زلزلے کیوں آتے ہیں

ہر طرف ہوُ کا عالم تھا بستاں بنی عاد اور بنی ثمود کی طرح سا منظر پیش کر رہی تھیں بازار ویران ہو چکے تھے پہاڑ اپنی جگہ سے ہجرت کر کے کہیں دوسری جگہ پناہ گزین ہو چکے تھے شجر کچھ تو گرے نظر آ رہے تھے لیکن زیادہ تر زمین کی تہہ میں دھنس چکے تھے . بارش کی بوندا باندی شروع تھی جس کی وجہ سے مٹی کے نیچے سے لاشوں کی تغفن نکل نکل کر زندوں کو مردوں کا پتہ دے رہی تھی . زندوں کے چہروں سے وحشت ٹپک رہی تھی بدن لرزا رہے تھے آنکھیں اشکوں کے چشمے بہا بہا کر تھک چکی تھیں زبانیں نالہ و فریاد سے عاجز آ چکی تھیں کان ماتمی بین سن سن کر اس قدر بے حس ہو چکے تھے کہ کوئی نئی افتادہ ان کے لیے کچھ معنی ہی نہیں رکھتی تھی .

ایک اجڑے بازار کی سڑک پر کھڑے میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ تباہی کے مناظر دیکھ رہا تھا . یہ بازار کبھی ضلع باغ کا سپلائی بازار کہلاتا تھا لیکن اب جہاں باغ سے بہاریں روٹھ گئی تھیں وہی اس بازار کی سپلائی منقطع ہو چکی تھی . دائیں بائیں جو دکانیں دلہنوں کی طرح سجی سجائی ہوتی تھیں اب ہڑپہ کے آثار قدیمہ کا نقشہ بنی ہوئی تھیں.اس بازار میں کالج و سکول تھے ہسپتال اور مسجدیں تھیں لیکن سب یوں غائب ہوئے جیسے یہاں کبھی کچھ تھا ہی نہیں . اب صرف محکمہ جنگلات کا ایک ٹوٹا پُھوٹا آفس تھا جو سپلائی بازار کی شناخت کروا رہا تھا . اس آفس کے ساتھ ایک دو ریلیف کمپ لگے ہوئے تھے جہاں اجڑے ہوئے لوگوں کو ریلیف کے لیے تڑپایا جا رہا تھا . یہاں سے تھوڑا آگے تکونی قسم کا ایک چوک تھا جہاں چند پولیس والے اور سویلین اس غرض سے کھڑے تھے کہ باہر سے آنے والوں کو آگے جانے سے متنبہ کیا جائے. ہم بھی دوستوں کے ساتھ آگے بڑھے روکنے کی وجہ جاننا چاہی تو پتہ چلا بطور سیفٹی روکا جا رہا ہے کیوں کہ آگے ابھی تک سلائیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے .

ہم ابھی اسی چوک میں کھڑے تھے کہ ایک شخص معہ بیگ آن پہنچا. جس کا بعد میں پتہ چلا کے وہ کراچی سے آیا تھا .یہاں کھڑے کچھ لوگوں سے ملا پھر حال احوال پوچھنے لگا . جس آدمی سے وہ پوچھ رہا تھا اُس نے لوہار کی پھونکنی سی ایک طویل سانس چھوڑتے ہوئے کہا بھائی ہم ایک ہی گھر کے پندرہ افراد تھے جن میں سے ایک میں ہی بچا ہوں غم اٹھانے کے لیے لاشیں اٹھانے کے لیے باقی سب کو زمین کھا گئی ہے یہ بات اُس نے اس انداز میں کہی کہ وہاں کھڑے لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور کچھ کے مونہہ سے سسکاری نکل گئی . جب نووارد نے اپنے گھر کے متعلق 4. پوچھا تو اس نے جواباً اتنا ہی کہا آگے جا کر خود ہی دیکھ لو تم گھر کا پوچھتے ہو وہاں تو گاؤں ہی نہیں رہا . ً یعنی پورا گاؤں ہی لنیڈ اسکاپنگ کی نظر ہو گیا ہے.ً رمضان المبارک کا مقدس مہینہ تھا لوگوں نے سحری کرنے کے بعد نماز فجر ادا کی ادائیگی نماز کے بعد پھر بستروں میں دبک گے کہ باہر ابھی سردی ہے . سروسزیز لوگ اور طالب علم اپنے ٹائم پر اپنے اپنے اداروں اور سکولوں میں پہنچ چکے تھے .

آٹھ اکتوبر دوہزار پانچ کے سورج نے طلوع ہونے کے بعد ابھی پونے دو گھنٹے کی مسافت کی تھی کہ صورِ اسرافیل سے پُھونک نکل گئی اور قیامت برپا ہو چکی تھی .سکولوں میں بیھٹے بچے اور سٹاف معہ سکول فرنیچرز کے زمین میں دھنس گئے تھے سرکاری ادارے اور کاروباری مراکز اپنے کارندوں کے ساتھ غائب ہو چکے تھے زمین ایسی شق ہوئی کہ عمارتوں کی صرف اوپر والی چھت ہی دیکھتی چاہے وہ عمارت ایک منزل یا چار منزلہ تھی نشانی کے طور صرف ایک چھت دیکھتی تھی باقی سب زمین کے اندر دھنس گئی تھیں .وہاں سورہ الِّزلزّال کا مکمل ترجمہ پڑھنے کو مل رہا تھا لوگ اسے قیامت صغریٰ کہتے تھے شاید اکبری اس لیے نہیں کہتے تھے کہ ابھی کچھ لوگ چل پھر رہے تھے . لیکن کچھ بھی کہا جائے قیامت برپا ہو چکی تھی .

امدادی ٹیمیں زندوں اور مردوں کو نکال رہی تھیں لیکن مسلہ یہ بن گیا تھا کہ باہر رہنے والے کم اور زمین کے اندر والے زیادہ تھے زندوں کی تعداد مردوں کی بانسبت آٹے میں نمک کے برابر تھی زندہ رہنے والوں میں ایک گھر سے کوئی ایک بچا تھا باقی کے کچھ زخمی اور کچھ مر چکے تھے .اب زندوں کو سب سے مسلہ مردوں کے سمنبھالنے کا تھا . اور یہ مسلہ ہر گھر کے فرد کو درپیش تھا .

اس لیے کچھ ٹیموں نے گورکھنوں کے فرائض سمنبھال لیے اور کچھ زخمیوں کو قریبی فرسٹ ایڈ پوسٹ تک پہچانے لگے . فرسٹ ایڈ پوسٹ ایک کھلے میدان میں خیمے لگا کر بنائے گے تھے جہاں ممکنہ سہولت تھی لیکن زیادہ تر مریضوں کو فرسٹ ایڈ کے بعد راولپنڈی ریفر کر دیا جاتا تھا . ہم تمام دوست بھی دو تین گروپس میں بٹ گے ہمارے پاس چونکہ خوردنوش کے علاوہ کپڑے بستر اور ادویات بھی تھیں. ہمارے کچھ ساتھی جو میڈیکل کی سوجھ بوجھ رکھتے تھے وہ ڈاکٹر اعجاز کی قیادت میں فرسٹ ایڈ سے منسوب ہو گئے. ریلیف دینے والوں کے سربراہ قادری بٹ مقرر ہوئے تاہم معاونت مجھے سونپی گئی جب کے ڈیگینگ پارٹی کے کمانڈر شفیق ملک چنے گے جو کہ بہت ہی ایکسپرٹ ثابت ہوئے اور ان کی معاونت کے لیے شبریز تیلا منتخب ہوئے تاہم ایمبولینس ڈرائیور کی خدمات حبیب مغل اور فیصل چودھری کو سونپی گئی تھی سب دوست روزے سے ہونے کے باوجود اپنی اپنی ذمہ داری خوب نبھا رہے تھے .

یہاں سے کہانی ایک ابرار نامی لڑکے کو اپنے ساتھ وابستہ کرتی ہے جو باغ مخدوم کوٹ کا رہنے والا ہے. اس کے بار بار مکان کے اندر جانے پر اس کی ماں اسے باز رکھتے ہوئے کہتی ہے جب کے تمہیں پتہ ہے کہ دیواریں دہل گئی ہیں اور بارش بھی ساتھ ساتھ شروع ہے ہو سکتا ہے چند ثانیوں میں چھت نیچے آ جائے. اماں بس ایک منٹ میں بھائی کی فوٹو دیکھ کر آ جاتا ہوں . اماں جب بھی ابرار کو منع کرتی وہ یہی جواب دے کر اماں کو مطمئن کر دیتا .

زلزلے سے پورا گاؤں ہی تباہ ہو چکا تھا چند ایک مکان ایسے تھے جن کی دیواریں گرِ گئی تھیں لیکن چھتیں پلیرز پر کھڑی تھیں اور کچھ مکان ایسے تھے جن کی دیواریں کھڑی تھیں لیکن چھتیں گر چکی تھیں . ابرار کے مکان کی چھت اور دیواریں ابھی تک کھڑی تھیں لیکن دیواروں میں بڑی بڑی پھوٹیں پر چکی تھیں پورا مکان ہی ایک بار لہرا کر کھڑا ہوا تھا اس لیے سب گھر والے مکان سے نکل کر باہر آ گئے تھے اور پلاسٹک شیٹ کو تان کر ایک خیمہ سا بنا لیا تھا . جب کہ باقی کا سارا سامان مکان کے اندر ہی تھا . ابرار دن میں دو تین چکر مکان کے اندر کے لگا لیتا اندر آنے جانے کی وجہ بڑے بھائی عبدالحمید کی تصویر تھی-

ڈاکٹر اعجاز مجھ سے کہنے لگے میری گاڑی میں تیل ختم ہونے کو ہے آو کہیں پٹرول پمپ کا پتہ کر کے پٹرول بھروا لیں. ہم دونوں باغ سے واپس راولپنڈی والی روڈ پر آئے پُل کراس کرنے کے بعد ایک پٹرول پمپ دکھائی دیا جو خالق کائنات کی قدرت سے صیح سلامت تھا ماسوائے الیکٹرک سٹی کے کیوں کہ زیادہ تر پول زمین بوس ہو چکے تھے اس لیے کنکشن ڈیسکنکٹ ہو گیا تھا ویسے بھی ایسی صورت میں کنکشن معطل کرنا ہی پڑتا ہے.اب یہ کمی جرنیٹرز سے پوری کی جا رہی تھی . اب پٹرول پمپ ایک تھا اس لیے لائن اتنی لمبی تھی کہ تین چار گھنٹے انتظار نارمل ہی لگتا تھا .

