تین دانائیاں
(Prof Niamat Ali Murtazai, Kasoor)
کسی بھی شعبے، زمانے ا ور علاقے کی
دانائی مختلف ہوتی ہے۔ بازار کی دانائی اور میدانِ جنگ کی دانائی میں فرق
ہے۔ دانائی کے بیان کے لئے اس کا پیرامیٹر یعنی کہ وہ کس لحاظ سے زیرِ بحت
ہے کا جاننا یا بتانا ضروری ہے۔جس طرح کہ مثال مشہور ہے کہ فاضل نے ملاح سے
کہا کہ اگر اس نے اب تک علم حاصل نہیں کیا تو اس کی آدھی زندگی برباد ہو
گئی۔ اور جب کشتی بھنور کی زد میں آ گئی تو ملاح نے کہا کہ اگر محترم فاضل
نے تیرنا نہیں سیکھا تو اس کی ساری زندگی برباد ہو گئی۔یہ بات بہت آسانی سے
ثابت ہو جاتی ہے کہ ایک شعبے کا زیرک دوسرے شعبے میں زیرو ہوتا ہے۔اس لئے
دانائی کے ذکر کے ساتھ اس کا فیلڈ، زمانہ اور علاقہ بیان کرنا اس دانائی کی
سمجھ میں معاون یا ضروری ہوتا ہے۔
اس لحاظ سے دانائیوں کی قسمیں اور انداز لا تعداد ہو جاتے ہیں۔ہم صرف تین
دانائیوں کا ذکر یں گے۔
دنیاوی دانائی
اس سلسلے کی پہلی دانائی یہ ہے کہ انسان اپنی دنیاوی زندگی کی بہتری کے لئے
جدوجہد کرے اور اس میں وہ ہر وہ کا م کر گزرے جس سے اسے کوئی مالی منفعت ہو
سکتی ہو۔اس میں اخلاق ، کردار اور آخرت کو مدِ نظر رکھنے کی ضرورت محسوس
نہیں ہوتی۔
ایہہ جہان مٹھا، تے اگلا کنے ڈٹھا
جھوٹ ،سچ، حلال، حرام، اپنا، پرایا سب جائز ہیں۔ اس کو مذہبی آئینے میں برا
تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے خاتمے کے لئے مذہب سخت سزائیں سناتا ہے۔ لیکن
انسان ہے کہ اس کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی کیوں کہ آج کل کا خود غرضی کا
مارا انسان سر میں جوؤں کو کہاں بسیرا کرنے دیتا ہے۔اگر جوں نہیں رینگ سکتی
تو ذہن کو جنبش کیسے ہو سکتی ہے۔ ایک پر سکون ،ٹھنڈے اے۔سی والے کمرے میں
سونے والے شخص کا اگر ضمیر بھی سویا ہوا ہے تو اس کی بجلی کا میٹر بند ہونے
کی اسے کیا پریشانی ہو سکتی ہے، ہاں میٹر کے چلنے کی پریشانی کا ہونا ضروری
ہے۔ کیوں کہ اس کی جمع پونجی کی تجوری سے کچھ نکل جائے گا۔جو وہ نکالنا
نہیں چاہتا۔ دنیا کی ہوس بھی بہت عجیب ہے۔ ایک مالدار ، جو کہ روزانہ
ہزاروں نہیں ، لاکھوں کماتا تھا، کے بجلی کے میٹر بند پائے گئے ۔ امیروں
میں یہ رجحان، غریبوں کی نسبت بہت زیادہ ہے ،لیکن وہ مہذب ہوتے ہیں، اس لئے
ان کا ذکر ایسے سرِ عام کرنا مناسب نہیں۔ عزت داروں کی عزت برقرار رہنی
چاہیئے چاہے ،کرپشن تو دانائی ہے ، ہر کسی کو تھوڑی ملتی ہے۔بہت سارے غریب
بھی بس ـ’’ہاتھ نہ پہنچے، تھوہ کوڑی‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں اور جب ہاتھ
پہنچ جائے تو سب میٹھا ہو جاتا ہے۔ پھر وہ خوب اگلی پچھلی کسریں نکالتے ہیں،
کہ دیکھنے والے انگشت بدنداں ہی نہیں بلکہ ورطہء حیرت میں گم ہو جاتے
ہیں۔اس دانائی کو آخرت کی کوئی فکر ،یا پریشاتی نہیں ہوتی۔ اس کے نزدیک سب
کچھ یہی دنیا ہی ہوتی ہے۔ شخص دنیا کا اور دنیا شخص کی۔
عقبائی دانائی
دوسری دانائی وہ ہے جو آخرت کی فکر میں محوِ جستجو و جدوجہد رہتی ہے۔اس میں
وہ ایمان دار اور مذہبی لوگ آتے ہیں جو زندگی کو عارضی سمجھتے ہیں، دنیا کو
آخرت کی کھیتی قرار دیتے ہیں۔ کسی ایسے کام سے اجتناب برتتے ہیں جس سے آخرت
کی پریشانی یا خسارہ ہوتا ہو۔ وہ نیکیاں کرتے ہیں اور اپنے مالک سے ان
نیکیوں کو قبول کرنے کی استدا کرتے ہیں۔جنت کی طلب رکھتے ہیں اور دوزخ سے
خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ نمازی، حاجی، پرہیز گار ہوتے ہیں۔ان کی زندگی کا
اکلوتامقصد آخرت کی تیاری اور جنت کی زندگی ہے۔ یہ مطہر، پارسا لوگ دوسرے
