چینی سرمایہ کاری اور پاکستانی ٹھگ

عظیم چین نے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں 46ارب ڈالرکی صنعتی سرمایہ کاری کا اعلان کرکے عوام کے دل جیت لیے ہیں اب پاکستان فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح وسطی ایشیا ئی ریاستوں کیلئے اور بالآخر عالمی تجارتی مرکز بنے گا عالم اسلام کے اصل راہنما پاکستان کاسر بلند ہو گااور بھارت ، روس اور امریکہ یہاں سے بستر بوریا باندھتے نظر آئیں گے مگر یہ سب کچھ تب ممکن ہو گا کہ پاکستان کی قیادت باکردار افراد کے ہاتھوں میں منتقل ہوجائے ۔مگر ہمارے ہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہو ا نہیں بلکہ الٹا لٹکا ہوا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی لابی راء کے ایجنٹوں کی صورت میں عرصہ دراز سے کام کرتی چلی آرہی ہے کالا باغ ڈیم بن گیا ہوتا تو ہمارا فالتو پانی بھی ضائع نہ ہوتا ملک گل و گلزار ہو جاتا ہر طرف فصلیں لہلہاتیں حتیٰ کہ سیلاب کا پانی بھی اچھل کود کرکے ایک بھی غریب انسانی جان کا نقصان نہ کرپاتا اب 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی۔ اور گوادر کاشغرکوریڈور بنایا جانا ہے کہ ابھی سے بھارتی ایجنٹوں نے بیان داغ ڈالا ہے کہ اس کا بھی "کالاباغ ڈیم"بنا ڈالیں گے۔ بنگالی میر جعفر اوردکنی میر صادق کی طرح دربدر ہوئے حسین حقانی اور الطاف باہر براجمان رہتے ہوئے جو زہر خصوصاً افواج پاکستان کے خلاف اگل رہے ہیں اس سے ہر پاکستانی کو سخت تشویش ہے ۔ ابھی کوریڈور شروع نہیں ہو ا اور پاکستانی مخالف اور بھارت کی من پسند لابیوں نے غلیظ پروپیگنڈا شروع کرڈالا ہے حتیٰ کہ کوئٹہ میں ہڑتال بھی کروادی ہے ۔پاکستانیو !خواب خرگوش کی مدحوشی ختم کرکے جاگو اور سنو اگر شریف برادران کی اس میں ذاتی،کاروباری مصلحتیں آڑے نہیں آرہیں تو اسمبلیوں کو اعتماد میں خواہ ان کیمرہ ہی سہی لینے میں کیا امر مانع ہے کیوں اس کا روڈ میپ قوم کے سامنے نہیں رکھا جارہا ۔کہیں رائے ونڈی محلاتی و صنعتی واردات کرنا تو مقصود نہیں کہ پہلے وہاں ہزاروں ایکڑ اونے پونے داموں حاصل کیے پھر سڑکوں کا جال حکومتی ذرائع سے بچھایا گیا اورصنعتیں لگنی شروع ہو گئیں صنعتی علاقہ بغیر ٹیکس خود ہی ڈکلئیرکرلیااگر خدا جھوٹ نہ بلوائے تو مومن ایک سوارخ سے ایک ہی دفعہ ڈسا جاسکتا ہے دوبارہ نہیں ۔کوریڈور کدھر سے کدھر کو جائے گا اور کہاں کہاں سے گذرے گا اس کی وضاحت اس لیے نہیں کی جارہی کہ تمام عزیز واقارب اور مال بناؤ کرپٹ دوست احباب کی ٹیمیں نقشہ جات مرتب کرکے اردگرد کی زمینیں رائے ونڈ ی صنعتوں اور جاتی امرائی محلات کی طرح سستے داموں خریدنے کے لیے بھاگ دوڑ کر رہی ہیں اور اس کے قرب و جوار میں جو ملیں لگیں گی اس کی زمین بھی خفیہ طور پر جب حاصل ہو جائے گی تو صحیح روٹ کو اوپن کیا جائے گایہ سرا سر کاروباری بدیانتی ہی نہیں بدمعاشی اور سینہ زوری ہے۔کہ بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست !دنیا کے کسی ملک میں کاروباری شخصیتوں کی بڑے عہدوں پر تعیناتی نہیں ہوتی نہ ہی انھیں الیکشن میں امیدوار بننے کی اجازت ہوتی ہے ۔