عالمی قوانین کے مطابق کسی مخصوص شناخت کی پوری جرم ہے۔
آج دور میں مختلف ممالک نے اپنے حالات او رماحول کے مطابق ایسی قانون سازی
کی ہوئی ہے جس کے مطابق Trade Marks Copy rights اور Designs وغیرہ کی چوری
کو باضابطہ جرم قرار دیا گیا ہے اور اس کے مرتکب افراد کے لئے سزائیں
مقررکی ہیں تاکہ کسی جرأت نہ ہو کر کسی کا مخصوص نام استعمال کرکے فوائد
حاسل کرے یا غلطی بیانی کی بنیاد پر لوگوں کو گمراہ کرے۔ بازارمیں 20پنس کی
چاکلیت ٹیکہ یا 10 پنس کی ماچس بیچنے والی کمپنی یہ گوارہ نہیں کرسکتی کہ
اس کا برانڈ نام (Branc Name)کوئی چوری کرے اور اس کو استعمال میں لائے۔
اسلام ہمارے مذہب کا قرآنی (Brand Name) نا ہے۔ اسے اﷲ تعالیٰ نے منتخب کی
اور پسند بھی۔ اس کے تحفظ اور بقاء کی خاطر ہمارے پیارے نبی ﷺ نے میدان
طائف میں وجود مبارک کو لہولہان کرایا۔ غزوہ احد میں دانداں، مبارک شہید
کراے اور طرح طرح کی مشکلات برداشت کیں۔ یہ چمنستان اسلام ہی تھا جس کی
آبیاری کیلئے آل بیت اطہار اور صحابہ کرام ؓ نے اپنا مقدس خون پیش کیا۔ یہ
کیسے ممکن ہے کہ اسلام کے Brand Name کو ون دیہاڑے چوری کرنے کی کوشش کی
جائے اور مسلمان خواب خرگوش کے مزے لیتے رہیں۔ نہیں نہیں ایسا کبھی نہیں
ہوا اور نہ ہوگا۔ ابھی غیرتِ مسلم زندہ ہے۔ نبی کریم ﷺ کے وصال مبارک کے
کچھ ہی عرسہ بعد مسلمہ کذاب نے اس شناخت کو چوری کرنے کی کوشش کرتیہوئے
نبوت کو جھوٹا دعویٰ کیا۔ سیدنا صدیق اکبرؓ نے اس خلاف کاروائی کی۔
اسلام کی شناخت چرانے کے حوالے سے حالیہ دنوں میں کچھ واقعات برطانیہ میں
بھی رونما ہوئے۔ برطانیہ کے مختلف شہروں میں جماعت احمدیہ نے مقامی اور
قومی اخبارات میں اشتہارات دئیے کہ وہ اپنا 125واں یوم تاسیس منار ہے ہیں۔
انہوں نے واضح طور پر اپنے آپ کو مسلمان کے طور پر متعارف کرایا اور مرزا
غلام احمد قادیانی کو نبی کے طور پر متعارف کراتے ہوئے اس کے نام کے ساتھ
(Peace be Upon Him) کے الفاظ لکھے۔ جب اشہتہارات عام ہوئے تو مسلمان
کمیونٹی سیخ پا ہوگئی۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ جب برصغیر پاک و ہند میں مرزا
غلام احمد قادیانی نے دعویٰ نبوت کیا تھا تو مشائخ ، علماء اور عوام الناس
نے مل کر اس کی مخالفت کی جس کے نتیجے میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے
7ستمبر1974ء کو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا اور بعد ازاں دنیا بھر کے
مسلمان ممالک نے اس کی تائید کی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اگر قادیانی کے طور پر
اپنی شناخت کرادیں تو انہیں حرمین شریفین کی حاضری کی بھی اجازت نہیں ہے
کیونکہ بحیثیت غیر مسلم وہ حج و عمرہ کا ویزہ حاصل نہیں کرسکتے پھر 1984ء
میں امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری ہوا جس کے مطابق اسلامی شعائر مثلاً
مسجد، کلمہ، مسلمان کے الفاظ استعمال کرنا ان کے لئے جرم قرار دیا گیا۔
آئین پاکستان غیر مسلم اقلیت کے طور پر باقی اقلیتوں کی طرح قادیانیوں کا
بھی احترام کرتا ہے اور حقوق دیتا ہے۔ لیکن یہ قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ
مسلمانوں کی شناخت چرائیں اور دھوکہ دہی سے اپنے آپ کو مسلمان لکھیں۔ بلکہ
آئین توڑنے کی صورت میں آرٹیکل 6کے تحت سخت ترین سزا ہے۔ اس صورت حال میں
جب کہ مسلمانوں کے Brand Name پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہو کیسے خاموش رہا
جاسکتا ہے۔ اس ساری بحث کا آغاز مسلمانوں کی طرف سے نہیں بلکہ جماعت احمدیہ
کی طرف سے ہوا ہے۔ اگر ہم جمع و تفریق کرکے مذہب احمدیت (قادیانیت) کی عمر
بتاتے تو شاید نہ مانا جاتا لیکن جلی الفاظ میں انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ
’’ہمارے مذہب کی عمر 125 سال ہے‘‘ جبکہ اسلام تو 15ویں صدی میں داخل ہوچکا
ہے۔
اسلام پیغام محبت دیتا ہے۔ نفرتوں کو دور کرتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہم ایک
غیر مسلم اقلیت کے طور پر قادیانیت کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ جہاں جہاں ان
پر زیادتی ہوتی ہے اس کی مذمت کرتے ہیں لیکن اسلام اور مسلمانوں کی شناخت
پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے۔ یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ دیدہ و
دانستہ ڈاکہ زنی کی واردات کرکے، چہرے پر معصومیت سجائے اگر کوئی صدا بلند
کرے Love for all hatered for none تو یہ بھی مضحکہ خیز الفاظ کے گورکھ
دھندے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ دنیا میں بے شمار غیر مسلم لوگ آباد ہیں۔
مسلمان ان کے ساتھ مل جل کر رہ رہے ہیں پھر قادیانیوں کے خلاف سخت روی
کیوں؟اس بات کو سمجھنے کے لئے دو مثالیں ذہن نشین کر لیں، (1) مذہب اسلام
میں شراب کا پینا اور بیچنا حرام ہے۔ اگر کوئی مسلمان شراب بیچتا ہے تو
یقینا قابل مذمت ہے لیکن اگر وہ شراب کی بوتل پر آب زم زم کا لیبل لگا کر
بیچے تو یقینا جرم عظیم ہوگا۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ لوگوں کو حقیقت حال سے
آگاہ کریں۔ خطرہ یہ ہے کہ کہیں لوگ بظاہر آبِ زم زم کا لیبل دیکھ کر عقیدت
کی بناء پر اسے خرید کر پینا شروع نہ کریں۔ (2) اسلام میں (Pork) خنزیر
حرام قطعی ہے۔ اگر کوئی مسلمان بیچتا ہے تو گناہ ہے لیکن اگر اس کے اوپر
’’قربانی کا گوشت‘‘ کا لیبل لگا کر بیچنا شروع کردے تو یقینا مہم جوئی کرکے
لوگوں کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ کہ کہیں قربانی کے گوشت کے فضائل کی بنا پر
وہ خنزیر کا گوشت خرید کر نہ کھاتے رہیں۔
تمام مذاہب اپنے اپنے طریقہ پر زندگی گزار رہے ہیں ہم اسلامی رواداری اور
بین المذاہب ہم آہنگی کے اصولوں کے مطابق مل جل کر رہتے ہیں لیکن قادیانیت
کا مسئلہ یہ ہے وہ اسلامی شناخت چوری کرکے لادینیت پر اسلام کا لیبل لگا کر
پیش کرتے ہیں جو کہ ہمارے لئے ناقابل قبول ہے۔ اگر آج بھی یہ اسلام کا نام
استعمال کرنا چھوڑ دیں اور اپنے آپ کو قادیانی کے طور پر متعارف کرائیں تو
نہ صرف ہمیں اعتراض کوئی نہیں بلکہ دیگر غیر مسلموں کی طرح انہیں بھی ہمایر
ہمدردیاں حاصل ہونگی اور اگر ان کے دل کاشوق فراواں قابو سے باہر ہے اور وہ
اپنے آپ کو مسلمان ہی رکھنا چاہتے ہیں تو پھر ان کے لئے اسلام کے دروازے ہر
وقت کھلے ہیں۔ اسلام کے بنیادی عقائد بشمول عقیدہ ختم نبوت کو مان لیں اور
تصدیق و اقرار کر لیں کہ جو بھی نبی کریم ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کرے وہ جھوٹا
ہے تو آج بھی ہم ان کے استقبال کیلئے پلکیں بچھانے کے لئے تیار ہیں۔ اگر
سوال یہ کیا جائے کہ یہ تو الزام ہے ہم نے کون سے شناخت چرائی ہے؟ تو میں
انتہائی معصومانہ گزار ش کروں گا کہ کون سی اسلامی شناخت چھوڑی ہے جس کو نہ
چرایا ہو۔ نبی کریم ﷺ کے مقابلے میں مرزا غلام احمد قادیانی نبی، اہل بیتِ
اطہار کے مقابلے میں مرزا صاحب کے اہل خانہ اہل بیت قرار پائے، مرزا صاحب
کے دوست احباب کو صحابہ کے نام سے موسوم کیا، مرزا صاحب کی بیویوں کو امہات
المومنین قرار دیا گیا۔ مرزا صاحب کی بیٹی کو سیدۃ النساء کے لقب سے پکارا
گیا۔ حضور ﷺ کے مکہ و مدینہ کے مقابلے میں قادیان اور ربوہ کا تصور پیش کیا
گیا اور اس طرح جنت البقیع کے مقابلے میں بہشتی مقبرہ بنایا گیا۔ علی ھذا
القیاس اسلام کی Identityاور شعائر کو استعمال کیا گیا جو کہ کسی بھی
مسلمان کیلئے ناقابل قبول ہے۔ میں آخر میں قادیانی بھائیوں کی دعوتِ فکر
دیتا ہوں کہ آج بھی تائب ہو کر در مصطفی ﷺ کی غلامی اختیار کر لو تو راہ
نجات ممکن ہے۔ |