دفن کے بعد میت کو قبرپر تلقین کرنا؟
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن
پوری
دفن کرنے کے بعد میت کو تلقین کرنا بدعت سیئہ اور قبیحہ ہے ، قرآن و حدیث
میں اس کی کوئی اصل نہیں ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہما و ثقہ تابعین عظام
رحمہم اللہ سے یہ فعل قطعاً ثابت نہیں ، یہ کامل و اکمل دین میں اضافہ اور
زیادتی ہے ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیش قدمی ہے:
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللّٰہِ
وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱﴾
﴾
“اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو،
یقیناً اللہ تعالیٰ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے ۔”
یاد رہے کہ دفن کے بعد میت کو تلقین کرناکسی دلیل شرعی سے ثابت نہیں ہے ،
اہل بدعت کے دلائل کا علمی و تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے:
دلیل نمبر :۱
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:
لقنوا موتاکم لا الہ الا اللہ.
“اپنے قریب الموت کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرو ۔” (مسند الامام احمد :
۳/۳، مسلم : ۳۰۰/۱ ح : ۹۱۶، سنن ابی داود : ۳۱۱۷، سنن ترمذی :۹۷۶، سنن
نسائی : ۱۸۲۸، سنن ابن ماجہ : ۱۴۴۵)
تبصرہ:
۱. اس بات پر مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ یہ تلقین قریب الموت انسان کو کی
جائے گی ، نہ کہ مردہ کو جیساکہ خود نبی کریم ﷺ کے عمل مبارک سے ثابت ہے ،
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاد رجلا من الانصار، فقال : یا خال ! قل
: لا الہ الا اللہ ، قال :خال أم عمّ؟ قال ؛ بل خال ، قال : وخیرلی أن
أقولھا؟ قال: نعم.
“رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری آدمی کی تیمارداری کی ،
فرمایا، اے ماموں جان ! لا الہ الا اللہ کہہ دیں ، اس نے کہا ، ماموں یا
چچا ؟ ، اس نے کہا ، کیا (لا الہ الا اللہ) کہنا میرے لیے بہتر ہوگا؟ آپ نے
فرمایا ، ہاں۔”(مسند الامام احمد ۲۶۸/۳، ح : ۱۳۸۶۲، وسندہ صحیح)
حافظ ہیثمی کہتے ہیں: رواہ أبو یعلیٰ (۳۵۱۲) و البزار (۷۸۷) ، ورجالہ رجال
الصحیح.
“اس حدیث کو امام ابو یعلیٰ اور امام بزار نے بیان کیا ہے ، اور اس کے راوی
صحیح (بخاری) کے راوی ہیں۔ ” (مجمع الزوائد : ۳۲۵/۲)
بوصیری کہتے ہیں: رواہ أبو یعلیٰ و البزار بسند صحیح (اتحاف السعیرۃ :
۱۸۸/۳)
۲. امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث پر یوں باب قائم فرماتے ہیں:
.باب ماجاء فی تلقین المریض عندالموت والدعاء لہ عندہ
“مریض کو موت کے وقت (لا الہ الا اللہ کی) تلقین کرنے اور اس کے لئے دعا
کرنے کا بیان۔”
:نیز لکھتے ہیں
وقد کان یستحب ان تلقن المریض عندالموت قول لا الہ الا اللہ ، وقال بعض أھل
العلم : اذا قال ذٰلک فلا ینبغی أن یلقن، ولا یکثر علیہ فی ھٰذا.
