عذابِ قبر کا احادیث کی روشنی میں بیان
(افتخار الحسن رضوی, گوجرانوالہ)
اللہ جلا و علا نے تخلیق انسان
کی وجہ قرآنِ مقدس میں واضح طور پر بیان کی ہے۔ پھر انسان کے سامنے رشد و
ہدایت کی راہ بھی روشن فرما دی اور اگر وہ نفس و شیطان سے مغلوب ہو کر
احکامِ خدواندی سے بغاوت کرے تو جہنم و آگ بھی اس کے لئیے رکھ دی۔ اتباعِ
احکام الٰہیہ کی صورت میں بہشت و جنت کی نعمتیں اور افعالِ حرام و مکروہات
کے ارتکاب پر جہنم میں ڈالے جانے کا انتظام بھی ہے۔
دورِ رواں میں تعلیماتِ دینیہ سے دوری وسواس کا باعث بن رہی ہے، لوگ اپنی
مرضی سے دینیات کی تشریح کرتے ہیں اور نتیجہ میں گمراہی کی راہیں ہموار
ہوتی ہیں۔ عذابِ قبر بھی ایک ایسا ہی موضوع ہے جس کی آڑ میں منکرین و جہلاء
انکار و کلامِ بے سود کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ عذاب قبر برحق ہے اور قرآن
وحدیث میں عذاب قبر کو بڑے واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
اولاً یہ سمجھیں کہ موت سے قیامت برپا ہونے تک کے عرصے کو "برزخ" کہا جاتا
ہے۔ موت کے بعد تمام جن و انس اپنے اعمال کے حساب سے برزخ میں درجہ پائیں
گے۔ برزخ کا تعلق اِس دنیا سے بھی ہے اور آخرت سے بھی۔ فوت ہو جانے کے بعد
ورثاء، اعزاء و اقربا ء کی دعا، صدقات و اعمالِ حسنہ برزخی زندگی میں نجات
و راحت کا سبب بنتی ہیں اور یہ قیامت میں ملنے والے انعامات کا ہی ایک حصہ
ہے۔ اسی طرح اگر کسی کی قبر میں سختی ہے تو یہ بھی اس کی سزا کا ہی ایک حصہ
ہے۔
حق تعالٰی جل شانہ فرماتا ہے؛
"(اور عالم برزخ میں بھی) ان لوگوں کو دوزخ کی آگ کے سامنے صبح و شام لایا
جاتا ہے۔‘‘
الغافر، 40 : 46
عذابِ قبر کے بارے میں متعدد احادیث موجود ہیں جو عذاب قبر کے بر حق ہونے
پر دلالت کرتی ہیں اور ان احادیث کی موجودگی میں اس حق کا انکار کرنا کفر
ہے۔
1۔ ’’حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی پاک ﷺ گھر سے
باہر تشریف لائے جب کہ سورج غروب ہو چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے (قبرستان میں) ایک آواز سنی تو ارشاد فرمایا : یہودیوں کو ان کی قبروں
میں عذاب ہو رہا ہے۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب التعوذ من عذاب القبر، 1 : 463، رقم :
1309
یہ حدیثِ پاک بیک وقت دو اہم عقائد کی وضاحت کر رہی ہے ، اول یہ کہ رسول
اللہ ﷺ کو اللہ تعالٰی نے علمِ غیب عطا فرمایا تھا کہ آپ غیب کی خبر دیتے
ہوئے فرما رہے ہیں کہ مردے کو قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ انسان
کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو وہ آخرت میں جزا و سزا کے مرحلے سے لازمی
گزرے گا اور یہ ان باطل عقائد کا رد ہے جو اپنی جہالت کی وجہ سے عذابِ قبر
و آخرت کا انکار کرتے ہیں۔
2۔ حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ نے تو واضح طور پر نام لے کر بیان
فرمایا کہ؛
’’ہم عذابِ قبر کے بارے میں شک میں مبتلا رہے حتی کہ سورۃ التکاثر نازل
ہوئی۔‘‘
ترمذي، السنن، کتاب تفسير القرآن عن رسول اﷲ ﷺ : 447، رقم : 3355۔
3۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ؛
"نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مردے (کافر، مشرک، منافق) اپنی قبروں میں عذاب
دیئے جاتے ہیں اور ان (کے چیخنے چلانے) کی آوازیں سارے چوپائے سنتے ہیں۔‘‘
طبراني، المعجم الکبير، 10 : 200، رقم : 10459
عذاب قبر کی شدت بھی اعمال کے حساب سے ہو گی۔ احادیثِ رسول ﷺ میں اس کا
متعدد مقامات پر ذکر آیا۔
4۔ ’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہماسے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ دو
قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ ﷺ نے (غیب کی خبر دیتے ہوئے ) فرمایا ، ان
