جیسا کہ ہم نے آپ سے وعدہ کیا تھا.کہ ہم وقتا فوقتا مختلف
موضوعات کے حوالے سے اس مدعا پر بحث کریں گےاور جو بھی معلومات ہمیں اس
بارے میں ہیں وہ آپ سے شیئر کریں گے.تو آج آپکے سامنے ہم حجاب کی ضرورت اور
اسکی اہمیت کے حوالے سے بات کریں گے.اور حجاب کے متعلق احکامات کا بھی
سرسری جائزہ لیں گے.
اس ضمن میں سب سے پہلے ہم ایک حدیث پیش کرنا چاہیں گے.
یہ حدیث مولانا جلیل احسن ندوی کی کتاب زاد راہ مجموعہ ء احادیث میں بیان
کی گئ ہے.جو اسلامک پبلشرز کے زیر اہتمام شائع کردہ کتاب ہے.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ جو خود بھی ایک جلیل القدر صحابی تھے
رسول اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں.کہ"آپ نے فر
مایا..ابن آدم کے لیئے اسکا حصہء زنا طے شدہ ہے جسے وہ ضرور پائے گا،
شہوت کی نظر سے دیکھنا آنکھوں کی زنا ہے،
شہوانی باتیں سننا کانوں کی زنا ہے،
اس موضوع پر گفتگو کرنا زبان کی زنا ہے،
پکڑنا ہاتھ کی زنا ہے،
اسکے لیئے چل کر جانا پیروں کی زنا ہے،
خواہش اور تمنا دل کی زنا ہے،
اور شرمگاہ یا تو عملا زنا کر گذرے گی یا رک رہے گی"
اسکے علاوہ ابو داؤد اور مسلم میں بھی ایک روایت میں اسے یوں بیان کیا گیا
ہے کہ
" اور دونوں ہاتھ زنا کرتے ہیں،انکا زنا پکڑنا ہے،دونوں پیر زنا کرتے ہیں
اور انکا زنا چلنا ہے،اور بوسہ لینا منہ کا زنا ہے"
یہ احادیث بہت اہمیت کی حامل ہیں.اس میں بنیادی طور پر یہی بات واضح کی گئ
ہے کہ آدمی بہتر تو یہی ہے کہ دل میں برے خیالات کی پرورش نہ کرے کیونکہ دل
انسانی اعضاء میں ایک حکمران کی حیثیت رکھتا ہےاگر کوئ برا خیال دل میں آئے
اور آدمی اسکو پالتا رہے تو پھر گناہ کرنے سے اسے کوئ روکنے والا نہیں
کیونکہ جب دل ایسے کسی خیال کی پرورش کرے گا تو تمام اعضاء اسکی خواہش کو
پورا کرنے میں لگ جائیں گے.اسلیئے سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اگر کوئ برا
خیال آئے تو اسکو بزور ہٹانے کی کوشش کرنی چاہیئے.
اس کے ظاہری مطلب سے مایوس ہونے کی چنداں ضرورت نہیں.کہ زنا سے اب کیسے بچا
جاسکتا ہے اسکا حصہ تو ہر آدمی کی تقدیر میں لکھ دیا گیا اور بھلا تقدیر کا
لکھا بھی کوئ مٹا سکا ہے.بلکہ مسلہ یہ بیان ہورہا ہے کہ اگر آدمی اپنی صیح
تربیت ایمانی کرے تو زنا اور دوسرے جرائم سے خود کو بچا سکتا ہے
اور ایک بات اور واضح ہے وہ یہ کہ زنا کے یہ مقدمات بھی زنا کے ہی زمرے میں
آتے ہیں اسلیئے کسی عورت پر شہوانی نظر ڈالنے سے،شہوانی گفتگو کرنے اور
سننے سے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے.اگر ان باتوں
سے بچا جائے تو برائ کے آخری نقطے تک نہیں جائے گا.یہ بات بھی قابل غور ہے
کہ برے خیالات بھی دل میں پالنے پر مواخذہ ہوگا-
ذرا آس پاس نگاہ تو ڈالیئے اس حدیث کی روشنی میں آپ کو بہت سے سوالات کے
جوابات خود مل جائیں گے.یہ باتیں ہمارے معاشرے میں عام ہوگئیں ہیں بہت سی
جگہ تو انہیں محفل کے آداب کا بھی درجہ حاصل ہے.آج کل ملتے اور رخصت ہوتے
وقت مرد وعورت کی تمیز کیئے بغیر الوداعی بوسہ دینا بھی اس میں شامل ہے.اور
کسی حد تک اس حدیث مبارکہ نے پردے کی ضرورت اور اہمیت کو بھی واضح کردیا
ہے.زنا بہرحال ایک خطرناک گناہ کبیرہ ہے.اور اس سے بچنا ہر مسلمان مردوعورت
کی اولیں ذمہ داری ہے.جیسے مردوں کے لیئے اپنی نظر نیچے کرنے اور بھی دوسرے
احکام ہیں اس سلسلے میں ایسے ہی عورتوں کے لیئے بھی پردے کی شرائط مختلف
صورتوں میں عائد کی گئیں ہیں.تاکہ وہ دست دراندازی سے بچ سکے اور اسکے لیئے
اپنی عزت اور عصمت کی حفاظت قدرے آسان ہو.درست معلومات کا فقدان الجھنیں
پیدا کرتا ہے.یہی بات ہے کہ میری بہت سی بہنیں پردے کی ضرورت کو ایک
دقیانوسی اور زبردستی مسلط کی جانے والی روایت قرار دیتی ہیں جبکہ دیکھا
جائے تو یہ انکے تحفظ کے لیئے ہی ہے اور اسلامی معاشرے کا اصل حسن بھی
روشن خیال ہونا کوئی برائ نہیں مگر اتنی حد تک کہ اپنی اسلامی اقدار سے
ہاتھ دھو بیٹھو تو مناسب نہیں یاد رکھیئے جو قومیں اہنی تہذیب اور روایات
چھوڑ کر دوسروں کی اقدار اپنانے کی کوشش کرتی ہین انکا اپنا وجود تاریخ کے
صفحات سے مٹ جاتا ہے.
