امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی
آئی ٹی کمپنی ’’ایگزیکٹ‘‘ کے بارے میں رپورٹ نے ملک بھر میں ایک تہلکہ مچا
دیا ہے اور پورا پاکستانی میڈیا اور عوام پورے زور و شور کیساتھ ’’ایگزیکٹ‘‘
کمپنی کی جعلسازیوں کے بارے میں رپورٹس میں اس قدر دلچسپی لیتے نظر آ رہے
ہیں جیسے پاکستان میں موجود دوسرے تمام مسائل سرے سے ختم ہو کر رہ گئے ہیں،
ماہ جون میں پاکستان میں نئے لانچ ہونے والے ایک بڑے میڈیا گروپ کا براہ
راست تعلق مذکورہ کمپنی ’’ایگزیکٹ‘‘ کے ساتھ ہے، ایسا کیوں ہوا کہ عین اس
بڑے میڈیا گروپ کی لانچنگ سے چند دن قبل ہی ایک سکینڈل منظر عام پر لایا
گیا اور پاکستان کا ایک بڑا میڈیا گروپ اس کے خلاف جاری ’’جہاد‘‘ میں اس حد
تک جا چکا ہے کہ اسے دیگر ملکی مسائل نظر ہی نہیں آ رہے، بجلی کا بحران،
گرمیوں میں بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ، بلدیاتی انتخابات، جوڈیشل کمیشن اور عام
انتخابات، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے بڑے مسائل سے پوری پاکستانی قوم کی
توجہ یکسر ہٹائی جا چکی ہے، یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگر ’’ایگزیکٹ‘‘ نامی
کمپنی واقعی جعلی ڈگریوں کے کاروبار میں ملوث ہے تو اس کی غیر جانبدارانہ
تحقیقات ہونی چاہئیں اور ایسا کرنے والے مجرمان کو قرار واقعی سزا ملنی
چاہئے، حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے سنجیدہ لوگ حالیہ واقعے پر گہری
سوچوں میں گم ہو گئے ہیں کہ آخر ایک دم ’’ایگزیکٹ‘‘ کمپنی کا سکینڈل منظر
عام پر آنا کس بات کا غمازی ہے؟ کہیں مذکورہ سکینڈل کو منظر عام پر لاکر
پاکستانی عوام کی توجہ دیگر مسائل اور معاملات سے ہٹانا مقصود تو نہیں؟
قارئین کرام! ایک اور بات یہاں انتہائی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ کمپنی کا آنے
والے میڈیا گروپ کو ماضی میں بھی پاکستان کے ایک بڑے میڈیا گروپ نے مختلف
ہتھکنڈوں سے اپنی لانچنگ سے روکے رکھا، یہاں تک کہ سپریم کورٹ آف پاکستان
کے ذریعے اس میڈیا گروپ کو روکنے کی سر توڑ کوششیں کی گئیں، آیا کہیں
پاکستانی میڈیا پر اجارہ داری قائم رکھنے کیلئے پاکستان کے اب تک سب سے بڑے
’’میڈیا گروپ‘‘ نے یہ ڈرامہ تو نہیں رچایا؟ پاکستان کے ایک نامور اخبار کی
فرنٹ صفحہ دیکھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج کل اس کی صحافت صرف ایک
کمپنی کے کرتوت منظر عام پر لانے تک ہی محدود ہے، مذکورہ اخبار کے فرنٹ
صفحہ پر 90 فیصد خبریں اوپر ذکر کئے گئے سکینڈل کی ہیں، میں ایک بار پھر یہ
بات دوہرانا چاہتا ہوں کہ ’’ایگزیکٹ‘‘ کمپنی اگر جعلی ڈگریوں کے کاروبار
میں ملوث ہے تو اس کے خلاف موثر کارروائی ہونی چاہئے لیکن اس بات کا پتہ
چلوانا بھی انتہائی ضروری ہے کہ دو بڑے میڈیا گروپس کی آپس کی جنگ میں
تیسرا فریق کون ہے اور اس کے کیا مفادات ہیں؟ پاکستانی حکومتی مشینری کا
پوری قوت کے ساتھ ’’ایگزیکٹ‘‘ کمپنی کے خلاف ’’جُت‘‘ جانے کے پیچھے کوئی
سازش یا ٹارگٹ پوشیدہ تو نہیں؟
قارئین کرام! یہ بھی ممکن ہے کہ ’’ایگزیکٹ‘‘ کمپنی کے خلاف ڈرامہ رچا کر پس
پردہ کوئی بڑی گیم کی جائے تاکہ عوام کی توجہ ایک جانب مبذول رہے اور فائدہ
اٹھانے والے اپنے مقاصد میں کامیاب و کامران ہو جائیں، آنے والے میڈیا گروپ
اور ’’ایگزیکٹ‘‘ دونوں کمپنیوں کے ڈائریکٹرز ایک ہی ہیں ۔۔ اگر تحقیقات میں
یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ’’ایگزیکٹ‘‘ کمپنی جعلی ڈگریوں کے کاروبار میں
واقعتا ملوث ہے تو اس صورت میں اس کے میڈیا گروپ کے لائسنس معطل ہو سکتے
ہیں اور اگر مذکورہ کمپنی جعلی ڈگریوں کے کاروبار میں ملوث ہے تو اس کے
خلاف سخت سے سخت کارروائی کرتے ہوئے اس کے آنے والے میڈیا گروپ کے مقاصد کی
جانچ پڑتال بہت ضروری ہے ، اگر ’’بول‘‘ نیٹ ورک پاکستانی میڈیا میں اپنے
مخصوص مقاصد اور اہداف کے ساتھ داخل ہو رہا ہے یا اس سے ملکی سلامتی کوکوئی
مسئلہ در پیش ہے تو اس کے خلاف بھی ضرور کارروائی ہونی چاہئے تاکہ آنے والے
وقت میں مختلف مسائل سے بچا جا سکے، فی الحال ایسا لگتا ہے کہ’’بول کا ڈھول‘‘
جو بجایا جا رہا ہے وہ دو بڑے میڈیا گروپس کی آپس کی لڑائی ہے جس میں ایک
گروپ یہ چاہتا ہے کہ آنے والے میڈیا گروپ کو کسی بھی طرح لانچنگ سے روکا جا
سکے اس لئے قوم کو چاہئے کہ وہ اپنی تمام تر توجہ ’’ایگزیکٹ‘‘ پر مرکوز
کرنے کی بجائے اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھے اور دیگر حالات و واقعات پر
بھی گہری نظر رکھے ، خاص طور پر بلدیاتی انتخابات ۔۔۔ اور مجھے بحیثیت
پاکستان قومی امید ہے کہ انشاء اﷲ پاکستانی تحقیقاتی ایجنسیاں غیر جانبداری
کے ساتھ حالیہ واقعے کی تہہ تک پہنچ جائیں گی اور ملک و قوم کو حقائق سے
باخبر کریں گی۔۔۔ آخر میں کراچی سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک دوست وسیم
نقوی کا ’’زعفرانی‘‘جملہ کہ ’’میمو گیٹ اور دھرنے کے بعد اب قوم کو Axact
کی بتی کے پیچھے لگایا جا رہا ہے‘‘۔ |