستان کیسے بنائے گا
۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کا کام صرف شور مچاکر بھارتی خفیہ ایجنسی را کے
اس ایجنڈے کی تکمیل کرنا ہے جس کا مقصد عظیم اقتصادی راہداری کے کثیر
الامقاصد منصوبوں کو موخر کرنا ہے۔میں سمجھتاہوں دھاندلی پر شورمچانے والوں
کو موجودہ سیاسی نظام کی بساط لپیٹنے کی بجائے 2017ء میں ہونے والے الیکشن
کے لیے ایسا نظام وضع کرنے پر اصرار کرنا چاہیئے تاکہ مستقبل میں 100فیصد
درست نتائج برآمد ہوسکیں۔
اس مقصد کے لیے برطانیہ ٗ امریکہ اور بھارت کے انتخابی نظام کا جائزہ لے کر
پاکستان میں رائج کرنے کی قانون سازی کرنی چاہیئے ۔پھر ہر بیرون ملک رہنے
والے پاکستانیوں سمیت ہر پاکستانی کو ووٹ ڈالنے کا قانونی طور پر پابند
کیاجائے جو ووٹ نہ ڈال سکے اس کی شہریت منسوخ کردی جائے۔بائیو میٹرک نظام
کے تحت آن لائن ووٹنگ سسٹم شروع کیاجائے لمبی قطاروں اور بھیڑ بکریوں کی
طرح ہانک کر ووٹروں کو پولنگ بوتھوں پر لانے کا توہین آمیز طریقہ ختم
کیاجائے ووٹر جہاں بھی ہو خود اپنے نزدیکی کمپیوٹر سنٹرز ( جن میں ہسپتال ٗ
سرکاری دفاتر ٗ فوجی یونٹیں ٗ پولیس ہیڈکوارٹر ٗ تھانوں ٗ جیلوں ٗ سکول
کالجز یونیورسٹیوں ٗمیڈیکل سٹوروں ٗ نیٹ کیفے )اپنی مرضی سے کسی رکاوٹ اور
تکلیف کے بغیر ووٹ ڈال سکے ۔اس وقت فوج پولیس انتظامی اداروں ٗ جیلوں میں
بند قیدی ٗ تھانوں میں حوالاتی ٗ بیرون ملک پاکستانیوں ٗامیر زادوں سمیت
پولنگ عملے کے اراکین بھی ووٹ نہیں ڈالتے اور نہ ہی انہیں ووٹ ڈالنے کی
سہولت میسر ہے ۔ 70 فیصد پاکستانیوں کے ووٹوں کے بغیر الیکشن کو کیسے
منصفانہ قرار دیاجاسکتاہے ۔پھر ادھار مانگا ہوا ناتجربہ کار پولنگ عملہ
ٗپولیس کی بزدلی ٗ آن لائن گنتی کے نظام کے فقدان ٗ عملے کے عدم تحفظ ٗ
ریٹرنگ افسر تک بحفاظت رسائی کی بنا پرآزادی سے اپنے فرائض انجام نہیں دے
سکتا ۔ یہ ایسے عوامل ہیں جن کو ٹھیک کیے بغیر الیکشن میں دھاندلی کے عمل
کو نہیں روکا جاسکتا ۔اگر1970 سے لے کر آج تک ہونے والے تمام قومی وصوبائی
انتخابات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہر الیکشن 2013ء سے بھی بدتر دکھائی دے
گا ۔ جب تک پاکستان میں الیکشن کمیشن کے ادارے کو حکومتی اثر و رسوخ سے
آزاد نہیں کیا جاتا جب تک الیکشن کمیشن کا اپنا مستقل عملہ مقرر نہیں کیا
جاتا جب تک چیف الیکشن کمشنر کو دوران الیکشن عبوری وزیر اعظم کے اختیارات
حاصل نہیں ہوتے اور تمام انتظامی ادارے اس کے ماتحت نہیں ہوتے اس وقت تک
پاکستان میں آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیرنہیں
ہوسکتا۔
اس مقصد کے لیے جوش کی بجائے ہوش کی ضرورت ہے ۔ نوازحکومت کی دشمنی کی آڑ
میں ملک دشمنی کا مظاہرہ کرنے سے ہر سیاسی جماعت کو اجتناب کرنا چاہیئے اور
سسٹم کی بساط لپیٹنے کی بجائے آنے والے قومی انتخابات کے لیے ایک ایسا نظام
وضع کرناچاہیئے جس کے تحت ایک موچی ٗدھوبی ٗ نائی ٗ مزدور ٗ کسان بھی آسانی
سے انتخاب لڑ سکے ۔ پیسے کے بل بوتے اور اثرو رسوخ پر الیکشن لڑنے کے رجحان
کی ہر ممکن حوصلہ شکنی کرنا ہوگی ۔اگر ایسانہ کیا گیا تو پاکستان میں کبھی
بھی جمہوری قدریں استحکام حاصل نہیں کرسکتیں ۔ اس وقت پیپلز پارٹی ٗ مسلم
