سانحہ کراچی پر قومی قیادت کی بے حسی
(S. Anwer Mahmood, Karachi)
پاکستانی قوم ایک طویل عرصے سے
دہشتگردی کا شکار ہے، کبھی ہماری افواج پر حملہ ہوتا توکبھی رینجرز اور
پولیس پرلیکن یہ سب بڑی بہادری سے اس کا مقابلہ کرتے چلے آرہے ہیں، ساتھ
ہی ساتھ عوامی مقامات اورمذہبی عبادت گاہوں پربھی حملے کیے جاتے ہیں، جن
میں مسجد، امام بارگاہ اورچرچ شامل ہیں۔ ساؤتھ ایشیاء ٹیررازم پورٹل کے
مطابق 2005ءسے ابتک پاکستان میں56480افراد دہشتگردی کے بھینٹ چڑھ چکے ہیں،
اس طرح اوسطا 14ہلاکتیں یومیہ بنتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہم ایک ایسے ملک میں
رہتے ہیں جہاں سیاست تجارت سمجھ کرکی جاتی ہے اور ہمارا ہر سیاستدان کوئی
بھی کام کرنے سے پہلے اپنے نفع نقصان کو لازمی دیکھتا ہے پھر وہ کوئی عمل
کرتا ہے ۔ عوامی مقامات پر ہونے والی دہشت گردی کے بعد ہمارئے ملک کے
سیاستدان آپکو ہر اس جگہ ملینگے جہاں اُن کا ذرا سا بھی سیاسی فائدہ
ہولیکن جہاں ایسا نہ ہو تو وہ صرف بیانات سے کام چلالیتے ہیں اور کبھی کبھی
وہ اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
سولہ دسمبر 2014ء پاکستان اور انسانیت کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جس کا
سوچکر ہر ماں اور باپ غمزدہ ہوجاتے ہیں۔ پھولوں کے شہر کا تشخص رکھنے والے
شہر پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں طالبان دہشتگردوں نے پاکستان میں ابتک
ہونے والی سب سے بڑی بربریت کا مظاہرہ کیا اور132 بچوں سمیت 148 بے گناہ
لوگوں کو شہید کردیا۔ اس واقعہ کے بعد نواز شریف نے پشاور پہنچنے میں دیر
نہیں لگائی۔ دوسری طرف صوبہ خیبر پختونخوا میں برسراقتدار پاکستان تحریک
انصاف کے سربراہ عمران خان جو چار ماہ سے اسلام آباد کے ڈی چوک میں دھرنا
دیئے بیٹھے تھے انہوں نے پشاور سانحہ سے پورا فائدہ اٹھایا اور بنی گالہ سے
پشاور پہنچ گئے، یہ بات نوٹ کی گئی کہ موصوف کو اپنے گھر سے نکلنے میں پانچ
گھنٹے لگ گئے۔ دونوں سیاسی رہنما پشاور اپنے اپنے مفاد میں پہنچے تھے، نواز
شریف کا مقصد عمران خان کو کمزور کرنا تھا جبکہ عمران خان کا مقصدصوبہ خیبر
پختونخوا میں اپنی حکومت کو بچانا اور دھرنے سے جان چھڑانا تھا، اگلے دن17
دسمبر کو نواز شریف نے آل پارٹیز کانفرس بلائی تھی اس لیے باقی سیاسی
قیادت بھی پشاور میں موجود تھی۔ ائے پی سی ختم ہونے کے بعد17 دسمبر کی ہی
شام کو عمران خان نے 126 دن بعد سانحہ پشاورکو بنیاد بناکر دھرنا ختم
کردیا، عمران خان بہت اچھی طرح جانتے تھے کہ دھرنا ختم کرنے میں ہی اُنکا
سیاسی فائدہ ہے۔ نواز شریف نے سانحہ پشاور سے پوری طرح سیاسی فائدہ اٹھایا،
جس دھرنے اورجلسوں کو نواز شریف پورئے پارلیمینٹ کو ساتھ ملاکر نہ ختم
کرسکےاُسکو پشاور میں ہونے والی دہشتگردی نے گھنٹوں میں ختم کردیا۔ باقی
سیاسی سوداگروں نے بھی سانحہ پشاور سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھرپورکوشش
کی۔
ایم کیو ایم نے جمعرات 29 جنوری کو اپنے ایک کارکن کے قتل کے خلاف سندھ بھر
میں شٹر ڈائون ہڑتال کرائی، جس میں کراچی اور حیدرآباد مکمل بند رہے۔
کراچی بند ہونے کا مطلب حکومت کو بڑا معاشی جھٹکا اسلیے اگلے دن 30 جنوری