اسی دوران مختلف شہروں سے آئے لوگوں کی ایک دوسرے سے علیک سلیک ہو رہی تھی اور شہروں کی شناخت گاڑیوں پر لگے بینرز سے یا نمبر پلیٹ سے ہو رہی تھی . یہاں انسانیت کی اور مسلمانیت کی پہچان ہو رہی تھی اور رشک آ رہا تھا اس جذبہ اُخوت پر .

امت مسلمہ جاگ چکی تھی پاکستان اور آزاد کشمیرکے ہر شہر سے لوگ جوق در جوق آ رہے تھے ,اپنے زخمی بھائیوں کو لہوِ جگر پیش کر رہے تھے کچھ احساس مند اپنے جسم سے کوٹ اور جرسی وغیرہ اتار کر مقامی لوگوں کو دے رہے تھے .

اللہ اللہ کر کے ہماری گاڑی تیل ڈالنے والے کی رسائی حاصل کرنے لگی تھی کہ ہماری نگاہ اُس ادمی پر پڑی جو ایک لڑکے کی طرف اشارہ کر کے لوگوں کو کچھ بتا رہا تھا . ہم بھی اُس کے قریب ہوئے کہ سنیں یہ کیا کہہ رہا ہے , جو بات وہ کہہ رہا تھا وہ حیران کُن ضرور تھی لیکن خدائے پاک کی قدرت سے باہر نہیں تھی .وہ آدمی اس لڑکے کے متعلق کہہ رہا تھا کہ یہ دو دن زمین کے اندر رہا ہے اور جب اسے نکالا گیا تو بلکل صیح سلامت تھا یہاں تک کے اس کے کپڑے بھی گندے نہیں ہوئے تھے بلکہ آج بھی انہی کپڑوں میں گھوم رہا ہے . ہم نے بھی خوب غور سے دیکھا کہیں بھی شائبہ تک نہ ہو رہا تھا کہ زمین کی گود میں رہ کر آیا ہے. وہ بھی لوگوں کو یوں دیکھ رہا تھا جیسے کسی چیز کو پہلی بار دیکھ رہا ہو , ہم نے بھی اس سے ہاتھ ملانے اور نئے جنم کی مبارک دینے کی کوشش کی لیکن جم غفیر کی وجہ سے یہ شوق پورا نہ ہو سکا-

ان افتاں و خیزاں حالات میں ایک عفریت ناک عالم یہ تھا کہ کچھ ہمارے بھائی اس موقع کو غنمت جان کر لوگوں کی پک پاکٹ میں لگے ہوئے تھے نہ جانے یہ کون سے دھرم کے لوگ تھے جو ان حالات میں بھی کسی کو معاف نہیں کر رہے تھے بجائے اس کے کہ اُن پر خوف خدا طاری ہوتا وہ خود خوف بن کر طاری ہو چکے تھے .

ہمارے ساتھ کورین اور اٹالین بھی کام کر رہے تھے وہ لوگ مسلم تو نہیں تھے لیکن انسانی ہمدردی کے تحت ہماری مدد کرنے آئے تھے جب وہ ایسے واقعات سنتے تو یوں کن آنکھوں سے دیکھتے جیسے کہہ رہے ہوں کہ تم تھے ہی اسی قابل. ہم لوگ کیا کہہ سکتے تھے جب ہم آپس میں باتیں کرتے اور ایک دوسرے کو اپنی کٹی ہوئی پاکٹ دکھاتے تو وہ سمجھ جاتے کہ ان کے ساتھ کوئی ہاتھ ہو گیا ہے . لیکن وہ ہماری نادانی سے چوکنے ہو گئے تھے ہم نے اپنے اس پریڈ میں ایک بار بھی نہیں سُنا کہ کسی کورین یا اٹالین کی پاکٹ ماری گئی ہو .

کہاوت ہے کہ انگریز نے کسی سے پوچھا کہ دین اسلام کی زیادہ پرچار کہاں کی جاتی ہے اور کہاں کے لوگ زیادہ پابند اسلام ہیں بتانے والے نے بتایا کہ پاکستان ایسا اسلامی ملک ہے جہاں کے لوگ زیادہ پابند اسلام ہیں . انگریز نے کہا اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں میری خواہش ہے کے پاکستان جا کر اسلام قبول کیا جائے . کہنے والے کہتے ہیں کہ جب وہ پاکستان پہنچا تو اُس نے کسی مسجد کا رُخ اس ارادے سے کیا کہ وہاں جا کر وضو کیا جائے اور پھر امام مسجد کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا جائے . جب وہ مسجد پہنچا تو دیکھا پانی ایک ڈرم(Barrel) میں ہے اور پانی ڈالنے کے لیے جو سلور کا مگ ہے آئینی زنجیر سے باندھا ہوا ہے . انگریز نے لوٹا اٹھایا پانی ڈال کر وضو کرنے لگا اور ساتھ ساتھ مگ کی حراست کے متعلق سوچنے لگا . لوٹے کی ٹھک ٹھک سن کر امام مسجد حجرے سے باہر آ کر دیکھنے لگے کون ہے جو بے وقت وضو کر رہا ہے جب دیکھا کہ وضو کرنے والا انگریز ہے بڑے زور سے لاحول و اللہ پڑھی لیکن اتنا ضرور کیا کہ انتظار گوارہ کر لیا . وہ وضو کرنے کے بعد امام صاحب کی طرف بڑھا امام صاحب جو پہلے لاحول و اللہ پڑھ رہے تھے اب اسے پاس آتے دیکھ کر استغفار پڑھنے شروع ہو گئے تاہم اُن کے وظائف کے باوجود انگریز پاس آ ہی گیا اور بڑے پُرتپاک انداز میں مصافحے کے لیے ہاتھ آگے کیا , امام صاحب نے اگر وضو کرتے نہ دیکھا ہوتا تو شاید ہاتھ آگے نہ کرتے لیکن ازراہ ہمدردی ہاتھ ملا ہی لیا . ہاتھ ملانے کے بعد انگریز نے جو پہلا سوال کیا وہ مگ کی حراست کے متعلق تھا . امام صاحب نے داڑھی مبارک کا خلال کرتے ہوئے 45 ڈگری پر لایا پھر کھنکار کر گلا صاف کیا اور بڑی وضاحت سے فرمانے لگے ..... جی بات یہ ہے اگر یہ باندھا ہوا نہ ہو تو لوگ اٹھا کر لے جاتے ہیں اس لیے باندھ رکھا ہے . انگریز نے جب یہ جواب پایا تو بِنا ہاتھ ملائے ہی مسجد سے باہر آ گیا کہ یہ اُس ملک کی حالت ہے جہاں اسلام سے بہت زیادہ محبت کی جاتی ہے جہاں مذہب اور ملک کی خاطر بم جسموں سے باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹا جاتا ہے اگر اس ملک میں مگ مسجدوں سے چُرا لیے جاتے ہیں تو دوسرے ملکوں میں کیا حشر ہو گا . یہی سوچ کر وہ اسلام قبول کیے بنا واپس چلا گیا . اس انگریز کے بعد یہ لوگ تھے جو ان قیامت خیز حالات میں بھی پک پاکٹ دیکھ رہے تھے .

عبدالحمید , ابرار اور افتخار تینوں بھائی تھے جب کہ ان کی ایک بہن تھی جو ساتھ کے گاؤں میں بیاہ دی گئی تھی . عبدالحمید بڑا تھا اور فوج میں نوکری کرتا تھا. جیسا کہ فطری طور پر ہر گھر میں ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ایک سب کو پیارا ہوتا ہے اسی طرح ابرار کو حمید سب سے زیادہ پیارا تھا . اگر عبدالحمید تین مہینے تک گھر نہ آتا تو ابرار خطوں پہ خط لکھ دیتا اور کبھی کبھار تو وہ ٹیلگرام بھی کر دیتا کیوں کہ ٹیلگرام سے چھٹی جلدی مل جاتی تھی جب عبدالحمید گھر پہنچتا تو سب سے پہلے ابرار ہی ملتا اور بتا دیتا گھر میں سب خیریت ہے ٹیلگرام میں نے ایسے ہی کر دی تھی. اس بات پر کبھی عبدالحمید ناراض بھی ہوتا تو ابرار سوری کرتے ہوئے کہتا آپ آ نہیں رہے تھے اس لیے ایسا کر دیا ,جاتا تب عبدالحمید بھائی کی محبت دیکھتے ہوئے ہنس دیتا .

ہم جب پیٹرول ڈالوا کر واپس پہنچے تو ہمارے دوست شفیق ملک نے چار بچوں کی ڈیڈ باڈئیز دکھائی جو سکول واپس گھر جانے کے لیے آئے تھے لیکن " اُس کو چھٹی نہ ملی جسے سبق یاد ہوا " وہ گھر کے بجائے سیدھے لحد گئے . بچے نیوی بلیو کلر کی پنیٹس اور وائٹ شرٹس میں تھے کالے شو پالش کیے ہوئے . جبکہ ایک ڈیڈ باڈی بچی کی تھی . جو وائٹ شلوار قمیض کے ساتھ بلیک اسکارف کیے ہوئے تھی. یہ چار باڈیز زمین کے اندر سے نکال کر زمین کے اوپر رکھ دی تھیں. جب کہ ان کے ورثہ میں سے کوئی بھی وہاں نہیں تھا . نہ جانے کوئی دُنیا میں تھا بھی کے نہیں , تمام ساتھیوں کی آنکھیں ُپرنم تھیں لیکن دل پھر بھی جذبہ خدمت سے سرشار تھے.

میں نے اور ڈاکٹر اعجاز نے اُن کی حوصلہ آفزائی کرتے ہوئے کہا دیکھو بھائیو یہ آپ کی کاوش سے ہی دنیا کی ہَوا لگوا رہے ہیں. یہ فطری تقاضے کے تحت ایسا ہو رہا ہے جبکہ ان کو پھر بھی قبر نما زمین میں ہی رکھنا ہے . جیسا کے زندگی اور موت کے الگ الگ دستور ہیں یاد رہے کے جذبات پر خدمات کو ترجیح دینی پڑے گی. ڈاکٹر اعجاز کی اس مختصر سی بات پر کچھ دوستوں نے ہاتھوں کی پشت سےآنکھیں صاف کی تو کسی نے قمیض کے دامن سے ناک پونچھ لی . شام چار بجے تک جب کوئی بھی نہیں آیا تو ایک ساتھ تین بچوں کی نماز جنازہ کی اور اجتماعی قبر کے سپرد کر دیے, کیوں کہ یہی دستور دنیا ہے . اُن کے بعد چاند سی گڑیا کی نماز جنازہ ادا کی اور رسم دنیا نبھاتے ہوئے قبر کے حوالے کر دی .