لیگ ن ٗ تحریک انصاف سمیت ہر سیاسی جماعت میں شخصیت پرستی کا غلبہ ہے اول
تو سیاسی جماعتوں میں انتخاب کروانے کا رواج ہی نہیں ہے اور اگر انتخاب
ہوتے بھی ہیں تو صدر سمیت آدھے سے زیادہ عہدیدار بلامقابلہ منتخب ہوتے ہیں
اگر کسی غریب کارکن نے اپنے پارٹی قائد کے خلاف الیکشن لڑنے کی جرات کی تو
پھر اس کا ٹھکانہ پارٹی سے نہ صرف باہر ہوگا بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے باغی
قرار دے کر اس کے خلاف مقدمات قائم کردیئے جاتے ہیں ۔ ہم امریکہ برطانیہ
اور بھارت میں جمہوریت کے استحکام پر بہت فخر کرتے ہیں لیکن ان ممالک میں
کسی بھی جگہ شخصیت پرستی نظر نہیں آتی۔ ایک دو الیکشن کے بعد ہر پارٹی کا
سربراہ خود بخود تبدیل ہوجاتا ہے ۔ لیکن پاکستان میں اگر پہلے ذوالفقار علی
بھٹو پیپلز پارٹی کا سربراہ تھا تو اس کے بعد یہ تاج بھٹو کی بیٹی بے نظیر
کے سر پر رکھ دیا گیا بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد آصف علی زرداری نے شوہر
کی حیثیت سے پارٹی کی قیادت سنبھال لی اور اب بلاول پیپلز پارٹی کو
سنبھالنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ گویا پیپلز پارٹی میں کوئی ایسا جیالا نہیں
ہے جو پارٹی کی قیادت کرسکے ۔
یہی عالم مسلم لیگ ن کا بھی ہے نواز شریف کے بعد شہباز شریف ٗ ان کے بعد
حمزہ شہباز اور مریم نواز میدان میں ہیں۔ ق لیگ میں چودھریوں کی مٹھی میں
بند ہے ۔ مونس الہی کے سوا وہاں بھی کوئی متبادل دکھائی نہیں دیتا ۔فضل
الرحمن بھی مدت دراز سے جمعیت علمائے اسلام کی قیادت سے چمٹے ہوئے ہیں ۔ایم
کیو ایم الطاف حسین کے نکاح میں آئی ہوئی ہے عوامی نیشنل پارٹی ولی خاندان
کے قبضے میں ہے ۔عمران خان کے بغیرتحریک انصاف ادھوری ہے کیا عمران اپنی
جماعت میں جمہوریت کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ہرگز نہیں وہ جاوید ہاشمی جیسے
غیور سیاسی کارکن کی قربانی تو دے سکتے ہیں لیکن خود تحریک انصاف کے چیرمین
کے عہدے کو نہیں چھوڑسکتے۔ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ٗ دکھانے کے اورہوتے
ہیں ۔ عدالتی کمیشن میں دھاندلی کا شور مچانے والوں کے اپنے چہرے گرد آلود
ہیں اگر اب تک پاکستان میں جمہوریت مستحکم نہیں ہوسکی تو پاکستانی سیاست
دان خود اس کے ذمہ دار ہیں جو اپنی پسند و ناپسند کے عمل کو دوسروں پر مسلط
کرنے میں بہت ماہر دکھائی دیتے ہیں ۔نہ وہ خود کھیلتے ہیں اور نہ ہی کسی
دوسرے کو کھیلنے دیتے ہیں۔احتجاجی جلسے ٗ دھرنے دے کر پوری دنیا میں ملک کی
بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔بلدیاتی الیکشن کے نتائج کو دیکھ کر عمران خان
کواپنی اوقات یاد آجانی چاہیئے تھی اور ان کے مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکل
جانی چاہیئے تھی لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں شرم چھوکر بھی نہیں گزری
۔اور وہ شور مچاکر پوری بساط ہی لیپٹنے کی جستجو میں صبح و شام مصروف ہیں۔
پاکستانی جمہوریت کاایک اور المیہ یہ ہے کہ یہاں انڈر میٹرک امیدوار جعلی
ڈگریاں حاصل کرکے عدلیہ اور انتظامیہ کی آنکھوں میں دھول جھونک کے پارلیمنٹ
میں تو پہنچ جاتے ہیں لیکن انہیں قوم کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔
ان کی کسی بھی سطح پر تربیت کا کوئی اہتمام نہیں کیاجاتا ۔ سی ایس ایس کا
امتحان پاس کرنے کے بعد جب تعیناتی کا وقت آتا ہے تو امتحان میں لیے جانے
والی پوزیشنوں کو مدنظر رکھ کر انہیں مختلف محکموں میں تعینات کیاجاتا ہے
پھر جس محکمے میں تعیناتی عمل میں آتی ہے فرائض منصبی سنبھالنے سے پہلے
کتنے ہی تربیتی کورسوں گزاراجاتا ہے ۔ عہدہ سنبھالنے کے بعد بھی ریفریشر
کورس کا وقتا فوقتا اہتمام کیاجاتا ہے ۔میں پاکستان ریلوے کے ایک ڈویژنل
سپرنٹنڈنٹ جناب عبدالحمید رازی کو جانتا ہوں ابھی ان سے میری پہلی ہی
ملاقات ہی ہوئی تھی کہ انہیں مزید تربیت کے لیے پاکستان سٹاف کالج بلا لیا
گیا ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ رازی صاحب 20گریڈ کے افسر بہت باصلاحیت
افسر ہیں لیکن ان کو کسی اور بڑے عہدے پر فائز کرنے کے لیے مزید تربیت کی
ضرورت محسوس کی گئی وہ گزشتہ چار مہینوں سے سٹاف کالج میں ایک بار پھر
تربیتی کورس کررہے ہیں۔ ایک دن موبائل پر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ تو
ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز تھے اور اس عہدے پر کام کرنے والا پورے
ڈویژن کا مالک اورباصلاحیت افسر تصور کیاجاتا ہے پھر آپ کو مزید تربیتی
کورس کی کیا ضرورت آن پڑی ۔ وہ میری بات پر مسکرائے اور کہا جناب صرف میں
ہی نہیں میرے ساتھ پاکستان بھرسے بیسویں اور اکیسویں گریڈکے بڑے بڑے افسر
بھی تربیتی کورس میں شریک ہیں اور وہاں پہنچ کر محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں کچھ
بھی نہیں آتا ۔ یہ اس ایک بہترین افسر کی بات ہے لیکن جو لوگ عوام کو جھوٹے
وعدے کرکے دھونس اور دھاندلی کا مظاہرہ کرکے ٗ پیسے کی چمک دمک دکھا کے
اسمبلیوں میں پہنچ تو جاتے ہیں لیکن انہیں نہ تو قومی مسائل سے آگاہی ہوتی
ہے اورنہ ہی وسائل سے ۔ وہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر انگوٹھا چھاپ بن جاتے ہیں
اور ہر مہینے لاکھوں روپے کی مالی مراعات اور عمر بھر کا پروٹوکول کو اپنا
حق تصور کرنے لگتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیئے کہ جو لوگ الیکشن میں حصہ لینے کے
آرزو مند ہیں انہیں پہلے چھ ماہ کا پاکستان سٹاف کالج میں کورس کروایا جائے
ان کی تعلیم کسی بھی طرح بی اے سے کم نہ ہو جو لوگ تربیتی کورس کوپاس کرلیں
پھرانہیں برطانیہ جرمنی امریکہ لے جاکر وہاں کے انتظامی اداروں کی کارکردگی
جانچنے سیاسی نظام کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ فراہم کیاجائے ۔
پھر انہیں واپس لاکر اپنی دیانت داری کا ثبوت دینے کو کہا جائے اور وطن
عزیز سے وفاداری کو یقینی بنا نے کے بعد الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی
جائے ۔
کیا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ ہم جنگی طیارے خریدنے کا معاہدہ کرتے ہیں تو
اپنے بہترین پائلٹوں کو پہلے اس ملک میں بھجواتے ہیں جو وہاں رہ کر نہ صرف
جہاز اڑانے کی تربیت حاصل کرتے ہیں بلکہ بوقت ضرور ت مرمت کرنے میں بھی
مہارت حاصل کرتے ہیں تاکہ وہ بوقت ضرورت کامیابی سے دشمن کے ساتھ برسرپیکار
بھی ہوسکیں۔ اس کے برعکس جن عوامی نمائندوں نے ملک چلانا ہے ان کے لیے نہ