وہ پیچھے رہ کرگھوڑو ں پر مال لگاتے ہیں اور ڈھیر سارا منافع بناتے ہیں مگر یہاں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے اور چور وی کہندے چورای چوروالامعاملہ ہے۔اور جیدی کوٹھی دانے اودے کملے وی سیانے کی طرح سارا ٹبر(برادری)کاروباروں میں مشغول ہے سبھی آئندہ الیکشنی امیدوار ہوں گے اور مال لگا کرجیت کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ آج کل کروڑوں کی دیہاڑی لگانے کے لیے علی الالصبح جاگتے اور بینکوں میں حرام مال جمع کرواکر سوتے اور پھر اگلی صبح اسی غلیظ کاروبار میں مشغول ہو جاتے ہیں ان کی طرف سے تو بھاڑ میں پڑے سونا جو کانوں کو کھائے حکومت رہے نہ رہے ہر وقت مال بناؤ اور وقت آنے پر بھاگ جاؤ۔رائے ونڈی محلات و صنعتوں کی جو قطاریں لگی ہوئی ہیں وہ غریب کسانوں سے زمین جس قیمت پر دھوکا دہی سے خریدی نہیں بلکہ ٹھگی گئی تھیں۔ اس ملک کے غریب کسانوں کے خون کی آبیاری سے حاصل کردہ زمینوں کا جو حشر میاں برادران نے کیا ہے اور آئندہ کرنے کے جو مذموم ارادے رکھتے ہیں وہ رہتی دنیاتک یاد رہیں گے ان زمینوں کے انتقالات نکال کر دیکھ لیویں ساری ٹھگی ،فراڈ اور دھاندلی اظہر من الشمس ہو جائے گی خریدی تو زرعی زمین گئی تھی پھر اس پر محلات و کار خانے کیسے بن سکتے ہیں کیا سبھی کے لیے قانون ایک نہ ہو نا چاہیے۔ یقینا مگر کون جواب دے گایا لے گا کہ جواب لینے والے خود مردہ دل ہیں نام نہاد سیاسی پارٹیوں پر بھی توانگریز کے پالتو جاگیرداروں ،سود خور صنعتکاروں ، نودولتیے ٹھگ سرمایہ داروں اور ڈاکو نما بھتہ خوروں کا قبضہ ہے اور ان سبھی کا ایک ہی مسلک ایک ہی برادری اورایک ہی قوم ہے۔ بس ذرادکھاوے کے لیے پی ۔پی ، ق۔ق ، ن ۔ن اور انصاف ،انصاف کی گردانیں الاپتے رہتے ہیں تاکہ کہیں عوامی شعور بیدار ہو کر غریب عوام کی رگوں سے نچوڑے گئے خون سے تیار ہونے والے زرداری و بلاول ہاؤسز ، گجراتی ،رائے ونڈی(جاتی امرائی) اور بنی گالائی محلا ت کی طرف لوگ نہ چل پڑیں اوراس طرح ان سے ناجائز قبضہ نہ چھڑوالیں ۔ چین کی 46ارب روپے کی سرمایہ کاری بھی انہی ٹھگ ٹولوں کی نظر نہ ہو جائے گو کہ چین کے ایکسپرٹس خود اس کی نگرانی کریں گے ۔مگر ہمارے دو نمبر اور کرپٹ بیورو کریٹوں کاقومی معاملات کو رازداری کے دبیز پردوں میں د فنا رکھنا حب الوطنی نہیں بلکہ کاروباری وسعت گیری کی خواہش لگتی ہے ۔سپریم کورٹ اس کا سویو موٹو لے کر اس بات کا ایک ہی دفعہ مستقل فیصلہ سنادے کہ حکمران طبقوں میں سے کوئی ان کاخونی یادوسراقریبی رشتہ دار کسی قسم کی زمین اس کوریڈور کے ارد گرد نہیں خریدسکتا اور نہ ہی کوئی مل تعمیر کرسکتا ہے اگر وہ ایسا براہ راست یا بالواسطہ کرتا پایا جائے تو اس کی منقولہ یاغیر منقولہ کل جائداد بحق سرکار ضبط ہو جائے گی اور اسے قرار واقعی سزا بھی ملے گی اس طرح اور بھی کسی سیاسی جماعت کا سربراہ بشمول میرے اس کوریڈور کے اردگرد زمین خریدے یاصنعتیں لگانے کے لیے کو شاں ہو تو اس کا بھی یہی حشر ہوسبھی کے نام ای سی ایل پر ڈال دیے جائیں تاکہ بیرون ملک مال دُھر کرکے بھاگ نہ سکیں کہ اب بہت ہو چکی اب ملک کے پاس کھونے کو کچھ بھی نہ ہے کہ نوے فیصد سے زائد کمایا ہوا ناجائز سرمایہ بیرون ملک بھجوا کرپلازے تعمیر اور بنک بھر چکے ہیں سپریم کورٹ حکم کے ذریعے ہر مقتدر شخصیت سابقہ یا موجودہ کا سارا بیرون ملک سرمایہ ملک میں واپس منگوائے ۔ جب بھی نواز، شہباز،گجراتی چوہدری ، زرداری و دیگر جاگیردارانہ و صنعتکارانہ جھتوں پر مشتمل نام نہادسیاسی گروہ اقتدار میں آتے ہیں تواصل حکمرانی کچن کیبنٹ نہیں بلکہ ناشتہ کیبنٹ کے پاس ہوتی ہے ۔رنگین راتیں گزار کرکوئی دس ،گیارہ بجے صبح جب اٹھتے ہیں تو وہ پانچ ،سات ہی ہوتے ہیں اور ان کا منتخب ممبر ہو نا بھی قطعاً ضروری نہیں ہو تا سبھی ملکی فیصلے انہوں نے ہی کرنے ہوتے ہیں اور مفاداتی یا مالیاتی فیصلے کاروباری دوستوں یا پھر گھریلو عزیز و اقارب نے طے کرنے ہوتے ہیں آج حالت یہ ہے کہ کوئی منسٹر یاکوئی ممبر قومی یا صوبائی اسمبلی تک بھی میاں صاحبان تک رسائی نہیں رکھتا بلکہ ان کے بیٹوں ، دیگر رشتہ داروں اور دامادوں تک ملاقات جوئے شیر لانے کے مترادف بن چکی ہے عام حکمرانوں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کے فیصلے اوپر ہی اوپر ہو جاتے ہیں مگر ادھر تو نیچے ہی نیچے بلکہ تہہ در تہہ ،تہہ خانوں میں ہو تے ہیں اور کسی کو کانو ں کان خبر تک نہیں ہوتی (یعنی خوف نے انھیں ہمہ وقت زندہ درگور کر رکھا ہے)مجبوراً باہر نکلنا بھی پڑے تو سینکڑوں گاڑیوں کا حفاظتی سکواڈ درکار ہوتا ہے جس میں سرکاری اہلکاروں کے علاوہ ذاتی محافظین کی کثیر تعداد موجود ہوتی ہے ۔ ایٹم بم تو تیار تھا اس کا صرف دھماکہ کرنے کی اجازت دینے کا کریڈٹ لینا چہ معنی دارد ؟کہ یہ وزیر اعظم کی حب الو طنی تھی ! اور یہاں دن رات عوامی ٹھگی جاری ہے ہر حکمرانی کے دور میں ان کی اور عزیز واقارب کی ملیں ہر ماہ ناجائز بچے جنتی ہیں اور بیرون ملک پلازوں کے اونچے میناروں کی گنتی کون کرے گا کیا یہ سارے حب الوطنی کے تقاضے ہیں یا مفاداتی ٹھگی کی علامتیں ہیں میاں صاحبان نے زرداری کی کرپشن کا تحفظ کیے رکھا اب وہ آپ کی طرف داری کرکے احسان چکا رہے ہیں اور جن کو اپنی آئندہ دال گلتی نظر نہیں آرہی وہ نئے ٹھگوں کے اجتماع ضدین انصاف کی تحریک میں شامل ہو رہے ہیں تاکہ کچھ ہو جائے حکومتی شامل باجہ میں رہ سکیں مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور نظر آرہا ہے کہ یہ سبھی ٹھگوں کے ٹولے ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں ان میں سے کوئی آئندہ انتخاب جیت گیا تو ان کا تو اینٹ کتے کا بیر ختم نہیں ہو گااورا یسی فضول جنگ و جدل میں کہیں لاکھوں افراد کی قربانیوں سے حاصل کی گئی پاک دھرتی کا مزید نقصان نہ ہو جائے کہ پہلے بھی صرف اقتدار حاصل کرنے کے لیے ملک کو توڑنے کا وقوعہ ہو چکا ہے لو گوں کو اٹھنا ہو گا اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے خدا کے آگے سر جھکاؤ،گڑ گڑاؤکہ وہ اپنی رحمت برسائے اور ان گھسے پٹے مفاد پرست سیاستدانو ں کوبھگائے کہ ان سے اب کسی قسم کی توقع رکھنا بالکل عبث ہے ۔
Dr Mian Ihsan Bari
About the Author: Dr Mian Ihsan Bari Read More Articles by Dr Mian Ihsan Bari: 11 Articles with 8464 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.