وقت کی کمی تھی ساتھ بارش بھی برس رہی تھی جو وقفے وقفے سے اشکبار چہرے دھونے کے لیے کافی تھی . لوگ کہہ رہے تھے بارش کا برسنا ٹھیک ہے کیوں کہ لاشیں خراب نہیں ہوں گی. یہ حکمت ربیّ تھی جو ہماری ناتواں عقل سے بالاتر تھی .

تین بچوں کے بعد بچی کو قبرمیں رکھنے کے لیے قادری بٹ اور شفیق ملک تھے . باڈی رکھتے ہوئے بچی کے بالوں سے پونی کسک کر گر گئ . پونی کو دیکھتے ہوئے کسی نے کہہ دیا ماں کے ہاتھوں کی آخری نشانی بھی گر گئ ہے اتنا ہی کسی کا کہنا تھا کہ قادری بٹ باڈی رکھنے سے پہلے ہی قبر میں گر گے. یہ ویسے بھی احساس قسم کے تھے یا یوں کہہ لیجئیے کہ نئے نئے احساس ہوئے تھے یہ نئے نئے اس لیے لکھ دیا کہ پہلے یہ ایسے نہ تھے بلکہ دوسرے کو مار کھاتے یا روتے ہوئے دیکھ کر ہنسا کرتے تھے . ہم چونکہ بچپنے سے ہی دوست چلے آ رہے ہیں اس لیے ایک دوسرے کو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا جاننا چاہے. ایک بار انہوں نے مجھ سے یہ کہہ کر خط لکھوایا کہ مجھے نزلہ ہے میں لکھ نہیں سکتا . خط کا عنوان جان کر مارے خوشی کے انجام کی پروا کیے بغیر آؤ دیکھا نہ تاؤ فوراً رضا مند ہو گئے اور پھر جناب کیا کہنے ہم نے بھی خط میں انتہا کر دی جیسا کہ پنجابی میں کہتے ہیں آخیر کر دتّی, دوسرے دن خط کو ایک معصوم قاصد کے ہاتھ روانہ کر دیا لیکن نظامِ ترسیل ناقص ہونے کی وجہ سے خط وہاں پہنچ گیا جہاں نہیں پونچنا چاہیے تھا . جانچ پرتال شروع ہو گئ کہ خط کہاں سے آیا . تھوڑی ہی چھان بین کے بعد تفتیشی ٹیم نے کھوج لگا لی کے نامہ بر کہاں سے آیا . لیکن موصوف نے حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے بڑے آرام سے کہہ دیا یہ تو میری ہینڈ رائیٹنگ نہیں ہے. جب مسلہ رائیٹنگ کا آیا تو ہم بے چارے آڑے ہاتھوں لے لیے گے. خطابت کے آعزاز میں ہماری خوب درگت بنی. دوران درگت جب ہماری نگاہ جناب دوست پر پڑی تو کیا ہی کہنے جناب دھیرے دھیرے سے مسکرا رہے تھے سچ پوچھیے اس وقت اِن کا مسکرانا ہمیں لاتوں مکوں سے بھی بُرا لگا . اس لیے ہم نے یہاں لکھ دیا کہ یہ احساس مند نئے نئے ہوئے تھے .

آمد برسر مطلب یہ چوتھی لاش تھی جو اپنے ہاتھوں دفنا رہے تھے کب تلک حوصلہ رکھتے آخر قدم لڑ کھڑا گے اور وہ قبر میں گر گے . ان کو اٹھا کر باہر رکھا , اب وقت کچھ ایسا تھا کہ روزہ توڑانے کو بھی جی نہیں چاہ رہا تھا البتہ ناک کی سانس وغیرہ روک کر ان کو ہوش میں لایا گیا .افطای کے بعد بیٹھ کر اگلے پروگرام کے متعلق سوچ رہے تھے کہ شبریز تیلے نے ایسے ہی پوچھ لیا قادری صاحب آپ گرے کیوں تھے بات ماحول کو تھوڑا بدلنے کے لیے کی گئ تھی ابھی قادری بٹ بولے ہی نہیں تھے کہ ندیم مغل نے کہہ دیا کہ پتہ تھا ناں نکال لیں گے .اس کی اس بات سے مع قادری بٹ کے سبھی مسکرا دیے .مثل مشہور ہے کہ کہنے،کرنے،دیکھنے اور سننے میں بڑا فرق ہوتا ہے یہی بات ہے جو ہم نے آنکھوں دیکھا اتنا ہم قلمبند کر نہیں پا رہے آج دس سال بعد لکھتے ہوئے بھی ہاتھ کپکپا رہے ہیں .

باغ سے آڑی گہل کی طرف آتے ہوئے پٹرول پمپ سے تقریباً ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ایک سڑک پنیالی مخدوم کوٹ کو جاتی ہے. ہمیں خبر ملی کے ابھی تک وہاں کوئی امدادی ٹیم نہیں پہنچی ہم نے وہاں جانے کی ٹھانی اور چند دوستوں کے ساتھ وہاں کا رُخ کیا لیکن یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ زمینی راستہ ختم ہو چکا ہے . زمین وہاں سے اس طرح شک ہوئی تھی کہ ایک کلو میٹر کا فاصلہ گہری کھائی کی شکل اختیار کر گیا تھا . یوُں ہم اُس گاؤں تک نہ جا سکے جس کا قلق آج بھی ہے .

بارش کا سلسلہ جوُں کا توُں تھا . عصر کے بعد ہی شام سا سماں ہو گیا تھا افطاری کا بندوبست بھی ابھی باقی تھا اس لیے اگلے دن تک ڈیگینگ (Digg ing ) کا سلسلہ موقوف ہو چکا تھا تاہم دوسری خدمات جاری تھیں. زخمیوں کی فرسٹ ایڈ جاری تھی لوگوں کے لیے خیمے لگائے جا رہے تھے تا کہ لوگ کھلے آسمان کے بجائے عارضی چھت کے نیچے رات بسرام کریں . کچھ دوستوں نے بڑی سی دیگ میں چاول کے ساتھ دال بنا لی تھی اور لوگوں میں تقسیم کر رہے تھے . مغرب کی آذان دی گئی جو اس بات کی اطلاع تھی کہ افطاری کا ٹائم ہو گیا ہے . چونکہ بارش کے باعث نماز باجماعت ممکن نہیں تھی اس لیے جس کو جہاں جگہ ملی وہی خدا کے حضور سجدہ ریز ہو گیا .

ابھی دو ماہ ہوئے تھے عبدالحمید کو گھر سے گئے ہوئے فون اور خط و کتابت سے رابطہ مسلسل رہتا تھا . لیکن ابرار نے پھر بھی جلدی گھر آنے کی رٹ لگائی ہوئی تھی . عبدالحمید سمجھاتا دیکھو فوج سے روز روز چھٹی نہیں ملتی اور نہ ہی کوئی جھوٹ بول کر میں چھٹی لینا پسند کرتا ہوں. عبدالحمید کے ایسے ہی دو تین جواب سن کر ابرار خاموش ہو گیا . بھائی کے کورے نکور جواب سے دل کو ٹھیس پہنچی تو ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ٹھیک ہے نہ آئیے, اب میں بھی آنے کا نہیں کہوں گا . ہاں یہ بھی یاد رکھیے گا جب آپ آئیں گے تو میں آپ کو لینے بس اسٹاپ نہیں آؤنگا خود ہی بیگ اٹھا کر لاؤ گے تو میری قدر محسوس کرو گے . ابرار کی کراری کراری باتیں سُن کر عبدال حمید نے ہنستے ہوئے کہا ٹھیک ہے یار تم نہ آنا میں خود ہی بیگ اٹھا کر گھر آ جاؤں گا .

اکتوبر اوئل ہی میں دنوں کی طوالت راتوں میں آ چکی تھی سورج طلوع تو سات بجے ہوتا تھا لیکن پہاڑوں کی وجہ سے نو بجے تک کہیں دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن پھر بھی ہم نے اٹھ بجے سکول مشن پر کام شروع کر دیا باقی ٹیمیں بھی اپنی اپنی ذمہ داری نبھانے نکل چکی تھیں کھدائی شروع کیے ایک گھنٹہ ہونے کو تھا لیکن ابھی تک ایک بوٹ ہی ملا تھا . جو ہمارے ایک ساتھی نے اٹھا کر لاسٹ انیڈ فونڈ میں رکھا لیکن اُس پر نظر ایک خاتون کی پڑھ چکی تھی . اس نے بھاگ کر بوٹ اٹھایا اور بین کرتے ہوئے چومنے لگی ساتھ کہے جا رہی تھی دیکھو میری شہزادی کا ایک بوٹ ملا ہے . میں نے آگے بڑھ کر صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا دیکھیے سب بچوں کے بوٹ ایک جیسے ہیں ہو سکتا ہے یہ کسی دوسرے بچے کا بوٹ ہو . اُس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا نہیں ...یہ دیکھو میری شہزادی کا پاؤں اتنا تھا اس بوٹ سے اس کی خوشبو آ رہی ہے , یہ تسمہ میں نے اپنے ہاتھ سے باندھا تھا ماں کی ممتا دیکھ کر سبھی کہنے لگے یار ماں آخر ماں ہوتی ہے یہ بوٹ اسی کی بیٹی کا ہو گا . لیکن ایک بات ایسی تھی جو آج تک سوالیہ نشان چھوڑے ہوئے ہے ......... کہ ایک بوٹ وہ بھی باندھے ہوئے تسمے کے ساتھ ........... !