کووزیراعظم نواز شریف کراچی آپریشن کے سلسلے میں وزیر خزانہ اور وزیر
داخلہ کے ہمراہ کراچی پہنچے ۔ گورنر ہاؤس کراچی میں وزیراعظم نے ایم کیو
ایم کے قتل ہونے والے کارکن کے گھر والوں سے ملاقات کی جو وزیراعظم اور ایم
کیو ایم کی سیاسی ضرورت تھی۔ ابھی وزیر اعظم کراچی میں ہی تھے اور کراچی
اسٹاک کے انڈیکس کے بڑھنے کو اپنی کامیابی بتارہے تھےکہ صوبہ سندھ کے
شہرشکارپورسے دہشتگردی کی خبر آگئی۔ حسب دستور صدر ممنون حسین اور
وزیراعظم نے شکار پور دھماکے کی مذمت کی ۔ چونکہ شکار پور جانے سے وزیر
اعظم کو کوئی سیاسی فاہدہ نہ تھا لہذا شام کو وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ اسلام
آباد چلے گئے بعد میں وفاقی وزیر احسن اقبال نے وزیر اعظم کے خصوصی
نمایندے کی حیثیت سے شکارپورکا دورہ کیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ رات
دوبجے شکارپور پہنچے اور صحافیوں سے بات چیت کرنے کے بعد خیرپور روانہ
ہوگئے۔ ان کا یہ دورہ محض رسمی کارروائی تھا۔ اسکے بعد سانحہ شکارپورسے
پاکستان کے سیاستدانوں کا کوئی لینا دینا نہیں، کیونکہ اس سےکسی سیاسی
فاہدہ کا کوئی امکان نہیں، لہذا شکار پور میں شہید ہونے والوں سے عمران
خان، آصف زرداری، اسفندرولی یار، سراج الحق، مولانا فضل الرحمن اور باقی
سیاسی قیادت کوکوئی ہمدردی نہیں تھی۔
ایک اندازئے کے مطابق دو کڑوڑ کے قریب انسانوں کا شہر بدنصیب کراچی جو
گذشتہ 25 سال سے لاقانونیت کا شکار ہے، دنیا کے چند بڑئے شہروں میں آتا
ہے، ملک کا معاشی حب ہے۔ 13 مئی کو وزیراعظم نواز شریف نے پاک چائنا
اقتصادی راہداری منصوبے پر آل پارٹیز کانفرنس بلا رکھی تھی کہ کانفرنس
شروع ہونے سے قبل ہی کراچی سے ‘سانحہ صفورا چورنگی’ کی خبر آگئی۔ 18خواتین
سمیت 46 بے گناہوں کے وحشیانہ قتل کی خبر، نشانہ بننے والے اسماعیلی برادری
کے افراد تھے، ایک ایسی برادری جسے تحریکِ پاکستان میں شاندار کردار ادا
کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ کراچی کےعوام جو دہشتگردی، بھتہ خوری، اغوا برائے
تاوان، ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم سے تنگ آچکے ہیں اور خوف زدہ رہتے
ہیں، ایسے حالات میں صفورہ چورنگی پر ہونے والے سانحہ نے پورئے کراچی کو
مزیدخوف زدہ کردیا ہے۔ اس سانحہ والے دن 13 مئی کو ہی صدر مملکت ممنون حسین
نے ملک اور کراچی کا امن تباہ کرنے والوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ
اپنی حرکتوں سے باز آجائیں ورنہ بچ نہ سکیں گے۔ جبکہ اس سے پہلے نو مئی کو
صدر مملکت ممنو ن حسین فرمارہے تھے کہ آئندہ کسی کو کراچی کا امن تباہ
کرنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ صدر مملکت ممنو ن حسین اپنے گریبان میں جھانکیں اور
بتایں کہ اُنکا کونسا بیان درست مانا جائے۔
سانحہ کراچی میں مرنے والے سب کے سب انسان تھے کوئی کتا نہیں تھا اسلیئے
مولانا فضل الرحمان کو قطعی افسوس نہیں تھا، کیونکہ مولانا صرف کتوں کے
مرنے پر نہ صرف افسوس کرتے ہیں بلکہ کتا اگر کوئی دہشتگرد درندہ ہو (ہزاروں
انسانوں کا قاتل اور دہشتگرد طالبان کا سربراہ حکیم محسود) تو اُسے شہید کا
درجہ بھی عنایت کرتے ہیں، مولانا نے جس کتے کو شہید قرار دیا تھا، اُس ہی
