ماہِ ربیع الاول کی ساتویں اور
مارچ کی دسویں تاریخ تھی،اتوار کے آفتاب نے اپنی شعاؤں کو سمیٹنا شروع کر
دیاہے اور مغرب کا وقت ہوتے ہی شبِ دو شنبہ شروع ہونے والا ہے۔ ادھر وطن سے
دور پردیس میں لڑکے لڑکیاں جوان بوڑھے اور خاندان کے متعدد افراد چہار سمت
حلقہ بنا ئے ایک اﷲ کی نیک بندی کے ارد گرد بیٹھے ہیں۔یوں تو میری ہر چیزا
نکے قدموں پر نثار تھی لیکن سب سے قیمتی چیز جسکی ہر شخص تمنا کرتاہے یعنی
’جنت‘ انکے قدموں کے نیچے تھی۔ خوش نصیب تھا میں کہ مجھے انکی خدمت کا موقع
ملا اور ایک لمبی عُمر میں نے انکے سائے عاطفت میں بسر کی،اور بد نصیب ہوں
میں کہ اس نعمت کی قدر ایک دن بھی نہیں کی اور جو سب سے زیادہ خدمت کی
مستحق تھی اسکی کما حقہہ خدمت انجام نہ دے سکا ،کیوں کہ جتنی خدمت میں نے
انکی کی، مجھے اس سے زیادہ کرنی چا ہئے تھی۔
انکے بارے میں کیا کہوں اور انکی کن کن خوبیوں کو میں شمار کر واؤں؟۔نماز
کے ساتھ عشق کا یہ عالم تھا کہ اِس دور میں شاذ ہی ملے گا،عورت ہوکر
اشراق،چاشت،تہجد کا وہ اہتمام کہ آج ہم مردوں کومذکورہ نمازوں کی پابندی
تودور کی بات ہے فرض نماز تک پڑنے کی توفیق نہیں ہوتی ہے۔ اس عُمر میں بھی
تہجد کا یہ التزام کہ کسی موسم میں بھی ناغہ نہ ہونے پائے۔ گر میوں کی
مختصر راتیں جن میں نیند بھی پوری نہیں ہوتی ،وہ ابھی لیٹیں اور تہجد کے
لئے اٹھ بیٹھی۔ کڑا کے کی ٹھنڈمہینوں تک پڑ تی رہی فجر کے وقت تو دور سات
آٹھ بجے تک بھی لحاف کے اندر سے نکلنا دشوار ہوتاہے ۔وہ رات کے ایک بجے ،دو
بجے ،تین بجے اٹھ کر وضو کر رہی ہیں۔کوئی پر دیس سے ملنے آیا، یا کوئی
بیمار ی سے شفا یاب ہوا،غرض کوئی بھی خوشی کا موقع ہوتا تو انکو جیسے نماز
پڑھنے کا بہا نا مل جاتا اور شکرانہ کی نماز کے لئے کھڑی ہوجاتیں۔کسی کے
انتقال کی خبر ملی جھٹ سے ایصالِ ثواب کے لئے نماز پڑھنی شروع کردیتی۔صبح
سے شام اور شام سے صبح تک جتنی رکعتیں پڑھ ڈالتیں اسکا علم تو اﷲ اور اسکے
فرشتوں کو ہی ہوگا۔ہم جب بھی کہتے کہ امی بس کیجئے تھوڑا آرام کر لیجئے تو
کہتیں:بیٹا یہ تو قبر کا نور ہے،قبر میں جب کوئی نہ ہوگا اورسخت تاریکی
ہوگی تو یہ نمازیں ہی چراغ کا کام دینگی۔
محلے کی جو بھی عورتیں ان سے ملنے آتی تھی انکو نماز کی تلقین کیا کرتی
تھی،نہ جانے کتنی عورتوں کو نہ صرف نمازی ہی بنا یا بلکہ تہجد گزار تک بنا
دیا۔نماز کے ساتھ عشق کا جو عالم تھا وہی اذان کے ساتھ بھی تھا۔ ہم جہاں
رہتے ہیں وہاں تو اذان کی آواز بہت مشکل سے آتی ہے۔اگر پردیس میں کسی شہر
میں جاتی تو اذان کی آواز سُن کر باغ باغ ہو جاتی تھی اور وطن میں رہتی تو
گھر کے صحن اور ڈیوڑی میں برابر اذان دلواتی تھی۔ بلکہ یہ بھی کہتی کہ :مرنے
