تمام حمد و ثنا اﷲ کے لیے جس نے
ہمیں اپنے پیارے رسول حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کا امتی بنایاجس کا امتی ہونے نے
ہمیں تمام امتوں سے افضل کر دیا سلام ہو ہمارے پیارے آقاﷺ پر، آپﷺکی آل ؑ
اور اصحاب ؓ پر۔
کافی عرصہ پہلے میرے شاگرد نے اک نعت پڑھی جو مجھے بہت پسند آئی جس کا ہر
ہر شعر جیسے عقیدے کے موتیوں سے پرویا گیا ہوجیسے جیسے شاگرد نعت پڑھتا جا
رہا تھا عقیدے اور عقیدت کے پھول بکھر رہے تھے ان اشعار کے ساتھ ساتھ
مطابقت میں مجھے احادیث رسولﷺ یاد آ رہی تھیں جو میں نے اپنی گناہگار
آنکھوں سے پڑھیں اور عجب سی اک کیفیت تھی جو آپ کو بھی بیان کرنا چاہتا ہوں
جو آپ کا ایمان تازہ کر دے گی اس نعت کو اک ایک شعر لکھ کر تشریح کروں گا
آیات قرآن اور احادیث رسولﷺ کا جہاں ممکن ہوا حوالہ بھی لکھ دوں گا ۔
جو ہو چکا ہے جو ہو گا حضورﷺ جانتے ہیں
تیری عطا سے خدایا حضورﷺ جانتے ہیں
پوری نعت کا موضوع اور لب ِ لباب یہی پہلا شعر ہے جس میں پیارے آقا کریم ﷺ
کے علم کی بات کی گئی اس شعر میں بہت وضاحت کے ساتھ بیان کیا کہ ہمارے آقاﷺ
کو ماکان وما یکون کاعلم تھا لیکن وضاحت بھی کر دی کہ ہمارے آقاﷺ کو یہ علم
اﷲ نے عطا کیاظاہری سی بات ہے کہ حضور ﷺ مخلوق ہیں اﷲ خالق ہے تو اﷲ تعالیٰ
ہی اپنی ذات میں عالمِ کل ہے اور ہر چیز اﷲ کے سامنے ظاہر جیسے ہے اﷲ پاک
سے کچھ بھی غائب نہیں ہے کچھ مفسرین نے قرآنِ مجید کی سورۃ الانعام آیت 59
کی تفسیر میں لغزش کی اس آیت کا ترجمہ یہ ہے
اور اسی کے پاس غیب کی چابیاں ہیں اس کے علاوہ ان کو (ازخود)کوئی نہیں
جانتا
سورۃ الانعام آیت 59
اس آیت کی تفسیر میں جو مفسریں نے کہا اس کا لب لباب یہ ہے کہ جس کو صاحب ِ
تفسیرِ تبیان القرآن نے جلدسوم صفحہ 497-498 پر درج کیا کہ اس آیت کے تحت
یہ کہنا کہ اﷲ تعالیٰ غائب تک رسائی چابیوں کے ذریعے پاتا ہے تو اس میں یہ
لازم آتا ہے کہ کچھ چیزوں کا علم اﷲ سے بھی پوشیدہ ہے جس کے لیے اﷲ کو بھی
چابیوں کی حاجت ہوتی ہے اگر یہ مان لیا جائے کہ کچھ علم اﷲ سے بھی پوشیدہ
ہے تو اﷲ عالم نہیں رہتا تو اس کاگمان کرنا بھی کفر ہے تو مطلب یہ ہوا کہ
اﷲ تو عالم کل ہے ہر چیز کے علم کا یعنی اﷲ کے لیے کوئی چیز غائب نہیں
توغیب کے خزانوں کی چابیو ں کا مطلب کچھ اور ہو گا اور وہ یہ کہ اﷲ پاک بتا
رہا ہے اپنے پیاروں کو اپنے چاہنے والوں کو کہ میں غیب کا علم دیتا ہوں
جتنی جس کو اﷲ پاک کی معرفت نصیب ہواور ہر کسی کو جتنی معرفت ملتی ہے اتنی
چابیاں دی جاتی ہیں اور ہمارے پیارے رسولﷺ سے زیادہ اﷲ کا محبوب کوئی نہیں
اور نہ ہی کسی کو آپ سے بڑھ کر اﷲ کی معرفت نصیب ہوئی اور اﷲ کے ہاں حضور ﷺ
کا رتبہ یہ ہے اﷲ پاک نے حضرت آدم ؑ سے فرمایا میں تمھیں بھی پیدا نہ کرتا
اگر محمد ﷺ کو پیدا نہ کرتا ۔اس حدیث کو ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے
اپنی کتاب ’کتابِ توسّل‘ میں صفحہ 163-164 پردرج کرنے کے بعد امام حاکم کا
اک قول نقل کیا کہ امام حاکم نے اس حدیث کو اپنی کتاب المستدرک جلد دوم
صفحہ 615 میں درج کرنے کے بعداس حدیث کو صحیح قرار دیا اس کے علاوہ اس حدیث
