بوئے گل

امام الہند شاہ ولی اللہ الدھلویؒ کا شمار امت کے مجددین میں ہوتاہے ، تجدید دین کا کام امامت فی الدین سے بھی بڑھ کر ہے ، دین کی اصل صورت مرورِ زمانہ کے بعد امت کے سامنے پیش کرنا ہرکسی کاکام نہیں ہے ،بعض لوگ معلومات کی دیوار پر تجدید دین کی چھت ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ،مگر انہیں شاید نہیں معلوم کہ معلومات اور علم میں بڑا باریک فرق ہے ، معلومات اگر زیادہ ہی کچھ ہیں ،تو پھول کے ظاہری پتے ہیں ، جبکہ علم ان پتوں میں چھپی خوشبوہے ،رسوخ فی العلم نہ ہو تو تجدید کے دعوے بے سود ہیں،امام الہند کا ادبی مقام ان کے مذہبی مقام کی وجہ سے پس منظر میں چلاگیاہے ،ان کی کتاب ‘‘ أطیب النَّغَم فی مدح سید العرب والعجمﷺ ’’ کا اگر عربی رثائی اور منقبتی ادب کے شہ پاروں سے موازنہ کیا جائے، تو ہمارے خیال میں یہ امرؤالقیس اور لبیدؓ وغیرہ کی ‘‘سبع معلقات’’ کے پائے کی شاعری ہے ، اب اس تناظر میں اگر ان کی ادبی شخصیت کا مطالعہ کیا جائے ، تو انہیں عربی زبان وادب کا بھی امام کہاجاسکتاہے ،ہمارے خیال میں ‘‘شاہ فیصل ادبی ایوارڈ’’ اگر شاہ صاحب کے زمانے میں ہوتا ،تو وہ اس کے اولین مستحق قرارپاتے ۔ آپ کو عربی ادبیات کا ذوق اگر ہے اور پھر آپ ‘‘ أطیب النَّغَم ’’ پڑھتے چلے جائیں ،تو بعید نہیں ہے کہ اسی نتیجے پرآپ بھی پہنچ جائیں،جس کا ہم دعوی کررہے ہیں ۔

اب آپ ‘‘أطیب النَّغم’’ کے مترجم وشارح شہیدِ اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کا ان مشکل ترین اشعار پر دقیق کام دیکھیں ، ترجمہ کی باریکی ملاحظہ فرمائیں، مختصر مگر جامع تشریحات،جو جابجا ہیں،وہ پڑھیں ،اس سے آپ کو حضرت لدھیانوی کا تبحر علمی اور عربی زبان وادب کی گہری شناوری کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا، کچھ لوگ تراجم وتشریحات کی مدد سےکوئی کتاب پڑھا لیتے ہیں ،بعض لوگ عربی محاورات، تعبیرات واستعارات کا رٹّہ لگالیتے ہیں ، اور جاوبے جا استدلال کرتے ہوئے باور کراتے ہیں کہ ہم عربی کے بے مثل ماہرہیں ،شاید ہوتے ہوں گے،لیکن دنیا صرف اسے نابغہ مانے گی ، جس نے ضرورت کے مطابق کارنامہ انجام دیاہو،موصوف ان رجال میں سے تھے کہ جب ضرورت پڑتی ،وہ میدان میں آتے اور حسب ضرورت نبوغ اور کمال دکھاتے۔ میں نے حضرت شہید کے کئی مضامین ومؤلفات پر کام کیا ،ہر جگہ اندازہ ہو اکہ اِعراب میں ،ترجمہ میں ، تعبیر میں بوئے گل (عِلمیت)کام دکھارہی ہے ، گہرے سمندر کی تہہ میں جاکر یکتا موتی ہاتھ میں لیئے نمودار ہوتے ہیں ، اسی لئے میری ذاتی رائے میں وہ امام الہند کی طرح اپنے زمانے کےایک ممتازعربی دان تھے،ان کی متعدد تصنیفات اس کی شاہدِ عدل ہیں ، اور میں اپنی یہ رائے ان کے عربی زبان وادب میں مہارت کی بنیاد پر قرآن وحدیث ،فقہ وعقائد میں ان کی تیربہدف اور ‘‘سہل ِممتنع’’ عبارتوں کی وجہ سے قائم کرنے پر حق بجانب ہوں ،علمی رسوخ کے بغیر اپنے آپ یا اپنے بزرگوں کے حق میں مجددیت اور امامت کازعم و دعوی عُجب اورحسنِ ظن تو ہو سکتا ہے، حقیقت ہرگزنہیں۔اور علمی رسوخ کا پتہ چلتاہےعربی زبان وادب میں تبحر واستغراق سے۔گویا معاملہ کچھ اس طرح ہے۔
درسخن مخفی منم چوں بوئے گل دربرگِ گل
ہر کہ دیدن میل دارد درسخن بیند مرا

اسی بوئے گل کو بھانپتے ہوئےحضرت بنوری ؒنےانہیں اپنا‘‘ہم نام وہم کام’’اورڈاکٹر عبد الحی عارفی مرحوم نے ‘‘سخن داں’’کا خطاب دیاتھا۔