“موت کے وقت مریض کو لا الہ الا اللہ کہنے کی تلقین کرنا مستحب ہے ، بعض
اہل علم کا کہنا ہے کہ آدمی ایک مرتبہ کہہ دے تو جب تک وہ اس کے بعد کلام
نہ کرے ، اسے تلقین نہ کرنی چاہیے ، نہ ہی اسے زیادہ کہنا چاہیے۔” (جامع
ترمذی ، تحت حدیث : ۹۷۷)
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے:
.ذکر الأمر بتلقین الشھادۃ من حضرتہ المنیۃ
“قریب المرگ کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنے کے حکم کا بیان۔” (صحیح ابن
حبان ، قبل حدیث : ۳۰۰۳)
حافظ ابو العباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی (۶۵۶۔۵۷۸ھ) لکھتے ہیں:
قولہ صلی اللہ علیہ وسلم : لقنوا موتاکم لا الہ الا اللہ ، ای قولوا لھم
ذٰلک وذکروھم بہ عندالموت وسماھم صلی اللہ علیہ وسلم موتی ، لأن الموت قد
حضرتھم، وتلقین الموتی ھذہ الکلمۃ سنۃ مأثورۃ، عمل بن المسلمون، وذلک
لیکون آخر کلامہ : لا الہ الا اللہ، فیختم لہ بالسعادۃ ، ولیدخل فی عموم
قولہ صلی اللہ علیہ وسلم: من کان آخر کلامہ: لا الہ الا اللہ دخل الجنّۃ.
“آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اپنے مرنے والوں کو لا الہ الا اللہ
کی تلقین کرو، اسکا یہ مطلب ہے کہ موت کے وقت ان کو یاد دلا ؤ، آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے قریب الموت لوگوں کومردہ کہہ دیا ہے ، کیونکہ موت ان کے پاس
حاضر ہوچکی ہوتی ہے ، مرنے والوں کو ا س کلمہ کی تلقین کرنا سنتِ ماثورہ ہے
، مسلمانوں کا اس پر عمل رہا ہے ، اس کا مقصد یہ ہے کہ مرنے والے کی آخری
کلام لا الہ الا اللہ ہوجائے ، یوں اسی کلمہ پر اس کا خوش بختی کے ساتھ
خاتمہ ہوجائے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمومی فرمان میں
داخل ہوجائے کہ جس کی آخری کلام لا الہ الا اللہ ہوجائے ، وہ جنت میں داخل
ہوجائے گا ۔ ” (المفھم : ۵۶۹/۲۔ ۵۷۰، نیز دیکھیں زھر الربی للسیوطی : ۵۱۴)
:حافظ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں
معناہ من حضرہ الموت ، والمراد ذکروہ لا الہ الا اللہ ، لتکون آخر کلامہ
کما فی الحدیث (سنن أبی داود : ۳۱۱۶، وسندہ حسن و صححہ الحاکم (۳۵۱/۱) و
وافقہ الذھبی ، وقال ابن الملقن (البدر المنیر: ۱۸۹/۵) : صحیح) : من کان
آخر کلامہ لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ، والأمر بھذا التلقین أمر ندب، وأجمع
العلماء علی ھٰذا التلقین.
” اس کا مطلب یہ ہے کہ جو قریب المرگ ہوا سے لا الہ الا اللہ یاد کروائیں ،
تاکہ اس کی آخری کلام یہی ہوجائے ، جیساکہ حدیث (سنن ابی داود : ۳۱۱۶،
وسندہ حسن ، اس حدیث کو امام حاکم (۳۵۱/۱) نے صحیح کہا ہے اور حافظ ذہبی نے
ان کی موافقت کی ہے ، حافظ ابن ملقن (البدر المنیر : ۱۸۹/۵) بھی اسے صحیح
قرار دیتے ہیں ) کہ جس کی آخری کلام لا الہ الا اللہ ہوگئی ، وہ جنت میں
داخل ہوگیا ، تلقین کرنے کا یہ حکم استحبابی ہے ، علماء کا اسی (طریقۂ)
تلقین پر اجماع ہے ۔ ” (شرح صحیح مسلم : ۳۰۰/۱)
:صاحبِ ہدایہ لکھتے ہیں
المراد الذی قرب من الموت.
“اس سے قریب الموت مراد ہے ۔” (الھدایۃ : ص ۱۳۶، کتاب الجنائز)
محشی ہدایہ اس کے تحت لکھتے ہیں:
دفع توھم من یتوھم أن المرادبہ قرأۃ التلقین علی قبر.
