قیصرِ روم اپنے عالیشان محل میں
رونق افزا ہے، اس کا محل اس کی شان و شوکت کا مظہر ہے، اس کے محل کے مینار
و کنگرے دیکھنے والوں پر ایک ہیبت طاری کردیتے ہیں۔ قیصر کی اپنی شخصیت کے
ساتھ ساتھ اس کے رعب و دبدبے کی ایک وجہ اس کے عالیشان محل پر ایستادہ
کنگرے بھی ہیں جو میلوں دور سے نظر آتے ہیں اور دیکھنے والوں پر ایک رعب
طاری ہوجاتا ہے۔ لیکن آج ایک انتہائی انہونی بات ہوئی ہے آج قیصر روم کے
محل کے چودہ کنگرے اچانک بغیر کسی وجہ کے گر گئے ہیں۔ اور کسی کی سمجھ میں
نہیں آرہا کہ یہ کیوں ہوا ہے اور کیسے ہوا ہے؟۔ادھر ملکِ فارس (ایران) میں
بھی ایک عجیب و غریب واقعہ ہوا ہے۔آتش کدہ فارس کی وہ آگ جسے آگ کے پجاریوں
نے ایک ہزار سال سے مستقل روشن رکھا ہوا تھا آج وہ آگ اچانک بغیر کسی وجہ
کے بجھ گئی ہے،اور آگ کے پجاری حیران و پرشان کھڑے ہیں کہ آج ان کا خدا مر
گیا ہے۔ لیکن یہ کیسے ہوا اور کیوں ہوا؟ اس کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آرہی ہے۔
یہ دونوں واقعات ایک ہی دن رونما ہوئے ہیں کیا آج کوئی غیر معمولی دن ہے ؟
آج یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ آج کیا دن ہے اور کیا تاریخ ہے؟
آج دوشنبہ (پیر) کا دن ہے، ربیع الاول کی 12 تاریخ ہے(بعض روایات میں ۹
ربیع الاول بھی ہے) اور عیسوی تقویم کے مطابق یہ 20 اپریل 571ء ہے۔ آج کا
دن واقعی غیر معمولی ہے کیونکہ صدیوں سے سسکتی ہوئی انسانیت پر آج اللہ
تعالیٰ نے کرم فرمانے کا فیصلہ کیا ہے۔ آج رحمت ِ الہٰی کفر و الحاد و شرک
کے گھور اندھیروں کو مٹانے والی ہے۔ آج اللہ رب العزت اپنے نور کی کرنوں کو
اس دنیا میں عام کرنے کا فیصلہ کررہے ہیں۔ آج سردار قریش عبدالمطلب کے
مرحوم بیٹے عبد اللہ کے گھر ایک نومولود کی آمد ہوئی ہے۔ حضرت بی بی آمنہ
کے لعل کی دنیا میں آمد کے ساتھ ہی یہ جو غیر معمولی واقعات ہوئے یہ محض
اتفاق نہیں ہیں بلکہ دراصل یہ اعلان ہے اس بات کا کہ اب ہر قسم کے ظلم کا
خاتمہ ہوگا کفر و الحاد پرستی اور شرک بھی سب سے بڑے ظلم ہیں اب اس دنیا
میں کفر الحاد کا نظام نہیں چلے گا۔ قیصر روم کی عظمت کا دور اب گزرنے والا
ہے، اب انسانوں کو انسانوں پر ظلم کی اجازت نہیں دی جائے گی. اب حکمرانی کے
بجائے خلافت باللہ کا نظام چلے گا، آتش کدہ فارس کی آگ ٹھنڈی ہونے کا مطلب
یہ ہے کہ اب اس دنیا میں شرک کی بالادستی نہیں چلے گی، خالق کے بجائے مخلوق
کی عبادت کی اجازت نہیں دی جائے۔ خورشید رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
کرنوں سے باطل کے اندھیرے مٹ جائیں گے۔ وہ دنیا جو برائیوں میں ڈوب کر ایک
متعفن اور بدبو دار جگہ بن گئی تھی اب اس دنیا کے چمن کو آمنہ بی کے پھول
نے اپنی خوشبو سے ایک بار پھر مہکتا ہوا گلشن بنانا ہے
نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی پاک پر لکھنے کا شوق اپنی
جگہ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جب اپنی بد اعمالیوں پر نظر پڑی تو بے اختیار یہ
شعر یاد آگیا کہ
مجھ میں ان صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ثنا کا سلیقہ کہاں ۔ وہ شاہِ دو جہاں
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم وہ کہاں میں کہاں؟
ان صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مدح سرا خود خالق دوجہاں ۔ وہ شاہِ دوجہاں صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم وہ کہاں میں کہاں؟
دل و دماغ میں ایک جنگ جاری تھی دماغ کہتا تھا کہ اے بد بخت انسان تُو نے
اپنے اعمال کو دیکھا ہے؟تیری زندگی گناہوں میں بسر ہورہی ہے، تیری زندگی