اس دن بھی چار پانچ بچوں کی باڈیز نکالی گئی ہر میت پر ایک کہرام برپا ہوتا رہا لیکن ہر پہلے رونے والا اپنے دل پہ قشقہ لیے دوسرے کی ڈھارس باندھا رہا تھا . شام ساڑھے تین بجے جس بچی کی لاش ملی اُس کے پاؤں میں صرف ایک بوٹ تھا جبکہ دوسرے میں صرف جراب(socks) تھی . وہ خاتون جو صبح سے وہی بیھٹی تھی زارو قطار روتے ہوئے کہنے لگی دیکھی ہے ماں کی شناخت , دیکھو ماں کی شناخت ایسی ہوتی ہے . وہ سچ کہہ رہی تھی لیکن نہ جانے اُس بوٹ کا کیا مما تھا جو آج تک حل نہیں ہو سکا.

شام کو ہم اپنی خیمہ بستی کی طرف آ رہے تھے راستے میں ایک بوڑھے کو دیکھا جو رو رہا تھا ہم نے گاڑی روک کر رونے کا سبب پوچھا تو کہنے لگا تم گاڑیوں والوں سے ڈر لگتا ہے ( وہ گاڑیوں کہہ رہا تھا جبکہ شبریز تیلا داڑھیوں کہہ رہا تھا جس کا ہدف میں اور قادری بٹ تھے).دور ہو جاؤ وہ دور کے لیے ہمیں کہہ رہا تھا لیکن الٹے پاؤں خود دور ہوتا جا رہا تھا . ہم نے کیس سیرس سمجھ کر گاڑی سے اتر کر قریب جانا چاہا تو وہ گالیوں پر اتر آیا . ہمارے ایک دوست اُس کے رویے سے بدمزہ ہو کر کہنے لگے یار رہنے دو اسے اس کی حال پر واپس چلتے ہیں . لیکن ڈاکٹر اعجاز اور ڈاکٹر طارق نے ہہ کہہ کر روک لیا ....نہیں بات کوئی خاص ہے..... جس کی وجہ سے یہ آدمی ایسا ویسا کہہ رہا ہے . ہم نے پاس پہنچ کر بڑے پیار سے کہا بابا جی بتاؤ کیا ہوا ہے . ہم آپ کی مدد کو آئ ... ابھی بات ادھوری ہی تھی کہ بابا کہنے لگا ... یہی بات انہوں نے بھی کہی تھی . کس نے بابا !. اُن ظالموں نے جو میری بیٹی کو اٹھا کر لے گئے ہیں . اب ہمارے پانوں تلے زمین سرکنے لگی . پھر بھی حوصلہ کر کے کہا بات پوری بتاؤ کہ کیا ہوا ہے .

اب اُس نے شانت ہو کر اپنی روئیداد سنائی کہ ہم قسمت کے مارے خیابان ڈھونڈنے اس پیچھلے گاؤں سے ,جہاں صرف میں اور میری بیٹی زندہ رہ گے, ادھر آ رہے تھے کہ راستے میں ایک وین ملی جس میں دو لڑکے سوار تھے ہمیں دیکھ کر اپنی وین روکی اور ہم سے پوچھا کہاں جانے کو ہے. ہم نے اس بستی کا بتایا , کہنے لگے ہمیں بھی اُدھر ہی جانا ہے . آئیے گاڑی میں بیھٹیں. میں مان گیا لیکن میری بیٹی نے کہا نہیں ابا ہم پیدل ہی چلتے ہیں . تب وہ لڑکے بولے ہم تو اس لیے ادھر آئے ہیں کے آپ لوگوں کی خدمت کریں ہمارا کام یہی ہے کہ لوگوں کو اٹھا کر خیمہ بستی تک چھوڑیں , میں نے ان کی بات سن کر بیٹی سے کہا بیٹھ جاتے ہیں تب وہ میری بات مان گئی گاڑی میں پہلے وہ پھر میں بیٹھا . اس موڑ پر آ کر انہوں نے کہا آپ یہاں اتر جائیں وہ سامنے بستی ہے وہاں چلے جائیے. میں دروازے کی طرف تھا پہلے مجھے ہی اترنا تھا دروازہ کھول کر ابھی ایک پاؤں نیچے رکھا ہی تھا کہ انہوں نے گاڑی چلا دی اور میں لڑکھڑاتے ہوئے گر گیا اور وہ میری بیٹی کو لے کر بھاگ گئے . یہ روئیداد الم سُن کر ہمارے رونگٹے کھڑے ہو گئے اُن ذلیلوں کے اس مخرب اخلاق عمل سے ہمارے سر جھک گئے آخر اُن پر نفرین بھیج کر نگاہ آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے زیر لب کہا تُو ہی ہے انصاف کرنے والا . ہم کسی بھی عمل سے قاصر رہے . کیوں کہ وہاں کچھ بھی ہمارے بس میں نہ تھا .

ابرار کا گھر بس اسٹاپ سے دو کلو میٹر کی مسافت پر تھا لیکن یہ دو کلو میٹر کا فاصلہ بڑی پُر پیج اور کٹھن راہوں پر محیط تھا . ان راہوں پر چلتے ہوئے سردیوں میں بھی پسینہ پھوٹ پڑتا تھا . اور جب پاس کوئی بار ہو تو پھر یہی سفر چار پانچ کلو میٹر کا بن جاتا . اسی تھکا دینے والی مسافت کی وجہ سے ابرار نے عبدالحمید کو الٹی میٹم دے دیا تھا. عبدالحمید کا خیال تھا کہ عید الفطر پر گھر جاؤں گا اس لیے پہلے چھٹی اپلائی نہیں کرنی چاہیے . جبکہ ابرار کی ضد تھی کہ رمضان میں ہی گھر آ جائیں . بات تھوڑے ہی دنوں کی تھی لیکن دونوں میں کوئی پکی نہیں ہو رہی تھی .

بعد ازاں ہر دوسرے تیسرے دن ایک ایسا ہی واقعہ سننے کو ملنے لگا. بڑے کہہ گے ہیں کہ برُے کام کی تشہیر نہیں کرنی چاہیے کیوں کے تشہیر سے ہی بات پھیلتی ہے . جیسا کے بے شمار نشے (نام جان کر نہیں لکھے) ٹی وی اور اخبارات کے اشتہاروں سے پھیلے ہیں جتنا انہوں نے بچنے کے لیے کہا اتنا ہی لوگ نشے کی گرفت میں آئے . یہی ہوا کہ جیو نیوز کی ایک ہی نیوز نے اُن کو بھی باخبر کر دیا جو بے خبر تھے یعنی جو لوگ اس طریقہ واردات سے ناآشنا تھے وہ بھی اب اس تلاش میں نکل چکے تھے کہ کون پھنستا ہے. "چیونٹوں کو پَر نکل چکے تھے". کچھ تو اتنے ماڈرن اور اپر کلاس کے لٹیرے تھے جو بڑی شرافت ظاہر کرتے ہوئے بچیاں اٹھانے لگے . اُن کا طریقہ واردات ایسا تھا کہ کسی کو اُن پر شک بھی نہیں گذرتا تھا . یعنی وہ شکل مومناں اور کرتوت کافراں تھے . ہم نے مظفرآباد آٹھمقام روڈ پر لگے ایک کیمپ میں دو لڑکوں کو دیکھا جو لندن سے آئے ہوئے تھے . وہ ایک چھوٹی سی فیملی کو یوں جھانسہ دے رہے تھے ,ہم انگلینڈ رہتے ہیں جہلم میں ہمارے مکان خالی پڑے ہیں اگر آپ ہمارے ساتھ چلیں تو آپ کو وہ گھر دے کر ہم واپس انگلینڈ چلے جائیں گے. وہ ثبوت کے لیے اپنا پاسپورٹ بھی شو کرتے . کہا جاتا ہے کہ " چیزوں کا بھاؤ اُسی نے خراب کیا جو رات بھوکا سویا" یہی بات یہاں بھی تھی , ایسے لوگوں کی باتوں میں وہ لوگ جلد آ جاتے جو رات کھلے آسمان اور برستی بارش میں سوئے تھے. چھت کا نام سن کر ہی اُن کے منہ سے رال ٹپکنے شروع ہو جاتی. وہ نہیں جانتے تھے کہ بعض چھتیں بیابانوں سے بھی زیادہ بیانک ہوتی ہیں . سردی اور بارش کے ستائے ہوئے لوگ مکان کا نام سن کر ہی خوش ہو جاتے انجام کیا ہوتا کہ مائیں اور بیٹیاں تو پکے مکانوں میں پہنچ جاتی اور جو مرد اُن کے ساتھ ہوتے وہ دوسرے تیسرے دن کسی نالے سی ہی ملتے جو کچھ مر چکے ہوتے اور کچھ مرنے کی دعائیں کر رہے ہوتے .

ہم پاک و ہند تقسیم کے واقعات پڑتے ہیں تو یہی سوچ آتی ہے کہ وہ کافر تھے جھنوں نے اتنے ظلم و ستم ڈھائے تھے . لیکن آج مسلمانوں کے مسلمانوں پر ظلم و ستم دیکھ کر تارکین وطن پر کیں گئی ستم ظریفیاں بھول گئیں . دونوں میں فرق صرف اتنا تھا کہ ہندوؤں نے پہلے عزتیں لٹی اور پھر قتل کر دی جبکہ اِنہوں نے عزتیں لوٹ کر پھر در بدر کی ٹھوکروں کے لیے زندہ چھوڑ دیا " ظلم زیادہ کس نے کیا یہ فیصلہ پھر سہی" .
آج بھی ایسی بیشمار لڑکیاں ملتی ہیں جو خیمہ بستی سے پکی چھت کی جستجو میں آئی تھیں لیکن ان خونی چھتوں نے نہ صرف اُن سے اُن کا کنوارہ پن اور حیّا کے گھونگھٹ میں چمکتا جوبن چھینا بلکہ باقی زندہ رہنا بھی اجیرن کر کے رکھ دیا .کچھ ایسی قسمت کی ماری تھیں جو حاملہ ہو جانے کی پاداش میں گھروں سے نکالی جا چکی تھیں کیوں کہ امیرزادوں کو حاملہ جسم سے وہ تسکین نہیں مل رہی تھی جس کے وہ متلاشی تھے. گویا بھاڑے میں دی گئی چھت چھین کر ٹھوکروں کی نظر کر دی گئیں.