“اس سے اس انسان کا وہم دور کرنا مقصود ہے جو یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ قبر پر
تلقین کرنا چاہیے۔”
:علامہ سندھی حنفی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں
المراد من حضرہ الموت، لا من مات، والتلقین أن یذکر عندہ ، لا أن یأمرہ بہ
، والتلقین بعد الموت قد جزم کثیر أنہ حادث، والمقصود من ھٰذا التلقین أن
یکون آخر کلامہ لا الہ الا اللہ، ولذٰلک اذا قال مرۃ فلا یعاد علیہ الا أن
تکلم بکلام آخر.
“مراد قریب المرگ ہے ، نہ کہ جو فوت ہوچکا ہے ، تلقین کا طریقہ یہ ہے کہ اس
کے پاس کلمہ کا ذکر کیا جائے ، نہ کہ اسے حکم دیا جائے ، موت کے بعد تلقین
کو بہت سے علماء نے بدعت قرار دیا ہے ، اس تلقین سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ
مرنے والے کی آخری کلام یہی ہو ، اسی لیے جب وہ ایک مرتبہ کہہ دے تو دوبارہ
اسے تلقین نہیں کی جائے گی ، الا یہ کہ وہ کوئی اور بات کرلے ۔” (حاشیۃ
السندی علی النسائی : ۵/۴، تحت حدیث : ۱۸۲۷)
نیز لکھتے ہیں:
.ولا یلقن بعد تلحیدہ
“دفن کرنے کے بعد تلقین نہیں کی جائے گی ۔” (تنویر الابصار : ۱۱۹)
شیخی زادہ حنفی (م ۱۰۷۶ھ) لکھتے ہیں:
.وقال الأکثر الأئمۃ المشائخ لایجوز
“اکثر ائمہ و مشائخ کا کہنا ہے کہ یہ (قبر پر تلقین) جائز نہیں۔” (مجمع
الانھر: ۲۶۴)
علمائے کرام کی تصریحات سے معلوم ہوگیا ہے کہ لا الہ الا اللہ کی تلقین
قریب الموت آدمی کو کی جائے گی ، نہ کہ میت کو دفنانے کے بعد ، اس باوجود
“اہل بدعت ” مصر ہیں کہ یہ تلقین میت کو دفنانے کے بعد قبر پر کی جائے گی ،
اہل عقل کے لئے فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ بدعات کے شیدائی کس طرح سینہ
زوری سے کام لیتے ہیں اور بےدریغ جھوٹ بولتے ہیں؟
ابن عابدین شامی حنفی وغیرہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
أما عند أھل السنۃ فالحدیث لقنوا موتاکم محمول علی حقیقۃ، وقدروی عنہ علیہ
السلام أنہ أمر باتلقین بعد الدفن، فیقول : یافلان ابن فلان ! اذکر دینک
الذی کنت علیھا.
“اہل سنت کے نزدیک یہ حدیث لقنوا موتاکم اپنے حقیقی معنیٰ پر محمول ہے اور
نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے دفن کے بعد تلقین کرنے کاحکم دیا ہے ، پس
قبر پر کہے کہ اے فلان کے بیٹے فلان ! تو اس دین کو یاد کر جس پر قائم تھا۔
” (شامی باب الدفن ، بحث تلقین بعد الموت : ۶۲۸/۱ ، الجوھرۃ النیرۃ: ۲۵۲/۱)
ابن عابدین شامی حنفی صاحب نے ایک سانس میں بڑی بے باکی سے کئی جھوٹ بول
دیئے ہیں ، ان کا یہ کہنا کہ اہل سنت نے اس حدیث کو حقیقی معنیٰ پر محمول