دونوں کو (قبروں میں) عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑے گناہ کی بناء پر نہیں۔
پھر فرمایا ان میں سے ایک چغلی کھاتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب کے قطروں سے
احتیاط نہیں کرتا تھا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے ایک ہری شاخ لی اور دو حصوں میں تقسیم کیا، پھر ہر قبر پر اس کا
ایک ایک حصہ لگا دیا اور پھر فرمایا : جب تک یہ خشک نہ ہوں ان سے عذاب میں
تخفیف ہوتی رہے گی۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب عذاب القبر من الغيبة والبول، 1 : 464،
رقم : 1312
اللہ اکبر۔۔۔ یہاں بھی علمِ غیب مصطفٰی کریم ﷺ کا زبردست ثبوت اور احوالِ
قبر کا بیان کرنا فکر دلا رہا ہے۔
5۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ؛
"ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک جنازے میں شریک
تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر کے کنارے بیٹھ کر رونے لگے، حتی کہ
مٹی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنسوؤں سے تر ہو گئی پھر آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے میرے بھائیو! اس (قبر) کے لئے کچھ
تیاری کر لو۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب الحزن والبکاء، 2 : 1403، رقم : 4195
قبر میں ہونے والے سوالات کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے کئی احادیث میں رہنمائی فرمائی ہے :
6۔ ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سید المرسلین ﷺ نے
فرمایا : جب میت دفنائی جاتی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
تم میں سے کسی ایک کی میت دفنائی جاتی ہے تو اس کے پاس دو سیاہ رنگ کے،
نیلی آنکھوں والے فرشتے آتے ہیں ان میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر
کہا جاتا ہے وہ دونوں میت سے پوچھتے ہیں تم اس شخص (یعنی حضرت محمد ﷺ) کے
بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟ پس (اگر وہ مومن ہو تو) وہ وہی کہتا ہے جو وہ
دنیا میں کہا کرتا تھا یعنی وہ اﷲ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں
اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک
محمد ﷺ اﷲ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں۔ وہ دونوں فرشتے کہتے ہیں : ہمیں
علم ہے کہ تو دنیا میں یہی کہا کرتا تھا۔ پھر اس کے لئے اس کی قبر چاروں
طرف سے ستر، ستر گز تک وسیع کر دی جاتی ہے۔ پھر اس کو اس کے لئے روشن کر
دیا جاتا ہے۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے : سو جا۔ وہ کہتا ہے : میں اپنے گھر
والوں کی طرف جاتا ہوں تاکہ انہیں اپنے حالات کی خبر دوں۔ وہ دونوں اس سے
کہتے ہیں : تو اس پہلی رات کی دلہن کی طرح سو جا جس کو اس کے گھروں میں سے
صرف اس کا محبوب شوہر ہی جگاتا ہے۔ (وہ اسی حال میں رہے گا) یہاں تک کہ اﷲ
تعالیٰ روزِ قیامت اسے اسی حال میں اس کی قبر سے اٹھاے گا۔ اگر وہ منافق ہو
تو وہ (ان کے سوال کے جواب میں) کہتا ہے : میں نہیں جانتا میں نے وہی کہا
جو میں نے لوگوں کو کہتے سنا : دونوں فرشتے اسے کہتے ہیں : ہم جانتے ہیں کہ
تو یہی کہا کرتا تھا۔ پھر زمین سے کہا جاتا ہے کہ اس کے لئے سکڑ جا۔ پس
زمین اس کے لئے سکڑ جاتی ہے اور اس کے دونوں پہلو ایک دوسرے میں دھنس جاتے
ہیں۔ پس وہ اسی حال میں عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ روزِ
قیامت اسے اس کی قبر سے اٹھائے گا۔‘‘
1. ترمذي، السنن، کتاب الجنائز عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب
ما جاء في عذاب القبر، 3 : 383، رقم : 1071
مزید شرعی و روحانی رہنمائی کے لئیے ہمارا فیس بک پیج لائیک کیجئیے۔ |
|