ادبی مزاج
(Prof Niamat Ali Murtazai, Kasur)
قدیم حکماء نے انسان کے
چار مزاج گنوائے ہیں۔ اور یہ چار مزاج انسان کے چار عناصر: ہوا، پانی، آگ
اور مٹی سے منسلک کئے جاتے ہیں۔ ہم اس تھیوری سے ہٹ کر ایک نئی تھیوری دینا
چاہتے ہیں۔اور تھیوری یہ ہے کہ ادب کی جتنی اصناف ہیں انسان کے اتنے یا ان
سے بھی زیادہ مزاج ہیں۔کیوں کہ مزاج کے بغیرادب کی تخلیق نہیں ہو سکتی اور
مزاج کے بغیر کوئی خاص قسم کا ادب پڑھا بھی نہیں جا سکتا۔اس لئے یہ بات
اتنی ہلکی پھلکی نہیں کہ ایسے ہی پھینک دی جائے۔اس بات میں بہت وزن ہے اور
آنے والے ادوار میں اس موضوع پر بہت کام ہونے کے امکانات کی گنجائش مو جود
ہے۔
ہم ان مزاجوں پر ادب اور حکمت سے ساتھ روشنی ڈالیں گے گو ہمیں ادب اور حکمت
سے شناسائی کا دعویٰ نہیں۔ اس تناظر میں ہم انسانی مزاجوں کو ادب کی موٹی
موٹی یا معروف اصناف کے لحاظ سے ہی زیرِ بحث لائیں گے۔تا کہ لکھنے، پڑھنے
اور سمجھنے والے کو آسانی رہے۔ہم ان کو مندرجہ ذیل اقسام میں بانٹتے ہیں:
شاعرانہ مزاج
غزلی مزاج
نظمی مزاج
آزاد نظمی مزاج
پابند نظمی مزاج
نثری مزاج
ناولی مزاج
ڈرامائی مزاج
رزمی مزاج
المیاتی مزاج
طربی مزاج
انشائی مزاج
طنزیہ مزاج
مزاحیہ مزاج
رومانوی مزاج
سرمایہ دارانہ مزاج
اشتراکی مزاج
مارکسی مزاج
فسطائی مزاج
نازی مزاج
مذہبی مزاج
تنقیدی مزاج
تخلیقی مزاج
صوفیانہ مزاج
قنوطی مزاج
امید افزا مزاج
تشکیکی مزاج
نرگسی مزاج
قصیدائی مزاج
مرثیائی مزاج
فراری مزاج
خلوتی مزاج
جلوتی مزاج
نسوانی مزاج
اذیتی مزاج
ایثاری مزاج
تعمیری مزاج
تخریبی مزاج
تلقینی مزاج
انتظامی مزاج
اب ہم ان مزاجوں پر اپنے مزاج کے مطابق بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہم ادب کی لمبی چوڑی تعریفوں کی بجائے اپنی ہی بنائی ہوئی ایک مختصر سی
تعریف پر اکتفا کریں گے:Literature is man in words. ادب کی یہ چھوٹی سی
تعریف اپنے اندر معانی کا سمندر لئے ہوئے ہے۔ ادب انسانیت کا مذہب ہے، ادب
اور انسانیت انسان کے سب سے وسیع وعریض دائرے ہیں جن سے کوئی انسان باہر
نہیں رہ سکتا۔ادب انسان کو پیش کرتا ہے۔اور انسان کی خدمت کرتا ہے۔انسانیت
بیدار کرنے میں اپنا رول پلے کرتا ہے۔ادبی کا متضاد غیر ادبی ہی ہو سکتا ہے
کیوں کہ ادب کا براہِ راست کسی سے کوئی تضاد نہیں ہے۔
شاعری ادب کی ملکہ ہے،اسی لئے اکثر ادب لوگ اس ملکہ کے درباری بننا پسند
فرماتے ہیں۔ جیسی ملکہ ویسے درباری۔ ملکہ ہی جب فقر پسند ہو گی تو درباری
بھی تو فقیر ہی ہوں گے ۔ یہ ایسی ملکہ ہے کہ اس کے دربار کو زوال نہیں۔ نا
معلوم زمانوں سے اس کا دربار سجا ہوا ہے اور جب تک دنیا انسانوں سے آباد
رہے گی اس کے دربار سجتے رہیں گی۔ دنیا کے شہنشاہ اپنا زوال نہیں روک سکتے
، ان کی املکہ خزاں رسیدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ لیکن شاعری کی ملکہ
ایسی ہے کہ زوال اس سے ڈرتا ہوا بھاگ جاتا ہے۔ اس کی برتری تودیویوں سے بھی
فزوں تر ہے کبھی دیویوں کے دربار ہوا کرتے تھے، ان کے پجاری ان کی پرستش
میں جان کے نذرانے بھی پیش کیا کرتے تھے۔ لیکن اب ان دیویوں کی ہلاکت ہو
چکی ، جو کبھی دوسروں کو زندگی عطا کیا کرتی تھیں خود ہی ماضی کی گرد میں،
گمنامی کے دیس جا بسیں۔لیکن ملکہء شاعری کا دربار پہلے سے زیادہ باوقار ہو
چکا ہے اور اور ہوتا چلا جائے گا۔
شاعری کا مزاج بھی باقی مزاجوں میں منفرد ہوتا ہے۔اس مزاج کا انسان بہت سی
انسانی برائیوں جیسا کہ لالچ، حرص، حسد وغیرہ سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کا دل
دنیا کی طرف دوسرے لوگوں کے برعکس کم رغبت رکھتا ہے۔اس میں سخاوت، دوستی،
ملنساری، اخوت جیسی خوبیاں زیادہ فروغ پاتی ہیں۔بعض صورتوں میں یہ مزاج
سستی اور سہل پسندی کا شکار بھی ہو جا تا ہے لیکن یہ باتیں اس مزاج کے ساتھ
مستقل طور پر منسلک نہیں ہوتیں۔ اس مزاج کی ایک اور بڑی خوبی تخیل طرازی
ہے۔ شاعر لوگ خیالات کے ان کروں میں محوِ گردش رہتے ہیں جن تک دوسروں کی
سوچ کی رسائی نہیں ہوتی۔اس مزاج میں مذید ذیلی مزاج شامل ہوتے ہیں۔ اس کے
بغیر ادب میں جیسے جان ہی نہیں پڑتی۔اس مزاج نے جتنا ادب تخلیق کروایا ہے
شاید ہی کسی اور مزاج نے کروایا ہو۔
غزلی مزاج ادب کے بہترین مزاجوں میں سے ہے۔غزل کی خوبصورتی اگر گفتگو میں
بھی آجائے تو کیا ہی بات ہے۔ غزل ایسی صنف ہے کہ دنیا کی بڑی بڑی زبانیں اس
کے آگے چپ سادہ لیتی ہیں۔غزلی مزاج والا بات مختصر کرے گا لیکن وہ بات
معنویت کا سمندر ہوگی۔ ایک آدھ جملے میں اپنا مافی الضمیر یوں ادا کرے گا
کہ دوسرے دیکھتے رہ جائیں گے اور کچھ دیر بعد وہ اس بات کی تہہ تک رسائی
پائیں گے۔غزلی مزاج کی دوسری خوبی بات کی خوبصورتی ہے۔ بات کا مختصر ہونا
ایک بات ہے لیکن اس بات کا خوبصورت ہونا دوسری بات ہے۔ بات میں خوبصورتی اس
کاٹ کی ہو گی کہ داد دینے کو دل چاہے گا۔غزلی مزاج کی تیسری صفت یہ ہے کہ
اس میں بوریت نہیں ہو گی۔وہ بات لمبی کرے گا ہی نہیں کہ دوسرے بور ہوں۔
مزاج صرف بات کی حد تک تو نہیں ہوتا لیکن انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا
ہوتا ہے، اس لئے اسے اس کی زبان کے استعمال سے تلاش کیا جا سکتا ہے۔یہ مزاج
ادب کا منفرد مزاج ہے۔ اس مزاج نے ادب کو بہت نایاب تحائف سے نوازا ہے۔
نظمی مزاج ،ایک بات کو اس انداز سے کرے گا کہ جیسے کہانی سنا رہا ہو۔ بات