پردہ مسلمان عورت کا قلعہ اور حصار ہے. عورت جب تک پردے میں رہتی ہے محفوظ
اور پرسکون رہتی ہے اسلام میں پردے کے احکام ہر طرح کی افراط اور تفریط سے
پاک ہیں-
فواحش بدکاری، زنا اور اسکے مقدمات دنیا کی ان مہلک بیماریوں میں سے ہیں
جنھوں نے پوری کی پوری قومیں برباد کردیناور دنیا میں قتل و غارت کے اکثر
واقعات کے پیچھے بھی یہی وجہ کارفرما ہے یہی وجہ ہے کہ عورت کو اکثر معاشرے
کے لیئے ایک فتنہ کا درجہ بھی دیا جاتا ہے..جبکہ اسکے پیچھے ہماری اپنی
معاشرتی کمزوریاں کارفرما ہین.یورپین اقوام نے اپنی مزہبی روایات اور اقدار
کو یکسر بدل کے زنا کو جرائم کی فہرست سے نکال دیا اور تمدن معاشرت کو ایسے
سانچوں میں ڈھال دیا جس ہر قدم پر فحاشی عام ہو مگر اسطرح وہ اسکے ثمرات سے
محفوظ نہیں رہ سکے.اسکے برخلاف اسلام نے ان چیزوں کو انسانیت کے جرم اور
مضر قرار دیا ہے.اگر کوئ عمل ایسا ہو جس سے معاشی فوائد کم اور فساد زیادہ
پیدا ہورہے ہوں تو اسکو نافع کہنا کوئ دانشمندی کا کام نہیں.
قرآن کریم میں اس بارے مین کھلا بیان ہے کہ
"ماجعل عليكم فى الدين من جرج"
دین میں تمہارے اوپر کوئ تنگی نہیں ڈالی گئی
القرآن
پردے کا حکم شرعی ہے جس سے روگرانی اللہ کے حکم سے انکار ہے جسکی مطلق
گنجائش نہیں.ترک پردہ اگر کسی علاج کے سبب ہو یا اور کسی ضرورت کے یا کسی
معصوم کے ساتھ معاملہ ہو تو اس سے اسکی اصل حرمت پر کوئ اثر نہیں پڑتا یہ
مسلہ اوقات اور حالات سے بھی متاثر نہیں ہوتا.دوسرے یہ کہ عورت کے لیئے گھر
کی چاردیواری میں رہنے کی شرائط اتنی بھی سخت نہیں وہ اپنی ضرورت کے تحت
برقع یا لانبی چادر سے خود کو ڈھانپ کر گھر سے باہر نکل سکتی ہیں دور نبوی
میں بھی عورتوں کو مسجد میں پردے کے ساتھ آنے کی اجازت دی گئ تھی.حالانکہ
ترغیب یہی تھی کہ گھر میں اسکی ادائیگی نماز زیادہ احسن ہے.مگر چونکہ اس
وقت فتنہ کا خوف معدوم تھا اسلیئے اجازت مرحمت فرمائ گئ.لیکن جب صحابہ کرام
رضی اللہ تعالی کے دور میں حالات بدلے تو اس پعر پابندی عائد کردی گئ.حجاب
کے نزول سے پہلے بھی عورتوں اور مردوں میں بے محابہ اختلاط اور بے تکلفی کا
رواج شریف اور نیک خاندانوں میں نہیں تھا.دیکھیئے حضرت موسی کے سفر مدین کے
وقت جن عورتوں کا اپنی بکریوں کو پانی پلانے کےلیئے الگ رک کے کھڑے ہونے کا
ذکر ہے اسکی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ باحیا عورتیں تھیں اور انھوں نے اپنی
ضرورت کے پیش نظر بھی مردوں کے ہجوم میں گھسنا گوارا نہیں کیا-
اسکے علاوہ جامع ترمذی میں حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا جنکے نکاح کے
وقت حجاب کی پہلی آیت نازل ہوئ انکی نشست کی صورت بھی یہی بیان کی گئ کہ وہ
اپنا رخ دیوار کی طرف پھیرے ہوئے بیٹھی تھیں.