کیا ہے ، یہ اہل سنت پر کذب و افترا اور جھوٹ ہے ، اگر ان کی مراد حنفی
“فقہاء” ہوں تب بھی صحیح نہیں ، گویا ان کے نزدیک صاحبِ ہدایہ اہل سنت سے
خارج ہیں ، دوسری بات یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دفن کے بعد
تلقین کا حکم قطعی طور پر ثابت نہیں ہے ، مدعی پر دلیل لازم ہے ، دفن کے
بعد قبر پر تلقین شرعی مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ بہت بعد کی ایجاد ہے ، دراصل
یہ لوگ دین کے حوالے سے حزم و احتیاط سے عاری ہیں ، انہوں نے اپنی خواہشات
کو دین بنا رکھا ہے ، اس لیے ان کے مذہب کی بنیاد قیاس و باطل پر ہے ، یہ
پہلے مسئلے گھڑتے ہیں ، بعد میں شرعی دلائل کو تروڑ مروڑ کر اس پر فٹ کرتے
ہیں ، یہی وہ فعلِ شنیع ہے ، جس نے ان کو محدثین کرام سے کوسوں دور کردیا
ہے اور یہ شرعی نصوص میں لفظی ومعنوی تحریفات کے مرتکب ہوتے ہیں، سنت دشمنی
ان کا مقدر ٹھہرا ہے ، اس کے باوجود یہ اپنے تئیں اہل سنت کہنے سے نہیں
تھکتے ، یہ حیران و پشیمان پھرتے ہیں ، سلف صالحین میں ان کا کوئی ہم خیال
نہیں ، ان کے علم سے جہالت بہتر ہے ۔
:احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب لکھتے ہیں
” اس حدیث کے دو معنیٰ ہوسکتے ہیں ، ایک تو یہ ہے کہ جو مررہا ہے ، اس کو
کلمہ سکھاؤ، دوسرے یہ کہ جو مرچکا ہو ، اس کو سکھاؤ ، پہلے معنیٰ مجازی ہیں
اور دوسرے حقیقی اور بلا ضرورت معنیٰ مجازی لینا ٹھیک نہیں ، لہٰذا حدیث کا
یہ ہی ترجہ ہوا کہ اپنے مردوں کو کلمہ سکھاؤ اور یہ وقت دفن کا ہے ۔” (جاء
الحق : ۳۱۱/۱)
تبصرہ: تعذر نہ ہو تو حقیقی معنیٰ ہی لیا جاتا ہے ، جب کوئی امر مانع موجود
ہو تو حقیقت کو چھوڑ کر مجاز کی طرف جایا جاتا ہے ، یہ بھی اسی قبیل سے ہے
، یہاں حقیقی معنیٰ متعذر ہے ، کیونکہ مردے میں تعلم و اخذ کی صلاحیت نہیں
ہوتی ، لہٰذا یہاں بھی مجازی معنیٰ مراد ہے ۔
نعیمی صاحب مزید لکھتے ہیں: “اس حدیث اور ان عبارات سے معلوم ہوا کہ دفنِ
میت کے بعد اس کو کلمہ طیبہ کی تلقین مستحب ہے ۔” (جاء الحق: ۳۱۲/۱)
افسوس مسلمان بالاتفاق جس حدیث کو انسا ن کی قربِ موت والی حالت پر ہی
محمول کریں، اس کو “مفتی” صاحب بغیر دلیل کے دفنِ میت کے بعد کی حالت پر
محمول کرکے ایک بدعت کی سند دے رہے ہیں۔
جب وہ شامی وغیرہ کی عبارات صریح جھوٹ ہیں تو ان کی بنیاد پر استوار ہونے
والا عمل کیسے حق ہوگا؟
دلیل نمبر: ۲
وعن ضمرۃ بن حبیب أحد التابعین، قال : کانوا یستحبّون اذا سوّی علی المیت
قبرہ و انصرف الناس عنہ ، أن یقال عند قبرہ: یا فلان ! قل : لا الہ الا
اللہ، ثلاث مرات، یا فلان ! قل : ربی اللہ و دینی الاسلام و نبیی محمد صلی
اللہ علیہ وسلم.