تو دیانتداری کے کسی ثبوت کی ضرورت سمجھی جاتی ہے نہ تعلیم کی اور نہ ہی
قومی مسائل کے ادارک کی ۔ایک کلرک بھرتی کرنے کے لیے پہلے تحریری ٹیسٹ
لیاجاتا ہے جس میں انگلش اردو حساب اور اسلام کے سوالات پوچھے جاتے ہیں پھر
ان کا انٹرویو کیاجاتاہے تب جاکر کامیاب افراد کو کلرک کے عہدے پر فائز
کیاجاتا ہے لیکن جن لوگوں نے قانون کو بنایا ہے ان کے لیے کسی بھی تعلیمی
اقتصادی اور سیاسی قابلیت اور وفاداری کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی ۔ یہ
زیادتی نہیں تو اور کیا ہے ۔
میری نظر میں جب تک سسٹم کو تبدیل نہیں کیاجاتا ہے وراثتی سیاسی نظام کو
بدلا نہیں جاتا جب تک الیکشن کمیشن کو ہر اعتبار سے خود مختار اور طاقتور
نہیں بنایا جاتا ۔اس وقت تک جتنے بھی انتخابات منعقد کیے جائیں گے ان سے نہ
تو ملک کو فائدہ ہوگااورنہ ہی حقیقی قیادت سامنے آسکے گی ۔ایک پارٹی جاتی
ہے تو دوسری باری لینے کے لیے تیارنظر آتی ہے جبکہ عمران خان اپنی مقبولیت
سے کہیں بڑھ کر جلد سے جلد ایوان اقتدار میں پہنچنے کے لیے بے تاب دکھائی
دیتے ہیں۔اس مقصد کے لیے وہ کسی کا بھی آلہ کار بننے سے گریز نہیں کرتے ۔
جاوید ہاشمی نے دھرنے سے متعلقہ ان کے عزائم سے پردہ اٹھا کر قوم پر بہت
بڑا احسان کیا ہے کہ وہ سابق آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا کے بہکاوے پر
حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے بار بار ائمپائر کی انگلی اٹھنے کا اظہار
کرتے رہے لیکن ائمپائر نے ان کے نو بال پر بیٹنگ کرنے والے کھلاڑی کو آؤٹ
دینے سے انکار کرکے قوم پر احسان کیا ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ روایت پختہ
ہوجاتی تو کوئی بھی شخص ایک دو لاکھ افراد اکٹھے کرکے پارلیمنٹ کے سامنے
دھرنا دے کر حکومت ختم کرسکتا تھا اچھا ہوا ۔آئین میں حکومت کی رخصتی کا
ایک طریقہ وضع ہے اس پر عمل کرکے اگر عمران حکومت کو تبدیل کرسکتے ہیں تو
ضرور کریں لیکن شور مچا کر دھاند لی دھاندلی کا راگ الاپ کر ماحول کو خراب
کرکے وہ کسی بھی طرح ملک و قوم کی خدمت نہیں کررہے ۔انہیں سب سے پہلے اپنے
گریبان میں اور ارد گرد جھانکنا چاہیے کہ ان کے آستین میں بھی فرشتے نہیں
ہیں بلکہ ایسے لوگ موجود ہیں جو کمر تک کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں جنہوں نے
ہر جائز و ناجائز طریقے سے پیسہ کمایا ہے اور اب اسی پیسے کے بل بوتے پر وہ
عمران کو وزیر اعظم بنا کر اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔
پتہ نہیں پاکستانی سیاست دانوں کو کب عقل آئے گی کب سسٹم کو بدلنے کی بجائے
اپنی ہار کو جیت میں بدلنے کے لیے الزام تراشی کا سہارا لیتے رہیں گے
۔مانگے تانگے کا پولنگ عملہ وہی کچھ کرے گا جو اب کررہا ہے جن کو اپنی
جانوں کے تحفظ کا بھی ہر لمحہ خطرہ رہتا ہو وہ اپنے فرائض منصبی کیسے ذمہ
داری سے انجام دے سکتے ہیں۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ پورے انتخابی
نظام اور سیاسی سسٹم کو یکسر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔جب تک یہ کام نہیں
کرلیا جاتا اس وقت تک اسی طرح سیاسی میدانوں میں دھینگامستی ہوتی رہے گی۔
|