اب وہ بے چاریاں اپنا پُھولے ہوئے پیٹ کو دیکھ کر اپنی جوانی کو مورد الزام ٹھراتی اور کسی مہرباں دیوار کا سہارا لینے کے لیے گلیوں محلوں میں گھومتی نظر آتیں لیکن ایسی حالت میں کوئی اُن کا سہارا نہ بنا. آخر کار کسی نے راولپنڈی نالہ لئ کنارے تو کسی نے دینہ سبزی منڈی کے عقب کچرے کے ڈھیر پر جنم دے کر بتا دیا کہ توُ کسی ہمدرد انسان کی ہمدردی کا نتیجہ ہے جس نے تیری ماں کو پکی چھت دینے کے لیے بڑی دُور سے لایا تھا آج تیرا پالنا کچرے کا یہ ڈھیر ہے . بے چاریوں کو ایسے قشقے لگے تھے جو پھر وہ کسی صورت مٹا نہ سکیں .

جب سے عبدالحمید نے اپنا لیو پروگرام بتایا تھا تب سے ابرار نے بھی خط لکھنے کم کر دیے تھے فون بھی کبھی کبھار ہی کر رہا تھا لیکن ملن کی جستجو دن با دن بڑھتی جا رہی تھی . عید بھی تھی کہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی .

کبھی کبھی ابرار اپنی بےقراری اماں سے شیئر کرتا اور کہتا اماں اب کی بار حمید بھائی گھر آئیں گے تو کسی نہ کسی بہانے ایک ماہ تک روک لیں گے . اماں ہنس کر جواب دیتں تم گھر ہو اس لیے بڑی بڑی باتیں کرتے ہو وہ فوجی ہے اور فوجی اپنی تاریخ پر ضرور جاتے ہیں چاہے بارش ہو یا آندھی طوفان .

لیکن اماں میرا بھی یہ وعدہ رہا کہ اس بار حمید بھائی کو ایک ماہ تک ضرور گھر رکھنا ہے . اماں مسکرا کر کہتی اب حمید آئے تو میں کہوں گی اپنے دیوانے کو بھی اپنے ساتھ فوج میں بھرتی کروا دو تب کچھ سوچتے ہوئے کہتا اماں پھر میں بھی بھائی کی طرح آپ سے اور افتخار سے چار چار مہینے مل نہیں پاؤں گا اماں نے سوچتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے یہی مجبوری حمید کو بھی ہے . اٹھ اکتوبر 2005 کی صبح 8.55 پر زلزلہ آیا جس کا مرکز باغ اور مظفرآباد تھے . آخری روپورٹ ملنے تک 9 اکتوبر شروع ہو چکا تھا ہر جگہ سے متاثر ایریا کے لوگ گھروں کو آ رہے تھے .سرکاری اداروں نے بھی بلاترتد ملازمین کو رخصت دے دی تھی . 9 اکتوبر کی شام حمید نے ابرار کے نمبر پر رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن نہ ہو سکا.
ان دنوں حمید پنوں عاقل (سندھ ) چھاونی میں تھا اگر سر شام ہی وہاں سے چلتا تو تب ہی دوسرے دن کی شام یا رات کو گھر پہنچتا .حمید نے رختِ سفر باندھ لیے ایک دن رات کے مسلسل سفر کے بعد راولپنڈی پہنچا وہاں پہنچتے ہی ابرار کا نمبر ملایا جو قسمت سے مل ہی گیا . صورتحال پوچھنے پر پتہ چلا کہ ہم اُن لوگوں میں شامل ہیں جن کے گھر گرے نہیں لیکن ہم رہ گھر سے باہر رہے ہیں .

حمید نے ساری صورتحال جاننے کے بعد بتایا کہ میں راولپنڈی پہنچ آیا ہوں انشاء اللہ چار سوا چار گھنٹے بعد میں باغ بس اسٹاپ پر پہنچ آؤنگا . ابرار نے ہنستے ہوئے کہا آپ چاہے پانچ گھنٹے میں آئیں میں آگے نہیں آونگا حمید نے پوچھا کیا تمہیں اپنی ضد یاد ہے کہنے لگا جی بالکل یاد ہے حمید نے بھی ہنستے ہوئے کہا ٹھیک ہے یار. یہ اس نے ایسے ہی کہہ دیا جیسے اسے یقین تھا کہ جب میں بس سٹاپ پر پونہچوں گا تو ہمیشہ کی طرح ابرار کو اپنا منتظر پاونگا.

نہ جانے انسان اتنا خود غرض ہو چکا تھا چاہیے تو یہ تھا کہ اس موقع پر مواخات مدینہ کی یاد دہرائی جاتی لیکن ہماری بدنصیبی کہ اس کے الٹ دیکها عصمتوں کے خزینے عصمت کے خیر خواہوں کے ہاتھوں لٹتے دیکھ کر ہلاکو خاں کی بربریت شرما گئی.

ہمیں خود سے نفرت ہونے لگی اور افسوس سے کہنا پڑا کہ ہم نے اپنے آباء اجداد سے ملی ہوئی حیا کی وراثت کو کهو دیا ہے وہ حیا جو کبهی مسلمانوں کا طرہ امتیاز تهی. تاریخ گواہ ہے دین اسلام کے پھیلنے کا سبب مسلمانوں کی حیا داری پاسداری اور وفاداری تھا .

تاریخ کی کتب کی اوراق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ جب محمد بن قاسم دیبل پر قابض ہوا تو اُس وقت راجا داہر سنگھ کی بیگمات اور بیٹیاں بھی اُس کی قید میں آئیں. راجا کی ایک بیگم جو بہت ہی خوب صورت تھی (ایک روایت کے مطابق وہ اُس کی بہن تھی جس سے اُس نے زبردستی شادی کر لی تھی . کہا جاتا ہے جب یہ(راجا کی بہن ) جوان ہوئی تو اس نے اپنا ہاتھ نجومی کو دکھایا نجومی نے اس کا ہاتھ دیکھ کر کہا جس سے تمہاری شادی ہو گی وہ راجا (بادشاہ ) بنے گا اور تب تک بادشاہت اُس کے پاس رہے گی جب تک تُو اُس کے پاس رہے گی.راجا داہر سنگھ چُھپ کر یہ پیشن گوئی سُن رہا تھا اس لیے اس نے بہن کو مجبور کر کہا اُس سے شادی کر لی ). اُسے اپنے حُسن پر بڑا گمان تھا اس نے سوچا اگر میں کسی طرح محمد بن قاسم تک رسائی حاصل کر لوں تو ممکن ہے اُسے اپنے حُسن کا اسیر کر کے اپنی اور دیگر عورتوں کی رہائی کا سبب بن سکوں. اپنی اسی سوچ کے تحت اُس نے قید خانے کے دروغہ سے کہا کہ میں محمد بن قاسم سے ملنا چاہتی ہوں, میرا یہ پیغام اُس تک پہنچا دو .

دروغہ نے جب یہ پیغام محمد بن قاسم کو پہنچایا تو اُس نے کہا ٹھیک ہے ہم اس شرط پر ملاقات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہمارے پاس جو بھی عورت آئے وہ برقعے میں ہو .

دروغہ نے عورت کو وقت اور حکم دونوں بتا دیے. عورت نے دل میں سوچا برقع کوئی اتنا مسلہء نہیں جب اُس کے سامنے جاؤں گی حجاب الٹ دونگی. دوسرے روز ملاقات تھی اور سب سے پہلے وہی عورت گئی لیکن یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اُس نے نہ صرف پردے کا حکم دیا تھا بلکہ وہ خود بھی ایک موٹے کپڑے کے برقعے میں تھا اور چہرے کا رُخ دیوار کی طرف تھا .اب وہ عورت اُسے اسیر حسن کیا کرتی بلکہ اُس کے حُسن کی بھی ایک جھلک نہ دیکھ پائی جو صرف سترہ اٹھارہ برس کا نوجوان سپہ سالار تھا . یہ ہمارے اسلاف کی ادنیٰ سی مثال ہے .

خیر اتنی دور کاہے کو جائیے ابھی کل کی بات ہے جب افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی ایک امریکن نیوز رپورٹر طالبان کی قید میں آ گئی جو تقریبا" سوا سال تک قید میں رہی . پرنٹس اور الیکٹرونکس میڈیا نے بہت وویلہ مچایا کہ طالبان یوں کر رہے ہیں وہ کر رہے ہیں لیکن جب رہائی کے بعد وہ عورت امریکہ پونچی تو اُس سے قید کی مشکلات و مصاحب کا پوچھا گیا . اُس عورت نے بہت کچھ بتانے کے بعد یہ بتا کر پوری دنیا کو حیران و پیشماں کر دیا کہ میں سوا سال تک طالبان کی قید میں رہی ہوں لیکن اس عرصے میں میں نے کوئی مرد نہیں دیکھا حتٰی کہ قید خانے میں جو شخص کھانا دینے آتا تھا اُس کا صرف دائیں ہاتھ کلائی تک دیکھا ہے جس پر سفید بال تھے. سوا سال تک صرف وہی شخص آتا رہا جس کو میں اسی کلائی سے پہچانتی تھی . اس کے علاوہ میں نے کسی مرد کی شکل تک نہیں دیکھی اور نہ ہی کسی مرد کی آواز سنی ہے. یہ ہمارے افغان بھائیوں کی ادنیٰ سی مثال تھی جس نے پوری دنیا کو حیران کر دیا لیکن ایک ہم تھے کے مرے پہ سو دُرے کے مصداق لٹے ہوؤں کو لوٹ رہے تھے . کاش ان قیامت خیز حالات میں اپنے مسلمان ہونے کی کوئی مثال پیش کر سکتے.

یہ خدائی قانون ہے کہ جب کوئی کسی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ دوسروں کے لیے باعث عبرت ہوتا ہے لیکن ہمارے لٹیرے عبرت حاصل نہ کر سکے بلکہ کشمیری دوشیزؤں کا حیا دار روپ دیکھ کر اُن کے ہاتھوں یوں ایمان کسک گیا جیسے یوسف علیہ اسلام کو دیکھ کر مصری عورتوں کا ایمان کسک گیا تھا . کوئی گلہ کریں تو کس سے کریں وہ جو بھی تھے آخر اپنے تھے .