کتے کی موت پرسابق امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے بھی اُسے شہید کہا
تھا ، جبکہ وزیر داخلہ چوہدری نثار بھی اُس کتے کی موت پر قومی اسمبلی میں
بہت روئے تھے، البتہ 30 مارچ کو سانحہ شکار پور اور 13 مئی کو سانحہ کراچی
میں مرنے والے انسانوں سےوزیر داخلہ کو کوئی ہمدردی نہیں۔ 13 مئی کی ائے پی
سی کانفرنس میں متحدہ قومی موومنٹ کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا
کہ اقتصادی راہداری منصوبے پر بریفنگ یا تو ملتوی کردیں یا پھر اسے مختصر
کردیں۔ اسفندر یار ولی کا کہنا تھا کہ اس سیشن کو مختصر کردیں تو فائدہ
نہیں، اسے جاری رکھیں، تفصیلی میٹنگ ہونی چاہیے یا پھر بیشک ملتوی کردیں جس
پر وزیراعظم نے کہا کہ اکثریت کا فیصلہ ہی اُن کا فیصلہ ہے، جیسے چاہیں
ویسے کرلیں۔لیکن مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اجلاس چونکہ بلایا
جاچکا ہے اور معلوم نہیں اگلے دو روز کس کی کیا کیا مصروفیات ہیں، کوئی
کہاں ہوگا؟ اس اجلاس کی اپنی اہمیت ہے اور کراچی سانحے کی اہمیت سے بھی
انکار نہیں، اجلاس جاری رکھیں، وزیراعظم کراچی جانا چاہتے ہیں تو تسلی سے
چلے جایں، یہ فیصلہ خوش آئند ہے۔اس کے بعد وزیراعظم نے شرکا کو بریفنگ
دینے کی ہدایت کردی ساتھ ہی شرکا کو پرتکلف شاندار لنچ کی دعوت بھی دئے
ڈالی۔اُس وقت تمام ٹی وی چینل سانحہ کراچی اور ائے پی سی دونوں کی کوریج
نشر کررہے تھے اور جب وزیراعظم کی دعوت پرائے پی سی میں موجود سیاسی
رہنماوں نے شاندار لنچ کا آغاز کیا تو ایک ٹی وی اینکر چیخ چیخ کرلوگوں کو
بتارہی تھی کراچی میں لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں تلاش کررہے جبکہ اسلام
آباد میں ہماری قومی قیادت شاندار لنچ کررہی ہے ۔
صوبہ سندھ میں کوئی وزیرداخلہ نہیں اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار جن کی
وزیراعظم نواز شریف سے نہیں بنتی وہ وزیراعلیٰ سندھ سے بات کرنے کے روادار
نہیں، کراچی سے بظاہر اُنکو کوئی ہمدردی نہیں اسلیے وہ وزیراعظم کے ساتھ
کراچی نہیں آئے اور نہ ہی سانحہ کراچی کے تعلق سے اُنکا کوئی بیان۔ جماعت
اسلامی کے امیرسراج الحق کو پہلے سے طے شدہ جماعت اسلامی کے پروگراموں میں
آنا تھا لہذا جب وہ کراچی آئے تو اپنے دہشتگرد بھایوں کے کارنامے کو
ہسپتال جاکر خود دیکھ آئے، آخر جند اللہ اُنکے ہی بھائی ہیں۔ عمران خان
کو ابھی تک کراچی آنے کا چانس نہیں مل رہا ہے، آجکل وہ ملتان میں ووٹ
مانگ رہے ہیں، آیندہ جب کبھی موقعہ ملا وہ ضرور آینگے۔ باقی رہ گے مولانا
فضل الرحمان، اسفندر یار ولی، مشاہد حسین، چوہدری شجات یا چوہدری پرویز
الہی وغیرہ وغیرہ ان میں سے کسی کو بھی کراچی والوں کے غم میں شریک ہونے سے
کوئی فائدہ نہیں لہذا کیوں آیں۔ جب ہماری قومی قیادت شاندار لنچ کررہی تھی
تو ہماری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اپنا سری لنکا کا دورہ منسوخ کرکے
سب سے پہلے کراچی پہنچے اور سب سے آخر میں تمام معاملات خود طے کرکےکراچی
سے گئے۔ افسوس ہوا سانحہ کراچی پر قومی قیادت کی بےحسی دیکھ کر۔ آئیے دعا
کریں کہ اللہ تعالی پاکستان اور پاکستانیوں کی حفاظت فرمائے۔ آمین |
|