اَب بے حسی کو بے حِس بن کرختم نہیں کیا جاسکتا ہے...
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
آج اپنے اور پرائے کے ہاتھوں بے
راہ روی کے شکاربے حس اِنسانوں نے اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں اور اپنے
گھناؤنے عزائم کی تکمیل کے خاطر سرزمینِ پاکستان کو بلارنگ و نسل زبان
ومذہب معصوم اور نہتے اِنسانوں کے لئے مقتل گاہ بنادیاہے ایسے میں جہاں
ضرورت اِس امر کی ہے کہ بے حس اور بھٹکے ہوؤں کو سیدھی راہ پر لانے کے لئے
طاقت کا استعمال کیاجائے تو وہیں مُلک اور معاشرے اور تہذیب میں پھیلے
اِنسانیت سُوزکارروائیاں کرنے والے بے حس اور شیطانی راہ پر چلنے والے
بھٹکے ہوؤں کو سُدھارنے کے لئے بے حس بن کر نہیں بلکہ اپنے اردگردموجود ...اپنی
آستینوں میں پلنے والے بے حس اِنسانوں کی بے حسی کو قابوکرنے کے لئے (اِن
وحشی نمابے حسوں) کو حس کی ایسی چاشنی چٹائی جائے کہ بے حس اِنسان اِس کے
جادومیں گرفتارہوجائیں اور اِن پرسوار بے حسی اور دیوانگی کا جِن جل کرخاک
ہوجائے۔
بہرکیف ...!!آ ج مجھے اپنے معاشرے کے چارسو ایک دونہیں بلکہ بے شمار ایسے
بے حس اِنسان ملتے ہیں جنہیں دیکھ کر مجھے اکثراوقات اِن کی اول درجے کی بے
حسی پر رونابھی آتاہے تو کبھی کبھی اِن بے حِس اِنسانوں کی جانوروں جیسی بے
حسی اور اِن کے حیوانوں والے رویوں پر ہنسی بھی آجاتی ہے،اور میں سوچتارہ
جاتاہوں کہ ایسے اِنسان اپنے وجود سے میرے مُلک میرے معاشرے اور میری تہذیب
کو کِدھر لے جارہے ہیں...؟؟کیا اپنی تباہی اور بربادی کی راہ پرچلنے والے
میری قوم کے اِن بھٹکے ہوؤں نے اِس راہ کا فیصلہ خود کیا ہے ...؟؟یااِنہیں
تباہی اور بربادی کی راہ پر کسی اورنے ڈال دیاہے...؟؟
الغرض یہ کہ آج میرے مُلک کے جس معاشرے میں جتنے بھی بے حس اِنسان پائے
جاتے ہیں موجودہ دور میں دراصل وہی کامیاب ترین اِنسان تصورکیے جاتے ہیں
یعنی یہ کہ آج کے دور میں جو جتنابڑابے حس ہے وہ اِتنا ہی بڑاکامیاب ترین
اِنسان ہے اور اِسی غروراورگھمنڈ میں مبتلا ایسے اِنسان جِسے جب ...اورجہاں
چاہیں ذلیل کردیں اور کسی بھی شریف النفس اِنسان پر جیسابھی چاہیں الزام
لگادیں اِن سے کوئی (یہاں مراد تینوں جیم’’ج ‘‘ ہے یعنی’’ جسٹس‘‘،’’جنرل
‘‘اور ’’جرنالسٹ‘‘)بھی پوچھنے والانہیں ہے...