ہمارے میڈیکل کیمپ ایک ایسی مریضہ آئی جسے بی پازئٹیو بلڈ کی ضرورت تھی . ہم نے میگافون کا استعمال کرتے ہوئے اعلان کیا کہ BEE+ بلڈ کی ضرورت ہے . اعلان کیے ہوئے کافی دیر بیت گئی لیکن کوئی ایسا ولنٹیر نہیں آیا جس کا بلڈ گروپ بی پازئٹیو ہو .ادھر ڈاکٹرز کی ڈیمانڈ تھی کہ بلڈ جلد از جلد مہیا کیا جائے . ہمارے دوست اسی معاملے پر ڈسکس کر رہے تھے کہ اسی اثناء ایک اٹالین کسی کام سے ہمارے پاس آیا . لیکن ہمارے اترے ہوئے چہرے دیکھ کر اُس نے بجائے اپنا کام بتانے کے ہماری پرشانی کا سبب پوچھا ہم نے بلڈ کے متعلق بتا دیا . اُس نے کہا ڈونٹ وری میرا بلڈ بی پازئٹیو ہے اور میں دینے کے لیے تیار ہوں, یہ کہہ کر وہ بلڈ بینک کی طرف چلنے لگا . لیکن اب ہمارے ذہن جس الجھن میں الجھے وہ مذہبی قسم کی تھی کہ غیر مسلم کا خون مسلم کو لگ سکتا ہے کہ نہیں آخر مشاورت سے ہم اس نتیجے پر پہنچے کے جان بچانا اولین فریضہ ہے اس لیے خون لے لینا چاہیے .

ہمیں باتوں میں مصروف دیکھ کر اُس نے کہا ناؤ واٹ ار یوُ فرینڈز تھنکینگ ہاباؤٹ وین آئی, ایم ریڈی ٹو ڈونیٹ بلڈ . آخر کار اس اٹالین کا خون لے کر اُس مریضہ کو دیا جو زندگی اور موت کی کشمکش میں تھی . اٹالین کے جذبہ ایثار سے ایک گانے کا مصرعہ یاد آیا...... اپنوں نے غم دیے تو یاد آیا وہ اک غیر تھا اور غم گسار تھا .

ابرار نے اماں کو بتایا حمید بھائی راولپنڈی پہنچ آئے ہیں.انشاء اللہ چار پانچ گھنٹوں میں گھر پہ ہوں گے . پھر کہنے لگا اماں گاؤں اور بازار تو اُجڑ چکے ہیں لیکن پھر بھی ہمیں بھائی کے لیے کوئی اچھی سی ڈش تیار کر لینی چاہیے . یہ کہہ کر خیمے کے پاس پھرتی مرغی پکڑ کر پڑوس کے ایک آدمی سے ذبح کروائی ساتھ اُس کو بھی یہ خبر سنائی کے بھائی جان آ رہے ہیں . مرغی صاف کرنے کے بعد اماں کو دی اور ساتھ خود بھی بیٹھ کر چھوٹی چھوٹی باتیں کرنے لگا پھر اچانک ہی کہنے لگا اماں آج میں بھائی کے ساتھ کھانا نہیں کھاؤں گا . وہ کیوں ! ویسے ہی تھوڑی ناراضگی دکھاؤں گا , نہیں ابرار اچھے لوگ روٹھا نہیں کرتے . اماں میں کب حقیقت میں روٹھوں گا .باتیں چل رہی تھیں خیمے میں گیلی لکڑیوں کا دھواں پھیلا ہوا تھا ابرار تھوڑی دیر کے لیے باہر آیا بارش جو کچھ دیر پہلے رکی تھی پھر سے برسنا شروع ہو چکی تھی واپس اندر پلٹا اور اماں سے کہنے لگا آج میں بھائی کے آگے نہیں جاؤں گا اتنی بارش میں بیگ اٹھا کر لائیں گے تو معلوم پڑھے گا کہ ابرار سچ کہتا تھا . اماں کو چولہے میں لگانے کے لیے لکڑی دیتے ہوئے کہنے لگا بھائی کی فوٹو پر پانی ٹپک رہا ہو گا دیکھیں گے تو سوچیں گے میری فوٹو کی کسی نے پروا تک نہیں کی . نہیں وہ کچھ نہیں کہے گا تم رہنے دو ,اماں میں یوں کرتا ہوں کہ فوٹو ہی ادھر لے آتا ہوں اور یہاں کسی چیز پر رکھ دوں گا-

کھدائی کا کام شروع تھا دھرتی سے ماؤں کے کلیجوں کے ٹکڑے نکل رہے تھے ہم چونکہ پہلے دن سے ہی سکول کی زمین بوس عمارت پر کام کر رہے تھے سکول کے بچوں کی اصل تعداد کیا تھی اس کا ہمیں کچھ علم نہ تھا لیکن روتے پیٹتے والدین کو دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا کہ ابھی کچھ بچے زمین میں ہی ہیں . کام جانفشانی سے شروع تھا ملبے سے کبھی کسی بچے کی کتابیں مل رہی تھیں تو کسی کا پورا سکول بیگ . والدین کتابیں یا بیگ پہچان کر ہی بین شروع کر دیتے , ہمارے کان تو یہ بین سن سن سن کر تقریبا" عادی ہو چکے تھے لیکن دل تھا کہ ہر بار تڑپ جاتا تھا . پھر بچے کس کو اچھے نہیں لگتے بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں نا!

بچے کیوں اچھے لگتے ہیں یہ ایک ایسا کیوسچن ہے جو بسا اوقات ہم ایک دوسرے سے کرتے رہتے ہیں . اتفاق سے ہم ایسی ہی ایک جگہ اکٹھے تھے جہاں جانور وغیرہ بھی آ جا رہے تھے لیکن جو جانور ہمیں اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا وہ گدھی کا بچہ تھا . اس بچے کو دیکھتے ہی ہمارے دوست نے کہا کہ دیکھو یہاں کتنے جانور گھوم رہے ہیں لیکن سب سے زیادہ خوبصورت گدھی کا بچہ لگا رہا ہے . ابھی اس کا یہ کہنا ہی تھا کہ ایک مباحثہ شروع ہو گیا کہ یہ کیا وجہ ہے ,یہ کیوں اچھا لگتا ہے یہ پیارا کیوں لگتا ہے . ہر کوئی اپنی اپنی رائے دینے لگا لیکن ایک رائے ایسی تھی جس سے سبھی متفق ہو گئے . یہ رائے ڈاکٹر اعجاز کی تھی جو کافی دیر سے مباحثہ سماعت فرما رہے تھے بڑی دھیری سی کھانسی (عادتاً) کھانستے ہوئے گویا ہوئے دراصل یہ خوبصورتی اُس کے بچے(بچہ کی جگہ جان کر بچے کہا) ہونے سے ہے. ندیم مغل جو بولنے کے لیے بڑا بیتاب تھا سکینڈ ضائع کیے بغیر بولا آپ نہ ہی کھانستے تو اچھا تھا!

شبریز نے فوراً ہی پوچھ لیا کیوں . ندیم کہنے لگا یہ کوئی بات ہوئی . کون سی ' یہی یار اُس کی خوبصورتی بچے ہونے سے ہے . ہم بھی مذید تفصیل کے لیے اُس کا مونہہ دیکھ رہے تھے . تینک کر بولا آپ میری طرف کیا دیکھ رہے ہیں . یار کچھ مذید تفصیل . اس میں تفصیل کی کیا بات ہے , آپ ہی سن لیں انہوں نے کہا اس کی خوبصورتی بچے ہونے سے ہے جبکہ ہم بات گدھی کی نہیں کر رہے تھے . انہوں نے کب کی ہے. یہ پھر کس کی کی ہے .کون سی . بچے ہونے سے والی, بچے تو ظاہر ہے گدھی کو ہوئے ہیں . جبکہ ہم نے بات اُس کی کی ہے جو اُس کا بچہ ہے . ڈاکٹر اعجاز کی رائے یہ تھی کہ بچے چونکہ معصوم ہوتے ہیں اور وہ اپنی معصومیت کی وجہ سے خوبصورت لگتے ہیں .(اس دن ہم نے جانا کہ معصوم اُن کو کہا جاتا ہے جو گناہوں سے پاک ہوتے ہیں جبکہ پہلے ہم صرف کم عمر کو ہی معصوم سمجھتے تھے) انہوں نے معصومیت کی کچھ اور کٹگریز بھی بتائی جن کو سُن کر سبھی نے " بیشک" کہا .

واقع بچے معصوم تھے وہ اس دنیا کی الودگی سے پاک تھے سب بچے پانچویں اور اس سے نیچے کی کلاسوں کے تھے وہ کس پاداش کے مرتکب ہوئے اللہ ہی جانتا ہے , لیکن ہماری آنکھوں میں برسوں کے لیے اشکوں کی سوغات چھوڑ گئے. آج چوتھا دن تھا لیکن مکمل باڈئیز نہ نکال پائے تھے , ہمارے ساتھ فارنرز بھی تھے ان کے پاس ہیوی مشینریز اور ڈریلنگ مشینز تھیں لیکن ابھی تک سکول کا ملبہ ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے .

سکول بیگ کتابیں کاپیاں مل رہی تھیں لیکن ہر ملنے والی چیز اپنے ساتھ سوال بھی پیدا کر دیتی تھی .اب جو سوال زہن میں آ رہا تھا وہ یہ تھا کہ یہ سب چیزیں تو بچوں کے پاس ہوئی ہوں گی الگ الگ سے کیوں مل رہی ہیں بچے کمروں میں تھے بیگز ڈیسک پر ہوے ہوں گے پھر کیا ماجرا جہاں بک ہے وہاں بیگنہیں جہاں بیگ وہاں ڈیسک نہیں جہاں ڈیسک وہاں بچے نہیں تھے . عقل حیران تھی کہ یہ کس قسم کا زلزلہ تھا. ایک حیران کن بات یہ بھی تھی کہ چار دن لگاتار کام کرنے کے باوجود ابھی تک کسی زٹیچرز کی باڈی نہیں ملی تھی.