کو اشاراتی انداز میں کرنے کی بجائے وہ وضاحتی انداز اپناتا ہے۔ اس لئے
کبھی کبھی بوریت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔ بات کا اختصار کھل کر سامنے آنے کی
صورت میں اپنی کنائیت کھو بیٹھتا ہے۔ بات میں ادبی ٹیسٹ ہوتا ہے لیکن زیادہ
سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہو تی۔اس مزاج میں سوچ سیدھی اور
مرصع ہوتی ہے۔
نظمی مزاج اپنے رویوں میں بھی کافی محتاط ہوتا ہے اور خیالات کو کسی ترتیب
میں پیش کرنے کی صلاحیت سے مزین ہوتا ہے۔ یہ مزاج ادب کے آباواجداد کا درجہ
رکھتا ہے۔ادب نے اس مزاج کی کوکھ سے جنم لیا اور ابھی تک یہ ادب کی سرپرستی
کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔
آزاد نظمی مزاج ایک طرف تخیل کی پرواز رکھتا ہے لیکن دوسری طرف اپنے آپ کو
کسی سماجی یا معاشی ضابطے کے تابع رکھنے میں مشکل پاتا ہے۔ یہ نہیں کہ وہ
کوئی ڈاکو، بدمعاش یا سمگلر بن جاتا ہے ۔ وہ بہت سے دائروں کے اندر رہتے
ہوئے بھی بہت سے ضابطے جنہیں توڑا جا سکتا ہے،توڑ دیتا ہے۔ کچھ باتوں میں
وہ بہت اچھا ہوتا ہے لیکن کچھ باتوں میں اس کی انتہا پسندی اسے دوسری باتوں
میں اتنا مفید یا قابلِ تعریف نہیں رہنے دیتی۔ اس کی سوچیں لوگوں کی سوچوں
کے تابع نہیں ہوتیں۔ وہ اپنی سوچ کو اپنی مرضی سے تخلیق کرتا ہے۔وہ ایک
اچھا ریسرچر ہو سکتا ہے۔وہ خیالات کی آزادی کو بعض صورتوں میں اہمیت دیتا
ہے اور بعض صورتوں میں وہ روایت پسندی اختیار کرتا ہے۔ اس مزاج نے بیسویں
صدی میں ادب میں اپنا مقام پیدا کیا اور پھر خوب فروغ پایا۔
پابند نظمی مزاج بہت زیادہ رجعت پسند واقع ہوتا ہے۔وہ اپنے خیالات کسی
دوسرے بڑے ذہن سے منسلک کر کے استورا کرتا ہے۔ اس کی گفتگو بہت نپی تلی
ہونے کے ساتھ ساتھ عنوان پر زیدہ مرکوز رہتی ہے۔ بہت سے لوگ اپنی بات ایک
نقطے پر مرکوز نہیں رکھ پاتے اور جلد ہی ان کی سوچ اپنی لائن سے ہٹ کر کسی
اور لائن پر چلنے لگتی ہے، لیکن پابند نظمی مزاج اپنی بات دیر تک اپنے
موضوع پر فوکس کر سکتا ہے۔ ایسے لوگ زیادہ سادگی پسند ہوتے ہیں، اور قناعت
سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کی زندگی میں زیادہ انواع کی سرگرمیاں بھی نہیں
ہوتیں۔وہ جس بھی سرگرمی کو لیتے ہیں اسے دور تک لے جاتے ہیں لیکن وہ سر
گرمیاں رکھتے محدود ہی ہیں۔اس مزاج کو زمانہ قدیم سے ہی ادب میں مستقل نشست
مل چکی تھی اور ابھی تک اس کی سیٹ کو کوئی خطرہ نہیں اگرچہ آزاد نظم نے اسے
کچھ جھٹکے دیئے لیکن یہ اپنی پوزیشن قائم رکھے ہوئے ہے۔
نثری مزاج کی سب سے نمایاں صفت بات کو خوب وضاحت سے بیان کرنا ہے لیکن اس
میں شاعرانہ خوبصورتی چوں کہ نہیں ہو تی اس لئے بوریت کا شکار ہو جاتا
ہے۔وہ فصاحت کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے اور بات کی رمزیت کی لطف اندوزی سے
محروم رہتا ہے۔وہ تشبیہات اور استعاروں وغیرہ کا استعمال بھی کم کم ہی کرتا
ہے۔ اس کی زندگی ایک سیدھی لائن پر چل رہی ہوتی ہے۔ وہ ٹارگٹ متعین کرتا
اور ان کے حصول کی بھر پور کوشش بھی کرتا ہے۔ اس کی زندگی رومانوی مسائل
اور مشاہدات سے بڑی حد تک مطہر ہوتی ہے۔ وہ اکثر مخلص دوست ثابت ہو تا ہے۔
اس کے تعلقات زیادہ تر مستحکم رہتے ہیں۔وہ اپنے جذبات کے اظہار میں بہت کم
تصنع اختیار کر پاتا ہے۔نثری مزاج ادب کے گھر کی مالکن کا سا مزاج ہے۔ اس
کے بغیر کوئی بھی بات اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ پاتی۔ شاعرانہ مزاج کو
بھی بار بار اس مزاج کی مددلینی پڑتی ہے۔
ناولی مزاج بنیادی طور پر نثری مزاج ہی ہوتا ہے لیکن اس کی زندگی میں
واقعات کی بھرمار ہوتی ہے اور اکثر جہاں اسے موقع میسر آتا ہے اپنے واقعات
کی تفصیلی گفتگو سے سننے والوں کو محظوظ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اکثر
بوریت کا سبب بنتا ہے کیوں کہ عام پر لوگ مختصر بات ہی سننا پسند کرتے ہیں۔
اور جب بچوں کی طرح ان کو واقعاتی باتیں سننی پڑیں تو وہ ڈسلائک کرتے ہیں۔
ناولی مزاج لوگوں کی بوریت کی پرواہ کئے بغیر اپنی بات کرتا چلا جاتا ہے
اور سمجھتا ہا کہ لوگ اس کی گفتگو سے حظ اٹھا رہے ہیں جبکہ وہ اسے ہذارسمجھ
کے اس کی بات کو فل سٹاپ لگنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔اس مزاج کو بہت سی
کہانیاں ازبر ہوتی ہیں اور وہ ہر بات کے ساتھ کوئی نہ کوئی واقعہ بیان کرنے
کی صلاحیت سے مزین ہوتا ہے۔اسے اپنی بات کر کے ذہنی سکون ملتا ہے جبکہ یہ
سکون دوسرے ذہنوں سے اس کی طرف آ رہا ہوتا ہے۔ناولی مزاج اٹھارہویں صدی میں
ادب میں شامل ہوا لیکن ایک بار اپنی جگہ بنانے کے بعد اس نے کبھی اپنی جگہ
کسی اور کو نہیں دی۔ بلکہ اس نے بعض بڑے بڑے پھننے خاں قسم کے مزاجوں کو
بھی ناکوں چنے چبوا دیئے۔ یہ مزاج ادب کا بہت فیورٹ مزاج ہے۔
ڈرامائی مزاج کا ناولی مزاج سے کچھ انطباق ہوتا ہے لیکن اس میں جاذبیت
زیادہ ہوتی ہے۔یہ بھی واقعات کے سہارے اپنی گفتگو کو چارپانچ چاند لگانے کے
چکر میں ہوتا ہے ۔ اور ساتھ ساتھ وہ چہرے کے اظہارات ایسے بناتا ہے جیسے
کوئی اداکار ہو ۔ آواز کا اتارچڑھاؤ، ہاتھوں کی حرکت،آنکھوں کے اشارے،
وغیرہ سے یہ مزاج کافی شناسائی رکھتا ہے۔اس میں فقروں کی ادائیگی کا فن بھی
ہوتا ہے۔ اس کی گفتگو اگرچہ واقعاتی اور طویل ہوتی ہے لیکن اس سے سننے والے