میں دو رنگی ہے، تو گناہوں کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے تجھے کوئی حق نہیں ہے
کہ تو اُس پاک ہستی کے لئے کچھ لکھ جو کہ خود اللہ رب العالمین کا محبوب
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہے !بات تو ٹھیک تھی لیکن پھر دل نے کہا کہ مایوس نہ
ہو اللہ رب العالمین ہے اور رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم رحمت العالمین ہیں
کیا غم ہے جو تیری زندگی گناہوں میں بسر ہورہی ہے اللہ کی رحمت تو تیرے
گناہوں سے کہیں زیادہ بڑی ہے اور مایوسی تو گناہ ہے، اس کے علاوہ خود نبی
مہربان صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی تو رحمت ہی رحمت ہے محبت ہی محبت ہے
کیا عجب کہ رب العالمین اور رحمت العالمین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تیری خطاﺅں
سے درگرز کر جائیں! یہ خیال آتے ہی پھر سوچا کہ کم از کم یہ تو کرسکتا ہوں
کہ سیرتِ پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے جو کچھ میں نے سمجھا ہے اس وہی کچھ
لوگوں سے شئیر کرلوں شائد یہی نیکی میرے کام آجائے اور میرے لیئے آخرت کا
توشہ بن جائے شائد یہی ایک نیکی نجات کا باعث بن جائے۔ آئیے سیرت پاک صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ گوشوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
نبی مہربان صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ولادتِ باسعادت سے پہلے ہی آپ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کے والد محترم حضرت عبد اللہ کا انتقال ہوچکا تھا، عربوں کے
دستور کے مطابق شرفاء کے بچے ابتدائی عمر میں دائیوں کے سپرد کردئے جاتے
تھے تاکہ وہ ان کی پرورش دیہاتوں میں کریں۔ نبی مہربان صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کی ولادت کے بعد بھی دائیاں مکہ میں آئی ہیں، سب نے بڑے بڑے سرداروں
کے بچوں کو گود لیا ہے ،کہ سردارو ں سے بڑے انعام و اکرام کی توقع ہے۔ لیکن
آمنہ بی بی کے درِ یتیم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو کسی نے بھی گود نہیں لیا
ہے کیوں کہ ایک یتیم بچے کی ماں کسی کو کیا انعام دے سکے گی؟ اسی سوچ کے
تحت کسی نے نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کو گود نہیں لیا۔ ادھر دائی
حلیمہ بھی خالی ہاتھ ہیں کہ انکو بھی اتفاق سے کوئی بچہ گود نہیں ملا انہوں
نے سوچا کہ خالی ہاتھ جانے سے بہتر ہے آمنہ بی بی کے لعل کو ساتھ لیجاتی
ہوں، اور اس طرح نبی مہربان صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم دائی حلیمہ کی نگرانی
میں آجاتے ہیں اور یہیں سے بی بی حلیمہ کے اوپر رحمتوں کا نزول شروع ہوگیا,
انکی ایک اونٹنی جو کہ کمزور اور لاغر تھی جس کے تھنوں میں دودھ نہ
اترتاتھابھوک لگی تو بی بی حلمیہ کے شوہر اس کو دوھنے بیٹھے تو یہ دیکھ کر
انکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ آج اونٹنی کے تھن دودھ سے لبریز تھے
اور آج اس اونٹنی سے انہوں اتنا دودھ دوہا کہ خود بھی جی بھر کر پیا اور
بچوں کو بھی پلایا۔ مکہ آتے ہوئے دائی حلیمہ سعدیہ جس گدھیا پر سوار تھیں
وہ انتہائی کمزور اور لاغر تھی اور بمشکل تمام وہ قافلے کے ساتھ ساتھ چل
سکی تھی لیکن واپسی کئے سفر میں وہی گدھیا سب سے آگے آگے تھی اور دیگر
دائیوں کو کہنا پڑا کہ ” اے ابو ذوئیب کی بیٹی !ذرا ٹھہر یہ وہی گدھیا نہیں
جو آتے ہوئے مر مر کر قدم اٹھا رہی تھی اور اب اسقدر تیز رفتار ہوگئی۔ بی
بی حلیمہ سعدیہ جب گھر پہنچتی ہیں جو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے
تعلق کی بنیاد پر ان کے گھر میں بھی رحمتوں اور برکتوں کا نزول شروع ہوجاتا
