خاندانی منصوبہ بندی کے خوفناک نتائج

’’اکلوتا بیٹا نہاتے ہوئے دریائے راوی میں ڈوب گیا۔ ’’اکلوتا بیٹا ون ویلنگ کرتے ہوئے پھسل کرموت کے منہ میں چلا گیا‘‘۔ ’’اکلوتا بیٹا دوستوں کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔’’اکلوتا بیٹا اغوا کر لیا گیا۔‘‘آج ہی کی خبر، ’’اکلوتا بیٹا کراچی کی دہشت گردی کی نذر ہو گیا۔‘‘

یہ ہماری روزمرہ کی خبریں ہیں جن میں سے ہر دوسری تیسری خبر کے ساتھ اکلوتے بیٹے کے الفاظ عموماً دیکھنے کو ملتے ہیں۔بار بار یوں ’’اکلوتے بیٹوں‘‘ کے حادثات و اموات کی یہ خبریں پڑھ سن کر جہاں دل زخمی ہوتا ہے تو پریشانی بھی ہوتی ہے کہ والدین کا اکلوتا سہارا چھن گیا۔لیکن اب توبہت دفعہ حیرانی بھی ہوتی ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی دماغ میں بجلی کی طرح کوندنے لگتی ہے کہ یہ اکلوتے بیٹے اتنی بڑی تعداد میں آخر کہاں سے آ گئے ہیں……؟ اس کے جواب بہت ہیں ، لیکن اس کے دو پہلو اہم ہیں۔پہلا یہ کہ جس دنیا نے ہمیں اس راہ پر لگایا ان اپنا تو اسی وجہ سے اپنا جنازہ ہی نکلا پڑا ہے۔ سب سے پہلے یہ کہ یورپ نے عورت کو آزادی کے نام پر جس طرح رسوا کیا ،وہ بہت ہی عبرت انگیز ہے۔یہ لوگ کتنی خوبصورتی سے عورت کوآزادی کا شاندارنعرہ لگا کرعین عنفوان شباب میں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے اور پھر عمر ڈھلتے ہی لاوارث کی طرح پھینک دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں قدم قدم پر ایسی مثالیں دیکھنے کو ملیں گی۔ایسی ہر جگہ ہی صنف ناز ک جوانی کے چند سال استعمال کرکے اسے جس طرح کچرے کی شکل میں پھینک دیا جاتا ہے، اس سے تو کوئی سبق بھی نہیں سیکھتا۔

دوسرا پہلو آج ہمارے سامنے اس شکل میں ہے کہ بیشترلوگوں کی یہ فکر تشکیل پا چکی ہے کہ ’’بچوں کی تعداد کم سے کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہو ‘‘کہ زیادہ بچے مصیبت، پریشانی، بوجھ اور وبال ہیں۔ ہمیں جو لوگ آج یہ سبق پڑھا رہے ہیں ،یہی کام انہوں نے لگ بھگ ایک سو سال پہلے شروع کیا تھا۔ نتیجہ آج سامنے ہے۔ آج ہی خبر پڑھنے کوملی کہ فن لینڈ جیسے ایک انتہائی ترقی یافتہ وامیریورپی ملک میں جس کی فی کس آمدن پاکستان سے 20گناسے زیادہ ہے،حکومت نے اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں توانہیں خصوصی انعامات و مراعات ملیں گی ۔انہیں زمین دی جائے گی اور ایک بچے کی پیدائش پر10ہزاریورو)کوئی15لاکھ روپے)بونس ملے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’خاندانی منصوبہ بندی‘‘ پر عملدرآمد کے نتیجہ میں ان کے ہاں بچوں کی پیدائش اس قدر کم ہو چکی ہے کہ معاملہ منفی کی طرف جا رہاہے ۔

یہ معاملہ صرف فن لینڈ کے ساتھ ہی نہیں،دنیا کے ایسے درجنوں انتہائی ترقی یافتہ ملکوں میں سے اکثر کو اس بات کا خطرہ لاحق ہو چکا ہے کہ چند دہائیوں کے بعد ان کی نسل، قوم اور تہذیب ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔ سنگاپور، کوریا، جاپان، روس، آسٹریلیا ہی نہیں،یورپ کے بیشترممالک بلکہ اب تو ایران تک دن رات اپنے عوام کو انعامات و ترغیبات کے ساتھ اس بات پر قائل و مائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ آبادی بڑھانے کیلئے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں۔ حکومتیں بڑی بڑی مراعات کا اعلان کر رہی ہیں ۔ان ملکوں میں اب میڈیا پر دن رات اس بات کی ترغیب دی جا رہی ہے کہ ماں باپ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں۔آسڑیلیا میں حکومت نے ایک مہم شروع کر رکھی ہے جس میں کہا جا رہا ہے کہ ،ایک بچہ ماں کے لئے، ایک باپ کے لئے اور ایک ملک و قوم کے لئے۔حکومت اس کوشش میں ہے کہ کسی طرح بچوں کی پیدائش میں اضافی کیا جائے۔ کوریا نے حال ہی میں بتایا تھا کہ جس طرح ان کی آبادی کم ہو رہی ہے اس طرح چند دھائیوں بعد ان کا وجود بھی مٹ سکتا ہے۔ان سب ملکوں میں عوام کی منت سماجت کر کے بچے پیدا کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش جارہ ہے ۔ لیکن یہ حکومتیں اپنی خواتین کو چونکہ فطری اصولوں سے جنگ کرتے ہوئے زمام کار زمانہ اور زمام حکومت میں اس قدر ملوث کر چکی ہیں کہ ان کے لئے اب بچوں کی پیدائش ناممکن حد تک مشکل ہو چکی ہے تو حالت زار ہمارے سامنے ہے۔ان ملکوں میں اب بوڑھے کثرت سے ہیں اور بچے ان سے کہیں کم۔یہی تو وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ترین ممالک اب ترقی پذیر ممالک سے افرادی قوت درامد کرنے پر مجبور ہیں۔اسی بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حال ہی میں ترک حکومت نے خواتین کو زیادہ سے زیادی بچے پیدا کرنے پر انعامات اور مراعات دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ کیسا دلچسپ معاملہ ہے کہ ہماری آبادی کو کم سے کم کرنے والے ملکوں کوہم سے اتنی ہمدردی ہے کہ وہ اس’’ عظیم مشن‘‘ کے لئے بے پناہ فنڈز مہیا کر رہے ہیں ۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے چند روز پہلے ایک قرارداد جمع کرائی کہ ’’بڑھتی آبادی ایک ایٹم بم ہے، اس پر بحث ہونی چاہئے اور اس کو روکنے کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش ہونی چاہئے۔‘‘ حقیقت میں دیکھا جائے تو ہمارا اصل مسئلہ تو وہ کرپشن ہے جو ملک کا سارا مال و متاع کھا جاتی ہے اور غریب ،غریب سے غریب تر ہوتا جاتا ہے۔ملکی وسائل کی یکساں تقسیم کیسے ہو؟کرپشن کیسے ختم کی جائے ؟ہی بااختیار و باحیثیت سے ٹیکس کیسے پورا لیاجائے؟یہ مسئلہ کبھی ہمارے ایوانوں میں زیر بحث نہیں آتا۔آخر کیوں؟