کافی دیر تک محظوظ ہوتے ہیں اور بوریت کے حبس میں ان کا سانس نہیں
گھٹتا۔ڈرامائی مزاج اپنے رویئے میں بھی اچانک تبدیلی لا نے اور اچانک کسی
دوست یا رشتہ دار کے گھر اطلاع دیئے بغیر چلے جانے والی حرکتیں بھی کر تا
ہے۔یہ دانشور ہوتا ہے لیکن دانش کو خشکی کی نذرہو جانے سے بچا ئے رکھتا
ہے۔اسے زندگی اور دنیا کے نشیب و فراز کا قریبی مشاہدہ ہوتا ہے اور وہ اپنا
کام زیادہ ماہرانہ انداز میں کرنے کی صلاحیت رکھتاہے کرے چاہے نہ کرے۔
ڈرامائی مزاج ادب کے گلے کا ایسا ہار ہے جسے کبھی ہار نہیں۔انسان کبھی اپنے
حواس کی قید سے نکل نہیں سکتا اور حواس کی پسندیدہ چیز اسے ہمیشہ ہی
پسندیدہ رہے گے۔ ڈرامہ حواس کو بڑی آسانی سے وہ سب کچھ بتا دیتا ہے جسے کسی
اور طرح سے جاننے کے لئے بہت زیادہ کوشش کرنی پڑے۔ اس لئے یہ مزاج ادب کے
باقی مزاجوں کا سردار ہے۔ اسے ادب نے بہت سراہا اور اپنایا ہے۔
رزمی مزاج انتہائی خشک اور سنجیدہ ہوتا ہے۔ اکثر لڑائی کی طرف جلدی آجاتا
ہے۔ طبیعت اتنی سنجیدہ ہوتی ہے کہ شوخ باتیں اچھی ہی نہیں لگتیں۔ سیاست کی
دلچسپی اور معاشی فکروں کی زدمیں رہ کر یہ ذہن فضول خرچی کو بہت ناپسند
کرتا ہے۔سیاست میں انتہا پسندی اختیار کرتا ہے اور کسی ایک سیاسی جماعت کو
ہی ہمیشہ سپورٹ کرتا ہے اگرچہ کبھی کبھی اس سیاسی جماعت کی فاش غلطیوں کو
برا بھی کہتا ہے۔اس کے دوست بہت کم ہوتے ہیں اور جو ہوتے بھی ہیں وہ بھی اس
سے ہر طرح کی بات کرنے سے احتراز ہی کرتے ہیں۔سروس میں انتہائی مستعد واقع
ہوتا ہے۔ اپنا کام بہت محنت اور دیانتداری سے انجام دیتا ہے۔بہت زیادہ کی
ہوس بھی نہیں رکھتا اور فضول خرچ کرنے کو ناپسند بھی کرتا ہے۔اس طرح کر
کردار اپنے خاندانوں کے اکثر رہنما ہوتے ہیں۔رزمی مزاج ادب کے بہت کام آیا
ہے اور ابتدائی ضخیم اور عظیم تخلیقات اسی مزاج کی مرہونِ منت رہی ہیں۔اب
اس مزاج کو بڑھاپے کا سامنا ہے اگرچہ ادب کی دنیا میں عملی دنیا کی سی بے
ادبی نہیں ہوتی۔
المیاتی مزاج کی زندگی حادثات کا شکار رہتی ہے۔آئے دن کوئی نہ کوئی پریشانی
اس کا پتہ پوچھتی رہتی ہے۔ وہ اس قدر مایوس ہو جاتا ہے کہ اس کا فلسفہء
زندگی مایوسی کی نذر ہو جاتا ہے۔ وہ زندگی میں کوئی کارنامہ انجام دینے سے
محروم رہتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مایوسی کی شاعری میں نمایاں ہو جائے۔ یا
اور کوئی ایسا کام کر جائے کہ لوگ اسے ہمدردی سے یاد رکھیں۔ ایسا مزاج خود
کشی کے کناروں پر چل رہا ہوتا ہے، اگرچہ وہ ساری زندگی ایسا نہ کرے۔ وہ
خاموشی اختیار کر لیتا ہے اور اپنے غم و آلام کی داستانیں ہر کسی کو سناتا
نہیں پھرتا۔بہت کم صورتوں میں وہ مزاحیہ اداکاربن جاتا ہے اور اکثر کامیاب
رہتا ہے لیکن اس کے دل کی المناکی ختم نہیں ہوتی۔وہ اداس گیت سننا اور
مایوس اختتام والی فلمیں دیکھنا یا دوسروں کی خود کشی کے واقعات کا مطالعہ
کرنا اختیار کر لیتا ہے۔ المیہ مزاج کو ادب میں باقی سب مزاجوں سے زیادہ
جگہ اور بقائے دوام ملی ہے۔ عظیم ترین تخلیقات المیوں کی شکل ہی میں منظرِ
عام پر جلوہ افروز ہوئیں۔
طربی مزاج اکثر خوش وخرم رہتا ہے۔ اس کی خواہشات کافی بڑی بڑی ہوتی ہیں ۔
اسے زندگی رنگین نظر آتی ہے۔ وہ غم میں مبتلا رہنے کو پسند نہیں کرتا ۔یہ
نہیں کہ اسے غم نہیں ملتا ،لیکن وہ غم کو زندگی کی ادبی سچائی نہیں
گردانتا۔ وہ خوش رہنے کو زندگی سمجھتا ہے اور خود اس فلسفے پر عمل پیرا بھی
ہوتا ہے۔ان کا ذہن ہر وقت بہار کا موسم محسوس کرتا ہے۔ وہ تنہائی میں
گنگناتا اور محفل میں کھکھلاتا ہے اسے مستقبل کی فکر دامن گیر نہیں ہوتی وہ
اپنا بہت کچھ قدرت کو سونپ دیتا ہیاور زیادہ لمبی لمبی سوچوں کو اپنے ذہن
کا آرام چرالے جانے کی اجازت نہیں دیتا۔اکثر لاابالی نوجوان ایسے ملتے ہیں
اور جب عمر اپنے چالیسویں کا سنگِ میل طے کر لیتی ہے تو یہ لوگ بڑی حد تک
تبدیل ہو جاتے ہیں لیکن مکمل تبدیلی کبھی نہیں آتی۔
انشائی مزاج مضبوط اعصاب کا مالک ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی جذبات کا ساتھ بھی
دیتاہے۔وہ اچانک کسی نئے خیال کی تکمیل میں لگ جانے کا عادی ہو تا ہے۔بازار
سے کئی بار ایسی چیزیں بھی خرید لاتا ہے جن کی گھر میں قطعاً ضرورت نہیں
ہوتی۔وہ ضرورت کی چیزیں بھی کافی اکٹھی کر لیتا ہے۔ وہ مستقل مصنف نہ بھی
پھر بھی کبھی کبھی اچھی تحریر لکھ لیتا ہے۔ وہ بعض اوقات کسی نقطے کی اچھی
شرح بھی کر دیتا ہے۔وہ اپنے مسلک کی باتوں کو اچھی طرح سمجھتا ہے اور ان کی
وقتاً فوقتاً وضاحت بھی کرتا ہے۔اس کے خیالات میں ابہام بہت کم ہوتا ہے۔اس
کا ذہن اطمینان کی زندگی گزارتا ہے۔ وہ اپنی عزتِ نفس کو مقدم رکھتا ہے ،
اپنے مفاد کی حفاظت کرتا ہے اور اپنی سنجیدگی بھی برقرار رکھتا ہے۔لوگ اسے
عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسے معزز شہری سمجھتے ہیں، لیکن یہ اپنے
مفادات چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتا۔انشائی ادب اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ اب یہ
ادب کا ایک پختہ مزاج کا روپ دھار چکا ہے۔
طنزیہ مزاج بہت سڑیل ہوتا ہے۔ ہر بات میں نقص نکالنا اپنی اولین ترجیح اور
ذمہ داری سمجھتا ہے اسے کوئی چیز کسی صورت میں پسند آتی ہی نہیں۔ ہر چیز سے
کیڑے نکلتا چلا جاتا ہے۔وہ شاید کسی آیئڈیل کی تلاش میں ہوتا ہے جو اسے