ختمِ نبوت کے حوالے سےعلامہ انورشاہ کشمیری ؒ کی مایہ نازاور لطیف فارسی تصنیف‘‘خاتم النبیینﷺ’’کے اردو ترجمے کامعاملہ جب نابغۃ الأدب العربی حضرت بنوری کے سامنے آیا،تو ان کی نگاہِ انتخاب انہی پر ہی آکر کیوں ٹہری،ذرہ دیکھیئے وہ کیا فرماتے ہیں: ‘‘کہ اس کتاب سےعلوم ِ انوری کے جواہراپنی پوری تابانی کے ساتھ ظاہر ہوں ،ہر شخص نہ اس کی تہوں تک پہنچ سکتا تھا اور نہ یہ علوم اسکے قبضے میں آسکتے تھے،اس کے لئےحسب ِذیل امور کی ضرورت تھی:
(1) عام فہم شستہ اردو زبان میں ترجمہ کیاجائے ۔(2) مترجم ذکی ومحقق عالم ہو، علمی اشارات ولطائف کو بخوبی سمجھتا ہو ۔ (3) حضرت امام العصر ؒ کے طرز تحریر سے مناسبت رکھتاہو ، اور اس کے سمجھنے کی پوری صلاحیت رکھتاہو۔ (4) قادیانیت کے موضوع سے دلچسپی رکھتاہو اور قادیانی مذہب کے لٹریچر سے پوری طرح باخبر ہو ۔ (5) علمی دقائق کی تشریح پر اردو میں قادرہو اور قلمی افادات سے عوام کو مستفید بنانے کی قابلیت رکھتاہو۔ (6) تالیفی ذوق رکھتاہو ، تصنیفی ملکہ حاصل ہو ،تاکہ مناسب عنوانات سے مضمون کو آسان کرسکتاہو۔ (7) حضرت امام العصر ؒ سے انتہائی عقیدت ومحبت ہو کہ مشکلات حل کرنے میں گھبرانہ جائے اور غوروخوض سے اکتانہ جائے ۔ (8) محنت وعرق ریزی کا عادی ہو دردِدل رکھتاہو ، قادیانیت سے بغض ہو ۔ (9) اپنے علمی کاموں میں محض رضائے حق کا طالب ہو ، حب جاہ وثنأ سےبالاتر ہو ۔ (10)عام علمی مہارت اور دینی ذوق کے علاوہ ‘‘خصوصیت کے ساتھ عربیت وبلاغت کے سمجھنے کی قابلیت رکھتاہو ، اور معانی وبلاغت’’ کے نکتہ سنجیوں سے واقف ہو ۔عرصہ دراز سے احساس تھاکہ اسکے ترجمہ وتشریح کی ضرورت ہے ، جس وقت شباب تھا اور فرصت بھی تھی ، دماغ میں تازگی تھی اور عہد انوری کی صحبتوں کی یاد تازہ تھی اس وقت توجہ نہ کرسکا اور اس سعادت سے محروم رہا ، حالانکہ‘‘نفخۃ العنبر ’’ میں لکھ چکاتھا کہ خداکی قسم ! انوری علوم کے باغ وبہار اور وہبی علوم کا نمونہ اگر دیکھنا ہو تو رسالہ ‘‘خاتم النبیین ﷺ’’ ملاحظہ کیا جائے ۔الحمدللہ کہ یہ سعادت میرے ہم نام اور میرے ہم کام میرے مخلص رفیق کا ر مولانا محمد یوسف لدھیانوی کے حصہ میں آئی، جو اس ‘‘عشرۂ کاملہ ’’ سے متصف و باکمال ہیں ، اور اللہ تعالی کا شکر ہے کہ وہ اس ترجمہ وتشریح کے فرض سے نہایت کا میابی کے ساتھ عہدہ برآ ہوئے اور اس علمی ودینی خدمت کا حق اداکردیا ہے ’’(مقدمۂ خاتم النبیینﷺ باختصار)۔

ارے زر کی قدر زرگر وں ہی کے پاس ہوتی ہے،کوئی سمجھےتوحضرت بنوریؒ کی یہ تحریر جہاں لدھیانوی صاحب کے جامعِ کمالات ولطائف ہونے کی شہادت ہے،وہیں پر یہ ان کے لئےعربی زبان وادب کے عمیق سمندر میں تبحر،مہارت اور نبوغ کی ایک سندِ عالی بھی ہے، جس کوعصرِ حاضر کی بہت سی روایتی پی ایچ ڈیاں سلامِ عقیدت پیش کرتی ہیں۔مکتبۂ لدھیانوی کی طرف سے جدید اور شایانِ شان طباعت کے موقع پرمیں اللہ تعالیٰ کا شکرگذار ہوں کہ اس نے ان ہر دو متون وشروح پرمجھے نظرِثانی کی توفیق دی،جس سے ان اہل اللہ کی روحانی مجالس میں گویا شرکت نصیب ہوئی۔
بوئے گل لے گئی بیرون چمن راز چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غمّاز چمن
 
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 878516 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More