فقہ حنفی کے عالم گیر اثرات و مقبولیت
(Ghulam Mustafa Naeemi, India)
مدیر سہ ماہی سواد اعظم دہلی۔
عراق کے ایک شہر کوفہ میں ۸۰،ھ کو ایک صالح و متقی شخص’’ ثابت ‘‘کے یہاں
ایک انتہائی سعادت مند بچہ پیدا ہوا۔یہ وہ دور تھا جو آقائے کریم علیہ
الصلواۃ والسلام کے زمانے کے بڑا قریب تھا اور پیارے نبی کے درجن بھر سے
زائد صحابہ ابھی موجود تھے ۔آقا علیہ السلام کا فرمان ہے خیر امّتی قرنی
ثمّ الذین یلو نھم ثمّ الذین یلونھم (مشکواۃ ،ص ۵۵۳) میری امت میں سب سے
بہتر میرے زمانے والے ہیں پھر وہ جو ان کے بعد ہیں پھر وہ جو ان کے بعد ہیں
۔ اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ تین زمانوں کو سب سے زیادہ فضیلت و بزرگی
حاصل ہے اور وہ تین زمانے یہ ہیں (۱) زمانہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ۔(۲)
زمانہ صحابہ کرام ۔(۳) زمانہ تابعین ۔یہ بچہ اسی زمانہ خیر میں پیدا ہوا جس
زمانے میں سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ایک درجن سے زیادہ صحابہ کرام
موجود تھے ۔اس بچے کا نام’’ نعمان‘‘ رکھا گیا ۔اسی بچے کو آج سارے زمانے
میں امام اعظم ابو حنیفہ کے نام نامی سے جانا جاتا ہے۔ جو نہ صرف صحابہ
کران کے زمانے میں پیدا ہوئے بلکہ ان کی زیارت سے مشرف ہوئے اور ان سے
روایت حدیث کا شرف بھی حاصل کیا ۔امام اعظم کے نام سے آپ کو اتنی شہرت ملی
کہ اگر خواص کو چھوڑ دیں تو عوام کو یہ پتا ہی نہیں کہ نعمان کس کا نام ہے
۔ہاں یہ سب جانتے ہیں کہ دنیا کے سب سے زیادہ مسلمانوں کے امام و مقتد ا کا
نام ’’امام اعظم ابو حنیفہ‘‘ ہے ۔رحمۃ اﷲ علیہ
آج پوری دنیا میں میں پچاس سے زائدمسلم ممالک ہیں جہاں غالب اکثریت
مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے ہر ملک میں اچھے خاصے مسلمان
آباد ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی کل تعداد 1.6 ارب ملین کو پہنچ
چکی ہے جو پوری دنیا میں دوسری بڑی اکثریت ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس اتنی
بڑی مسلم آبادی میں قریب دو تہائی آبادی سرا ج الامہ حضرت امام اعظم ابو
حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کی فقہ کے مطابق شریعت مطہرہ پر عمل کرتی ہے اور ان کی
تقلید کرتی ہے ۔آئیے پہلے ایک نظر حضرت امام اعظم کے نام و نسب پر ڈالتے
ہیں ۔اس کے بعد اثرات و مقبولیت کا جائزہ لیں گے۔
نام و نسب : خطیب بغداد نے اپنی کتاب میں حضرت امام اعظم کے پوتے اسمٰعیل
بن حماد کا یہ قول نقل کیا ہے ’’میں اسمٰعیل بن حماد بن نعمان بن ثابت بن
نعمان بن مرزبان، از اولاد فرس احرار ہوں ۔اﷲ کی قسم ہم پر کبھی غلامی نہیں
آئی ہے ۔ میرے دادا (امام اعظم ) کی ولادت ۸۰،ھ میں ہوئی ہے ۔ان کے والد
ثابت چھوٹی سی عمر میں حضرت علی بن ابو طالب رضی اﷲ عنہ کے پاس گئے ۔حضرت
علی نے ان کے اور ان کی اولاد کے حق میں برکت کی دعا کی اور ہم اﷲ سے امید
رکھتے ہیں کہ حضرت علی کی دعا ہمارے حق میں قبول کر لی گئی ہوگی ۔
(عقود الجمان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان۔ج،۱۳،ص۳۲۶)
امام اعظم کیلئے سرکار دو عالم کی بشارت : سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم
نے اپنی امت کے اس امام کی بشارت اپنی حیات ظاہری میں ہی دے دی تھی ۔حضرت
ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں ۔جس کی صحیح اصل بخاری و مسلم
میں ان الفاظ سے ہے لو کان الایمان عند الثریا لتناولہ رجال من فارس ۔اگر
ایمان ثریا ستارے کے پاس ہو تو یقینا فارس کے بیٹوں میں کچھ اس کو حا صل کر
لیں گے ۔
صحیح مسلم کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں لو کان الایمان عند الثریا لذہب بہ
رجل من ابناء فارس حتیّٰ یتنا ولہ ۔ اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس ہو تو
فارس کے بیٹوں میں سے ایک اس تک پہنچ جائیگا اور اس کو حاصل کر لیگا ۔
امام طبرانی نے اپنی کتاب میں حضرت قیس بن سعد رضی اﷲ عنہ کی ایک روایت نقل
کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں لو کان الایمان معلقاً بالثریا لا تناولہ العرب
لنالہ رجال فارس ۔اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس لٹکا ہو کہ اہل عرب اس کو نہ
پا سکیں ۔مگر فارس کے لوگ اس کو پا لیں گے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ کی ایک روایت اور ہے جس کو امام ابو نعیم نے
حلیۃ الاولیاء میں درج کیا ہے قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لو کان العلم
بالثریا لتناولہ رجال من ابناء فارس ۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا اگر علم ثریا ستارے کے پاس ہو تو فارس کے بیٹوں میں کچھ اس کو حاصل
کر لیں گے۔ (سوانح بے بہائے امام اعظم ابو حنیفہ ۔ص ۵۸،۵۹)
کنیت کی وجہ تسمیہ : آپ کے تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ کی کنیت ابو
حنیفہ تھی۔حنیفہ تانیث ہے حنیف کا جس کے معنیٰ ہیں عبادت کرنے والا ،دین کی
طرف راغب ہونے والا ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کی ایک بیٹی تھی جس کا نام
حنیفہ تھا اسی کی نسبت سے آپ ابو حنیفہ کہلاتے ہیں ۔لیکن آپ کے زیادہ تر
تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ کی اولاد میں صرف ایک بیٹا تھا جن کا نام
حماّد تھا ۔
استاذ عبد الحکیم جندی کہتے ہیں کہ آپ کا حلقہ درس بڑا وسیع تھا ۔آپ کے
شاگرد اپنے ساتھ قلم دوات رکھتے تھے ۔اہل عراق دوات کو حنیفہ کہتے ہیں اس
لئے شاگردوں کی نسبت سے آپ کو ابو حنیفہ کہا گیا ۔
آپ کی بیٹی کی نسبت حافظ شمس الدین نے لکھا ہے کہ بعض افراد کا ماننا ہے کہ
آپ کی حنیفہ نامی ایک بیٹی تھی مگر اکثر علما نے اس روایت کو قبول نہیں کیا
۔
شرف تابعیت : حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کو دیگر ائمہ میں ایک
بڑی فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ آپ ائمہ فقہ کے درمیا ن وہ واحد شخص ہیں جنہیں
تابعی ہونے کا شرف حاصل ہے ۔آپ کے علاوہ کوئی بھی امام و فقیہ و محدث اس
مقام میں آپ کا شریک و ہمسر نہیں ہے ۔
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اﷲ علیہ تابعی کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں ھو
من لقیہ و ان لم یصحبہ کما قیل فی الصحابی وعلیہ الحاکم ۔قال ابن الصلاح
،وھو من اقرب قال المصنف وھو الاظھر قال العراقی ،وعلیہ عمل اکثرین من اھل