بیٹا تم بار بار اُس اندر آتے جاتے ہو تو مجھے ڈر لگتا ہے , اماں ...آپ ویسے ہی ڈرتی رہتی ہیں دیکھنا میں بھاگتے ہوئے جاؤں گا اور فوٹو اٹھا کر لے آؤنگا . ایسی بارش میں بھاگنا بھی ٹھیک نہیں اگر پھسل گے تو کوئی ہڈی ٹوٹ جائے گی . اچھا اماں میں دھیرے دھیرے جاتا ہوں . آپ اس پلیٹ میں کلیجی کی بوٹی نکال دیں , بھائی تڑکے میں بھنی ہوئی کلیجی خوش ہو کر کھاتے ہیں. اماں کو پلیٹ دے کر ابرار تیز قدموں سے مکان کے اندر چلا گیا . اماں کلیجی کی بوٹیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالنے لگیں (کیا خبر تھی کہ کلیجہ تو پل بھر میں نکل جاتا ہے ). ابھی ایک دو بوٹیاں ہی نکالی تھیں کہ باہر سے ڈھپ... کی آواز سنائی دی . ... بھاگ کر خیمے سے باہر آئیں دیکھا تو مکان کی چھت دیواروں سیمت گر چکی تھی .... ابرار کدھر ہے ... ابھی یہ سوچ آئی ہی تھی کہ اوسان خطا ہو گے ... آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ... چھت ہی کی طرح گرنے والی تھیں کہ پڑوسن نے سہارا دیتے ہوئے لٹا دیں. آس پاس سے مرد فوراً دوڑے آئے کسی نے بیلچہ اور کسی نے کدال پکڑی فوراً ملبہ ہٹانے لگے تقریباً ایک گھنٹہ بعد ابرار کی لاش ملی تو اس حالت میں کہ بھائی کی فوٹو کو سینے سے لگائے ہوئے تھا جیسے حقیقت میں دونوں بھائی مل رہے ہیں .

بچوں کی بُکس نوٹ بُکس مل رہیں تھیں ایک نوٹ بک شفیق ملک نے اٹھائی الٹ پلٹ کر دیکھی اور پھر مجھے تھماتے ہوئے کہنے لگے ذرا رائیٹنگ دیکھنا . وہ نوٹ بک فیفتھ کلاس کی کسی بچی کی تھی جو بہت ہی خوبصورت طریقے سے استعمال کی جا رہی تھی ہر پیج پر ڈیٹ منشن کی گئی تھی ڈیلی چیکنگ کے باعث ٹیچر کےسائن اور ریمارکس بھی درج تھے.مجھے نوٹ بک اچھی لگی اور بغیر کسی کو دکھائے (وہاں کے مقامی لوگوں کو ) اپنے پاس رکھ لی اس غرض سے کے فرصت کے وقت پڑھوں گا دوسرا میرا مقصد یہ تھا کہ اپنے سکول کے بچوں کو دکھاؤں گا .(اتفاق سے اُس وقت میں بھی ریڈ فاونڈیشن سکول میں مدارس کے فرائض انجام دے رہا تھا )تا کہ وہ بھی ایسی نوٹ بک تیار کیا کریں . بس اسی سوچ سے میں نے وہ نوٹ بک اپنی گاڑی میں رکھ لی .

یہ وہی ٹائم تھا جب حمید بس سٹاپ پر پہنچ چکا تھا. بارش لگی ہوئی تھی حمید نے سوچا شاید بارش سے بچنے کے لیے ابرار کسی چھت کے نیچے کھڑا ہو . لیکن چھت بھی تو کہیں نظر نہیں آ رہی تھی بجائے کھڑے رہ کر بھیگنے کے بہتر جانا کہ چلنا شروع کیا جائے یوں وقت کے ساتھ ساتھ سفر بھی کٹ جائے گا . یونہی سوچوں میں گم ابرار کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے چلتا رہا پھر ایک سوچ یہ آئی کہ کوئی نہ کوئی پرابلم ضرور ہے ورنہ ایسا ہو نہیں سکتا کہ ابرار میرے آگے نہ آتا .

یہ دن باغ میں ہمارا آخری دن تھا . وہاں سے ہم مظفرآباد کے لیے عازم سفر ہوئے جب ہم نے مظفرآباد کا دومیل(دو دریاؤں کا سنگم) پُل کراس کیا اُس وقت سہ پہر کے چار بج رہے تھے . مظفرآباد ہمارا دیکھا ہوا شہر تھا لیکن ہم سوچ رہے تھے اگر ہم اکیلے ہوتے تو کبھی نہ پہچانتے . گھڑی پِن چوک سے لے کر طارق آباد کا علاقہ بلکل ملیامیٹ ہو چکا تھا .وہاں اگر کچھ دیکھنے کو تھا تو صرف سائیں سہیلی سرکار کا مزار تھا . مزار سے آگے پرانے سکرٹیریٹ کا ایریا تھا جو اب نہ ہونے کے برابر تھا بازار میں گیلانی ہوٹل اور سول جیل کی حالت بھی ناگفتہ بہ تھی . ہم سی ایم ایچ کی طرف گے اللہ پناہ ...... وہ پورا ایریا چٹیل میدان بنا ہوا تھا پوری بلڈنگ زمین بوس نہیں بلکہ زمین کے اندر دھنس گئی تھی وہ ہسپتال جو اشرف المخلوقات کے لیے جائے امان تھا اب اُس کا نام و نشان تک نہ تھا . یہاں سے ہم چہلہ بانڈی یونیورسٹی کی طرف گے لیکن کیا گے کے وہ بھی اپنی تمام تر تعلیمی دولت کے ساتھ وہاں سے غائب تھی , تاہم ہاسٹل کی ایک عمارت یونیورسٹی کا پتہ دے رہی تھی دریں اثنا ہمارے دوست پروفیسر وحید مراد نے وہ کمرا دکھایا جس کی بالکونی سے انہوں نے چھلانگ لگائی تھی . وہ چھلانگ لگانے سے عمارت کا ملبہ بننے سے تو بچ گئے تھے لیکن یہی ایک بہانہ بنا تھا جس سے اُن کے دونوں مہرے(بیک بون ڈیسک ) سلِپ ہو گئے تھے اور وہ تاحال اُسی عرضے میں مبتلا ہیں . چہلہ بانڈی سے ہم نثار کیمپ کی طرف گے جہاں کا ایک واقعہ میں نے پہلے بتا دیا تھا کہ چند گرین کارڈ اولڈر معصوم اور مصیبت زدہ لوگوں کو جھانسہ دے کر جہلم پکے مکانوں میں لے جانا چاہتے تھے ,لیکن ہماری بروقت انٹری سے اُن کے ادھورے رہ گئے.

شام کا اندھیرا چھائے جا رہا تھا اس لیے ہم واپس العباس ہوٹل آ گئے . وہی ہم نے افطاری کی پھر نماز ادا کی . سردی اور تھکاوٹ نے ستایا تو اسی ہوٹل میں کمرہ لے لیا اور سستانے کی غرض سے لیٹ گئے .
ہمیں جو کمرہ ملا ہمیں ملنے سے پہلے وہ اسٹور ہوا , کیوں کہ پیاز آلو اور دوسری چیزوں کی سیمل یہی پتہ دے رہی تھی اس لیے ہم نے ہوٹل مینجر سے کمرہ بدلنے کا کہا . اب جو کمرہ کمرہ ملا وہ تھا تو کمرہ لیکن زلزلے کے جھٹکوں نے اس کی دیواروں میں بڑی بڑی دراڑیں ڈال دی تھیں ہم سونے کے لیے آئے تھے لیکن کمرے کی صورتحال نے ہماری نیند اُڑا دی آخر رات بارہ بجے دوبارہ چائے کا ارڈر دیا چائے کے آنے تک ہم ایک اور پروگرام بنا چکے تھے . چائے پی کر ہم باہر آ گئے . ہوٹل کے عملے نے ہمیں دیکھا تو پریشان ہو گئے لیکن ہم نے انہیں صرف اتنا کہا کے ہمیں بالا کوٹ جانا ہے .وہ پریشان تھے کہ ریٹرن منی کا مطالبہ کریں گے لیکن ہم نے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کیا اور بالا کوٹ کے لیے روانہ ہو گئے .

ہم نے نیلم برج کراس کیا اور لوہار گلی کی طرف ٹرن لے لیا . لوہار گلی کے بڑے موڑ پہنچ کر ایک ایمبولینس کو راستہ دیا جو ہمارے پیچھے آ رہی تھی .، رستہ دینے کے لیے ایک گاڑی کو مکمل روکنا پڑتا تھا تب دوسری گاڑی کراس ہو سکتی تھی . ایمبولینس والوں سے ایمرجنسی کے متعلق پوچھا تو بتانے لگے العباس ہوٹل کی شمالاً دیوار گر گئی ہے جس سے چار زخمی اور دو آدمی مر گئے ہیں اب سیریس مریضوں کو ایبٹ آباد لے کر جا رہے ہیں .

ہم سب ایک دوسرے کا مونہہ دیکھنے لگے کیوں کہ یہ وہی دیوار تھی جس نے ہماری نیند چُرا لی تھی .

گڑھی حبیب اللہ سے دائیں ٹرن لے کر بالا کوٹ کو روانہ ہو گئے . راستے میں ایک جگہ چائے پی کر پھر بالا کوٹ کی طرف روانہ ہو ئے .

سحری کے وقت ہم بالا کوٹ پہنچ چکے تھے جہاں لوگ سڑک کنارے ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے اور جسم کو گرم رکھنے کے لیے لکڑیوں کی آگ تاپ رہے تھے . ہم نے سڑک کنارے کنارے ایک چکر لگایا ایک مناسب جگہ دیکھ کر کچھ آدمیوں سے کھانے کا پوچھا کہنے لگے صرف ابلے چاول ہیں اور کچھ نہیں ہے . ہم نے کہا ہمارے پاس چاول اور دال بھی ہے صرف پکا کر دے دو انہوں نے حامی بھر لی . تھوڑی دیر میں انہوں نے دال چاول مکس ہی بنا کر دے دیے جو ہم نے سحری کے کھانے کی حثیت سے کھا کر روزہ رکھ لیا . تھوڑی روشنی پھیلی تو ارد گرد دیکھا . سنا کرتے تھے کہ بالا کوٹ بہت خوب صورت علاقہ ہے آج ہم اسے بانفس نفیس دیکھ رہے تھے . آج بھی کھنڈرات سے لگتا تھا کہ محل خوب صورت ہوا ہو گا . برلب دریا سانپ کی طرح رینگتی سڑک کے دونوں کناروں پہ بنی دکانیں دکانوں کے عقب میں اور پہاڑ کے دامن میں بنی بستی دریا کے دونوں کناروں کو ملانے کے لیے پُل پُل کے اوپر تھڑا بانوں اور چھابڑی پھیروں کا رش سبزیوں اور سواریوں سے لدی جیپیں ہمہ وقت پُل سے آر پار آتی جاتی . سب کچھ ہوا ہو گا لیکن اب سب کچھ ملبے کا ڈھیر تھا . پُل کے مغربی کنارے پر بنی ایک خوبصورت مسجد تھی جو باذوق لوگوں کے ذوق کا پتہ دے رہی تھی زلزلے سے جنوبی کونہ شہید ہو چکا تھا لیکن پھر بھی خوبصورت لگ رہی تھی دو تین الیکٹرونکس کی دکانیں تھی جو آدھی زمین کے اندر اور آدھی باہر تھی لیکن اُن کی چھت اس طرح سے سامان کے اوپر بیٹھ گئ تھی کہ کوئی سامان نکال نہیں سکتا تھا . پُل کے نیچے سے وادی کاغان سے نکلتا ہوا دریاِ کاغان بہہ رہا تھا جس کا پانی نیلگوں تھا. خدا کی قدرت تھی کہ پہاڑی علاقہ بارشوں کا موسم زلزلے سے جبکہ پہاڑ کھیت کھلیان مکانات اور سڑکیں دریا برد ہو چکی تھیں لیکن پھر پانی کے رنگ میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا . یہی دریا دریائے کنہار اور دریائے شفاء کے نام سے بھی مشہور ہے . بہت لمبی مسافت کے بعد مظفرآباد ریڑا کے مقام پر دریائے جہلم میں گر کر اسی نام سے منسوب ہو جاتا ہے .

