جتوئی محرومیوں اور بربریت کے سائے میں

جہاں انسانیت دم توڑنا شروع ہوجاتی ہے۔ وہاں سانپوں ،اژدہوں اور بھیڑیوں کی حکمرانی کا آغاز شروع ہوجاتاہے۔ روزمرہ کے جنم لینے والے واقعات انسانی تذلیل کا منہ بولتا ثبوت ہوا کرتے ہیں۔ جہاں لوگ زندگی کی زلفوں کو سلجھانے میں اتنے الجھ جاتے ہیں کہ وہ تہذیب کی قدروں سے کوسوں دور چلے جاتے ہیں۔ مجھے اپنے شہر کے کبھی نہ حل ہونے والے مسائل اور یہاں کے انسانیت سوز واقعات پر لکھتے ہوئے احساس جرم بھی ہورہا ہے کہ میں بھی شریک جرم ہوں۔ تعلیمی پسماندگی پورے جنوبی پنجاب کا المیہ ہے۔ لیکن تحصیل جتوئی میں ذہنی پسماندگی تمام مسائل کی جڑہے۔ سیاسی آقاؤں کے زیر سایہ سہمی اور دبی ہوئی عوام اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانا بھی جرم سمجھتی ہے۔

پچھلی ایک دہائی میں جتوئی جیسے شہر میں دل کو دہلا دینے والے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ مختیار مائی واقعہ نے جہاں عالمی سطح پر جتوئی کو رسوا کیا۔ ابھی یہ داغ دھلا ہی نہیں تھا کہ قاتل پیر کے ڈیرے سے خواتین کی لاشیں برآمد ہوگئی۔ نام نہاد ، غیرت کے نام پر قتل تو یہاں کا معمول ہے۔ سمیرابی بی پر تیزاب گردی کے واقعہ نے ایک مرتبہ پھر جتوئی کو ذلت کا آسکرایوارڈ جتوا دیا۔ سگی خالہ کی طرف سے زہر دے کر اپنے ہی خاوند کے 12افراد کی جان لینے کی داستان کا سہرہ بھی ہم جتوئی والوں نے پہنا۔ اور گزشتہ کل جھگی والا میں ایک اور 6سالہ حوا کی بیٹی ردافاطمہ بھیڑیوں کی حوس کا شکار ہوگئی۔ اور آپ لوگ نہیں بھولے ہوں گے کہ تین ماہ قبل آمنہ نام کی فرسٹ ائیر کی طالبہ نے تھانہ میرہزار کے سامنے خود کو آگ لگا دی۔
؂ دیے جلانے کی رسم تو بہت پرانی ہے
ہمارے شہر میں تو انسان جلائے جاتے ہیں

ان تمام غیر فطری اور غیر انسانی واقعات کے پیچھے جو عناصر کار فرما ہیں ان میں تعلیمی پسماندگی ، نا انصافی ، جاگیر دارانہ اور فرعونیت سے بھر پور سوچ ، تھانہ کلچر اور معاشی بدحالی سر فہرست ہیں۔ یہاں کے ارباب اختیار نے تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کی طرف توجہ دینا تو دور کی بات بلکہ اس کی شدید مخالفت کی ۔ جتوئی پاکستان کی واحد تحصیل ہے جہاں گورنمنٹ گرلز کالج کا ڈھانچہ اسی سال تعمیر ہوا۔ لیکن طالبات کی رسائی کالج کی عمارت تک اس لیے نہیں ہے کہ مین روڈ سے کالج کے لئے کوئی راستہ ہی نہیں ۔ گورنمنٹ بوائز کالج جتوئی میں ابھی تک نہ کافی فرنیچر ہے اور BSc کی کلاسیں ابھی تک شروع نہیں ہوسکیں ۔ غیر رجسٹرڈ اکیڈمیوں اور سکولوں نے " تعلیم برائے فروخت" کا دھندہ شروع کر رکھا ہے۔
یہاں کے نوجوانوں میں بہت ٹیلنٹ ہے لیکن بدقسمتی سے ڈاکٹر کی بجائے اکثریت ڈاکو بن رہی ہے۔
تعلیم کے بعد صحت جیسے شعبہ میں صورت حال کوئی قابل ذکر نہیں ہے۔ BHU میں تو مویشی باندھے جاتے ہیں اور THQ دن رات علاج کی بجائے MLC کا محور بناہوا ہے۔ سرکاری ایمبولینسز ذاتی استعمال میں ہیں اور یہاں کے مظلوم سہولیات کے فقدان کے باعث راستے میں ہی دم توڑ رہے ہیں۔

جتوئی میں جگہ جگہ جواء شراب اور بے حیائی کے اڈے عا م ہیں ۔ تھانہ جتوئی پر ٹاؤٹوں کا راج ہے۔ مدعی پر ہی ہمیشہ الزام ثابت ہو جاتاہے اور ملزم دندناتے پھر رہے ہیں۔ قتل اور اقدام قتل جیسے جرائم میں ملوث مجرموں کا پروٹوکول دیدنی ہوتاہے۔ FIR کی نوعیت کے مطابق اجرت طلب کی جاتی ہے۔ اور تھانہ جتوئی خوف کی علامت بن چکا ہے۔ تحصیل جتوئی کی چوتھائی عوام تھانہ جتوئی کے ارد گرد چکر لگانے، چوتھائی ہسپتال کے طواف کرنے، چوتھائی کچہہری میں رلتے رلتے اور باقی چوتھائی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفتر کے باہر بھکاری بنی ہوئی ہے۔

پاکستان میں سب سے زیادہ تجربات جس تحصیل میں ہوئے ہیں وہ ہے بدبخت اور بدقسمت تحصیل جتوئی ، سوئی گیس کے وعدوں سے الیکشن جیتے جاتے ہیں۔ اور سوئی گیس کا نام نہیں۔ یہاں پرروز سرکیں بنائی اور پھر توڑی جاتی ہیں۔ کبھی گیس کے نام پر تو کبھی ٹیلی فون کے نام پر ۔ بارشوں کے موسم میں گاڑی کی بجائے ہمیں کشتی کی شدت سے یاد آتی ہے۔

قصہ مختصر جن شہروں میں دختران ملت کی عزت کو تار تار کرنا باعث فخر اور بزرگوں کو کتوں کا نوالہ بنانہ باعث افتخار سمجھا جاتاہو وہاں حوا کی بیٹیاں یو نہی لٹتی اور آگ میں جلتی رہیں گی اور ان شہروں کے مقدر میں ذلت و رسوائی کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔

Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 114733 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More