الحدیث ۔(التدریب الراوی فی شرح تقریب النووی ۔ص۴۹۸) تابعی وہ ہے جس نے کسی
صحابی سے ملاقات کی ہو اگر چہ اس کی صحبت اختیار نہ کہ ہو ۔جیسا کہ صحابی
کے بارے میں کہا گیا ۔اسی تعریف کے متعلق ابن صلاح نے کہا یہ تعریف درستگی
سے قریب تر ہے ۔امام جلال الدین سیوطی نے کہا یہی زیادہ واضح ہے ۔عراقی نے
کہا کہ اکثر محدثین کا اسی پر عمل ہے۔
تابعی کی فضیلت اس حدیث پاک سے بھی ظاہر ہے سرکار ارشاد فرماتے ہیں طوبیٰ
لِمن رَانِی و اٰمن بِی و طوبیٰ لِمن رأیَ من رَأنی ۔(مشکواۃ ،ص ۵۵۴) اس
کیلئے خوش خبری ہے جس نے مجھے دیکھا اور ایمان لایا ۔اور اسے بھی جس نے
مجھے دیکھنے والے کو دیکھا ۔
امام اعظم کی تابعیت کو جمہور علما نے تسلیم کیا ہے ۔ چند شہادتیں یہاں پیش
کی جاتی ہیں تاکہ سند رہے۔امام ابن سعد فرماتے ہیں انّ ابَا حنیِفۃَ رَأ یَ
انس اِبن مَالکِِ وعبد اﷲ بن الحارث بن جزءِِ۔(جامع بیان العلم و فضلہ ،ج
،۱ ص ۱۰۱)بے شک امام ابو حنیفہ نے حضرت انس بن مالک اور عبد اﷲ بن حارث کو
دیکھا ۔
امام ابن ندیم فرماتے ہیں : وکان من التابعین ولقی عدۃ من الصحابۃ وکان من
الورعین الزاہدین ۔(الفہرست،ص ۲۵۵)امام ابو حنیفہ تابعین میں سے تھے ۔آپ نے
متعدد صحابہ سے ملاقات کی ۔آپ زاہدوں اورمتقیوں میں سے تھے ۔
امام ذہبی کا قول ہے : وکان من التابعین لھم ان شاء اﷲ باحسانِِ فانّہ صح
انّہ رأی انس ابن مالک اذ قدمہا بالکوفۃ ۔(مناقب الامام ابی حنیفۃ و صاحبیہ
ابی یو سف و محمد بن الحسن،ص ۷) آپ اﷲ کے فضل سے ان شاء اﷲ تابعین میں سے
ہیں ۔کیونکہ آپ نے حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ کو دیکھا ہے جب کہ وہ کوفہ
تشریف لائے تھے ۔
امام بدر الدین عینی لکھتے ہیں : عبد اﷲ بن ابی اوفیٰ و اسم ابی اوفیٰ
علقمۃ الاسلمی لہ و لابیہ صحبۃ و ھو آخر من مات بالکوفۃ من الصحابۃ و ھو من
جملۃ من رأ ہ ابو حنیفۃ من الصحابۃ ۔(عمدۃ القاری ،ج ۱۱،ص ۲۰۶) حضرت عبد اﷲ
بن ابی اوفی جن کا نام علقمہ اسلمی ہے ۔آپ اور آپ کے والد دونوں کو شرف
صحابیت حاصل ہے ۔آپ وہ آخری صحابی ہیں جنہوں نے کوفہ میں وصال فرمایا اور
آپ کا شمار ان جملہ صحابہ میں ہوتا ہے جن کی امام ابو حنیفہ نے زیارت کی ۔
محقق علی الاطلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی یوں فرماتے ہیں : اس بات پر
اتفاق ہے کہ حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ عنہ کی حیات میں چند
صحابہ کرام بقید حیات تھے ۔حضرت انس بن مالک بصرہ میں ،حضرت عبد اﷲ بن ابی
اوفی کوفہ میں ،حضرت سہل بن سعد الساعدی مدینے میں اور حضرت ابو الطفیل
عامر بن واثلہ (وہ صحابی رسول ہیں جنہوں نے مکہ شریف میں ) سب سے آخر میں
وفات پائی ۔آپ کے تلامذہ بیان کرتے ہیں کہ آپ (امام اعظم) نے صحابہ کی ایک
جماعت کو پایا اور ان سے روایت حدیث کی اور آپ کی ایک مسند بھی ہے جس میں
آپ نے مذکورہ صحابہ کی روایات کو جمع کیا ہے ۔بندہ مسکین عبد الحق بن سیف
الدین ،اﷲ تعالیٰ اسے مزید علم و یقین سے نوازے ۔کہتا ہے کہ یہ بات عقل سے
بہت دور ہے کہ جس زمانے میں صحابہ کرام با حیات ہوں اور کوئی ان سے ملاقات