کبھی نہیں ملتا اور نہ اس کی تسکین ہوتی ہے۔بڑے سے بڑا شاہکار بھی اس کی
نظر میں ہیچ ہوتا ہے۔شاید ہی کوئی چیز اس کے معیار پر پورا اتر سکے۔وہ اپنی
طنز سے نہ صرف معاشرہ، سیاست وغیرہ کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے بلکہ مذاہب،
فطرت اور انسان بھی اس کی طنز کی آگ میں اپنے خدوخال کھو بیٹھتے ہیں۔ نہ
کسی کی خوشی سے خوش نہ کسی کے غم میں شریک۔ معاشرہ ان کو پسند نہیں کرتا۔
لوگ ان کی صحبت میں جانا نہیں چاہتے لیکن مجبوری میں چلے بھی جاتے ہیں۔ یہ
بھی کبھی کبھار لوگوں کی تعریف کر دیتے ہیں ۔اس مزاج کے لوگ کم ہوتے ہیں
لیکن ہوتے ضرور ہیں۔ادب نے طنزیہ مزاج کو بہت منزلت کے ساتھ اپنا ہمراہی
بنایا ہے۔طنزیہ ادب دوسرے ادب کی نسبت زیادہ مشہور و مقبول ہوتا ہے۔ طنز یہ
مزاج ادب میں ایسے رچ بس گیا ہے کہ اب اس کے بغیر ادب پھیکا محسوس ہوتا ہے۔
مزاحیہ مزاج معاشرے کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں۔ اس مزاج والا خود بھی خوش
رہتا ہے اور دوسروں کو بھی خوش دیکھنا چاہتا ہے۔ مزاح ا س کی فطرت میں ہوتا
ہے اس لئے اس مزاح پیدا کرنے میں نہ سوچنا پڑ تا ہے اور نہ اسے دیر لگتی
ہے۔مزاحیہ باتیں اس سے ایسے سرزد ہوتی ہیں جیسے اس کی سانسیں چلتی ہیں۔ وہ
پریشان حال لوگوں کے لئے بہت بڑے ماہرِ نفسیات سے زیادہ مفید ہوتا ہے۔
معاشرہ پریشانیوں کی اماجگاہ بن چکا ہے جس میں تازہ ہوا کا گزر مشکل ہوتا
جا رہا ہے۔ یہ مزاحیہ مزاج بادِ صبا کی طرح اداس ماحول مین نئی روح پھونک
دیتا ہے۔اس کا دل بہت صاف ہوتا ہے۔ اس کی زبان کے لئے سکون محال ہوتا ہے۔یہ
محفل پسند ہوتا ہے اورمحفل کی جان ہوتا ہے، محفل کو کشتِ زعفران بنانا اس
کے بائیں ہاتھ کا کمال ہوتا ہے۔ہر سوسائٹی میں ایسا ایک آدھ کردار مل ہی
جاتا ہے۔ادب نے مزاح کو اس قدر اپنے اندر سمویا ہے کہ اب یہ مزاج ادب کا
مستقل مزاج بن چکا ہے۔ اس کے بغیر ادب ایسے لگتا ہے جیسے کھانے میں نمک کی
کمی ہو۔
رومانوی مزاج کا زیادہ وقت تصور اور تخیل ہی میں بسر ہوتا ہے۔ وہ پیار محبت
کی باتوں کو ایسے ہی حقیقت سمجھتا ہے جیسے وہ نوجوانی میں لگا کرتی ہیں۔
اسے جنسِ مخالف کے فون اکثر آتے ہیں۔ وہ ایک سے زیادہ لوگوں کو یہ احساس
دلانے میں کامیاب رہتا ہے کہ وہ ان ہی کا ہے۔ وہ زندگی کو کسی سنجیدہ فلسفی
یا مذہبی سکالر کی طرح نہیں لیتا۔ اس کی زندگی، عشق و محبت کی داستانیں رقم
کرنا اور کچھ وقت بعد نئے چہروں اور نئی زلفوں کو مخاطب کرنا ، کا عملی
ثبوت پیش کرتی ہے۔ جذباتی پن اس کی سرشت کا لازمی حصہ ہوتا ہے۔ وہ ایک وقت
ایک شخص کی خالص محبت رکھتا ہے لیکن کچھ وقت بعد وہ خالص جذبات کسی اور پر
نثار ہو رہے ہوتے ہیں۔ ایسا مزاج بعض صورتوں میں خود کشی کا مرتکب ہو سکتا
ہے۔ بعض اوقات اسے بیرونی عناصر سے انتقام کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس کی زندگی ایک جلتے ہوئے شعلے کی طرح بے چین و بے قرار ہو تی ہے۔ڈائجسٹ
پڑھنا، دیر تک گھر سے باہر رہنا،شائستہ انداز میں بات کرنا، اپنے آپ کو بنا
سنوار کر رکھنا، وغیرہ اس کی عام علامات ہیں۔رومانویت انیسویں صدی میں ادب
کا سنگار بنی اگر وہ ہمیشہ سے ادب میں سمائی ہوئی ہے لیکن اس کے خدوخال
انیسویں صدی میں زیادہ آشکار ہوئے۔اس کے بعد یہ مزاج ایک پسندیدہ اور سنسنی
خیز مزاج کے طور پر ادب پر بڑی حد تک قابض ہو چکا ہے۔
سرمایہ دارانہ مزاج معاشرے کا سہارا بھی ہے اور معاشرے کا ناسور بھی۔ یہ
بیک وقت مفید اور مضر ہوتا ہے۔مفید اس لحاظ سے کہ وہ معاشرے کی معیشت کا
سہارا ہوتا ہے۔ بہت سے مزدور اس کا کام کر کے اپنی روزی روٹی کا سامان کرتے
ہیں۔ ضرورت کی چیزیں مہیا کرنا اس کے لئے چنداں مشکل نہیں ہوتا۔وہ کوئی
کارخانہ لگا سکتا ہے جہاں ہزاروں کو کام مل سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ
معاشرے کے لئے ناسور بھی ہوتا ہے کہ وہ غریبوں کا خون چوستا ہے اور ان کی
محنت مشقت کا استحصال بھی کرتا ہے۔اس کی ایک سال بعد نئی فیکٹری تولگ جاتی
ہے لیکن اس کے مزدور کے بچے تعلیم سے محروم ہی رہتے ہیں۔ وہ اس طرح سے
وسائل پر قابض ہوتا ہے کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہو پاتی۔یہ مزاج
جہاں بیٹھتا ہے اپنے کاروبار کی باتیں کرتا ہے، اسے اکثر کاروباری فون آتے
ہیں۔دوسروں پر برتری جتانا اس کے معمول میں شامل ہوتا ہے لیکن ایسا وہ اکثر
اپنی انکساری ظاہر کرتے ہوئے کرتا ہے۔سرمایہ داری انسان کی بنیادی جبلت ہے
اور ہمیشہ سے انسان کی رہبر رہی ہے۔اگرچہ بیسویں صدی میں اس کی بیخ کنی
کافی ہوئی لیکن یہ اپنے زبردست مخالف یعنی کیمونزم کو شکست دینے میں کامیاب
ہوگئی۔ادب نے ہمیشہ سرمایہ داری کو اپنے ہمراہ رکھا کبھی اسے اچھے انسان کی
صورت میں اور کبھی اسے برے انسان کی شکل میں، جو زیادہ حقیقت کے قریب ہے۔
ادبی مزاجوں میں سرمایہ داری ایک زبردست مزاج ہے جس نے لا انتہا ادب کی
تخلیق میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔
اشتراکی مزاج بنیادی طور پر غربت کا تحتِ الشعور ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے سب
لوگوں کو ملکی وسائل سے سہولتیں ملیں۔وہ اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ سب لوگوں
کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، سب کو طبی سہولتیں میسر ہیں اور سب کے ساتھ
