فانی کی شاعری کی انفرادیت
(Muhammad Sharib Zia Rehmani, )
اردوکے غم نصیب شعراء میں دو
شخصیتیں پیش پیش نظر آتی ہیں ۔وہ ہیں میراور فانی ۔ ان دونوں کا فلسفہ
زندگی اور تصور غم اپنا ہے، مستعار نہیں ۔ایک طرف اگر میر کا غم شخصی ہے
جوزندگی کی تلخیوں کے باعث فطرت انسانی سے براہ راست تعلق رکھتا ہے تو
دوسری طرف فانی کے غم میں بھی خلوص ہے لیکن انہوں نے ایک عام انسان کی طرح
تڑپنے اور نالہ کرنے کی بجائے اپنے ذاتی غم کوتکلفات سے نکھارا ہے ۔ فانی
کی شاعری کا محورتربت اورلحدنہیں ہے بلکہ اس میں غم کا عرفان موجود ہے جو
عرفان ،غم کی ہیئت کوبدل دیتا ہے ۔ چنانچہ وہی مکروہ اور بھیانک موت جومہیب
معلوم ہوتی ہے ، فانی کے یہاں حسین بن گئی ہے۔
اداسے آڑ میں خنجر کے منہ چھپائے ہوئے وہ لائے میری قضا کو دلہن بنائے ہوئے
فانی نے اپنے تجربات غم کے پیرانہ اظہار کو بھی عام ہونے نہیں دیا۔وہ دیوار
کے سایہ میں منہ پر دامن رکھ کر رونے کی تمنانہیں کرتے ۔یہ اعتدال پیدا
کرنے والی شئی تصوف ہے جو عملی نہ سہی نظر ی تو ہے ہی۔ پھر ان کا فلسفیانہ
زاویہ نظر ہے جس نے ان کی فکر کو عزیمت اور ان کے غم کو رفعت بخشی ہے۔ غم
کی یہی وہ منزل ہے جہاں سے میر اور فانی دونوں کے راستے جدا ہوتے ہیں ۔فانی
کی محبت بے لوث ہے جس کو چہ میں جرات ،مومن اور داغ بدنام ہوگئے وہاں سے
فانی اپنا دامن بچا کر لے آئے اورمجازی عشق کے باوجود انہوں نے مجاز کی
آلوگیوں میں دامن کو ملوث ہونے نہیں دیا۔
میراور فانی کے غم میں نمایاں فرق یہ بھی ہے کہ میرغم وآلام کی افتاد کو جس
شدت کے ساتھ محسوس کرتے ہیں ،اسی شدت کے ساتھ اس کا اظہار بھی کر دیتے
ہیں۔ان کے یہاں غم کا حکیمانہ تجزیہ اور اس کا خیر مقدم نہیں ۔وہ فانی کی
طرح اسباب و علل پر سوچتے ہوئے نظر نہیں آتے ۔صداقت دونوں کے یہاں ہے مگر
فرق یہ ہے کہ ایک کے یہاں جذبات کا عامیانہ اور بے ساختہ اظہار ہے اور
دوسرے کے جذبات پر فکر کی چھاپ پڑگئی ہے۔ میر کے خلوص جذبات اور حسن ادا نے
ان کو زندگی بخشی ہے مگرغم کو عرفان غم میں تبدیل کرنا صرف فانی کی
انفرادیت ہے۔دراصل فانی اس المیہ زندگی کے اس قدر خوگرہو گئے کہ حصول غم ہی
، ان کیلئے حصول عشرت تھا۔فانی کے قنوظی زاویہ نظر کے سبب ہی رشید احمد
صدیقی نے انہیں یاسیات کا امام قرار دیا ہے اوربقول ماہر القادری’’ انتہائے
یاس ان کو زندگی سے بھی بیزار کر دیتا ہے‘‘۔ فانی زخم دل کی دوا نہیں چاہتے
۔ زخم دل کا علاج انہیں برا معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے تلقین کرتے ہیں ۔
غیرت ہو تو غم کی جستجو کر ہمت ہو تو بے قرار ہو جا
فانی کو اپنے اسی دل پہ نازہے۔