کا ارادہ نہ کرے ۔حق تو وہی ہے جو ان کے تلا مذہ نے کہا کہ آپ نے صحابہ کی
ایک جماعت کو پایا ۔( شرح سفر السعادت ،ص ۲۰)
مجدد اعظم امام احمد رضا فرماتے ہیں : حضور سیدنا امام اعظم رضی اﷲ عنہ
کیلئے حضرات عالیہ امام مالک و امام شافعی و امام احمد ومن بعدھم من الائمۃ
الکرام رضی اﷲ تعالیٰ عنھم پر فضل تابعیت ہے ۔امام تابعی ہیں ، رأ ی انساً
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور باقی حضرات میں کوئی تابعی نہیں ۔(فتاوی رضویہ ،ج
۱۱،س ۳۳)
تدوین فقہ کا فائدہ : ائمہ کرام میں امام اعظم کی فقہ کو جس قدر مقبولیت
حاصل ہوئی اور جتنا وسیع حلقہ فقہ حنفی کو ملا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔تیسری
صدی سے ہی آپ کی فقہ کو مقبولیت حاصل ہونے لگی تھی۔ اس کے بعد ہر زمانے میں
حکومت ہو یا عوام اکثریت کا مذہب فقہ حنفی ہی رہا ۔آج بھی عالم اسلام کی دو
تہائی سے زیادہ آبادی فقہ حنفی پر ہی عمل پیرا ہے ۔اتنی بڑی آبادی کا فقہ
حنفی پر عامل ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے ۔کل تعداد کا دو تہائی بہت ہوتا
ہے ۔یقینا یہ اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں فقہ حنفی کی مقبولیت کی دلیل ہے
۔اور یہ بات صحیح ہے کہ دیگر مسالک کے بالمقابل فقہ حنفی کے اصول و ضوابط
قرآن و حدیث کے زیادہ قریب ہیں ۔شیخ محمد طاہر فتنی صاحب مجمع البحار اور
محدث کرمانی شافعی شارح بخاری فرماتے ہیں فلو لم یکن ﷲ سرّخفیّ فیہ لماّ
جمع لہ شطر الاسلام اَو ما یقاربہ علیٰ تقلیدہ حتیّٰ عبد اﷲ بفقھہ و عمل
برأیہ الیٰ یومنا ما یقارب اربع مأۃ و خمسین سنۃ و فیہ اوّل دلیل علیٰ صحتہ
(کتاب المغنی ،ص ۸۰/امام اعظم اور تدوین فقہ ،ص ۱۲۶) اگر اس مذہب حنفی میں
اﷲ تعالیٰ کی قبولیت کا راز پوشیدہ نہ ہوتا تو آدھے یا اس کے قریب مسلمان
اس فقہ کے مقلد نہ ہوتے ۔ہمارے زمانے میں جس کو ساڑھے چار سو برس کا عرصہ
ہوتا ہے ان کی فقہ کے مطابق اﷲ وحدہ لا شریک کی عبادت ہو رہی ہے اور ان کی
رائے پر عمل ہو رہا ہے ۔اس بات میں فقہ حنفی کی اول درجے کی صحت کی دلیل ہے
۔
امام اعظم کی درسگاہ اصل میں ایک قانونی مدرسہ (Law college) تھا جس کے
فارغین طلبہ کثرت سے ملکی عہدوں پر فائز ہوئے اور ان کے آئین حکومت کا یہی
مجموعہ تھا ۔آپ کے شاگردوں میں حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اﷲ علیہ اس سلسلے
میں سب سے نمایاں ہیں ۔آپ خلیفہ ہارون رشید کے عہد میں قاضی القضاۃ کے عہدے
پر متمکن ہوئے اور آپ نے اسلامی حکومت کے آئین کیلئے غیر معمولی کوششیں کیں
۔آپ کی ذات سے فقہ حنفی کو کافی عروج حاصل ہوا ۔اس کے علاوہ بھی آپ کے
شاگردوں نے ہر میدان میں اپنی خدمات سر انجام دیں ۔
امام رازی مناقب شافعی میں لکھتے ہیں انّ اصحاب الرای ازھرو ا مذاہبَھم و
کانت الدنیا مملؤۃ مّن المحدثین و رواۃ الاخبار و لم یقدر احد منھم الطعن
فی اقاویل اصحاب الرای ۔ اصحاب رائے (امام اعظم ابو حنیفہ اور آپ کے شاگرد
وں ) نے اپنے مسائل جس زمانے میں ظاہر کئے دنیا محدثین اور راویان اخبار سے
بھری ہوئی تھی ۔تاہم کسی کو قدرت نہ ہوئی کہ ان کے قول پر اعتراض کرتا
۔(امام اعظم اور تدوین فقہ ،ص ۱۲۸)