کو دلائل النبوہ میں امام بہقی نے معجم الصغیر ،الاوسط میں امام طبرانی نے
صاحبِ مجمع الزوائد نے مجمع الزوائدمیں امام ابنِ عساکر نے تاریخ ابنِ
عساکر میں اور حافظ ابنِ کثیر نے اپنی تاریخ میں نقل کیا اور امام تقی
الدین سبکی نے امام حاکم کے قول کی تصدیق کی اور اس پر مجھے بلّھے شاہ کے
کلام کا اک شعر یاد آگیا بلّھے شاہ رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں
پھر کُن کیہا فیکون کمایا بے چونی تو چون بنایا
آحد دے وچ میم رلایا تاہیوں کیتا ایڈ پسار
کلام بلّھے شاہ صفحہ 88
بلّھے شاہ اک صوفی بزرگ تھے اور صوفی بزرگوں کی باطن کی آنکھیں کھل چکی
ہوتی ہیں جس سے وہ حقیقت کا نظارہ کرتے ہیں
اس کے علاوہ اﷲ پاک قرآن میں فرماتا ہے
اور اﷲ کی یہ شان نہیں کہ تمھیں (عامۃ الناس)غیب پر مطلع کرے لیکن اﷲ
رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے (غیب پر مطلع کرنے کے لیے)
سورۃ آل عمران آیت 179
اس سے پتا چلا اﷲ غائب پر مطلع کرتا ہے اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے
اور ہمارے پیارے آقا ﷺ تو تمام انبیا ؑ سے افضل ہیں جیسے اوپر مذکورہ حدیث
میں ہے کہ میں تمھیں (آدمؑ) پیدا نہ کرتا اگر محمد ﷺکو پیدا نہ کرتا یعنی
ساری انسانیت کا وجود حضورﷺ کے توسل سے ہے اس کے علاوہ حضورﷺ کے علم غیب پر
اﷲ پاک نے سورۃ تکویر کی آیت 24 میں فرمایا
اور وہ(نبی مکرمﷺ) غیب (بتانے) پر بلکل بخیل نہیں۔
اور اس موضوع پر علامہ غلام رسول سعیدی صاحب اپنی تفسیر میں غیوبات کا ذکر
کرتے ہیں اور اک حدیث نقل کرتے ہیں کہ :حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں
کہ آقا کریم ﷺ نے فرمایا غیب کی چابیاں پانچ ہیں جن کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں
جانتا کوئی شخص نہیں جانتا کل کیا ہو گانہ یہ جانتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں
کیا ہے نہ یہ کہ کل کیا کرے گانہ یہ کہ وہ کس جگہ مرے گا اور نہ کوئی شخص
یہ جانتا ہے کہ بارش کب آئے گی۔
تبیان القرآن جلد سوم صفحہ 497 (بخاری شریف جلد دوم حدیث 1039)
اس کے علاوہ عبداﷲ بن مسعودؓ کی اک حدیث نقل کرنے کے بعد اکابر علماء
ومفسرین کے اقوال نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ :
یہ پانچ چیزیں ہوں یا باقی غیوب ازخود ان کو اﷲ کے سواکوئی نہیں جانتالیکن
اﷲ اپنے رسولوں کو غیب کا علم عطا فرماتا ہے اور اﷲ نے ان پانچ چیزوں کا
علم بھی ہمارے نبی محمدﷺ کو عطافرمایاہے۔
تبیان القرآن جلد سوم صفحہ 498
علامہ صاحب کے اس قول پر اک حدیث نقل کر تا ہوں کہ حضور ﷺ نے کہا کہ پیدائش
سے قبل مجھ پر میری امت پیش کی گئی اور جو لوگ مجھ پر ایمان لائیں گے اورجو
نہیں لائیں گے وہ دکھائے گئے اور میں ان کو پہچانتا ہوں تو اس پر منافقین
نے مذاق اڑایا کہ حضورﷺ کہتے ہیں کہ میں انکو جانتا ہوں مگر ہم آپﷺ پر
ایمان ظاہراً لائے ہیں اور ان کو نہیں ہمارا پتا ہی نہیں جب پیارے آقاﷺ کو
پتا چلا تو جلال میں ممبر پر آگئے اور کہا سلونی یعنی پوچھ لو جو پوچھنا
چاہتے ہو:
حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ آفتاب ڈھلا تو پیارے آقا کریم ﷺ تشریف