یکساں سلوک ہو رہا ہے۔وہ معاشرتی مساوات کا قائل ہوتا ہے اور سب کو اظہارِ
خیال کی آزادی اور اپنے اپنے مذہب مسلک پر عمل پیرا ہونے کی اجازت کا حامی
ہوتا ہے۔اس کے اندر جمہوری رویئے پروان چڑھتے ہیں اور وہ سب کچھ سب کے لئے
کا داعی ہوتا ہے۔وہ زندگی کو متحرک دیکھنا چاہتا ہے اور سہولتوں کو چند
اجسام کی پراپرٹی بنانے کا مخالف ہوتا ہے۔ادب نے اشتراکی نظریات کو خوش
آمدید کہا اور اپنے صفحوں میں اس کی خوب پذیرائی کی۔ اشتراکیت اب ادب کا
ایک مستقل مزاج ہے۔
مارکسی مزاج اگرچہ اشتراکی کے قریب ہوتا ہے لیکن بعض صورتوں میں یہ انتہائی
شدید ہوتا ہے۔ کسی کو اپنا عقیدہ اور مذہب رکھنے کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔
اس کے نزدیک مذہب لوگوں کو بے وقوف بنانے کی بھول بھلیاں ہیں۔ مذاہب
انسانوں کو تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزارتے گزارتے بالکل تنہا کر دیتے ہیں
، پھر وہ اپنے لئے جو سوچتے ہیں دوسروں کے لئے نہیں سوچ سکتے۔ ایسا مزاج
مذاہب کے عقیدوں پر سوالیہ نشانات لگاتا ہے۔ ان کا نظریات کو باطل ثابت
کرنے پر تلا ہوتا ہے۔ اور مذاہب کے تشکیل کردہ معاشروں کی برائیاں بیان
کرتا ہے کہ مذہبی لوگوں کے لئے اپنا دفاع مشکل ہو جاتا ہے۔وہ اگرچہ دولت
اور سہولت کی تقسیم کو سب کے لئے مساوی قرار دیتا ہے لیکن ایسا کر کے
دکھانے میں اکثر ناکام ہی رہتا ہے۔ وہ مزدوروں کا باپ بننے کا دعویٰ تو
کرتا ہے لیکن اس کے اندر کا سرمایہ دار اس کو منافقت اختیار کرنے کی بہت سی
چالیں سمجھا دیتا ہے۔یہ دوسروں کو برداشت کم ہی کرتا ہے لیکن خود سراپا ستم
بھی بن جاتا ہے۔بیسویں صدی میں جب انسان کو صدیوں کی بادشاہت کے بعد پہلی
بار وسیع پیمانے پر کیمونزم کی ہوا لگی تو ایک انقلاب برپا ہو گیا۔ اس
انقلاب کا ادب کی دنیا میں بھی خوب خیر مقدم کیا گیا۔ بے شمار ادب اس ایک
معاشی مسئلے کے گرد گھمادیا گیا۔ خاص طور پر سرمایہ داری کی زبردست مخالفت
کی گئی ۔اس طرح کیمونزم ادب کے اندر ایک مضبوط مزاج کی حیثیت سے ہمیشہ باقی
رہے گا۔
فسطائی مزاج بھی مارکسی مزاج کی ایک اخترع لگتی ہے۔ یہ بھی لوگوں پر اپنی
مرضی ٹھونستا ہے لیکن لوگوں کے مذہبی عقائد کو ان کی مرضی پر رہنے دیتا ہے۔
لوگوں کو مکمل آزادی نہیں دیتا بلکہ ان کے مال و اسباب اپنے قبضے میں کر
لیتا ہے۔ مرکزی مذہب کو ریاست کا مذہب بنا لیتا ہے اور پھر باقی مذاہب کے
لئے مشکلات پیدا کرتا ہے۔مکمل اختیار کی خاطر خون ریزی بھی اختیار کی جا
سکتی ہے جیسا کہ مارکسی کرتے ہیں۔اس مزاج کے لوگ مذہبی بھی ہوتے ہیں اور
ستم گر بھی۔ لوگوں کو معاف بھی نہیں کریں گے اور حج و عمرے بھی اکثر کریں
گے۔بہت سارا ادب فسطائیت کے مرکزی موضوع پر بھی لکھا گیا ہے۔ اس طرح
فسطائیت ادب کا ایک مستقل مزاج بن چکا ہے۔
نازی مزاج بہت ہی ظالم اور جابر ہوتا ہے ۔ اس میں دوسروں کو معاف کر دینا
ہے ہی نہیں، مخالف انسان نہیں بلکہ کیڑے مکوڑے سمجھے جاتے ہیں۔انسانوں کو
گاجر مولی کی طرح کاٹ دینا اس مزاج کے لئے مشکل نہیں۔ ایسا مزاج مخالفت کے
لئے کوئی گنجائش نہیں رکھتا۔ اس پر اپنی برتری کا بھوت اس قدر سوار ہوتا ہے
کہ کسی کو کچھ نہیں سمجھتا۔اسے کسی بھی نقصان کے بدلے میں بس اپنی خواہش کی
تکمیل چاہیئے۔اس مزاج کے لوگ جب غصے میں آتے ہیں تو کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
بس ان کو غصے میں آنے سے روکے رکھنا ہی ان کے ستم سے بچنے کا واحد راستہ
ہے۔اس مزاج کا اظہار دوسری جنگِ عظیم میں ہٹلر اور اس کی پارٹی کی طرف سے
ہوا۔ پھر اسے ادب میں بھی جگہ ملی اور اس طرح اس کا ادب کے ساتھ قریبی رشتہ
استوار ہوا۔ اب اسے مستحکم ادبی مزاج مانا جاتا ہے۔
مذہبی مزاج کے لوگ دنیا کے لئے رحمت ہیں ۔ یہ انتہائی خوش اخلاق اور ملنسار
ہوتے ہیں۔ یہ باقی لوگوں کی زندگیوں میں بھی امن اور سکون کی فضا پیدا کرنے
کی کوشش کرتے ہیں۔ مذہبی مزاج اکثر انکساری پسند ہوتا ہے ، زبان کا اچھا
استعمال کرتا ہے اور اکثر خدا کی یاد سے اپنے دل و دماغ کو معطر رکھتا ہے۔
اس مزاج کا نقص یا منفی پہلو یا ایسے لوگ جو مذہبی ہوتے نہیں لیکن مصنوعی
طور پر مذہبی بن جاتے ہیں وہ اس مزاج کی ایک گھٹیا تصویر لوگوں کے سامنے
پیش کرتے ہیں جس سے وہ لوگ جو واقعی مذہبی ہوتے ہیں ان کا کردار بھی مشکوک
اور غیر یقینی ہو جاتا ہے۔بنیادی طور پر یہ مزاج قناعت پسند ہوتا ہے لیکن
لالچ، طمع اور غیبت جیسی برائیاں انسان کی جبلت کا حصہ ہونے کی وجہ سے کسی
بھی شخص کو اپنا نشانہ بنا سکتی ہیں۔ سو مذہبی لوگ بھی جن برائیوں سے
دوسروں کو بچنے کی تلقین کرتے ہیں، خود ان کا شکا ہو جاتے ہیں۔انسان آخر
انسان ہے فرشتہ نہیں اسے کسی بھی حالت میں آزمائش کا سامناہے۔ادب نے مذہبی
لوگوں کو معاشرے کی ایک بنیادی اکائی کے طور پر لیا ہے اور اگرچہ اکثر ادب
میں ان کو منفی لیا جاتا ہے لیکن یہ مکمل بات نہیں ہے۔بہت سارا مذہبی مزاج
خالص اچھائی پر بھی مبنی ہوتا ہے۔
تنقیدی مزاج کو عام طور پر طنزیہ مزاج ہی سمجھا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔
طنزیہ ایک جانب دار مزاج ہے جبکہ تنقیدی ایک متوازن اور معتدل مزاج کا نام
ہے۔ تنقیدی مزاج معاشرے میں ایسے ہی ہے جیسے ریاست میں قانون جو اگر ٹھیک
چلے تو سب کے لئے رحمت ہے۔ تنقیدی مزاج اگر کسی سطح پر جانبداری اختیار نہ
کرے تو وہ بہترین جج ہے۔ وہ لوگوں کو ان کی خوبیاں اور خامیاں بتاتا ہے اور