فقہ حنفی کا پھیلاؤ : فقہ حنفی کو بڑی تیزی سے مقبولیت حاصل ہوئی ۔عرب کے
علاوہ باقی دیگراسلامی مما لک جن کی وسعت سندھ سے ایشیائے کوچک(Minor Sea )
تھی امام اعظم کا ہی طریقہ جاری ہو گیا ۔
ہندوستان ،سندھ ،کابل اور بخار ا میں تو ان کے علاوہ کسی اور کا اجتہاد بہت
کم تسلیم کیا جاتاہے ۔دوسرے ممالک میں فقہ شافعی،مالکی و حنبلی کو رواج ہوا
مگر فقہ حنفی کو یہ رواج دبا نہیں سکا ۔اس کی واضح مثال یہ ہے کہ قضا کے
امور میں آج بھی فیصلہ فقہ حنفی کے ہی مطابق لیا جاتا ہے ۔
ابھی حال ہی میں مصر میں حسنی مبارک کے تختہ پلٹ کے بعد محمد مرسی کووہاں
کا صدر جمہوریہ منتخب کیا گیا ہے ۔ان کی پارٹی اخوان المسلمین سب سے بڑی
پارٹی بن کر اقتدار میں آئی ۔سبھی جانتے ہیں کہ اخوان والے تقلید کے قائل
نہیں ہیں اس کے باوجود جب ملک کا دستور مرتب کیا گیا تو مذہب اسلام کو
سرکاری مذہب درج کیا گیا اور اس کی تشریح مسلک اہل سنت و جماعت کے عقائدکے
مطابق فقہ حنفی کی رو سے ہونا قرار دیا گیا ۔
خلفا عباسیہ میں خلیفہ عبداﷲ بن المعتزجو فن بدیع کا موجد تھا اور خلفاء
عباسیہ میں سب سے برا شاعر و ادیب تھا حنفی المذہب تھا ۔خلفاء عباسیہ کے
تنزل کے بعد جو خاندان اقتدار میں آئے ان میں اکثر حنفی تھے ۔
خاندان سلجوقی جن کی حکومت میں لمبائی میں کاشغر (kashghar ) سے بیت المقدس
تک اور چوڑائی میں قسطنطنیہ( Constantine ) سے بلاد خزر(Cospine sea )تک
پہنچی ہوئی تھی ۔یہ پورا خاندان فقہ حنفی پر عامل تھا ۔
سلطان محمود غزنوی جن کے نام سے ہندوستان کا بچہ بچہ واقف ہے ۔یہ فقہ حنفی
کے بہت بڑے عالم تھے انہوں نے فقہ میں ایک نہایت عمدہ کتاب لکھی ہے جس کا
نام ’’کتاب التفرید‘‘ ہے اس کتاب میں قریب ۶۰،ہزار مسائل ذکر کئے گئے ہیں
۔سلطان نور الدین زنگی رحمۃ اﷲ علیہ جو بیت المقدس کی جنگوں کے اولین سالار
میں سے ہیں وہ بھی امام اعظم کی ہی تقلید کرتے تھے ۔
سلاطین ترک جو کم و بیش چھ سو سال اقتدار میں رہے جنہوں نے اپنے دور اقتدار
میں اسلام کی بڑی خدمت انجام دی اور پوری ملت اسلامیہ کی باگڈور چھ صدی تک
ان کے ہاتھوں میں رہی وہ سب کے سب حنفی المذہب تھے ۔خود ہندوستان میں جتنے
بھی فرمانروا رہے سب کے سب امام اعظم کے مسلک پر ہی عمل کرتے رہے ۔ان میں
سب سے نمایاں نام سلطان اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اﷲ علیہ کا ہے جو خود ایک
بڑے عالم دین تھے اور فقہ حنفی سے ان کی وابستگی اس درجہ تھی کہ اس دور کے
جید علما و فضلا کو اکٹھا کر کے فقہ حنفی کی ایک عظیم شاہکار کتاب ’’فتاوی
عالمگیری ‘‘ کو مدون کرایا جس کو بلا شبہ فقہ حنفی میں ایک خوبصورت اور
گرانقدر اضافہ مانا جاتا ہے ۔
احناف کی تعداد : امام اعظم ابو حنیفہ اور آپ کی فقہ کی مقبولیت کی سب سے
بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے مسائل دیگر فقہی مکاتب کے مقابل قرآن و حدیث کے
زیادہ قریب اور فطرت انسانی کے مطابق ہیں ۔آج پوری دنیا کے مسلمانوں کی
اکثریت امام اعظم کی فقہ کے مطابق اﷲ و رسول کے راستے پر چل رہی ہے ۔عبادت
سے لیکر معاملات تک مسلمانوں کی اکثریت فقہ حنفی پر عمل پیرا ہے ۔اندازہ
لگائیں کہ امام اعظم کو کس قدر ثواب مل رہا ہوگا کیونکہ جتنے مسلمان اعمال