“ایک تابعی ضمرہ بن حبیب کہتے ہیں ، جب میت پر قبر کو برابر کردیتے تھے اور
لوگ واپس چلے جاتے تھے تو وہ اس قبر کے پاس یہ کہنا مستحب سمجھتے تھے، اے
فلاں ! تو لا الہ الا اللہ کہہ ، (تین مرتبہ)، اے فلاں ! تو کہہ کر میرا رب
اللہ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔”
(سنن سعید بن منصور، بحوالہ بلوغ المرام: ۴۷۱)
تبصرہ:
اس کی سند “ضعیف” ہے ، اس میں “اشیاخ من اہل حمص” مجہول و نامعلوم ہیں ،
لہٰذا یہ ناقابلِ حجت اور ناقابلِ عمل ہے۔
تنبیہ: “مفتی ” احمد یار خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں:
“نکیرین میت سے تین سوال کرتے ہیں ، اول تو یہ کہ تیرا رب کون ہے ؟ پھر یہ
کہ تیرا دین کیا ہے ؟ پھر یہ کہ اس سنہری جالی والے سرسبز گنبد والے آقا کو
تو کیا کہتا ہے ؟ پہلے سوال کا جواب ہوا أشھد أن لا الہ الا اللہ، دوسرے کا
جواب ہوا حیّ علی الصّلاۃ یعنی میرا دین وہ ہے جس میں پانچ نمازیں فرض ہیں
، تیسرے کا جوا ب ہوا أشھد أن محمدا عبدہ و رسولہ۔” (جاء الحق : ۳۱۲/۱)
یہ واضح طور پر دین اسلام میں تحریف ہے، یہ کسی آیتِ کریمہ یا حدیثِ مبارکہ
کا مفہوم نہیں ، بلکہ صریح نصوص کی خلاف ورزی ہے ، یہ غلو کا نتیجہ ہے ، جب
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِاطہر پر سبز گنبد نہیں بنایا گیا تھا ،
اس وقت یہ سوال پوچھا جاتا تھا ؟ دراصل عقل و انصاف کو ان سے شکوہ ہے کہ وہ
ان کا ساتھ نہیں دیتے۔
دلیل نمبر: ۳
قال الامام الطبرانی: حدثنا أبو عقیل أنس بن سلم الخولانی، ثنا محمد بن
ابراھیم بن العلاء الحمصی، ثنا اسماعیل بن عیاش، ثنا عبداللہ بن محمد
القرشی عن یحیی بن أبی کثیر عن سعید بن عبداللہ الأودی، قال : شھدت أبا
أمامۃ، وھو فی النزع، فقال : اذا أنامت فاصنعوابی کما أمرنا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم أن نصنع بموتانا، أمرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،
فقال : اذا مات أحد من اخوانکم فسویتم التراب علی قبرہ، فلیقم أحدکم علی
رأس قبرہ، ثم لیقل : یا فلان بن فلانۃ!فانہ یقول: یا فلان بن فلانۃ، فانہ
یستوی قاعدا، ثم یقول : یا فلان بن فلانۃ ، فانہ یقول: أرشدنا رحمک اللہ،
ولکن لا تشعرون، فلیقل: اذکرما خرجت علیہ من الدنیا، شھادۃ أن لا الہ الا
اللہ و أن محمدا عبدہ ورسولہ، وانک رضیت باللہ ربا و بالاسلام دینا و بمحمد
نبیا و بالقرآن اماما ، فان منکرا و نکیرا یأخذ و احد منھما بید صاحبہ،
ویقول: انطلق بنا ما نقصد عند من قد لقن حجتہ، فیکون اللہ حجیجہ دونھما ،
فقال رجل : یا رسول اللہﷺ ! فان لم یعرف أمہ قال : فینسبہ الی حواء یا فلان
بن حواء.