ہے، ان کی بکریوں کے تھن دودھ سے لبریز ہوجاتے ہیں ،ان کے رزق میں کشادگی
پیدا ہوجاتی ہے۔ زرا غور کریں کہ کل آمنہ کے در یتیم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کو دائیوں نے محض اس لئے گود نہیں لیا، محض اس لئے نہیں اپنایا کہ اس میں
انہیں کوئی مالی منافع نہیں نظر آرہا تھا۔ دنیا کی نظر تو ظاہری مال متاع
اور فائدے پر ہوتی ہے اور آج بھی یہی صورتحال ہے، آج بھی معاشرے میں رجحان
ہے کہ آمنہ بی بی کے درِ یتیم کی تعلیمات کو اپنانا گھاٹے کا سودا سمجھا
جارہا ہے تعلیمات نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو رجعت پسندی اور قدامت
پرستی سمجھا جارہا ہے آج بھی دنیا صرف نقد فائدے کو دیکھ رہی ہے۔ کل مکے کی
وہ دائیاں غلطی پر تھیں آج نبی مہربان صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے
منہ موڑنے والے غلطی پر ہیں، سوچیں کہ کل نبی مہربان صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
سے تعلق کی بنا پر دائی حلیمہ سعدیہ کے گھر میں رحمتوں اور برکتوں کی بارش
ہوسکتی ہے تو آج بھی اگر ہم نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق
جوڑیں تو ہم پر بھی برکتیں اور رحمتیں نازل ہوسکتی ہیں، بات تو صرف تعلق
جوڑنے اور ایمان و یقین پیدا کرنے کی ہے۔ یہ سیرتِ نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کا ایک گوشہ ہے۔
اور یہ دیکھیں یہ ایک دوسرا گوشہ ہے۔ دعوت دین کا کام شروع کئے ہوئے دس برس
گزر چکے ہیں، مکہ میں دعوتِ حق کی مخالفت ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے۔ آپ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سوچتے ہیں کہ طائف کی طرف چل کر دعوت کا کام کرتے
ہیں، شائد کہ ان کے دل اللہ کے پیغام کو قبول کرلیں، لیکن وہاں تو معاملہ
بہت ہی سنگین اور افسوس ناک ہے۔ وہاں کے سرداروں نے نہ صرف دعوتِ حق کو بڑی
بے رحمی سے ٹھکرا دیا بلکہ طائف کے اوباش اور آوارہ لڑکوں کو آپ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے لگا دیا جو نبی مہربان صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر
آوازے کستے، پتھر مارتے جاتے تھے۔ اور انہوں نے اس قدر پتھر برسائے کہ آپ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے جوتے خون سے بھر گئے، چلنا دوبھر ہوگیا ،چلتے
چلتے بستی کے کونے میں ایک باغ تھا، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم باغ میںداخل
ہوتے ہیں تو کہیں ان شریروں سے جان چھوٹی، یہاں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے اللہ کی بارگاہ میں دعا مانگی اور کیا ہی خوبصورت دعا ہے اور کیا ہی
خوبصورت الفاظ ہیں۔”اے اللہ میں اپنی ناطاقتی اور بے چارگی اور لوگوں میں
اپنی ہوا خیزی کی فریاد تجھی سے کرتا ہوں، اے ارحم الراحمین! تو ہی
ناتوانوں کی پرورش کرنے والا اور تو ہی میرا پروردگار ہے۔ تُو مجھے کس کے
حوالے کرتا ہے؟ کیا کسی اجنبی بیگانے کے جو مجھے دیکھ کر تیوری چڑھائے۔ ۔یا
کسی دشمن کے؟ جس کو تو نے مجھ پر غلبہ دے دیا ہو۔ خدایا اگر تو مجھ سے خفا
نہیں تو پھر مجھے بھی کسی کی پرواہ نہیں ہے۔ تیری حفاظت میرے لئے بس کافی
ہے، میں طالب پناہ ہوں تیرے رخ کے اس نور سے جس سے تمام ظلمتیں کافور
ہوگئیں۔ جس سے دونوں جہاں کی بگڑی بن جاتی ہے۔ میں طالب ِ پناہ ہوں اس سے
کہ مجھ پر تیرا عتاب نازل ہو۔ یا تُو مجھ سے روٹھ جائے۔ تاوقتیکہ کہ تُو
خوش نہ ہوجائے تجھے منائے جانا ناگزیر ہے“
اللہ کے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی یہ فریاد جب بارگاہ الٰہی میں پہنچتی
ہے تو غیرتِ الہٰی جوش میں آتی ہے اور فالفور حضرت جبرائیل علیہ السلام