صالحہ کر رہے ہیں ان میں اکثریت حنفیوں کی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر مسعود صاحب
علیہ الرحمہ لکھتے ہیں ’’ابن خلدون نے چھ سو برس پہلے.....امیر خسرو نے سات
سو برس پہلے......مجدد الف ثانی نے چار سو برس پہلے.....عالم اسلام بالخصوص
بر صغیر میں اہل سنت و جماعت اور حنفیوں کی کثرت کا ذکر کیا ہے .... دور
جدید کے فاضل ڈاکٹر صحبی محمصانی نے احناف کو روئے زمین کے مسلمانوں کا دو
تہائی قرار دیا ہے ۔(مقدمہ ،امام اعظم ابو حنیفہ ،تالیف شاہ تراب الحق
قادری پاکستان)
مغربی ممالک میں فقہ حنفی کی اشاعت : بر اعظم افریقہ میں طرابلس ،ٹیونس اور
الجزائر میں مسلمانوں کی اکثریت فقہ حنفی پر عمل کرتی ہے۔حالانکہ پہلے یہاں
دوسرے مسالک کا اثر کافی زیادہ تھا مگر جب یہاں کے لوگ فقہ حنفی سے آشنا
ہوئے تو اس کے سہل اور فطرت کے مطابق ہونے کی وجہ سے عوام و خواص اس سے
جڑتے چلے گئے اور فقہ حنفی وہاں کا غالب ترین مسلک ہو گیا ۔
مصر میں فقہ حنفی کی اشاعت : مصرمیں خلیفہ مہدی کے عہدخلافت میں فقہ حنفی
سے لوگ روشناس ہوئے ۔خلیفہ نے اسمٰعیل بن الیسع کو وہاں کا قاضی مقرر کیا
۔ملک شام میں بھی فقہ حنفی کو عروج حاصل تھا ۔عوام و خواص کی اکثریت اسی پر
عمل کرتی تھی اور اسی کے مطابق معمولات اسلام ادا کرتے تھے ۔
مشرقی ممالک میں فقہ حنفی کو عروج : بلاد مشرق میں عراق ،خراسان ،سیستان
اور ما وراء النہر کے علاقوں میں غالب اکثریت احناف ہی کی تھی ۔اس کے علاوہ
فقہ شافعی کے ماننے والے بھی تھوڑی بہت تعداد میں موجود تھے ۔لیکن غلبہ
احناف ہی کو تھا۔
روس،ترکستان و فارس میں فقہ حنفی کا عروج : ان ممالک میں روس ،ترکستان
،آرمینیہ ،آذر بائیجان،تبریز،رے،اور ملک اہوز کے رہنے والے عوام و خواص
اکثر فقہ حنفی پر ہی عامل ہیں ۔فقہ حنفی کے علاوہ وہاں شیعہ مسلک کے لوگ
بھی آباد ہیں ۔مگر ان کی تعداد بہت کم ہے ۔
ہندو پاک اور ایشیا : ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد آبادی
کے لحاظ سے سبھی اسلامی ممالک سے زیادہ ہے سوائے انڈونیشیا کے ۔ایک محتاط
اندازے کے مطابق یہاں پر مسلمانوں کی تعداد ۲۰،کروڑ سے زائد ہی ہوگی ۔اور
اتنی بڑی آبادی میں اکثریت احناف کی ہے ۔حالانکہ ہندوستان کے ساحلی صوبے
کیرل میں ضرور ایک بڑی تعداد میں شوافع موجود ہیں ۔لیکن اس کے علاوہ ملک کی
۲۷،ریاستوں میں بسنے والے اکثر افراد چاہے عوام ہو یا خواص حضرت امام اعظم
ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے مسلک پر ہی عمل کرتے ہیں ۔چھٹ پٹ تعداد میں شیعہ
بھی بستے ہیں اور اب عربی ریال و امریکی ڈالر کی وجہ سے کچھ غیر مقلدین بھی
دکھنے کی کوشش کرنے لگے ہیں ۔
پاکستان میں بھی اکثریت حنفیوں کی ہی ہے ۔تھوڑی بہت تعداد میں شیعہ بھی ہیں
۔مگر ان کی تعداد زیادہ نہیں ہے ۔پاکستان میں بھی اہل اسلام ایک بڑی آبادی
رکھتے ہیں ۔عرب کے کئی ممالک سے زیادہ تعداد ہے اور فقہ حنفی کا ہی غلبہ ہے
۔ہندوستان کی طرح یہاں بھی ریال و ڈالر کے دم پر عوام الناس کو آزاد خیال
اور بے راہ روی کی طرف لے جانے کی جی توڑ کوشش ہو رہی ہے لیکن ابھی تک آزاد