مجھ کو میرے نصیب نے روز ازل نہ کیا دیا دولت دو جہاں نہ دی ،اک دل مبتلا
دیا
میری ہوش کو عیش دو عالم بھی تھا قبول ترا کرم کہ تو نے دیا دل دکھا ہوا
انبارِغم پرتومیر صاحب دست بد عاء ہوگئے ۔ کاش دل دو ہوتے عشق میں اک رکھتے
،اک کھوتے عشق میں
اور مرزا غالب نے بھی شکایت کر دی۔ میری قسمت میں غم گراتنا تھا دل یا رب
کئی دیئے ہوتے
لیکن فانی ہر نئے غم کیلئے ایک تازہ جگر کے خواہاں میں ۔جتنے غم چاہے ویئے
جا مجھے ، لیکن یا رب ہر نئے غم کیلئے تازہ جگر پیدا کر
فانی کے یہاں مختلف سانچے میں اور ان سانچوں میں کبھی غالب کی نقل ہے اور
کبھی میر کا چربہ ۔ لیکن یہ صداقت ادھوری ہے ۔ دراصل فانی کی فکر میں غالب
سے زیادہ گہرائی اور ان کے پاس میں میر سے زیادہ نشتر یت ہے۔ وہ صوفی شاعر
نہیں ، فلسفی شاعر ہیں ، ان کا استدلال اور طرز بیان فلسفیانہ ہے اور
واردات انسانی کے کامیابی مصور ہیں ۔ غالب حقائق زندگی پر سنجیدگی سے
سونچنے اور ان کو سلیقہ سے بیان کرنے کے خوگر تھے ، فانی کی گرفت فلسفیانہ
اور صوفیانہ مسائل پر زیادہ مستحکم تھی ۔
غالب کہتے ہیں ۔
جانا پڑا رقیب کے درپہ ہزار بار اے کاش جانتا نہ تیری رہ گذر کو میں
مومن یوں گو یا ہوتے۔
اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا ذلیل میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
ایک طرف محبوب کے نقشِ پا کے احترام میں اس قدر مبالغہ دوسری طرف اپنی ذلت
کے احساس کی یہ شدت ؟اس کے بر خلاف فانی کے یہاں ایک عارفانہ اور دقیق
مضمون پیش کیا گیا ہے ۔فانی ہر عکس کو جلوہ سمجھ کر ٹھٹھک جاتے ہیں ۔
ہر نقش یا کو دیکھ کے ڈھنتا ہوں سر کو میں پہچانتا نہیں ہوں تیری رہ
گذرکومیں
مرزا غالب نے رشک کے مضامین بڑی ندرت کے ساتھ باندھے ہیں۔ چھوڑا نہ رشک نے
کہ ترے گھر کا نام لوں ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جاؤں کدھرکومیں ۔غالب رشک کی
وجہ سے محبوب کے گھر کا نام نہیں لیتے اور عالم اضطراب میں ہر ایک سے
پوچھتے ہیں لیکن فانی نے اسی مضمون کو زیادہ نزاکت کے ساتھ پیش کیاہے۔انہیں
راہ طلب میں خضر سے بھی پوچھنا گوارہ نہیں ۔وہ پائے شوق دے کہ جہت آشنانہ
ہو پوچھوں نہ خضر سے بھی کہ جاؤں کدھر کو میں۔
غالب کہتے ہیں کہ
لووہ کہتے ہیں کہ یہ بے ننگ ونام ہے یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
غالب نے یہاں گھر کو لٹانے کی وجہ بیان نہیں کی ہے ۔ فانی تودیوانگی کے
عالم میں گھر کو آگ لگا دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ایسا کرکے دل بہل جائے
گا ، مگر جب ایسا نہیں ہوتا تو بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں ۔
بہلا نہ دل ، نہ تیرگی شام غم گئی یہ جانتا تو آگ لگا تا نہ گھر کو میں