پہاڑوں کے فرشتے کو ساتھ لیکر اللہ کا پیغام لیکر نیچے حاضر ہوئے اور
فرمایا”السلام علیکم یا رسول اللہ ! اللہ نے وہ ساری گفتگو سن لی جو آپ صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم اور آپکی قوم کے مابین ہوئی ہے، اور اللہ نے کوہستانوں
کے فرشتے کو آپ کی خدمت میں بھیجا، آپ جیسا چاہیں حکم دیں “دوسرا فرشتہ آگے
بڑھا اور فرمایا” السلام علیکم یا رسول اللہ !میں ہی وہ فرشتہ ہوں جو مالک
کائنات کی طرف سے آپ کے حکم کی تعمیل پر مامور ہوا ہوں، اگر ارشاد ہو تو
طائف کے دونوں محاذوں کے پہاڑوں کو حرکت دوں اور وہ ایک دوسرے سے اس طرح
ٹکرا جائیں کہ اس سرپھری آبادی کی کچلی ہوئی لاشوں کو رونے والا بھی کوئی
نہ ہو“ اللہ اکبر کیسا عجیب وقت ہے کہ جو لوگ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر
پتھر برسا رہے تھے اللہ نے ان کی گستاخی کی سزا دینے کے لئے پہاڑوں کے
فرشتے کو مقرر کردیا اور وہ ہمہ تن گوش ہے کہ دیکھیں نبی مہربان صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کیا حکم فرماتے ہیں۔ سوچیں کہ جب انسان کو طاقت اور قدرت
ملتی ہے تو وہ کیا نہیں کرتا، مخالفین کو کچلنے کے لئے ہر حد تک چلا جاتا
ہے۔ انسانیت کے درجے سے گر جاتا ہے، اس کے سامنے محض ایک بات ہوتی ہے کہ
کسی طرح اپنی آتش انتقام کو سرد کردوں، مخالفین کو نشانہ عبرت بنا دوں۔
لیکن !لیکن قربان جائیے رحمت العالمین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت اور
عفو درگزر کے، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے زخمی اور گھائل جسم کو ایک
نظر دیکھا اور پھر بڑی دردمندی سے ارشاد فرمایا”میں اللہ سے امید کرتا ہوں
کہ اگر یہ ایمان نہ لائے تو ان کی نسلوں میں ایسے لوگ ضرور پیدا ہونگے جو
اللہ کی پرستش کریں گے “ اللہ اکبر یہ رحمت اور یہ دعوت حق کی تڑپ کہ شائد
ان کی نسلوں میں اہل ایمان پیدا ہوجائیں۔ کیا آج ہمارے اندر مخالفین اور
دشمنوں کے لئے یہ جذبہ ہے؟
اور ذرا سیرتِ پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے یہ دو گوشے بھی ملاحضہ کریں دو
بالکل مختلف لیکن بہت اہم اور ہمارے لئے رہنما گوشے ہیں۔ کفار مکہ اور
مسلمانوں کے درمیان اولین معاہدہ لکھا جارہا ہے، معاہدے کی دیگر شرائط کے
ساتھ ایک شرط یہ بھی ہے کہ جو مسلمان مکہ سے مدینہ آئے گا اسے واپس کردیا
جائے گا، ابھی یہ شرطیں لکھی جارہی ہیں ابھی معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے ہیں۔
کفار کی جانب سے سہیل معاہدہ کی شرائط طے کررہے کہ اسی دوران سہیل کے بیٹے
حضرت ابو جندل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے اپنے
چور چور بدن کے ساتھ وہاں پہنچ جاتے اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے
درخواست کرتے ہیں کہ انکو بھی ساتھ لے جائیں، مسلمانوں کے دل اپنے بھائی کو
مصیبت میں دیکھ کر پسیج جاتے ہیں خود نبی مہربان صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا
دل بھر آیا ہے۔ لیکن ان کے والد سہیل معاہدے کی شق کی طرف اشارہ کرتے ہیں
اور حضرت ابو جندل صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو واپس کرنے سے انکار کرتے ہیں،
نبی مہربان صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو جندل کو صبر کی تلقین کرتے ہیں
اور انکو واپس کردیتے ہیں کیوں کہ معاہدے میں یہی بات طے ہوئی تھی۔ یہ
معاملہ کا ایک پہلو ہے۔ دوسری جانب دیکھیں تو یہ منظر بھی سامنے آتا ہے کہ
غزوہ خندق کے موقع پر بنو قریظہ جو کہ مسلمانوں کے معاہد تھے اور معاہدے کی
رو سے وہ مسلمانوں کے حلیف ہیں، انہوں نے جب غداری کی اور عین حالتِ جنگ