لائے اور ظہر کی نماز پڑھی پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ ﷺ ممبرپر جلوہ افروز
ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور پھر فرمایا : اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات و
حادثات ہیں پھر فرمایا: جو شخص کسی بھی نوعیت کی کوئی بات پوچھنا چاہتا ہے
تو وہ پوچھے ، خدا کی قسم ! میں جب تک یہاں کھڑا ہوں تم جو بھی پوچھو گے اس
کا جواب دوں گا۔حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے زارو قطار رونا شروع
کر دیا۔حضور نبی اکرمﷺ جلال کے سبب بار بار اعلان فرما رہے تھے کہ کوئی
سوال کرو، مجھ سے پوچھ لو (جو چاہو)۔حضرت انس ؓ کہتے ہیں پھر ایک شخص کھڑا
ہوا اور کہنے لگا یا رسول اﷲ ﷺ! میرا ٹھکانہ کہاں ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا دوذخ
میں (کیوں کہ وہ منافق تھا)(یہ مستقبل بعید کی خبر ہے) پھر حضرت عبداﷲ بن
حذافہ ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اﷲ ! میرا باپ کون ہے ؟ آپ ﷺ نے
فرمایا :تیرا باپ حذافہ ہے(یہ سوال ماضی اور عالم ِ حجاب کا ہے)۔حضرت انس ؓ
فرماتے ہیں کہ پھر آپ ﷺ بار بار فرماتے رہے مجھ سے سوال کرو مجھ سے سوال
کرو۔چنانچہ حضرت عمر ؓ نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض کیا: یا رسول اﷲ ﷺ ہم
اﷲ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد مصطفی ﷺ کے رسول ہونے پر
راضی ہیں ۔راوی کہتے ہیں جب حضرت عمر ؓ نے یہ گزارش کی تو آپﷺ خاموش ہو گئے
۔
المنھاج السوی من حدیث النبوی (شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری) باب :
حضورﷺ کی وسعتِ علم اور کمال معرفت کا بیان حدیث :34/582 و فی البخاری جلد
2 حدیث:2660 رقم:6864
اس حدیث میں حضورﷺ کا ماکان و مایکون کا علم بڑی وضاحت سے ثابت ہو رہا ہے
اس حدیث میں الفاظ ہیں کہ حضورﷺ جلال میں بول رہے تھے کہ جو پوچھنا ہے پوچھ
لو اور بار بار کہے جا رہے تھے لگتا یوں ہے جیسے کسی نے میرے پیارے آقا ﷺ
کے علم پر ہی اعتراض کیا ہو روایات میں ملتا ہے کے منافقین نے کہا تھا کہ
حضورﷺ تو کہتے ہیں کہ وہ اپنی امت میں ہر مومن اور کافر کو پہچانتے ہیں
حالانکہ ہمیں نہیں پہچانتے تو تب آقاﷺ جلال میں آگئے ہوں پھر اگر سوالات پر
غور کریں تو سمجھ لگ جاتی ہے جیسے ایک آدمی کا سوال کہ میرا باپ کون ہے ؟
یہ ایسا سوال(ماکان،فعل ماضی) ہے جس کا جواب صرف اﷲ جانتا ہے یا وہ عورت جس
نے اس آدمی جو جنم دیا یا پھر تیسراجو جواب دے سکتا ہے وہ میر ے اور آپ کے
پیارے رسول ﷺ ہیں اور دوسرے آدمی کا سوال (مایکون ، فعل مستقبل) سے ہے یعنی
مرنے کے بعد کسی کا جنت یا جہنم میں جانا کون جان سکتا ہے سوائے اﷲ کریم کے
یا پھر مدینے کی سرزمین میں ممبر پر کھڑے ہمارے رسولﷺ بتا سکتے ہیں سو یہ
ماننا پڑے گاکہ اﷲ کی طرف سے ہمارے نبی ﷺ غیب دان ہیں اس میں شک نہیں اور
لکھنے والوں نے پیارے آقاکریمﷺ کے علم پر اتنی اتنی ضخیم کتابیں لکھ ڈالی
ہیں میرے الفاظ کیا معنی رکھتے ہیں اور مزید دلائل اور تفصیل کے لئے آپ شیخ
الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کی کتا ب ’ علم غیب‘ کامطالعہ کر
سکتے ہیں
شارح: فیاض حسین قادری
|