حق تعالٰی نے عورت کی جسمانی تخلیق کو مردوں سے ممتاز رکھا ہے جو اس میں
فطری اور طبعی حیا کا پردہ خود بخود پیدا کرتی ہے اور جو قومیں آج اسکے
خلاف ڈھنڈورا پیٹ رہی ہیں ان میں بھی قدیم زمانے میں یہ صورت نہیں تھی جو
آج ہے.
پردہ کا یہ حکم جو تاحال جاری ہے ہجرت نبوی کے بعد ھ۵ میں جاری ہوا-
اور جو پہل آیت اس بارے میں نازل ہوئ جس پر علمائے کرام کا بھی اتفاق ہے وہ
یہ ہے
"لاتن خلو ابیوت اللنبی"
یہ آیت حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا اور حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
میں داخلہ کے وقت نا زل ہوئ.
آیت مذکورہ میں عورتوں کو پردہ مین رہنے کا حکم دیا گیا اور مرودں کو بھی
حکم ملا کہ اگر ان سے کوئ چیز مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگیں.
اسکے علاوہ قرآن کریم میں پردہ نسواں سے متعلق سات آیتین نازل ہوئیں.چار
سورہ احزاب میں اور تین سورہ نور میں
شرائع کے وجود سے پہلے بھی جب جنت میں شجر ممنوعہ کھالینے کے باعث حضرت آدم
و حوا علیہ اسلام کاجنتی لباس اتر گیاتو اس وقت کی ستر کھلا رکھنے کو جائز
نہین سمجھا گیا.اور اسکے لیئے انھوں نے جنت کے پتے سے بدن ڈھانپنے کو ترجیح
دی گئ.اگر آپکا جسم صیح طور سے ڈھکا نہیں ہے بھلے اس وقت آپ کی تنہائ میں
کوئ مخل نہ ہو تب بھی نماز جائز نہیں ایسی نماز بھی فاسد ہوجاتی ہے.سو اس
سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حکم خلوت اور جلوت دونوں کے لیئے ہے.
شریعت اسلامیہ ایک مکمل اور جامعہ نظام ہے.جس میں انسانوں کی تمام ضروریات
کو مدنظر رکھا گیا ہے تو پہلا درجہ تو قرآن و سنت کی روشنی میں یہی ہے کہ
عورتیں گھر کی چار دیواری سے باہر نہ جائیں لیکن ایسا بہرحال ممکن نہیں کہ
کہیں نہ کہیں کوئ ایسی ضرورت پیش آجاتی ہے جس کے نتیجے میں گھر سے باہر
نکلنا پڑے اسکے لیئے قرآن میں پردے کا دوسرا درجہ ہے.کہ سر سے پاؤں تک خود
کو لانبی چادر سے ڈھانپ کر نکلیں.
تیسرا درجہ یہ کہ جو بعض روایات سے مفہوم ہے کہ عورتیں جب گھروں سے
نکلیں.تو وہ اپنا چہرہ اور ہتھیلیاں بھی لوگوں کے سامنے کھول سکتیں ہیں
بشرط سارا بدن اچھی طرح ڈھکا ہوا ہو.
لیکن ان درجات کے متعلق علمائے کرام اور اکابریں کی رائے اور تجاویز مختلف
ہیں.ان میں مسالک کا فرق بھی آجاتا ہے.
انشاء اللہ ہم اپنے اگلےآر ٹیکل میں اسکا تفصیلا جائزہ لیں گے.اور ایک بار
پھر یہی کہیں گے کہ ہمارا دین آسانی کا دین ہے.اور اس میں مردو عورت کے
یکساں احکام ہیں. آپ اسکے اتباع کو اپنی آزادی پر ضرب نہ سمجھیں.تاریخ گواہ
ہے کہ مسلمان عورتوں نے مردوں کے شانہ بشان ج تک میں حصہ لیا ہے. مردوں تک
کو تعلیم دی ہے.اولیاء کرام کے سلسلوں میں حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ
جیسی پاکباز عورت کا نام بھی آتا ہے.
بس کچھ مسائل ہیں کچھ احکامات ہیں پر وہ بھی اسلیئے کہ آپ اپنی حفاظت آسانی
سے کرسکیں.کوئ بندش نہیں. آپکے ہر سوال ہر اعتراض کا مفصل اور مدلل جواب
موجود ہے. بس رجوع کرنے کی دیر ہے.
اجازت دیجیئے - |