اُس نے ایک ابھری ہوئی جگہ پونہچ کر اپنے گاؤں کی طرف دیکھا جہاں صرف خیمہ بستی ہی نظر آ رہی تھی کسی مکان نام کی کوئی چیز نہیں تھی زہن میں خیال آیا کہ ابرار نے کہا تھا ہمارا مکان ابھی باقی ہے ..... تھوڑا چلا پھر رک کر نگاہ ڈالی لیکن کہیں مکان نظر نہیں آیا . سوچا شاید بارش کی وجہ سے نظر نہیں آ رہا . ایک نشیب کے بعد نالہ پار کیا پھر اونچائی کی طرف بڑھنے لگا . کچھ دیر چلنے کے بعد ایسی جگہ پونہچ گیا جہاں سے گاؤں واضح نظر آنے لگا . جب گاؤں واضح نظر آنے لگا تو تب خدشات بھی بڑھنے لگے لوگوں کو ایک ہی جگہ جمع دیکھ کر پریشان ہوا اور خیالانہ گردن ہلاتے ہوئے گویا ہوا ضرور کوئی نیا حادثہ ہوا ہے جس وجہ سے ابرار آگے نہیں آیا .

اب حمید نے رفتار تیز کر لی، بارش پھسلن راستے کے نشب و فراز سبھی تو تھکن کا سبب بنے ہوئے تھے پھر بھی انجانے خدشے کے تحت جلد قدم اٹھانے لگا . تقریباً بیس پچیس منٹ کے بعد گھر پہنچ چکا تھا جہاں کچھ لوگ ابرار کو بھائی سے ملانے کے لیے نہلا رہے تھے . سر سے اب بھی تازہ تازہ خون نکل رہا تھا . ابرار کا غسل آخر دیکھ کر حمید سے صبر و ضبط کا دامن چھوٹ گیا. بیشک حمید ایک جری مرد اور دلیر فوجی تھا لیکن آنسوؤں اور آہوں سے کہاں چارہ تھا . حالات کے پیش نظر تدفین کا کام جلد کیا گیا لیکن درد تھا کے مندمل ہی نہیں ہو رہا تھا .ابرار کی یادیں جگہ جگہ بسیرا کیے ہوئے تھیں . تڑکے سے کلیجی لے کر رکھنا , اماں سے باتیں کرنا اپنی ناراضگی جتلانا پھر فوٹو کو دیکھنے بار بار جانا آخر وہی فوٹو سینے سے لگائے ہوئے ایفائے عہد کر جانا کہ میں بھائی سے نہیں ملوں گا.

بالا کوٹ واقع بہت ہی بلند پہاڑ تھا اور اس پہاڑ پر صرف دو ہی مکان تھے اور دونوں ایسے تھے جنھیں زلزلے کی خبر تک نہ ہوئی . جبکہ اس پہاڑ کے دامن میں آباد بستی کا کوئی اَتا پتا تک نہ تھا. پُل کے اُس پار ایک مسجد بچی تھی اور کوٹ کے اوپر دو مکان ، جو لوگوں کو یہ بتا رہے تھے کہ " وہی اللہ ہے جس نے بغیر ستونوں کے سات آسمان بنائے اور کھڑے کر دیے " .

عقل حیران تھی کہ کوٹ (پہاڑ ) کے اوپر والے لوگ کہہ رہے تھے جب زلزلہ آیا اس وقت ہم مکان کے اندر تھے ہم نے صرف ایک گونج سی سنی جب باہر نکل کر بازار کی طرف دیکھا تو یہی پتہ چل رہا تھا کہ زمین کا پیٹ پھٹ چکا ہے اور ساری دنیا اندر دھنستی جا رہی ہے . پُل کے اس پار جو ہوٹل تھا اُس کی چار منزلہ تھا لیکن صرف چوتھی منزل کی چھت نظر آ رہی تھی باقی منزلیں کہاں گئی اللہ ہی جانتا ہے .

صبح کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے میں پُل پہ کھڑا نیلگوں شفاف پانی کو دیکھ رہا تھا اور ساتھ ہی بالا کوٹ کے متعلق سوچ رہا کہ موبائل کی گھنٹی بجنے لگی نمبر دیکھا تو میری والدہ ماجدہ کا تھا او کے کی پریس کرتے ہی جلدی سے پہلے بسم اللہ اور پھر اسلام علیکم کہا . انہوں نے ہماری عافیت جاننے کے بعد گھر لوٹنے کا حکم فرمایا . ہم اُسی دن بالا کوٹ کو خیر آباد کہتے ہوئے براستہ ایبٹ آباد راولپنڈی آئے اور پھر گھر روانہ ہو گئے . ایبٹ آباد شہر میں ہماری گاڑی ایسی گاڑی سے ٹکرا گئی جسمیں قانون ہی قانون یعنی سول جج صاحب بیٹھے ہوئے تھے لیکن مسلہء ادھر اُدھر سے سوری کہہ لینے سے ہی ختم ہو گیا .اس وقت گاڑی ڈاکٹر اعجاز ڈرائیو کر رہے تھے شبریز تیلا جو لاسٹ سیٹ پر برجمان تھے آواز لگانے کے انداز میں پوچھنے لگے ڈاکٹر جی گاڑی کیسے ٹکرائی ہے . ڈاکٹر اعجاز کہنے لگے دونوں گاڑیوں کے بیچ وقفہ کم تھا اُن کے اچانک بریک لگانے سے گاڑی ٹکرا گئی . شبریز تیلا جو پہلے ہی اسی تاڑ میں تھے کہنے لگے کیا آپ نے یہ نہیں پڑھا کہ اولاد میں اور گاڑی میں وقفہ ضروری ہے . ان کا یہ کہنا ہی تھا کہ سب ساتھیوں کا قہقہ نکل گیا .

یوں ہم صبح نو بجے کے چلے ہوئے دوسرے دن کی سحری کے وقت گھر پہونچے . دن کا کچھ حصہ سونے میں اور کچھ باتوں میں گزر گیا . اسی رات نماز تراویح کے لیے مسجد گیا تو بعد نماز تراویح ایک مولانا کی تقریر سنُی جو اس غرض سے تقریر فرما رہے تھے کہ ہمارے ہاں متاثرین زلزلہ خیمہ زن ہیں جن کے لیے کپڑے اور بستر وغیرہ چاہیے . مولانا ریلیف لینے چکوال سے کشمیر تشریف لائے تھے اور جو واعظ فرما رہے تھے اس میں حسب روایات طوالت کے لیے (کیوں کے اکثر مولوی بات کی گہرائی کو لمبائی سے پورا کرتے ہیں) بار بار یہ الفاظ دھرا رہے تھے جب لوگ اللہ کے نافرمان ہو جاتے تو اُن پر عذاب نازل ہو جاتا ہے . اُدھر فحاشی پھیل چکی تھی لوگ نافرمان ہو چکے تھے اس لیے زلزلہ آیا ہے . اب مولانا کشمیر سے کشمیریوں کے لیے چندا جمع کر رہے تھے اور ساتھ ہی کشمیریوں کو موردالزام ٹھہرا رہے تھے . تب ہمارے ایک دوست چودھری محمود شاہد (اللہ اُن پر اپنی رحمت فرمائے ، آج ہم میں جسمانی طور پر موجود نہیں ہیں ) جو پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے اُنہوں نے مولوی صاحب پر ایک سوال کیا، کہ مولانا صاحب بتائیے گا کے زلزلہ نظامِ قدرت ہے یا کے عذاب قدرت ہے ! اور اگر یہ عذاب قدرت تھا تو پھر کشمیر کے دوسرے اضلاع پر کیوں نہیں آیا . آزاد کشمیر تو سارا ایک جیسا ہے . تب مولانا صاحب اپنے سفید چٹے دانتوں کا درشن کراتے ہوئے کہنے لگے او جی آپ تو ماشاء اللہ وکیل ہیں میں آپ کو کیا بتاؤں.
دوسرے دن کی صبح تک ہم فریش ہو چکے تھے نارمل تیاری کے بعد ہم سکول گے. اسٹاف سے ملے اور اُن کو بھی پوری داستانِ سفر اور روئیداد زلزلہ سنائی. بچے (سٹوڈنٹس ) بھی ہماری باتیں سُن رہے تھے . اس وقت ہمارے پاس سینئر کلاس ساتویں تھی ہم نے وہ نوٹ بک ان کو دکھائی جو ہم وہاں سے ساتھ لائے تھے. ہم مصروفیات کے باعث وہ نہ پڑھ سکے تھے. جب وہی نوٹ بک ہمارے سکول کی ٹیچر نے دیکھی تو اُس کی آنکھیں پُرنم ہو گئیں. تھوڑی دیر اور نوٹ بک دیکھتے رہنے کے بعد آبدیدہ آنکھیں خشک کرتے ہوئے کہنے لگی سر (sir) کیا آپ جانتے ہیں کے اس بچی کو 9 اکتوبر کے لیے کیا ہوم ورک ملا تھا ? ہم نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا نہیں . تب اُس نے وہ کیوسچن دکھایا جس کا جواب بچی نے 9 اکتوبر 2005 کو لیکھ کر چیک کروانا تھا کہ " زلزلے کیوں آتے ہیں ".

Gulzaib Anjum
About the Author: Gulzaib Anjum Read More Articles by Gulzaib Anjum: 61 Articles with 62118 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.