بحر حال اس قرارداد کے آنے کے ساتھ ہی میڈیا میں اس مہم کو پروان چڑھانے اور آگے بڑھانے کیلئے کروڑوں روپے کے اشتہارات شائع ہونا شروع ہو گئے۔ہمارے لوگ پہلے ہی خوش تھے کہ پاکستان کی 38فی صد خواتین خاندانی منصوبہ بندی کے مشن پر عمل پیرا ہیں۔ جس طرف دیکھو،بچے اب دو ہی نظر آئیں گے۔مکان کرایہ پر لینا ہو تو دو سے زیادہ بچوں والوں کو مکان لینا مشکل ہو جاتا ہے۔ہم بھی کیسی عجیب قوم ہیں کہ کافروں کی نقالی میں ان سے ہمیشہ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن آج ہم ان کی جو نقالی کر رہے ہیں، وہ تو انہوں نے سو سال پہلے اپنائی اور تو وہ اس کااتنا خوفناک انجام بھگت رہے ہیں کہ جو انہیں جنگ عظیم اول و دوم بھی نہ پہنچا سکی تھی۔ اب وہ اس کے تدارک کیلئے الٹی چال چل رہے ہیں۔ان کی عورتیں قرآن اٹھائے اسلام کے سایہ رحمت میں پناہ لیتی نظر آتی ہیں تو ہم بالکل دوسری سمت میں چلتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں آخر اب نقالی کیوں نہیں……؟ عالمی شہرت یافتہ تحقیقاتی ادارے ’’پیو ریسرچ سنٹر‘‘ نے 23اپریل2015کی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ مسلمانوں کی شرح پیدائش دوسرے سبھی مذاہب کی نسبت آج بھی بہتر ہے، وہ اسی شرح پیدائش کی وجہ سے 2070ء تک دنیا کا سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا مذہب بن جائے گا۔آج اس اضافے کو روکنے کے لئے ہی سب سے زیادہ مہم بھی جاری ہے ۔چونکہ ہمارے قرآن اور پیارے نبی محمد کریم ﷺ کے فرمان میں جگہ جگہ بچوں کی پیدائش اور کثرت کی تعریف و توصیف کی ترغیب آئی تو مسلمان (گنتی ہی کے سہی) اس کا کچھ لحاظ رکھتے ہیں اور اس کی برکات سب سے سامنے ہیں۔ یورپ ،امریکہ اور دیر ایسے ممالک میں مسلمانوں کی آبادی اور تعداد بڑھنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں اب سب سے زیادہ مسلمان ہی جا رہے ہیں۔ہمیں یاد رکھنا چایئے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا کہ’’ مفلسی کے ڈر سے بچوں کو قتل نہ کرو کہ ہم ہی تمہیں اور انہیں رزق دیتے ہیں۔‘‘

پیارے نبی ﷺ نے بھی فرمایا کہ’’ زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو کہ میں قیامت والے دن اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا۔‘‘ (ابوداؤد)

یہی دین فطرت تھا…… اسی کی گواہی آج سارا زمانہ دے رہا ہے لیکن ہمارا حال تو ’’میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا‘‘سے بھی بدتر ہو گیا ہے۔اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ہر طرف صرف اکلوتے ہی اکلوتے پیدا ہورہے ہیں اور ہم آئے روز اکلوتوں کی ایسی ہی خبریں پڑھ کر مغموم و مسموم ہوتے جاتے ہیں لیکن فطرت سے جنگ ختم نہیں کرتے …… کیا ہم 50سال بعد اس راہ پر آئیں گے جب ہم بھی انسانوں کی پیدائش کو ترس جائیں گے،اورہمارا یہ حشر یونہی ہی ہوتا رہے گا اور ہم کبھی بر وقت سبق حاصل نہیں کریں گے؟
Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 136888 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.