خیالوں کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوئی ہیں ۔اہل اسلام کو اس فتنے کی طرف
فی الفور توجہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام الناس ان کے چنگل سے محفوظ رہ
سکیں۔
چین میں قریب چار ملین مسلمان رہتے ہیں ۔وہاں بھی فقہ حنفی پر ہی اکثریت
عمل کرتی ہے ۔اس کے علاوہ ایشیا میں بنگلہ دیش ،نیپال،سری
لنکا،جاپان،تبت،بھوٹان اور برما وغیرہ میں بھی اکثریت احناف کی ہی ہے دیگر
مسالک بہت معمولی تعداد میں ہیں ۔
ان ممالک کے علاوہ مغربی ممالک میں امریکہ ،برطانیہ ،فرانس ،بیلجیم اور
جرمنی وغیرہ میں بھی غالب اکثریت احناف کی ہی ہے ۔دوسرے فقہی مکاتب کا
دائرہ کا رمختصر ہے ۔(ماخوذ حیاۃ امام الاعظم ابی حنیفہ،تالیف،شیخ ابو زہرہ
مصری قاہرہ)
فقہ حنفی کی مقبولیت کے اسباب : فقہی مکاتب میں فقہ حنفی کی مقبولیت کے بہت
سارے اسباب ہیں جن میں سے چند یہاں ذکر کئے جاتے ہیں ۔
قرآن حکیم سے مطابقت : فقہ حنفی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے احکام
قرآن و حدیث کے زیادہ قریب ہیں ۔قرآن و حدیث سے جو احکام موخوذ ہیں اور جن
احکام میں ائمہ کا اختلاف ہے ان احکام میں امام اعظم کا پہلو قرآن کے بہت
زیادہ قریب ،مضبوط دلائل پر مبنی اور اصول عقل کے نزدیک ہوتا ہے ۔مثال کے
ذریعے اس بات کو سمجھتے ہیں ۔
وضو کا حکم قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ےٰایّھا الذین آمنوا اذا
قمتم الی الصلواۃ فاغسلو ا وُجــُوھکم و ایدیکم الی المرافق وامسحوا بِرء و
سکم و ارجلکم الی الکعبین ۔اے ایمان والوجب نماز کو کھڑے ہونا چاہو تو اپنا
منہ دھوؤ اور کہنیوں تک ہاتھ اور سروں کا مسح کرو اور گٹوں تک پاؤں
دھوؤ۔(سورۃ المائدہ ،آیت ۶)
اس آیت میں فرائض وضو بیان کئے گئے ہیں جو اس طرح ہیں (۱) چہرہ دھونا ۔(۲)
کہنیوں تک ہاتھ دھونا۔(۳) سروں کا مسح کرنا۔(۴) گٹوں تک پاؤں دھونا۔آیت
کریمہ میں صرف انہیں چار کا بیا ن ہے اس لئے امام اعظم فرماتے ہیں کہ فرائض
وضو چار ہیں ۔جب کہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ فرائض وضو چھ ہیں چار یہی جو
آیت میں مذکور ہیں اس کے علاوہ دو فرض یہ ہیں ۔نیت کرنا اور ترتیب سے وضو
کرنا ۔امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ وضو میں بسم اﷲ کہنا بھی فرض ہے ۔امام
اعظم فرماتے ہیں کہ آیت میں جن چار کا ہی بیان کیا گیا ہے اس لئے وہی چاروں
فرض کے درجے میں شمار کئے جائیں گے باقی دوسرے احکام چونکہ آیت میں ذکر
نہیں کئے گئے اس لئے ان کو فرض کا درجہ نہیں دیا جا سکتا ۔ ہاں واجب ،سنت
یا مستحب کے درجے میں شمار کر سکتے ہیں ۔
وضو کیلئے پانی نہ ملے تو تیمم کر کے نماز پڑھنا جائز ہے ۔امام اعظم فرماتے
ہیں کہ اگر درمیان نماز پانی مل جائے تو تیمم ٹوٹ جاتا ہے اب نمازی کو
دوبارہ وضو کر کے نماز پڑھنا پڑے گی امام مالک اور امام احمد بن حنبل
فرماتے ہیں اس صورت میں وضو کی کوئی ضرورت نہیں تیمم سے ہی پوری نماز پڑھ
لی جائے ۔امام اعظم اپنے موقف پر قرآن عظیم سے دلیل لاتے ہوئے فرماتے ہیں
کہ قرآن میں تیمم کا جائز ہونا اس شرط کے ساتھ ہے لم تجدوا ماء
یعنی جب پانی نہ ملے تو تیمم کرو ۔لہٰذا جب پانی مل گیا تو شرط ختم مطلب!