انسانوں کو بھی اچھی زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔یہ امن پسند لوگ
مذہب کی روشنی میں اپنے راستوں کو تعین کرتے ہیں۔
فنائی دانائی
اس دانائی کے حامل وہ لوگ ہوتے ہیں جو دنیا کی طلب چھوڑنے کے ساتھ ساتھ ،
آخرت کی طلب بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ اﷲ اور اس کے رسولﷺ کا عشق اختیار کرتے
ہیں اور اور دنیا و آخرت سے بے نیاز ہو جاتے ہیں:
جنت کی خواہش ہی نہیں، دوزخ کا خطرہ بھی نہیں
جائے گا جس جگہ غزنوی، وہی مقامِ ایاز ہے
ایسے لوگ اس حقیقت کو پا لیتے ہیں کہ اﷲ کی ذات سے کچھ مانگنے سے زیادہ
بہتر ہے کہ وہ ذات اپنی حیثیت سے عطا کرے۔ چوں کہ انسان کو اس ذات کی عطا
کا ادراک نہیں ہے، اس لئے انسان اس سے کیا مانگ سکتا ہے۔ جیسے بچہ، بڑوں سے
کھلونے مانگتا ہے، جبکہ بڑوں کے پاس اسے دینے کے لئے کھلونوں کی نسبت بڑی
بہتر چیزیں ہوتی ہیں۔اس لئے انسان بچارہ اس عظیم ترین ذات سے کیا مانگ سکتا
ہے جس کا اسے ادراک ہی نہیں۔ لہٰذا بہتر ہے کہ خدا کی رضا ہی تلاش کی
جائے۔جو غلام اپنے مالک کی رضا پا لیتا ہے، وہ سب کچھ پا لیتا۔ اسے مالک
اپنی رضا میں شامل کر لیتا ہے اور اس کی رضا کو اپنی رضا بنا لیتا ہے۔جس کی
رضا مالک کی رضا بن جائے اسے اور کیا چاہیئے۔
ان تین دانائیوں کے حوالے سے انسان کو تین درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
یا یوں کہہ لیا جائے کہ انسان ان تین میں سے کسی ایک کو اختیار کرتا ہے۔
انسان کی اکثریت پہلی دانائی پر ہوتی ہے کہ انسان اندر سے بچہ ہی رہتا ہے،
اس لئے اسے کھیلنے کے لئے کھلونوں کی ضرورت رہتی ہے۔ دانشور، فلسفی، زیرک
لوگ دنیا کو آخرت کے ساتھ منسلک کر کے دونوں کا لطف اٹھا نے کی پلاننگ کرتے
ہیں۔ وہ ثواب کے محور کے گرد گردشِ مدام میں زندگی بسر کرتے ہیں۔اور جو
تیسری قسم کے لوگوہوتے ہیں ان ک تعداد سب سے کم ہوتی ہے۔یہ دانائی سب سے
زیادہ قربانی پیش کرتی ہے۔ قربانی کے بغیر قرب بھی تو نہیں ملتا۔قرب کے لئے
قربانی لازمی ہے چاہے کسی بھی چیز کا ہو۔ دنیا کا قرب ، آخرت کی قربانی ،
اور آخرت کا قرب، دنیا کی قربانی مانگتا ہے۔جو آخرت چاہتے ہیں ان کو دنیا
سے جسمانی نہ سہی، قلبی اور روحانی علیحدگی اختیار کرنی ہی پڑتی ہے۔اور جو
لوگ دنیا کی عیاشی کے طلبگار ہیں ان کے ہاتھوں سے اکثر آخرت کا دامن نکل ہی
جاتا ہے۔ بہت کم ہوتا ہے کہ انسان ان دونوں انتہاؤں کے درمیان توازن برقرار
رکھ سکے۔لیکن اکثر وہ کسی ایک طرف مائل ہو جاتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ کہ بہت
سے پہلی دانائی کے لوگ ، آخری عمر میں دوسری دانائی کو اختیار کر لیں۔یا
دوسری دانائی والے، کبھی پہلی دانائی اختیار کر لین۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا
کہ تیسری دانائی والے اپنا قبلہ بدل لیں، اور پہلی یا دوسری دانائی کو
اختیار کرتے پھریں۔وہ تو یہ کہتے پھرتے ہیں:
جاں تو دے دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
انسان کی سب سے بڑی بندگی یہی ہے کہ وہ خدا کی رضا میں رہے۔اس سے بڑا مقام
اور کیا ہو سکتا ہے۔ اس مالک الملک کی غلامی سے بڑی شہنشاہی نہیں ۔ جو اس
در کا خدمتگار ہے اسے سب کچھ حاصل ہے۔ اس در کا باغی آج بھی گرفتار ہے، کل
بھی گرفتار اور ہمیشہ ہی گرفتار ہے۔ اس در کی غلامی ، کائنات کی حکمرانی ہے،
ایسے لوگوں کے لئے ہی کہا گیا ہے۔کہ سورج، چاند، ستارے ان کے مسخر کر دیئے
گئے ہیں۔یہ تسخیرِ کائنات کوئی معمولی نعمت نہیں ، لیکن ملتی اسی کو ہے جو
سب کچھ اپنے مالک پر نثار کر دے۔ |
|