اس طرح ان کی بہتری کا سامان فراہم کرتا ہے۔ ادب کو اگر تنقید نہ ملے تو اس
کی جانچ پڑتال ختم ہو جائے اور جب کوئی پیمانہ نہیں رہے گا تو ادب اپنے
معیار سے گر جائے گا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب تنقیدی معیار بلند ہوں
تو ادب بھی معلی تخلیق ہوتا ہے اور جب ادبی معیار واقفیت اور جانبد اری کی
بھینٹ چڑھ جائیں تو ادب کا بھی جیوڑا نکل جاتا ہے۔تنقید کسی بھی انسان کا
حق ہے اور درست تنقید اچھائی بلکہ صدقہ جاریہ ہے۔تنقیدی مزاج ہماری رہنمائی
کرتا ہے اور ہم بہتر سے بہتر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ کام امتحانات، اساتذہ،
والدین، معاشرہ ، دوست، دشمن،سبھی کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے سب قابلِ تعریف
ہیں۔یہ مزاج معاشرے میں عام ملتا ہے لیکن ایک متوازن ناقد ہر اچھی چیز کی
طرح نایاب ہوتا ہے۔
تخلیقی مزاج دنیا کے لئے ایسے ہی ضروری ہے جیسے زندوں کو زندہ رکھنے کے لئے
نئی فصلوں کا اگانا ضروری ہے۔ تخلیق کے بغیر تنقید اپنا وجود کھو بیٹھے گی
اور معاشرہ ایسی بوریت کا شکار ہو جائے گا جیسے کوئی باسی چیز حواس کے لئے
ناپسندیدہ ہو جاتی ہے۔ تخلیق زندگی کے پہیے کو گھومانے والی قوت کا نام ہے
ورنہ زندگی جام ہو جانے کی صورت میں زیادہ سانسیں لئے بغیر دم توڑ دے گی۔
تخلیق کسی بھی قسم کی اپنی جگہ معتبر ہے لیکن اچھی اور مثبت تخلیق قابلِ
تعریف اور تقلید ہے۔ ادب کی تخلیق ادب کو نئی بہار دیتی ہے۔ سائنس کی تخلیق
زندگی آسان کرتی ہے۔ انسان کی تخلیق زندگی میں روح پھونکتی ہے۔ تخلیقی مزاج
معاشرے کو نئی سوچوں اور نظریات سے مالامال کرتا ہے۔نئے واقعات ہونے کا نام
ہی زندگی ہے۔
تخلیق کار معاشرے کے سر کا تاج ہیں۔ اس مزاج کی قدر کرنی چاہیئے۔ یہ گوہر
ہائے گراں مایہ ہیں۔یہ مزاج اس زمین کی مانند ہیں جو نئی نئی فصلیں پیدا
کرتی ہے اور سب جاندار اس سے اپنے اپنے حصے کا اناج پاتے ہیں۔
ادب بہت زیادہ صوفی ازم پیش کرتا ہے۔ صوفی ازم کا مقصد دنیا سے بے رغبتی
اور اس کی ہوس سے جان چھڑانا ہے۔ ادب میں کئی ایک کردار ایسے تخلیق کئے
جاتے ہیں جو اس مزاج سے تعلق رکھتے ہوں تا کہ ان کی مدد سے اس فکر کو پیش
کیا جا سکے۔ معاشروں میں بھی صوفی پن رکھنے والے مزاج ملتے ہیں جو کہ
انسانیت کے اصل خدمت گزار ہوتے ہیں۔وہ اپنے ضمیر کو آیئنے کی طرح شفاف
رکھتے ہیں اور ان کی نظر دنیا کی دولت پر نہیں ٹکتی۔ وہ یا تو یادِ الٰہی
میں وقت گزارتے ہیں یا خدمتِ انسان میں دن رات بسر کرتے
ہیں۔یہ لوگ سوسائٹی کے لئے روح کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی موجودگی معاشرے کی
بنیادوں کو مستحکم کرتی ہے۔ ایسا مزاج بذاتِ خود ہی بہت بڑی نعمت ہے اور
دوسروں کے لئے سکون کا ذریعہ بھی۔
قنوطی مزاج ادب کا ایک قدیم اور مستقل مزاج ہے۔ اس مزاج نے ادب کے وسیع و
عریض علاقوں پر حکومت کی ہے۔انسان پر موت اور بیماری اور محرومی کا حکم
چلتا ہے۔ یہ مزاج زندگی کی بہار کی بجائے خزاں میں رہنا پسند کرتا ہے۔ اسے
اپنی یا کسی کی شادی اچھی نہیں لگتی ، یہ ہمیشہ جدائی اور بربادی کے نوحے
الاپنے میں اپنے شب و روز بسر کرتا ہے۔ اس کے نزدیک آخری فتح مایوسی کی ہے
اس لئے پہلے ہی مایوس ہو جانا اپنے آپ کو صدمات سے بچانے کے لئے ضروری
ہے۔یہ جیسے خوشی کی ختم ہی کر دیتا ہے اور اپنے گرد غموں اور مایوسیوں کا
ایسا حصار تعمیر کر لیتا ہے کو کہ آخر کا ر اس کا مقبرہ ثابت ہوتا ہے۔
امید افزا مزاج تازہ بہار کی طرح ہوتا ہے جو خزاں کی یادیں جلد بھلا کر
زندگی کی خوشیوں میں کھو جانا چاہتا ہے۔اس مزاج کا ادب کو بہت فائدہ ہوا ہے
کہ جہاں قنوطی مزاج نے اپنی زبردستی جتانے کی کوشش کی اس مزاج نے اس کے
دانت کھٹے کر دیئے اور اس طرح زندگی کا متوازن نظریہ اور ادب کا مثبت کردار
انسان کے کام آتا رہا ورنہ زندگی کی تاریک حقیقتیں جب قنوطی مزاج کے ہتھے
چڑہتی ہیں تو زندگی کو برقرار اور خوش رکھنے کا جواز باقی نہیں بچتا۔اس
مزاج نے زندگی کو متوازن موسموں کی طرح محبت کی نظر سے دیکھا ہے۔ اس کی نظر
میں موت، موت نہیں ایک نئی زندگی کا آغاز ہے۔یہ مزاج زیادہ تر نوجوانوں اور
بعض اوقات عمر رسیدہ لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے۔
نرگسی مزاج بھی ادب کے بنیادی مزاجوں میں سے ہے۔ ادب میں اس کا اظہار ہوتا
رہتا ہے۔ اس مزاج کو زیادہ تر خواتین اور بعض مردوں کے ساتھ بھی دیکھا جاتا
ہے۔اگرچہ نرگسیت ہر کسی میں ہوتی ہے لیکن اس کا اظہار کم کم ہوتا ہے۔ ادب
میں اس کا اظہار کئی ایک حوالوں سے ہوتا رہتا ہے۔ جب کردار اپنی ذات کو اس
قدر اہمیت دیتا کہ باقی لوگ غیر اہم ہو جاتے ہیں تو وہ نرگسیت ہی کا عملی
ثبوت پیش کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے کرداروں کی ادب میں اکثر ضرورت ہوتی ہے۔یہ
پلاٹ کو انتہائی قسم کے واقعات دینے کے لئے نرگسی مزاج بہت کام آتا ہے۔
قصیدائی مزاج عام زندگی اور پھر ادبی دنیا کا ایک مستقل مزاج ہے۔ حاشیہ
برداری، جی حضوری، وغیرہ قسم کے کام ہر انسان بلا شبہ نہیں کرتا لیکن کچھ
لوگ بلا شبہ کرتے ہیں۔ان کی زندگی کا دارومدار بڑے لوگوں کی تعریف کرنا اور
پھر ان سے اپنے مفادات کیش کروانا ہوتا ہے۔ شاہی درباروں میں ایسے لوگوں کی
کبھی کمی نہیں رہی۔ آج بھی ایسا ہی ہے اور یہ کردار ہمیشہ رہیں گے۔ ادب نے