“سعید بن عبداللہ الاودی بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ
کی خدمت میں حاضر ہوا جب کہ وہ حالت نزع میں تھے، کہنے لگے ، جب میں فوت
ہوجاؤں تو میرے ساتھ اسی طرح کرنا جس طرح ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے حکم دیا ہے ، آپ نے ہمیں حکم فرمایا تھا ، جب تم میں سے کوئی فوت
ہوجائے اور تم اس کی قبر پر مٹی برابر کرچکو تو تم میں سے ایک اس کی قبر کے
سر کی جانب کھڑا ہو کر کہے ، اے فلاں عورت کے بیٹے فلاں ! جب وہ یہ کہے گا
تو مردہ اٹھ کر بیٹھ جائے گا ، پھر وہ کہے گا کہ اے فلاں عورت کے بیٹے فلاں
! وہ کہے گا ، اللہ تجھ پر رحم کرے ، ہماری رہنمائی کر، لیکن تم یہ باتیں
سمجھ نہیں سکتے ، پھر کہے کہ تو اس بات کو یاد کر جس پر دنیا سے رخصت ہوا
ہے ، اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ
علیہ وآلہٖ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ، تو اللہ کے رب ہونے ، محمدﷺ کے
نبی ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا ، منکر
اور نکیر میں سے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے ، چلو جس آدمی کو اس کی
حجت تلقین کردی گئی ہے ، اس کے پاس ہم نہیں بیٹھتے، چنانچہ دونوں کے سامنے
اللہ تعالیٰ اس کا حامی بن جائے گا ، ایک آدمی نے عرض کی ، اے اللہ کے رسول
! اگر وہ (تلقین کرنے والا ) اس (مرنے والے) کی ماں کو نہ جانتا ، ہو تو
(کیا کرے)؟ فرمایا ، وہ اسے حواء کی طرف منسوب کرکے کہے، اے حواء کے فلاں
بیٹے!” (المعجم الکبیر للطبرانی: ۲۵۰/۸، ح: ۷۹۷۹)
تبصرہ:
:یہ روایت سخت ترین “ضعیف” ہے ، کیونکہ
۱. اس کی سند محمد بن ابراہیم بن العلاء الحمصی ہے ، جس کے بارے میں محمد
بن عوف کہتے ہیں:
کان یسرق الحدیث. “یہ حدیثیں چوری کرتا تھا۔” (الکامل لابن عدی : ۲۸۸/۶)
امام عدی رحمہ اللہ نے بھی اس پر کلام کی ہے ، اس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ
توثیق بھی ثابت نہیں۔
۲. امام طبرانی رحمہ اللہ کے استاذ انس بن مسلم ابو عقیل کے حالات نہیں مل
سکے ۔
۳. اس روایت کا ایک راوی عبداللہ بن محمد القرشی غیر معروف راوی ہے۔
۴. سعید بن عبداللہ الاودی کی توثیق نہیں مل سکی ، اسی لیے حافظ ہیثمی
فرماتے ہیں:
وفی اسنادہ جماعۃ لم أعرافھم.
“اس کی سند میں کئی راویوں کو میں نہیں جان پایا۔” (مجمع الزوائد: ۴۵/۳)
۵. اسماعیل بن عیاش کی روایت (جمہور کے نزدیک) حجازیوں سے “ضعیف” ہوتی ہے ۔
(نتائج الافکار لابن حجر : ۱۱۲، النکث علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر :
۷۲۲/۲)
یہ روایت بھی حجازیوں سے ہے ، لہٰذا “ضعیف” ہے ۔
۶. یحییٰ بن ابی کثیر “مدلس” ہیں جو کہ “عن” سے بیان کررہے ہیں ، سماع کی
تصریح ثابت نہیں۔
لہٰذا حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ اسنادہ صالح، وقد قواہ الضیاء
فی أحکامہ. (اس کی سند صالح، یعنی حسن ہے ، امام الضیاء نے اسے اپنی کتاب
احکام میں قوی کہا ہے ۔) ۔ (التلخیص الحبیر: ۱۳۵/۲۔ ۱۳۶، ح : ۷۹۶) صحیح
نہیں ہے ۔
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: واسنادہ ضعیف، وقال ابن الصلاح: لیس اسنادل
بالقائم.
“اس کی سند ضعیف ہے اور ابن الصلاح نے کہا ہے کہ اس کی سند صحیح نہیں۔”
(شرح المھذب: ۳۰۴/۵)
حافظ عراقی رحمہ اللہ نے بھی اسے “ضعیف” کہا ہے ۔ (تخریج الاحیاء : ۴۲۰/۴)
علامہ صنعانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ویتحصل من کلام أئمۃ التحقیق أنہ حدیث
ضعیف ، والعمل بہ بدعۃ، ولا یغتر بکثرۃ من یفعلہ.
“محققین ائمہ کرام کی کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس پر
عمل کرنا بدعت ہے ، اس بدعت کواختیار کرنے والوں کی کثرت دیکھ کر دھوکا
نہیں کھانا چاہیے۔” (سبل السلام: ۱۶۱/۲)
اس کا ایک شاہد قاضی الخلعی کی کتاب “الفوائد (۲/۵۵)، بحوالہ الضعیفۃ
للالبانی” میں ہے ، اس کی سند موضوع (من گھڑت) ہے ، محدث البانی رحمہ اللہ
فرماتے ہیں:
ھذا حدیث ضعیف جدا، لم اعرف احدا منھم غیر عتبۃبن السکن، قال الدارقطنی:
متروک الحدیث ، وقال البیھقی : واہ، منسوب الی الوضع.
