۸ مئی بروز جمعہ جامعہ کراچی کہ شعبہ ابلاغ عامہ نے اردو
سوشل میڈیا سمٹ کے عنوان سے ایک پروگرام تشکیل دیا۔۔۔جس کا انعقاد جامعہ
کراچی میں واقع ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی آڈیٹوریم میں کیا گیا۔۔۔نوکری پیشہ
ہونے کے ناطے ہم وہاں دن کے دوسرے حصے میں پہنچ سکے۔۔۔ہمیں اس بات کا بخوبی
اندازہ تھا کہ ہم پہلے حصہ میں ہونے والی جس کاروائی سے محروم رہ گئے ہیں
اس کوتاہی کا اندازہ دوسرے مرحلے میں ہونے والے معاملات دیکھ کر بخوبی
ہوا۔۔۔یہاں ظہرانے کا بھی بندوبست تھا۔۔۔مگر ہم (راقم اور مصدق صاحب) اس
ظہرانے سے محروم رہے۔۔۔اس پروگرام میں ملک کے نامور لکھاری (خصوصی طور پر
صحافت سے وابستہ )اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے
ایک بڑی تعداد میں شرکت کی۔۔۔یہ پروگرام انتظامی لحاظ سے کافی منظم
تھا۔۔۔انتظامیہ اپنی کارگردگی کا ثبوت دینے کیلئے سر بکف تیار تھی۔۔۔یقینا
اس کا سہرا شعبہ ابلاغِ عامہ کہ سر سجتاہے۔۔۔پروگرام کہ دیگرشراکت دار وں
میں ایکسپریس میڈیا گروپ اور اردو سورس شامل تھے۔۔۔اس کے علاوہ میڈیا سے
تعلق رکھنے والے افراد بھی وہاں کثیر تعداد میں موجود تھے۔۔۔
|
|
یہ اپنی نوعیت کی انوکھی سمٹ تھی۔۔۔جہاں سوشل میڈیا کے لوگ ایک دوسرے کے
ساتھ بیٹھے تھے۔۔۔مقررین نے عنوان اور عنوان سے مطابقت رکھتے موضوعات پر
بہت سحر انگیز گفتگو کی۔۔۔جس میں ہم جیسے لکھنے والوں کیلئے بہت کچھ
تھا۔۔۔آخر میں ایک مذاکرہ پیش کیا گیا جس میں ملک کے نامور شرکاء جناب وسعت
اﷲ خان(بی بی سی اردو)،پروفیسر ڈاکٹر محمود غزنوی (چئیرپرسن شعبہ ابلاغِ
عامہ)، فیض اﷲ خان(صحافی)، اور جناب فیصل کریم (نیوز اینکرسماء ٹی وی) ۔۔۔تمام
افراد نے اپنے اپنے اظہار کا خیال بھرپور طریقے سے کیا۔۔۔دورِ حاضر میں
سوشل میڈیا کی اہمیت پر بھرپور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔۔۔پروفیسر ڈاکٹر
محمود غزنوی صاحب کی گفتگو انتہائی مدلل اور موضوع کا صحیح احاطہ کئے ہوئے
تھی۔۔۔سوشل میڈیا کی طاقت پر بھرپور اعتماد کیا گیا۔۔۔یہ باور کرایا گیاکہ
رائتی میڈیا آپ کو اپنی صلاحیتیں استعمال کرنے سے روک سکتا ہے مگر سوشل
میڈیا پر آپ اپنی تمام تر صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرسکتے ہیں۔۔۔ان کا
کہنا تھا کہ کوئی قوم اس وقت نہیں کرسکتی جب تک اسکی قومی زبان بھرپور
طریقے سے رائج نہ ہو۔۔۔زبان کی بقا میں ہی قوم اور ثقافت کی بقا ہے۔۔۔زبان
ایک تہذیب کی ترجمانی کرتی ہے۔۔۔
|
|
یہ پروگرام یقیناً بہت بڑے پیمانے پر کیا جاسکتا تھا۔۔۔مگر مجھے اداروں میں
باہمی رابطے کی کمی محسوس ہوئی ۔۔۔یہ ایک ایسا معاملہ تھا جہاں تمام یا
زیادہ سے زیادہ انٹر نیٹ پر اردو کی ترویج کیلئے جو لوگ برسرِ پیکار ہیں
انہیں مدعو کرنا چاہئے تھا۔۔۔تاکہ دنیا کو یہ پیغام بھرپور طریقہ سے پہنچتا
کہ ہم سب اپنی قومی زبان کی بقا کیلئے متفق و منظم ہیں ۔۔۔اس امید کیساتھ
بہت جلد ایسا ہی کارنامہ کوئی سرانجام دیگا مگر اس سے بڑے پیمانے پر۔۔۔پانی
کا ایک قطرہ پتھر جیسی چیز میں سوراخ کردیتا ہے۔۔۔ہم بھی اردو کیلئے اپنی
آواز کو بلند کرتے رہینگے ۔۔۔ایک دن پاکستان کی قومی زبان کو اسکی حقیقی
حیثیت مل جائے گی۔۔۔ |