بھی اس مزاج کو پوری پوری پذیرائی سے نوازا ہے۔ایسے کردار اچھے لوگوں کی
نظر میں اچھے نہیں ہوتے لیکن انہیں بھی اچھے لوگوں کی رائے کی فکر نہیں
ہوتی۔وہ دل سے کسی کے طرفدار نہیں ہوتے انہیں تو زبان اور گلے کے ذریعے جیب
بھرنے کی فکر ہوتی ہے۔
مرثیائی مزاج بھی کسی حد تک قنوطی مزاج کے قریب ہوتا ہے۔ یہ اکثر سوگواری
اختیار کرتا ہے اور زندگی کی رونق سے دور بھاگتا ہے۔ اسے اکثر مایوسانہ
اشعار اور واقعات سے کا م ہوتا ہے۔ادب میں یہ مزاج زندگی کی مایوسی سمیٹنے
یا دنیا کے اندر ہونے والے مظالم کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال ہوتا
ہے۔اس مزاج کو کسی کی پرواہ کم ہی ہوتی ہے۔ یہ اکثر صاف گو اور بے باک ہوتا
ہے۔ لیکن زندگی میں زیادہ خوشیوں کا انتظار نہیں کرتا ۔ زیادہ دولت کمانا
اس کا مقصدِ حیات نہیں بنتا۔اگرچہ اسے لوگ زیادہ پسند نہیں کرتے لیکن اس کی
معاشرے میں عزت کی جاتی ہے۔
معاشرے میں ایسے بہت سے لوگ مل جاتے ہیں جو زندگی کی ذمہ داریوں کو سنجیدگی
سے نہیں لیتے۔ اور اکثر راہِ فرار اختیار کرنے کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔
طالب علم، ملازم، مزدور، ہر کماش کے لوگوں میں ایسے لوگ نکل آتے ہیں۔ پھر
یہ نشہ اختیار کر سکتے ہیں، اپنا کام دوسروں سے کروا سکتے ہیں، جعل سازی
کرنا بھی ایسے ہی لوگوں یا مزاجوں کا کام ہے۔ ادب نے ایسے کردار تخلیق کئے
ہیں جو کہ کھلم کھلا فرار اختیار کرتے ہیں۔ان فراری مزاجوں سے معاشرے کے
بہت سے پہلوؤں کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔ ادب میں یہ مزاج اکثر مزاحیہ اور
چھوٹے رول کرتے ہیں۔ ادب خود بھی فرار کا ایک رستہ ہے لیکن وہ حقیقت بھی
پیش کرتا ہے اس لئے ادب میں سب فرار آخر ختم ہو کر حقیقت کا سامنا کرنے پر
مجبور ہوتے ہیں۔
خلوتی مزاج ہر تخلیق کار کا ہوتا ہے کیوں کہ تخلیق ، خلوت کی کوکھ سے جنم
لیتی ہے۔اگرچہ مشاہدہ اور تجربہ لوگوں کے میل ملاپ سے ہی حاصل ہوتا ہے لیکن
اس معاملے کو کسی ادبی سانچے میں ڈھالنے کے واسطے اور اسے کوئی خاص انداز
دینے کے لئے یا کم از کم اسے صفحہء قرطاس کی زینت بنانے کے لئے تنہائی کا
ساتھ بہت ضروری ہے۔ بڑے تخلیق کار اگرچہ بہت وسیع تعلقات، سیر و سیاحت، راہ
و رسم سب کچھ رکھتے ہیں لیکن گوشہء خلوت کی آسائش کے بغیر یہ سب کچھ کرنا
ایسے ہی مشکل ہے جیسے دن کی روشنی میں چاند کو اپنا جلوہ دکھانا مشکل ہوتا
ہے۔ادبی دنیامیں تنہائی پسند کردار لئے جاتے ہیں ۔یا حالات کسی کردار کو
تنہائی پسند بنا دیتے ہیں۔ چوں کہ یہ بات ایک معاشرتی اور انسانی جبلت کی
سچائی ہے اس لئے ادب کی دنیا میں ایسے مزاج کو پیش کرنا ، یا رکھنا بہت
ضروری یا مفید ہو جاتا ہے۔ اس طرح سے خلوتی مزاج بھی ادب کا ایک مستقل مزاج
ٹھہرتا ہے۔
جلوتی مزاج ادب کے صفحات کی زینت ہوتے ہیں۔ انسان کو عام طور پر معاشرتی
حیوان کہا جاتا ہے۔ یا اسے اگر معاشرتی مخلوق کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو ۔
کیوں کہ انسان جیسی تخلیق کو حیوان کہنا طنز اور زیادتی ہے۔ انسان معاشرے
کے بغیر رہ نہیں سکتا،ا گر رہتا ہے تو معاشرہ نہیں رہتا۔ زیادہ بات تو یہی
درست ہے کہ انسان معاشرے کے بغیر نہیں رہ سکتا ا س کی ضرورتیں حیوانوں سے
کئی گنا زیادہ ہیں جو معاشرے میں رہے بغیر پوری نہیں ہو سکتیں۔ادب بھی
معاشرے کی انسانوں کے باہمی تعلقات کی تصویر پیش کرتا ہے۔یا یہ بھی کہا جا
سکتا ہے کہ جلوتی کردار ادب کو وہ مواد فراہم کرتے ہیں جو کسی چیز کے لکھے
جانے میں اہم رول پلے کرتا ہے۔جلوتی کرداروں کے بغیر ادب کی دنیا آباد کرنا
بہت مشکل ہے۔
نسوانی مزاج ادب کے ہاتھوں کی مہندی ہے۔ اس مزاج کی برکت سے بہت سے سوکھے
اوراق ترو تازہ ہو جاتے ہیں۔قدرت نے نسوانی حسن میں ایسی دلکشی رکھی ہے کہ
حسن غائب بھی ہو جائے تو دلکشی باقی رہتی ہے۔ یہ دلکشی کبھی کبھی نفس کُشی
اور بعض اور اوقات خود کُشی کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہے۔لیکن دلکشی سے
انکار نہیں ہو سکتا۔ادب چوں کہ انسان کو پیش کرتا ہے ۔ انسان کے دوحصے ہیں
ایک مرد ، دوسرا عورت۔ عورت کے بغیر کوئی ادب مکمل نہیں ہو سکتا، کوئی گھر
، کوئی خاندان اور یہاں تک کہ کوئی انسان بھی مکمل نہیں ہو سکتا۔نسوانی
رویوں کو ادب میں جگہ دینا اہلِ ادب کی ضرورت ہی نہیں بلکہ فریضہ بھی ہے کہ
انسان کے اس رخ کو بھی پیش کیا جائے۔نسوانی مزاج کو ہمیشہ سے ادب میں
پذیرائی ملی ہے اور ملتی رہے گی کیوں کہ یہ مزاج انسانی نفسیات کا لازمی
حصہ ہے ۔ اہلِ ادب اس سے سرِ مو انحراف کے متحمل نہیں ہو سکتے۔عورت ناصرف
گھریلو زندگی میں مرد کی پشت پناہی کرتی ہے بلکہ جہاں گھمسان کا رن پڑتا ہے
وہاں بھی حسنِ رن بہت کام دکھاتا ہے۔ادب چوں کہ انسان کے ساتھ ہر نشیب و
فراز ہے ، اس لئے اس میں بھی نسوانی مزاج کا عمل دخل، دخل در معقولات نہیں
ہے، بلکہ اس کی اپنی بقا کے لئے ضروری ہے۔
اذیتی مزاج بھی انسا ن کے دائمی مزاجوں میں سے ہے۔ کچھ لوگ اذیت پسند واقع
ہوتے ہیں اور وہ اپنے آپ یا دوسروں کو اذیت دے کر ذہنی سکون پاتے ہیں۔ اس
طرح کے کردار اگرچہ عام نہیں ہوتے لیکن معاشرے سے مکمل طورختم نہیں ہو پاتے
یہ کبھی کبھی انتہا پسندی اختیار کرتے ہیں ، کبھی اپنے ماتحتوں پر ظلم
ڈھاتے ہیں، کبھی جانوروں تک کو اذیت کا نشانہ بناتے ہیں۔ کبھی تو انتہا
کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو بھی اس اذیت پسندی کا شکار بنا لیتے ہیں۔ یہ کردار
خطر ناک ہوتے ہیں۔ ادب بھی ایسے کرداروں سے اپنے صفحات کی سنسنی خیزی میں
اضافہ کرتا ہے۔ یہ مزاج ادب کو بہت دلچسپی عطا کرتا ہے اور ایسے ادب پارے
جہاں ان اذیتی مزاجوں کا استعمال کیا جائے عام لوگوں کی دلچسپی کو اپنی طرف
کھیچ لیتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ زیادہ نفیس لوگ اس مزاج کی گرفت میں نہ
آئیں لیکن بہت ساذہن اس کی اسیری اختیار کرنے میں دیر نہیں لگاتا۔
ایثاری مزاج زندگی کی بقا کے لئے لازمی ہے۔ ہر انسان کی زندگی کی نہ کسی
انسان کے ایثار کا صلہ ہے۔ یہ مزاج بھی معاشرے میں کم ملتا ہے لیکن اس کا
ہونا از حد ضروری ہے۔یہ کردار ماں کی شکل میں، بہن یا بھائی ، دوست یا کسی
بھی اور انسان کی شکل میں ہوسکتا ہے۔ اس مزاج سے ادب کی دنیا میں ایک ایسی
ہوا چلتی ہے جو دلوں کو سختی سے نکال کے نرمی کی طرف لے آتی ہے۔اس مزاج کے
ذریعے ادب اپنے اخلاقی پہلو کو زیادہ نمایاں کر لیتا ہے اور ساتھ ہی انسانی
زندگی کا حقیقت پر مبنی ایک نقشہ بھی کھینچ لیتا ہے۔اس مزاج کو اکثر چھوٹے
کرداروں میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن یہ کسی بھی کردار میں ہو سکتا ہے۔یہ ادب کے
پسندیدہ مزاجوں میں سے ہے ۔ اس سے بہت سے انسان اپنی محرومیوں کو اطمینان
کی نگاہ دے دیکھ سکتے ہیں۔
تعمیری مزاج زندگی کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ یہ وہ مزاج ہے جو عمارت،
ادارہ، گھونسلہ، ریاست، ادب سب کچھ بناتا ہے۔ ا س کے بغیر معاشرے کی تعمیری
سرگرمیاں رک جاتی ہیں۔ تمام مثبت کارنامے اسی مزاج کی دین ہیں۔ ادب میں ان
مزاجوں جو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔یہ مزاج وہ اچھے کردار
ہیں جو زندگی جو مثبت انداز میں گزارنا چاہتے ہیں اور کسی کا برا نہیں
کرتے۔ یہ امن کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں اور دوسروں کے لئے بھی اچھا سوچتے
ہیں۔ ان کے ذہن میں منفی سوچیں گھر نہیں کرتیں۔ یہ مزاج ادب کی زینت ہیں۔
ادب ان مزاجوں کی موجودگی میں معاشرے میں بہت مضبوط کردار ادا کرتا ہے۔ یہ
مزاج معاشرے کی روایات استوار کرتے ہیں اور ادب ان کو قابلِ تعریف انداز
میں لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔
تخریبی مزاج بھی معاشرے کا لازمی خاصہ ہیں۔ ہر معاشرہ اپنے تخریبی عناصر کی
ہاتھوں پریشان ہوتا ہے۔ تخریب قدرت کے اصولوں میں سے ہے۔ تخریب کے بغیر
تجدید نہیں ہو پاتی۔ لیکن تخریبی ذہن اور اس کی سرگرمیاں زیادہ ہونے سے
معاشرہ مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔تخریبی مزاج کے بغیر ادب اپنے اچھے
کرداروں کو واضح طور پر پیش نہیں کر سکتا۔ اس لئے ادب کو اپنی تصویر میں
رنگ بھرنے کے لئے اس مزاج کا سہارا لازمی طور پر لینا پڑتا ہے۔یہ مزاج کسی
کی خوشی سے خوش نہیں ہوتا، اور دوسروں کی تباہی کا سامان کرنے کی فکر میں
رہتا ہے۔ جیسے شیطانی کردار ہوتے ہیں، ہر وقت دوسروں کو پریشان اور تباہ
کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا اپنا کچھ بنے یا نہ بنے دوسروں کا کچھ نہ
بننے دینا ان کا مطمع نظر ہوتا ہے۔
تلقینی مزاج زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ ہر انسان بچے سے بڑا ہوتا ہے، اس سفر
میں اسے قدم قدم پر دوسروں کی رہنمائی درکار ہوتی ہے۔بہت سی صورتوں میں اسے
بن مانگے ہی تلقین ہوتی رہتی ہے جسے وہ عام طور پر پسند نہیں کرتا۔لیکن بعض
صورتوں میں اسے از خود دوسروں سے مشورہ درکار ہوتا ہے۔تلقینی مزاج عام طور
پر عمر رسیدہ ، اور جہاں دیدہ ہوتا ہے۔ اور اسے تلقین کرنے کی عادت بھی
ہوتی ہے۔ ہمارے گھروں میں یہ رول گرینڈ پیرنٹس ادا کرتے ہیں۔ ان کی نصیحتوں
کو فوری طور پر تو اثر سامنے نہیں آتا لیکن آخر جیت انہی کی ہوتی ہے۔یہ
مزاج ادب میں پر اسراریت، دلچسپی، اور حقیقت نگاری ڈالنے کے لئے مفید رہتے
ہیں۔
انتظامی مزاج زندگی کا ایک اہم مزاج ہے، اس کے بغیر زندگی اپنی ڈگر پر نہیں
چل سکتی۔ اس مزاج کا ادب میں بھی گاہے گاہے استعمال ہوتا رہتا ہے۔ اس مزاج
کی بدولت ادب اپنا ما فی الضمیر بہتر انداز میں پیش کر پاتا ہے۔ اس مزاج کا
کردار زیادہ متحرک، چاک و چوبند، اور سمجھدار ہوتا ہے۔ یہ مزاج ادب میں
رہنمائی کا فریضہ بھی ادا کر تا ہے۔ اس مزاج کی تباہی ، یا کام یابی باقی
کرداروں سے اہم سمجھی جاتی ہے۔ اس مزاج کا ادب میں اظہار بھی بڑی چابک دستی
سے کرنا پڑتا ہے۔
یہ ادبی مزاج ہماری اپنی اختراع ہیں ۔ ان سے متفق ہونا یا نہ ہونا ضروری
نہیں۔ بیشک ان میں کافی اضافوں اور تبدیلیوں کی گنجائش موجود ہے ۔ ہمارا
بنیادی مقصد اس بات کو نمایاں کرناں ہے کہ مزاج اور ادب ہم معنی ہیں۔ ادب
مزاجوں کی تخلیق ہے اور مزاج ہی اس جو پسند یا نا پسند کرتے ہیں۔ مزاج
انسان کی فطرت ہے اسے وہ اپنی مرضی سے تبدیل نہیں کر سکتا۔ اسی طرح ادب کی
پسند یا نا پسند اور تخلیق شخص کی اپنی نہیں ہوتی۔ وہ بس اس کے نام منسوب
ہوتی ہے، تخلیق کوئی اور قوت کرواتی ہے۔ انسان اس قوت کا کارندہ بنتاہے۔
خالقِ حقیقی کوئی اور ہے بظاہر انسان کا نام ہے۔بہرحال یہ ایک خیال تھا جسے
اپنے معزز قارئین کی نظر کی نذر کرنا ہمارا فریضہ تھا جو ہم نے نبھانے کی
کوشش کی۔ |
|