“یہ حدیث سخت ضعیف ہے ، میں ان (راویوں) میں سے عتبہ بن السکن کے علاوہ کسی
کو بھی نہیں جانتا اور اس کے بارے میں امام دارقطنی نے فرمایا ہے کہ متروک
الحدیث ہے اور امام بیہقی نے اسے سخت ضعیف اور احادیث گھڑنے کی طرف منسوب
قرار دیا ہے ۔” (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ الموضوعۃ للالبانی : ح ۵۹۹)
خوب یاد رہے کہ دفن کے بعد میت کو تلقین کرنے والی بدعت میں دیوبندی اور
بریلوی دونوں متفق ہیں، اس بدعت کے دفاع میں جناب محمد سرفراز خان صفدر
دیوبندی لکھتے ہیں:
“البتہ دفن کے بعد تلقین کرنا عندالقبر (قبر کے پاس) ہے ، مگر وہ تو
والدعاء عندھا قائما کی مد میں ہے ، جو سنت سے ثابت ہے ۔” (راہِ سنت : ۲۲۸)
دیوبندیوں نے قبر پر تلقین کو دعا پر قیاس کیا اور بریلویوں نے قبر پر اذان
کو اس تلقین پر قیاس کرلیا، حالانکہ عرفاً و شرفاً نہ تلقین دعا ہے اور نہ
اذان تلقین ہے ، شریعتِ اسلامیہ میں نہ قبر پر اذان ثابت ہے اور نہ ہی دفن
کے بعد قبر پر تلقین ہی ثابت ہے ، لہٰذا ایک بے اصل چیز کو دوسری بے اصل
چیز پر قیاس کرنا اہل بدعت کا ہی شیوہ ہوسکتا ہے ۔
تلقین اور ائمہ محدثین
أبو جعفر التستری یقول : حضرنا أبا زرعۃ، وھو فی السیاق ، وعندہ أبو حاتم و
محمد بن مسلم (وراۃ) والمنذر بن شاذان و جماعۃ من العلماء ، فذکروا حدیث
التلقین وقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: لقنواموتاکم : لا الہ الا اللہ،
فاستحیوا من أبی زرعۃ، وھابوا أن یلقنوہ، فقالوا: تعالوا نذکر الحدیث، فقال
: محمد بن مسلم : ناضحاک بن مخلد عن عبدالحمید بن جعفرعن صالح ، ولم یجاوز،
وقال المنذر : نابندارنا أبو عاصم عن عبدالحمید عن صالح، ولم یجاوز،
والباقون سکتوا، فقال أبو زرعۃ، وھو فی السوق: نابندار، نا أبو عاصم،
ناعبدالحمید بن جعفر عن صالح بن أبی عریب عن کثیر بن مرۃ عن معاذ بن جبل
قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من کان آخر کلامہ لا الہ الا اللہ
دخل الجنۃ، وتوفی.
“ابو جعفر تستری بیان کرتے ہیں کہ ہم امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کے پاس آئے ،
وہ حالتِ نزع میں تھے ، ان کے پاس امام ابوحاتم ، محمد بن مسلم (وارہ) ،
منذر بن شاذان اور کئی دوسرے علمائے کرام تشریف فرماتھے ، انہیں تلقین والی
حدیث یاد آئی لیکن وہ امام ابوزرعہ (کی جلالتِ علمی کی وجہ سے ان) کو تلقین
کرنے سے شرما گئے ، لہٰذا انہوں نے کہا ، آؤ حدیث کا مذاکرہ کریں ،چنانچہ
محمد بن مسلم نے یوں سند بیان کرنا شروع کی ، ہمیں ضحاک بن مخلد نے بیان
کیا ، وہ کہتے ہیں، ہمیں ابو عاصم نے عبدالحمید بن جعفر عن صالح کی سند سے
بیان کیا ، یہاں پہنچ کر محمد بن مسلم رک گئے ، آگے بیان نہ کرسکے ، منذر
بن شاذان کہنے لگے ، ہمیں بندار نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہمیں ابو
عاصم نے عبدالحمید سے اور ان کو صالح نے بیان کیا، وہ بھی اس سے آگے نہ
بیان کرسکے ، باقی سب خاموش ہوگئے تو امام ابوزرعہ رحمہ اللہ فرمانے لگے ،
ہمیں بندار نے حدیث بیان کی ، ان کو ابو عاصم نے ، ان کو عبدالحمید بن جعفر
نے ، ان کو صالح بن ابی عریب نے حدیث بیان کی، وہ کثیر بن مرہ سے اور وہ
سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:
من کان آخر کلامہ لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ.