ایک اور مقام پرفانی کی فکرمیں غالب سے زیادہ ترقی نظرآتی ہے’’جب تک کہ نہ
دیکھا تھا قدیار کا عالم میں معتقد فتنہ محشر نہ ہوا تھا‘‘
فانی نے کہاہے ’’ اک کفرسراپانے کیاحشرکاقائل میں معتقدحشرمجسم نہ ہواتھا‘‘
دونوں نے بظاہر ایک بات کہی ہے اور مرئی حقیقت کو غیرمرئی حقیقت تک لے جانے
کی کوشش کی ہے لیکن یہاں بھی فانی کے خیال میں ترقی نظر آتی ہے۔ فانی
کاشعرمنطقی حیثیت سے زیادہ مستحکم ہے۔ یہاں کفر سرایا کس قدر بے ساختہ
ہے۔اور لطف کی بات تو یہ ہے کہ حشر کا اعتقاد ایمان کی علامت ہے مگر یہاں
ایک ’’کفرسراپا‘‘ ایمان کی علامت بن گیا ہے۔ غالب’’ قدیار ‘‘کو دیکھ کر
فتنہ محشر قاتل ہوتے ہیں۔ فانی معشوق کو حشر سے بڑھ کر فتنہ خیز قرار دیتے
ہیں کیونکہ حشر تو صرف حشر ہے اور محبوب حشر مجسم۔
موت کا عنوان فانی کے یہاں کثرت سے ملے گا۔ متعد د شعرا نے اس پر اظہار
خیال کیا ہے مگر باستثنائے چند مفکر انہ انداز نظر سب کے ہاں مفقود ہے یا
پھر ذکر سطی یارسمی ہے۔ لیکن فانی کی حیثیت اس سلسلہ میں انفرادی ہے۔ انہوں
نے موت کے مسئلہ پر عارفانہ نظر ڈالی ہے ۔
فانی سکون موت نے دل سے مٹا دیا وہ نقش بے قرار کہ دنیا کہیں جسے
زندگی خود کیا ہے فانی یہ تو کیا کہتے مگر موت کہتے ہیں جسے وہ زندگی کا
ہوش ہے
فانی کے یہاں پناہ گزینی کاکوئی جذبہ نہیں بلکہ وہ زہر کوزہر سمجھ کر پیتے
ہیں ۔ وہ اس کے بھی روادار نہیں کہ زہرمیں دوا بھی ملائی جائے بقول سرور
صاحب ’’فانی کے یہاں غم کا عرفان ملتا ہے جوزندگی اور موت دونوں کو گوارہ
بنا دیتا ہے ، وہ غموں کو خوش آمدید کہتے ہیں بلکہ یہ شکوہ ہے کہ غم جاوداں
کیوں نہیں دیا گیا۔
وہ بدگمان کہ مجھے تاب رنج زیست نہیں مجھے یہ غم،کہ غم جاوداں نہیں ملتا
فانی موت کی تمنا بھی کرتے ہیں تو اس خیال سے رک جاتے ہیں کہ موت اور زندگی
کا انحصار خدا کی مرضی پر ہے ۔
کیا کروں نازک بہت ہے ان کی مرضی کا سوال ورنہ فانی اس جیئے جانے سے کچھ
حاصل نہیں
یہ غم کا ہی فیضان ہے کہ اس نے اقبال کو خود ی بخشی اور فانی کو بے خودی
مگر بے خودی کے باوجود فانی کے یہاں احساس خودی بھی موجود ہے۔ لیکن یہ
احساس خودی فانی کے انفرادی تجربات اور ذاتی واردات کارہین منت ہے۔ اقبال
کی طرح کسی اجتماعی اور ملی پیغام کا حامل نہیں ۔ اقبال مردمومن کی تعریف
یوں کرتے ہیں ۔
نشان مرد مومن باتو گویم چومرگ آید تبسم برلب اوست
اس کی بدلی ہوئی شکل ہمیں فانی کے یہاں ملتی ہے ۔
ناکام ہے تو کیا ہے کچھ کام پھر بھی کر جا مردانہ وار جی اور مردانہ وار
مرجا
جس وقت کہ دنیا والوں کی نگاہیں فطرتاََ ناخدا پر ہوتی ہیں ،فانی کی غیرت