تیمم ختم ۔کیوں کہ جس شرط پر تیمم جائز تھا ۔وہ تھی پانی کا نہ ملنا ۔اب جب
پانی مل گیا تو وہ شرط ختم اس لئے اب نماز وضو کر کے ہی پڑھی جائے کہ نماز
کیلئے وضو شرط ہے۔ان دونوں مثالوں سے بخوبی واضح ہو چکا کہ امام اعظم کا
استدلال قرآن کے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔
فقہ حنفی کا احادیث صحیحہ سے ماخوذ ہونا : حضرت امام اعظم فرماتے ہیں کہ جو
حدیث صحیح ہو وہی میرا مذہب ہے ۔چونکہ آپ نے بلا واسطہ صحابہ کرام سے
احادیث سنی ہیں یا تابعین کرام سے ۔ان میں سے کوئی راوی ضعیف نہیں ہے ۔اس
لئے آپ تک پہنچنے والی تمام احادیث صحیح ہیں ۔یہ شرف دیگر کسی اما م کو
حاصل نہیں ہوا کیونکہ باقی سب ائمہ آپ کے بعد پیدا ہوئے ہیں ۔امام اعظم
۸۰،ھ میں پیدا ہوئے اور قریب ایک درجن سے زائد صحابہ کرام کا دیدار بھی کیا
اور ان سے روایت حدیث کا شرف بھی حاصل کیا۔
فقہ شافعی کے پیروکار حضرت امام شعرانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’کہ امام
اعظم اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے درمیان راوی صحابہ و تابعین ہیں‘‘۔
(میزان الشریعۃ الکبری،ج،۱ ص۶۵)
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دعا کرنا : خطیب بغداد کے حوالے سے شروع میں
گزراکہ امام اعظم ابو حنیفہ کے دادا آپ کے والد کو لیکر شیر خدا حضرت علی
کرم اﷲ وجہہ الکریم کی بارگاہ میں لیکر حاضر ہوئے ۔تو حضرت علی نے آپ اور
آپ کی اولاد کیلئے برکت کی دعا کی ۔یہ حضرت علی کی دعا کا ثمرہ ہے کہ آج
زمانے میں حضرت ثابت کے بیٹے ’’نعمان ابن ثابت ‘‘کا چرچا ہے۔
فطرت کا لحاظ رکھنا : اسلام دین فطرت ہے ۔اس بنا پر ایسے مسائل میں جہاں
کوئی نص صریح موجود نہ ہویا روایات مختلف ہوں تو فقہ حنفی میں فطرت کے
تقاضوں کے مطابق فیصلہ لیا جاتا ہے۔ایک مثال کے ذریعے سمجھیں مسواک کے
مسنون ہونے کے متعلق ایک روایت میں یہ الفاظ ملتے ہیں عند کل صلاۃِِ۔یعنی
مسواک ہر نماز کی سنت ہے۔امام اعظم کے نزدیک مسواک ہر نماز کی نہیں بلکہ
وضوکی سنت ہے۔آپ کی دلیل یہ روایت ہے جس کے الفاظ اس طرح ہیں عِند کل وضوء
۔یعنی مسواک ہر وضو کیلئے مسنون ہے۔چونکہ مسواک فطری طور پر منہ کی صفائی
کیلئے ہوتی ہے ۔اور صفائی طہارت کا جز ہوتی ہے اس لئے فطرت کا تقاضا یہی ہے
کہ مسواک ہر نماز کی نہیں بلکہ ہر وضو کی سنت قرار پائے۔تاکہ انسان جب جب
وضو کرے مسواک کی سنت پر عمل کا موقع ملے ۔بھلے ہی وہ وضو تلاوت قرآن ،طواف
کعبہ وغیرہ کیلئے ہی ہو ۔تو امام اعظم کے موقف اختیار کرنے میں ثواب حاصل
کرنے کے مواقع زیادہ ہیں ۔کیوں کہ اگر انسان نماز پڑھنے کا ارادہ کرے تو
وضو تو اسے کرنا ہی پڑے گا ۔نماز کی سنت ماننے کی صورت میں آپ تلاوت یا
طواف کعبہ کیلئے وضو کرتے ہیں ساتھ میں مسواک بھی کرتے ہیں تو منہ کی صفا
ئی تو ہو جائیگی مگر سنت کی ادائیگی ثواب نہیں مل سکے گا ۔لیکن امام اعظم
کے مسلک کے مطابق آپ جب بھی وضو کریں اور مسواک کریں تو صفائی کے ساتھ ساتھ
سنت کے ادا کرنے کا ثواب بونس میں ملے گا ۔
یہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کی فقہ کی اثر گیری اور مقبولیت
کی معمولی سی جھلکیاں ہیں ۔اگر گہرائی کے ساتھ فقہ حنفی کے اثرات کا جائزہ
لیا جائے تو دفتروں کے دفتر درکار ہیں ۔حضرت امام اعظم اپنے علم و فضل
،خدمات و کمالات اور امت مسلمہ کے محسن و مربی ہونے کی حیثیت سے ارفع و
اعلیٰ مقام پر فائز ہیں ۔اﷲ تعالیٰ ہمیں ان کے فیوض و برکات سے مستفیض و
مستنیر فرمائے۔ |
|