کے بعدجی چاہتا ہے کہ مسجد کے عین دروازے پر دفن ہوں کہ اﷲ پاک کے گھر آنے
جانے والے لوگ میرے اوپر سے گزرتے رہیں ،اگر یہ نا ممکن ہوتو میری قبر مسجد
سے متصل ہو کہ کم ازکم اذان کی آواز تو برابر آتی رہے۔
روزہ کا شوق بھی کم نہ تھا عمر ستّرکی ہوئی پچہتر کی ہوئی اَسّی کی یہاں تک
کہ پچاسی سے گزر گئی اور فرض روزہ تو کیا چھوٹتا نفلی روزہ عاشرہ و ہجاری
کے روزے تک نہیں چھوٹنے پاتے تھے۔ہمت و عزیمت کی یہ مثال دیکھ کر نو جوان
عورتیں عش عش کرتی تھیں کہ آخر انکو شریعت کے احکام سے کتنی محبت ہے؟۔انکو
دیکھ کر واقعی اس بات کا یقین ہو جاتا تھا کہ’’الدینُ مُیسِّرٌ‘‘۔
حج والدصاحب کے ساتھ کر آئی تھی اور کفن کا کپڑا آبِ زم زم سے دھلا کر اپنے
ساتھ ہمیشہ
کھتی تھی، چونکہ انکو اپنی حیات سے زیادہ موت پر یقین تھا اسلئے سفر ہو یا
حضر کفن کا کپڑا انکا جزوِلا ینفک بن چکا تھا۔اسی طرح محتاجوں کا بہت خیال
رکھا کرتی تھی۔ہمارے بچپن کے زمانے میں جب بھی گھر میں مٹھائیاں یا پھل
وغیرہ آیا کرتا تھا تو ہم لوگ یہ سوچ کر خوش ہوتے کہ اب کئی دنوں تک کھائیں
گے،لیکن ایسا کبھی اتفاق ہی نہیں ہوا کہ کوئی پھل یا کھانے پینے کی چیز ایک
دن سے زیادہ گھر میں رہ پائی ہو۔ایک بار گھر کے ہر فرد کو دے دیا پھر
پڑوسیوں محلے والوں اور غریبوں مسکینوں میں تقسیم کر دیا کرتی تھی۔
چونکہ انکے اخلاقِ عظیمہ کی وجہ سے ہر کوئی انکی عزت کرتا ان سے محبت کرتا
تھا تو اسکی وجہ سے ہر دن محلے کے لوگ کچھ نہ کچھ گھر بھیجا کرتے تھے۔ لیکن
جب بھی دستر خوان پر انکے لئے آئی ہوئی چیز کو رکھا جاتاتو تھوڑا لیتی اور
ہم کو دیکر باقی دوسروں کے گھر بھجوا دیتی تھی۔یہ تھا انکے جود و سخا اور
ایثار کا عالم۔
امی کو اردو کی معمولی سی شُد بُد تھی وہ بھی اب اس عُمر میں بھول گئی
تھیں،قرآن مجید پڑی مشکل سے ناظرہ پڑھ پاتی تھی وہ بھی نو قاری بچے کی طرح
پڑھتی تھی،اب ضعفِ بصارت کی وجہ سے اور بھی اٹکنے لگی تھیں، لیکن ہمت میں
ذرا بھی فرق نہیں ،جلی حروف والاقرآن لیکراشراق کے بعد بیٹھ جاتیں اور اپنے
دھن میں پڑھتی جارہی ہیں ایک ایک سطر مکمل ہونے میں کئی منٹ لگ جاتے تھے
لیکن ہار بھلا کہاں مانتی، اور جب اتنی بصارت وہمت بھی نہ رہی کہ خود قرآن
وکتابیں پڑھ سکیں تو اپنی پوتیوں سے پڑھوا کر سُنتی تھیں،لیکن انکے بازؤں
میں جب تک جان رہی اپنا ہرکا م خو د کرتی رہیں اور نمازیں بھی کھڑے ہوکر
پڑھتی تھیں ۔ہم نے تو مسجدوں میں بہت جوانوں کو دیکھا ہے کہ کُرسی پر بیٹھ
کر نماز پڑھتے ہیں نماز کے لئے تھوڑی تکلیف بر داشت کرنا انکی برداشت سے
باہر معلوم ہوتا ہے۔
پچھلے چند سالوں سے اکثر اسردی کے موسم میں نزلہ بخار وغیرہ میں مبتلا ہو