“جس کی آخری کلام لا الہ الا اللہ ہوگئی ،و ہ جنت میں داخل ہوگیا۔”
اس کے ساتھ ہی وہ فوت ہوگئے۔” (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم : ص ۷۶، تاریخ
بغداد : ۳۲۵/۱۰، تقدمۃ الجرح و التعدیل : ۳۴۵۔ ۳۴۶ باسانید صحیحۃ)
امام ابراہیم نخعی کہتے ہیں:
لما ثقل علقمۃ قال : أقعدوا عندی من یذکرنی لا الہ الا اللہ.
“جب علقمہ تابعی رحمہ اللہ سخت بیمار ہوگئے تو فرمایا ،میرے پاس ایک آدمی
بٹھاؤ جو مجھے لا الہ الا اللہ یاد کرواتا رہے ۔” (مصنف ابن ابی شیبہ :
۲۳۶/۳، وسندہ صحیح)
عن ابراھیم: فی الرجل اذا مرض، فثقل، قال : کانوا یحبون أن لا یخلوہ،
ویعتقبونہ اذا قام ناس ، جاء آخرون ویلقونہ: لا الہ الا اللہ.
“امام ابراہیم اس آدمی کے بارے میں جوبیمار ہوکر قریب الموت ہوجائے ،
فرماتے ہیں کہ وہ (گھر والے) اس کو اکیلا نہ چھوڑیں ، باری باری اس کے پاس
آتے رہیں ، جب کچھ لوگ عیادت کرکے چلے جائیں تو دوسرے آجائیں اور اس کو لا
الہ الا اللہ کی تلقین کریں۔” (مصنف ابن ابی شیبہ : ۲۳۷/۳، وسندہ صحیح)
وقال الحسین الجعفی: دخلت علی الأعمش أنا وزائدۃ فی الیوم الذی مات فیہ ،
والبیت ممتلی من الرجال، اذ دخل شیخ ، فقال : سبحان اللہ ! ترون الرجل، وما
ھوفیہ، ولیس منکم أحد یلقنہ؟ فقال الأعمش ھٰکذا۔ فأشار بالسبابۃ و حرک
شفتیہ.
“حسین جعفی نے بیان کیا کہ میں اور زائدہ دونوں امام اعمش کی وفات والے دن
ان کے پاس حاضر ہوئے ، ان کا گھر مردوں سے بھرا ہوا تھا ، اچانک ایک شیخ
داخل ہوئے اور فرمایا ، سبحان اللہ ! تم سب اس شخص کو دیکھ رہے اور ان کی
حالتِ (نزع) بھی ملاحظہ کررہے ہو ، تم میں سے کوئی انہیں تلقین نہیں کررہا
! پھر امام اعمش یوں کیا ، انہوں (حسین الجعفی رحمہ اللہ) نے شہادت کی
انگلی سے اشارہ کیا اور ہونٹوں کو حرکت دی (یعنی انہوں نے فوت ہونے سے پہلے
لا الہ الا اللہ پڑھ لیا تھا)۔” (العلل و معرفۃ الرجال بروایۃ عبداللہ بن
احمد بن حنبل : ح ۳۶۲۷ وسندہ صحیح)
زیادہ سے زیادہ شئیر کیجیے اور دعوت دین میں ہمارا ساتھ دیں |
|