لنگر اور نا خدا دونوں سے بیزار نظر آتی ہے ۔ انہیں خدا کے بعد ا پنے دست
وبازو پر ناز تھا۔
لنگر کا آسرا ہے نہ تائید ناخدا مرے سپردہے میری کشتی خدا کے بعد
فانی کو زندگی میں عشوۂ ونازواداسے بھی واسطہ پڑا ،خوبان روزگار کے ستم بھی
بردوشت کئے مگر انہوں نے اپنی محبت کا کبھی سودا نہیں کیا۔
تا عرض شوق میں نہ رہے بندگی کی لاگ ایک سجدہ چاہتا ہوں تیرے آستاں سے دور
فانی صوفی شاعر تو نہیں ہیں مگر متاخرین میں ان کی صوفیانہ شاعری کے کوئی
قریب بھی پہونچا تو وہ صرف اصغر ہیں ۔
وہ ہے مختار سزادے کہ جزا دے فانی دو گھڑی ہوش میں آنے کے گہنگار ہیں ہم
مجھے بلا کے یہاں آپ چھپ گیا کوئی وہ مہمان ہوں جسے میزباں نہیں ملتا
فانی کے کلام میں نزاکت خیال کثرت سے ملتی ہے مگر یہ معنی آفزینی میں مومن
سے مختلف ہے۔ مومن معنی آفزینی میں اس قدر ڈوبے ہیں کہ وہ مضمون کا خیال
بھی نہیں رکھتے مگر فانی مضمون کو حددرجہ عزیز رکھتے ہیں ۔ مومن کے کلام
میں جہاں خیال کی بلندی ہے وہاں عموماََالجھن ہوتی ہے ، فانی کے یہاں یہ
بات نہیں ۔فانی کے بیشتراشعار میں جو شعریت ہے ۔وہ کم شاعروں کو نصیب ہو
سکتی ہے ۔ وہ شاعری میں افادیت کے قائل نہیں تھے اور فن برائے کے اصول پر
یقین رکھتے تھے ، ان کے شعروں میں بے ساختگی ، روانی ، چستی ساتھ ہی خیال
کی گہرائی ہمیں متوجہ کئے بغیر نہیں رہتی ۔ فانی کی فکر اردو کے دوسرے غزل
گو شعراء کے مقابلہ میں زیادہ مربوط ہے۔انہوں نے ارادی طور پر اپنی فکر کو
چند مخصوص موضوعات تک محدود کر لیا تھا ۔ وہ حیات اور مسائل حیات کے بارے
میں سوچی سمجھی رائے رکھتے ہیں ۔ان کی شاعری میں شروع سے اخیر تک حزن کی
لہر یں ملتی ہیں بلکہ اسے شاعر نے پوری زندگی میں جاری وساری محسوس کیا ہے
اور یہ احساس ان کے لہجہ میں شامل ہو کر قلبی وارد وکیفیات کا ترجمان بن
گیا ہے۔اسی لہجہ سے ان کی آواز پہچانی جاتی ہے۔ فانی کی غمگینی کے اسباب ان
کی زندگی اورشخصیت میں تلاش کئے جا سکتے ہیں ۔
فانی نے زندگی کی غایت اور بقا کی آرزو اور تلاش کا افسانہ دو لفظوں ’’ غم
اور عشق ‘‘ میں سمو دیا ہے۔ فانی کا وجدان، ان کی فکر ، ان کی شاعری ، ان
کی شخصیت کا آئینہ ہے۔جس کی تشکیل میں مختلف خارجی اور داخلی عوامل نے حصہ
لیا ہے ۔احتشام حسین کی رائے ہے۔ ’’فانی میراور غالب میں سے کسی کے قریب
ہوں یانہ ہوں ، اپنی ذات سے بے حدقریب تھے ۔اوراسی کی ترجمانی نے ان کی
شاعری میں اثرپیداکیاہے۔ آل احمدسرورکہتے ہیں’’وہ طبیعت میں ایک خاص
گداز،نظرمیں بصیرت اوراحساس میں ایک خاص گہرائی پیداکرتے ہیں۔زندگی میں ان
چیزوں کی بھی ضرورت ہے‘‘۔ اور ۔ فانی کی موت پر فراق کے یہ الفاظ توادبی
دستاویز ہیں ۔’’دنیا گزر گئی غم دنیا لئے ہوئے ‘‘۔ |
|