جاتی تھیں۔لیکن ہمیشہ چند دنوں میں ہی افاقہ ہو جاتا تھا اور شفا یاب
ہوجاتی تھی۔اب بھی یہی دھوکہ رہا کہ چند ہی دنوں کی تو بات ہے پھر سے ٹھیک
ہو جائیں گی۔حالانکہ انکی عُمر کی طرف خیال بھی گیا لیکن پھرا حساس ہوا کہ
ابھی انکی عُمر توصرف پچاسی کی ہے انکی بڑی بہن کی عُمر تو پنچانوے سا ل ہو
چکی ہے اس لئے اس بات کا دل پر خطرہ بھی نہیں گزرا کہ اس سال بیمار ہونے کا
آخری وقت ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ معا لجین و اطباء بھی مطمئن کرچکے
تھے۔
غرض یہ کہ پر دے غفلت آنکھوں پر پڑے رہے اور ساعتِ موعود تو جب بھی آتی ہے
،دبے پاؤں اور زیرِ نقاب ہی آتی ہے۔مہمان کو اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ میرا
میزبان مجھے لینے آنے والا ہے۔بس بلاوا آتاہے اور انسان اپنی کبھی نہ پوری
ہونے والی خواہشات کی حسرت کو اپنے دل کی گٹھری میں باندھے ہوئے چل دیتا
ہے۔آہ ․․ یہ نادان انسان اسکی خواہشات، اسکے غلط اندازے!۔
بیٹا اب سورۃ یاسین پڑھ دو! یہ آخری الفاظ تھے جو اس چاہنے والی ناز اٹھانے
والی ہستی کی زبان سے میں نے سنا تھا۔ہائے افسوس صد افسوس کیا معلوم تھا کہ
اب اسکے بعد محبت بھری زبان ،شفقت والے ہو نٹوں سے میرے نصیب میری تقدیر کو
بدل دینے والی دُعائیں نہ نکلیں گی۔تعمیلِ ارشاد میں ایک بار نہیں در بار
سورۃ یاسین پڑھ کر دم کیا،انکے چہرے پر عارضی سکون تو ہو گیالیکن زبان نے
بولنے سے انکار کردیاتھا۔چہرہ پر ایک داغ تک نہیں تھا بس نور ہی نور نظر آ
رہا تھا۔ لمحہ بھر میں حالت کچھ سے کچھ ہونے لگی،تنفس کے نظام نے تیزی پکڑ
لی،نبض کی حرکت سست ہو ِگئی ،آنکھ کی پتلیاں جم کر رہ گئی،دنیا کے چوکھٹ
بند ہونے لگے اور برزخ کے دریچے کھلنے لگے۔حلق نے دواپانی سب سے انکارکر
دیابجز آبِ زم زم کے! اﷲ کی کریمی کہ کچھ قطرے اس آخری وقت میں بھی حلق سے
اتر گئے چار پائی قبلہ رُخ کردی گئی ،ہاتھ پیر برابر کر دئے گئے، مجھ بد
نصیب نے پھرسے سورۃ یاسین کی تلاوت شروع کردی ،ادھر آیت ختم ہوئی ادھر روح
قفس سے آزاد ہو گئی گویا روح اسی شہادت کا انتظار کر رہی تھی۔
موت کے کچھ دیر بعدمیں نے ہا تھ چھوکر دیکھا تو انگلیاں اب تک نرم تھیں۔یہ
وہی ہاتھ تھے جو راتوں کو تھپکی دیکر سلاتے تھے،جو بیماری میں میرا سَر
دباتے تھے،جو کپڑے دھوتے اور میرے کھانا بنا تے تھے،جو میرے چہرے کو اس قدر
محبت سے مَس کرتی تھی کہ بلا اختیار اسکی نرمی سے آنکھیں کچھ دیر کے لئے
جھک جاتی تھی۔یہ وہی ہاتھ تھے جو دادو دہش میں ہمیشہ کھُلے رہتے تھے اور
عبادت کے با ادب بندھے رہتے تھے،اور حاجت کے وقت ہمیشہ اٹھے رہتے تھے۔
زم زم سے نہایا ہوا کفن اسی گھڑی کے انتظار میں انتیس سالوں سے ساتھ ساتھ