میں معاہدے کی خلاف ورزی کی، تو جنگ کے بعد ان کا معاملہ بھی نمٹا دیا گیا
اور ان کو ان کی غداری اور معاہدے کی خلاف ورزی کی سزا دی گئی۔ اور ان کو
انہی کے پسند کئے گئے ایک ثالث کے ذریعے سزا سنائی گئی، بنو قریظہ نے حضرت
سعد بن معاذ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اپنا ثالث مقرر کیا اور انہوں نے فیصلہ
سنایا کہ ” جو مرد لڑنے کے قابل ہیں وہ قتل کردئے جائیں اور عورتیں اور بچے
قیدی بنا لئے جائیں اور ان کا مال و اسباب مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے“
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو تمہارا
فیصلہ ہے وہی اللہ کا بھی فیصلہ ہے، اور پھر مدینہ میں گڑھے کھودے گئے اور
وہیں ان یہودیوں کی گردنیں ماری گئیں اور پھر انہی گڑھوں میں ان کی لاشوں
کو دبا دیا گیا۔ غور کریں کہ یہ بالکل مختلف سلوک کیوں ایک طرف ابھی معاہدہ
لکھا جارہا ہے اور اس کی شرائط مانی جارہی ہیں جبکہ دوسری جانب اپنے حلیف
کی گردنیں ماری جارہی ہیں۔ دراصل یہاں بھی ہمارے لئے بہت لطیف نقطہ اور
پیغام ہے کہ حتی الامکان امن و سکون سے رہا جائے اور اپنی قوت کو مجتمع کیا
جائے اور اس کے لئے اگر وقتی تکلیفیں بھی برداشت کرنی پڑیں تو برداشت کی
جائیں۔ اور جب مسلمانوں کی ریاست قائم ہوجائے، مسلمانوں کو طاقت و قوت حاصل
ہوجائے، اگر اس وقت کوئی فریق معاہدے کی خلاف ورزی کرے، مسلمانوں کو دھوکہ
دے تو پھر ہم پر بھی ان سے کئے گئے وعدوں اور معاہدوں کی پابندی لاگو نہیں
ہوتی ہے بلکہ پھر ان کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ دوبارہ کسی کو ایسی
جرات نہ ہو۔ یہاں یہ باریک نقطہ واضح رہے کہ بنو قریظہ کے قتل کا حکم اللہ
کے نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ دینِ اسلام
کو نقصان پہنچانے کے جرم دیا تھا۔
اور یہ دیکھیں یہ گوشہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ فتح مکہ اور حجة
الوداع کے بعد آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ ” لوگوں میں نے زندگی کے بہترین
سال تمہارے درمیان گزارے ہیں اس عرصے میں اگر میں نے کسی کے ساتھ کوئی
زیادتی کی ہو تو میں یہاں موجود ہوں وہ آئے اور مجھ سے اپنا بدلہ لے
لے“صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ اجمعین یہ بات سن کر دنگ رہ گئے اور ایک صحابی
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اٹھ کر کہا اے اللہ کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم یہ
کیسی باتیں کررہے ہیں بھلا آپ اور زیادتی ؟ آپ اس کو ہاتھ کے اشارے سے بٹھا
دیتے ہیں اور دوبارہ اپنی بات دہراتے ہیں پھر وہی صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
کھڑے ہوتے ہیں اور وہی بات فرماتے ہیں اس طرح تین دفعہ آپ اپنی بات دہراتے
ہیں، آخر صفوں سے ایک صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں
کہ ” اے اللہ کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ایک جنگ کے موقع پر آپ صفیں
درست فرما رہے تھے، میں کچھ آگے نکلا ہوا تھا آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
اپنی چھڑی سے مجھے پیچھے ہٹایا تھا مجھے اس سے تکلیف پہنچی تھی، مجھے اس کا
بدلہ لینا ہے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اجمعین کے چہرے سرخ ہوجاتے ہیں
کہ یہ فرد کیا بات کررہا ہے؟ یہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے بدلہ
لینے کی بات کررہا ہے۔ لیکن دوسری جانب نبی مہربان صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے رہتی دنیا تک ہمیں یہ سبق سکھا دیا کہ انصاف سے کوئی بھی بالاتر نہیں ہے،
