غیر ممالک میں پاکستانیوں کا کالا دھن....واپسی ممکن ہو سکے گی؟

پاکستان کو در پیش مسائل میں سے غربت کا مسئلہ اہم ترین ہے۔ ملک کی 60 فیصد سے زاید آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جس کو روزانہ دو ڈالر بھی نہیں ملتے اور اس تعداد میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ غربت کی وجہ سے ملک کی آبادی کا بڑا حصہ تعلیم سے محروم ہے۔ گزشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق ملک کے دو کروڑ ڈھائی لاکھ بچے بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہیں، والدین کے پاس بچوں کو تعلیم دلوانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ جبکہ غربت کے باعث ملک کے کروڑوں افراد صحت کی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ جس کے باعث ہر سال ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں ضروریات زندگی کی عدم دستیابی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے ملک کے عوام انتہائی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ جبکہ عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کی بجائے حکومت کا کہنا ہوتا ہے کہ جب تک دوسرے ممالک سے قرضے نہ لیے جائیں، اس وقت تک عوام کو کوئی بھی ریلیف نہیں دیا جاسکتا۔ حکومت دوسرے ممالک سے بھاری سودی قرضے لیتی ہے ۔ اگرچہ بھاری قرضوں سے بھی عوام کو ضروریات زندگی میسر نہیں آتیں، لیکن دن بدن عوام کو یہ ضرور بتایا جاتا ہے کہ ملک کا ہر شہری ہزاروں روپے کے قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ایک جانب عوام کی صورتحال یہ ہے کہ ان کے پاس زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں، جبکہ دوسری جانب قانون سے بالاتر ملک کے بعض بے حس افراد کی غیر ملکی بینکوں میں اس قدر زیادہ دولت پڑی ہے کہ اگر اس دولت کا چند فیصد ہی پاکستان میں خرچ کردیا جائے تو نہ صرف ملک کے قرضے ختم ہوسکتے ہیں، بلکہ ملک کے ہر شہری کے مسائل بھی تمام ہو سکتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے حکومت غیر ملکی بینکوں میں موجود پاکستانیوں کے اس کالے دھن کو نہ تو واپس لاسکی ہے اور نہ ہی غیر ملکی بینکوں میں کالا دھن رکھنے والے افراد کے خلاف کوئی قانونی کارروائی ہوئی ہے، بلکہ دوسرے ممالک میں پاکستانیوں کے کالے دھن میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کی موجود رقم کو واپس لانے کے لیے چند دن کے لیے میڈیا پر کچھ ہلچل نظر آئی تھی، لیکن بعد میں سب بھول گئے۔ گزشتہ سال بیرسٹر جاوید اقبال جعفری نے ایک درخواست میں یہ موقف اختیار کیا تھا کہ ملک کے 63 ممتاز سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور وکلا نے ملکی دولت لوٹ کر منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کی، جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر یہ دولت ملک میں واپس لائی جائے تو پاکستان کو کسی بیرونی قرضے کی ضرورت نہ پڑے اور اس رقم سے ملک کے قرضے اتار کر قومی معیشت کو ترقی دی جا سکتی ہے۔ سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر کے موجود ہونے کی اطلاعات ہیں۔ پہلے تو صرف سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے کالے دھن کا رونا رویا جاتا تھا، لیکن اب دبئی میں سات سو پاکستانیوں کے سوئٹزرلینڈ سے دس گنا زیادہ کالے دھن کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔

ذرایع کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے ماتحت ادارے ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو نے اربوں روپے کا کالا دھن دبئی منتقل کرنے کے لیے دبئی کے ریئل اسٹیٹ گروپ ”دماک پراپرٹیز“سے رابطہ کرنے والے 700 پاکستانیوں کا سراغ لگایا ہے۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس اینڈانویسٹی گیشن نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ پاکستانیوں کی جانب سے دبئی بھجوایا جانے والا کالادھن سوئس بینکوں میں موجود پاکستانیوں کے کالے دھن سے10 گنا زیادہ ہے اور دبئی اس وقت پاکستان سے کالا دھن بھجوانے کاسب سے بڑا ”حب“ بنا ہواہے۔ دماک پراپرٹیز کاشمار یو اے ای کے پراپرٹی کے شعبے میں بڑے گروپ کے طور پر ہوتا ہے،2005 میں دماک گروپ نے پاکستان میں رجسٹریشن حاصل کی اور یہ ایف بی آر کے پاس این ٹی این نمبر 2274651-0 کے تحت بطور نان ریذیڈنٹ ٹیکس دہندہ رجسٹرڈ ہے، تاہم گروپ کی طرف سے ایف بی آر کے پاس انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کروائے جارہے، جو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 114(1)(VII)کی خلاف ورزی ہے۔ ذرایع کے مطابق گزشتہ ماہ کراچی میں جب ان سے یہ پوچھاگیاکہ پاکستانیوں کی جانب سے دبئی میں خریدی اوربک کروائی جانے والی پراپرٹی کے لیے اربوں روپے کی ادائیگیاں بیرون ملک کیسے منتقل کی جاتی ہیں اوریہ کہ جو رقوم بیرون ملک منتقل کی گئی ہیں، کیاانھیں چیک کیا گیا کہ وہ قانونی تھیں یا کالا دھن تھا؟ تو دماک کے ڈائریکٹر اس کا بھی کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے، جس پرڈی جی آئی اینڈ آئی ان لینڈ ریوینیو نے کالادھن دبئی منتقل کرنے والے پاکستانیوں کا سراغ لگانے کے لیے”آپریشن ڈیزرٹ“ کے نام سے کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا، جو کامیاب رہا اور اس دوران کالادھن دبئی منتقل کرنیوالے 700 پاکستانیوں کا سراغ لگایا گیا، جن میں سے بہت سے لوگ فرنٹ مین کا کردار ادا کر رہے ہیں، جبکہ ان کے پیچھے کچھ بڑے لوگ ہیں۔ ڈی جی آئی اینڈ آئی کی سفارشات پر حکومت گلف ممالک میں ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کے نام پر سرمائے کی پاکستان سے منتقلی روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھانے پرغورکر رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ کے اس کیس کی تفصیلات وزیرداخلہ چودھری نثار کو بھجوانے کی تجویزدی گئی ہے، تاکہ اس دھندے میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی کے لیے تحقیقاتی ایجنسیوں کے حکام پر مبنی خصوصی ٹیم تشکیل دی جا سکے، تاہم با اثر حلقوں کی جانب سے یہ کیس سرد خانے کی نذر کرنے کے لیے ایف بی آر پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

ماہرین معاشیات کی نظر میں کالا دھن عوام کا وہ پیسہ روپیہ ہے، جو حکومتی اداروں کی نظر سے اوجھل ہو اور جس پر مروجہ فارمولے کے تحت ٹیکس نہ دیا گیا ہو۔ کالے دھن یا پوشیدہ دولت کی پیداوار کے کئی ذریعے ہوسکتے ہیں۔ کچھ ذرایع کالے دھن کی پیداوار کے مجرمانہ اور غیر انسانی ہیں اور کچھ ذرایع محض غیر قانونی ہیں۔ ناجائز اسلحہ کی فروخت، منشیات کی فروخت یا معاشرتی جرائم کے نتیجے میں جو سرمایہ پیدا ہوتا ہے، وہ تو خالص مجرمانہ کالا دھن ہوتا ہے، لیکن ایسی رقم جو جائز دھندے سے کمائی جائے، لیکن اس پر حکومتی ٹیکس نہ دیا جائے، وہ غیر قانونی کالا دھن ہے۔ رشوت خوری یا فراڈ سے کمائی ہوئی رقم، ذخیرہ اندوزی یا جعلی اور ناخالص اشیا کی فروخت سے کمایا ہوا روپیپ پیسہ بھی معاشرتی جرائم کے زمرے میں آتا ہے اور وہ بھی کالا دھن کہلاتا ہے۔ جب کسی مجرمانہ کارروائی کے ذریعے بہت ساری دولت کمائی جاتی ہے تو ایسی دولت کمانے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی مجرمانہ کارروائی نہ کسی کی نظر میں آئے اور نہ ہی کمائے جانے والے پیسے کی غیر قانونی حیثیت عیاں ہو اور نہ ہی ان کی اپنی نشاندہی ہوسکے، اس لیے مجرم اپنی غیر قانونی طور پر کمائی ہوئی دولت کا ناجائز ذریعہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے پیسے کو ایک جگہ سے کم توجہ حاصل کرنے والی دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ 1991ءتک پاکستان کو فارن کرنسی اکاﺅنٹ رکھنے کی اجازت نہیں تھی، لیکن نواز شریف حکومت نے 1992ءمیں اکنامک لبرالائزیشن اسکیم کے تحت پہلی مرتبہ فارن کرنسی اکاﺅنٹ کھلوانے کی اجازت دی تھی، جس کے بعد اہم افراد نے پاکستان سے کالادھن غیر ملکی بینکوں میں رکھوانا شروع کر دیا۔ بی ای ای آئی(BEEI) کے سابق صدر اے بی شاہد کے مطابق نواز حکومت کا یہ غلط فیصلہ تھا، حالانکہ یہ سہولت صرف غیر ملکی تجارت کرنے والوں کو ہی ملنی چاہیے تھی۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق ملک کے بیرونی قرضوں کے مقابلے میں تقریباً 3 گنا زیادہ پیسہ تو صرف سوئس کھاتوں میں پڑا ہے، جبکہ دوبئی سمیت دوسرے ممالک میں پاکستانیوں کی نجانے کتنی زیادہ دولت موجود ہے۔اگر دوسرے ممالک میں موجود پاکستانیوں کی رقم واپس ملک میں آجائے تو کئی بیمار ادارے اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دوسرے ممالک میںموجود پاکستانیوں کی رقوم پاکستان کے اقتصادی نظام میں مضمر کرپشن، بد دیانتی، لوٹ کھسوٹ اور کاروباری اور تجارتی معاملات میں اعلیٰ سطح پر ہونے والی ”ڈیل“ کا شاخسانہ ہے، جس نے ملکی اقتصادی نظام کے استحکام اور انتظامی و ریاستی اداروں میں موثر چیک اینڈ بیلنس اور مالیاتی شفافیت کے سارے خواب بکھیر کر رکھ دیے۔ یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ پاکستان کی اہم شخصیات کے اربوں ڈالر غیر ملکی بینکوں میں پڑے ہیں، جو غیرقانونی طریقے سے منتقل کیے گئے، جس رقم کو ہر حال میں پاکستان میں آنا چاہیے، اگرچہ چودھری نثار نے گزشتہ دنوں کہا کہ ”کرپشن کے خاتمے کے لیے ہم سب کو عہد کرنا ہوگا۔ ذاتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر کرپشن کیخلاف کام کرنا ہوگا“، لیکن اس کے باوجود بدعنوان لوگوں کے خلاف کارروائی ہوتی نظر نہیں آرہی، کیونکہ یہاں تو خود حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں ایسے لوگوں کی بہتات ہے جن پر برسوں سے بدعنوانی کے الزامات لگنے کا سلسلہ جاری ہے۔ کہنے کو تو ملک میں نیب سمیت کئی ادارے ایسے موجود ہیں جن کی بنیادی ذمہ داری بدعنوانی کا خاتمہ ہے، مگر عملا بات محض دعوﺅں اور وعدوں سے آگئے نہیں بڑھ سکی اور باشعور لوگوں کا قانون پر سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔واضح رہے کہ کہ متعدد ممالک میں بدعنوانی پر سخت سزائیں رائج ہیں، مثلا چین میں بدعنوانی پر سزائے موت دی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں تو سرے سے سزا ہی نہیں دی جاتی۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700309 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.