سفر کر رہا تھا۔غُسل بیٹی بہو نے مل کر دیا اور انکی نعش کو وطن لایا گیا
اور اﷲ پاک نے مسجد کے متصل ہی زمین مہیا کر وادی۔ اﷲ کی بندی تیر ی عُمر
بھر کی خواہش و تمنااب پوری ہو گئی ہے اور تُو قیامت تک کے لئے مسجد کے
پہلو میں سو کر اذان کی آواز سے لطف اندوز ہو تی رہ۔
جنازہ کی نماز اسی نامۂ سیاہ نے پڑھائی،جنازہ میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے ہر
کوئی جانتا ہے ان اذکارودعاؤں کے ساتھ زیرِ لب یہ دعا بھی جاری تھی’’ اے
مولیٰ ،اے مالک ،اے ماؤں سے سّتر گنا زیادہ انسان سے محبت کرنے والے رب!آج
تیری حضورمیں وہ بندی آ رہی ہے،جس نے پچاسی سال تک جہاں تک ہو سکا ایک روزہ
بھی قضا ہونے نہ دیا۔ ایک وقت کی نماز ناغہ تو کیا ہوتی قضا تک نہیں
ہوئی۔تیری مخلوق سے محبت کرتی رہی،خود بعد میں کھا یا دوسروں کو پہلے کھلا
یا، چوپایا اسمیں دوسروں کو شریک کیا،جو ملااس پر قناعت کی،بِرہا و مئی کی
تپتی ہوئی گرمی اور جھلسا دینے والی دھوپ میں روزے رکھے،دسمبر وجنوری کی
ٹھٹھرا دینے والی ٹھنڈراتوں میں اٹھ اٹھ کر نمازیں پڑھتی،اعزا و اقرُبا ء س
کی پڑوسی و بستی والوں کی غم خواری کی۔تیرے نام کی عاشق تیرے رسول ﷺ کے نام
کی دیوانی تھی۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اس نے میرے سامنے دنیا مین جو آخری کلام کیا وہ وہی
کلمہ تھا جسکا تو نے حکم دیا ہے۔آج بیوائیں اسکے نام پر ماتم کر رہی ہے ،
یتیم اسکے لئے سر پیٹ رہے ہیں۔پوتے پوتیاں،نواسے نواسیاں بِلبلا رہیں۔ اسکی
موت اس مہینے میں آئی جو تیرے رسولﷺ بر حق کی وفات کا مہینہ ہے۔ اس وقت آئی
جب شبِ دوشنبہ شروع ہو چکی تھی۔ اس مرض(بخار) میں ہوئی جسمیں تیرے رسولﷺ نے
بیمار ہو کر شہادت پائی تھی۔ پھر غریب الوطنی میں ہوئی جو تیری رحمت کو جوش
لانے کا ایک ذریعہ ہے۔ وہ مر تے مرتے بھی تجھ سے محبت کا ثبوت دے گئی اور
تیرے گھر کے جوار میں دفن ہو نا پسند کیا تاکہ تیرا اسکے کانوں میں قیامت
تک پڑتا رہے یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تیری کسی سہارے کی کسی
بہانے کی محتاج نہیں ہے اور پھر اسکے پاس تو اتنے سارے بہانے مو جودہیں۔
اے میرے شفیق رحیم آقا ومولیٰ۔ اسکی لغزشوں کو معاف کردیجیو اسکی خطا ؤں پر
خطِّ عفو پھیر دیجیو اسکے سیّات کو حسنات سے مبدّل کر دیجیو ،اسکے ساتھ
تیرے رحمت کے شایانِ شان معاملہ کیجیو اپنی صفتِ غفاری و ستّاری کی چادر
میں اسے ڈھانپ لیجیو۔
وہ آنچل میں چھپا کر پُر سکون کردیتی ہے
میری ماں میری تکلیفوں کو دور کر دیتی ہے
قدر کرلو مبادہ یہ جنت ہاتھ سے نکل نہ جائے ما ں جیسی نعمت کی قدرچلے جانے
کی بعد ہوتی ہے
٭٭٭
|