کسی لیڈر، کسی حکمران کو کسی کسی قسم کا کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ انصاف
سب کے لئے بلکہ جو لیڈر ہیں، جو قائد ہیں، جو حکمران ہیں، جن کے کاندھوں پر
قیادت کی ذمہ داری ہے ان پر زیادہ شدت کے ساتھ انصاف پر عمل پیرا ہونا
لازمی ہے ورنہ قوموں میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
نہایت سکون سے فرمایا”یہاں آﺅ اور اپنا بدلہ لو“ان صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
نے کہا ”یارسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم جب آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
مجھے چھڑی سے ٹہوکا دیا تھا تو میں قمیص پہنے ہوئے نہیں تھا جب کہ آپ کے
جسم مبارک پر کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اجمعین غم و غصے کی
کیفیت میں ہیں لیکن نبی مہربان صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کرتا اتار
دیا وہ صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آگے بڑھتے ہیں اور نبی مہربان صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کی پشت پر آکر مہر نبوت کو بوسہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ
”یارسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کیسا بدلہ، کاہے کی تکلیف میں تو محض
مہر نبوت کو چومنا چاہتا تھا۔ اس پورے واقعے کو نظر میں رکھیں اور پھر
سوچیں کہ کیا آج میں اور آپ اتنا ظرف اپنے اندر رکھتے ہیں کہ بھرے مجمع میں
خود کو احتساب کے لئے پیش کریں؟ ہم سے کوئی فرد بدلہ لینے کی بات کرے اور
ہم بھرے مجمع میں اس کی بات مان لیں؟ سوچیں اور غور کریں۔
اور یہ دیکھیں یہ ایک منفرد گوشہ نگاہوں کے سامنے آتا ہے۔ حجة الوداع کے
مشہور خطبے میں نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آخر میں لوگوں سے پوچھا
کہ ” کیا میں نے تم تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا ؟ ایک لاکھ سے زائد افراد
کا مجمع پکار اٹھا ہاں اے اللہ کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ! آپ نے اپنا
فرض پورا کردیا“اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار فرمایا ” اے
اللہ تُو گواہ رہ“ سوچیں تو خوف سے جسم کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ کسی
کے فرض کی ادائیگی کی گواہی لاکھوں کا مجمع دے اور پھر اس پر اللہ کو گواہ
بنایا جائے۔ یہاں ہمیں یہ نکتہ سمجھایا جارہا ہے کہ صرف خود یہ کہنے سے کہ
میں نے اپنا فرض پورا کردیا ہے حکمرانی کا، قیادت کا، لیڈر شپ کا حق ادا
نہیں ہوتا بلکہ ادائیگی فرض اس طرح ہو کہ خلقِ خدا اس کی گواہی دے اور خود
ہمارا اپنا ضمیر اس پر اللہ کو گواہ بنائے۔ کیا آج ہم یا ہمارے لیڈاران میں
کوئی ایسا بھی ہے جو اس سنتِ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا حق ادا کرے،
کوئی نہیں ہے کوئی بھی نہیں ہے۔
دراصل میلاد مصطفٰی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم منانے کا اصل مزہ اسی وقت ہے اور
اسی وقت ہم اس کا حق ادا کرسکتے ہیں کہ تعلیمات نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
پر عمل کریں سیرت رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی سے اپنے قلب و نظر
کو منور کریں، دو رنگی چھوڑ کر ایک اللہ کا رنگ اختیار کریں۔ شکریہ
(مضمون کی تیاری کے لئے ”سیرت النبی صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم “از مولانا شبلی نعمانی و سید سلیمان ندوی، ”محمد عربی “ از
عنایت اللہ سبحانی اور ”کیا ہم مسلمان ہیں“ از شمس نوید عثمانی سے مدد لی
گئی ) |