بہرحال...!!آج میرے مُلک کے میرے معاشرے اور میری تہذیب میں پلتے پھولتے بے
حس اِنسان ...میرے مُلک کے میرے معاشرے اور میری تہذیب کے حساس اور نرم دل
اور حس کے اعلیٰ درجات پر فائز خلقِ خداکو حشرات الارض جتنی بھی اہمیت دینے
کو تیار نہیں ہیں،شاید وہ یہ بھول گئے ہیں کہ بے حس اور بے حسی مرجانے کے
لئے ہے اور حس اور حساسیت امرہونے کے لئے ہے آج دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ
جس زمانے کے جس مُلک کے جس معاشرے کی جس تہذیب میں جتنے بھی بے حس اِنسان
گزرے ہیں آج بھی دنیا کی تاریخ نے اِنہیں بُرے لفظوں اور جملوں کے ساتھ
ناگواری سے پکارتی ہے اور جس زمانے کے جس مُلک کے جس معاشرے کی جس تہذیب
میں آٹے میں نمک کی مقدارجتنے بھی اچھے اور حساس دل اِنسان گزرے ہیں اُنہیں
موجودہ دور میں بھی معتبراور قابلِ احترام جان کراِن کی قدر کو لازمی
قراردیاجاتاہے۔
جبکہ آج ایسالگتاہے کہ میرے مُلک کے میرے معاشرے اور میری تہذیب میں گلی
گلی محلہ محلہ قریہ قیریہ پھیلے بے حس اِنسانوں کا ایک بڑاٹولہ سرزمینِ
پاکستان پر خدائی فوجداری کا دعویداربناپھررہاہے ، جس نے اپنی دہشت گردانہ
اور وحشیانہ کارروائیوں سے میرے مُلک میرے معاشرے اور میری تہذیب کے نظام
میں ایک ایسابگاڑ پیداکردیاہے آج جس کو ملی یکجہتی سے سنوارنا نہ تومشکل ہے
اورنہ ہی ناممکن ہے۔
اِس میں شک نہیں کہ بے حسی کاسرِ عام رقص سرزمینِ پاکستان میں زندگی کے ہر
شعبے میں آسانی سے دیکھاجاسکتاہے، ایک بے حس اِنسان دوسرے بے حس اِنسان سے
دوقدم آگے نکل جانے کے چکرمیں ہے ہر بے حس دوسرے کو چکمہ دے کر وہ سب کچھ
حاصل کرلیناچاہتاہے اُس کے نزدیک جو ابھی تک کسی کوبھی حاصل نہیں ہواہے۔
ایک ایسے مُلک اور معاشرے اور تہذیب میں جہاں ہردوسراشخص بے حسی کی بلندیوں
کو چھوکرفخرمحسوس کررہاہے کیا ایسے مُلک اورایسے معاشرے اورایسی تہذیب کے
بے حس اِنسانوں کو بے حس بن کر سُدھراجاسکتاہے ...؟؟اور کیا مُلک اور
معاشرے اور تہذیب کے ہر اِنسان کے دل ودماغ میں گھرکرجانے والی بے حسی کو
بے حس بن کر ختم کیاجاسکتاہے...؟؟یا بے حس مُلک و معاشرے کی بے حس تہذیب کے
لوگوں کو حساس دل اِنسان بنانے کے لئے حساسیت کا ایسادرس دیناہوگاجس سے بے
حس مُلک و معاشرے اور بے حس تہذیب کے اِنسانوں کے دل اور دماغ حساسیت کی
ایسی آمجگاہ بن جائیں ...کہ پھر کوئی پلٹ کر بے حس اور بے حسی جیسی شیطانی
و حیوانی خصلت کی طرف نہ جائے۔آج بے حس اور بے حسی کے پھیلے عنصر نے مُلک
کے ہر فرد کو یہ سوچنے پر مجبورکردیاہے کہ اگر بے حسی اور بے حس پن کے
پنپتے شیطانی و حیوانی عنصراور راؤرنگ کو کنٹرول نہ کیاگیاتو عنقریب مُلک
کے چپے چپے میں اِنسانیت کی بے قدری کی ایسی مثالیں جنم لیں گیں جِسے
دنیاتاقیامت نہیں بھلاسکے گی۔
ہاں کسی بے حس اِنسان کی بے حسی کوہم بھی بے حس بن کر ختم نہیں کرسکتے ہیں
، اِس کے فوری اور دیرپاخاتمے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ میرے مُلک ، میرے
معاشرے اور میری تہذیب کے اُن حساس اور اِنسان اور اِنسانیت کا دردرکھنے
والے قابلِ قدراِنسانوں کو اپنے مُلک اور اپنے معاشرے اور اپنی تہذیب کے بے
حس اور بے حسی کی دلدل میں دھنسے اِنسانوں کی اصلاح کرنے کے لئے اپنا فریضہ
اداکرناچاہئے آج جن بھٹکے ہوؤں نے اپنی بے حسی سے مُلک اور معاشرے اور
تہذیب کو فرقہ واریت اورانارگی کی نظرکرڈالاہے اور معصوم اِنسانوں کے خون
سے ہولی کھیلنا اپنامشغلہ بنالیاہے ۔(ختم شُد) |
|