خواب فروشوں کا ڈرامہ…

میں کوئی بہت بڑا نامی گرامی صحافی تو نہیں تھا البتہ شہر کے کچھ لوگ اور میری صحافتی برادری مجھے اُبھرتا ہوا نوجوان صحافی ضرور سمجھتی تھی ۔اللہ منظور جعفری صاحب(سابق کواڈینیٹر ایڈیٹر جنگ)کوکروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ان دنوں وہ اُس اخبار کے نئے نئے ایڈیٹر بنے تھے جس میں ،میں ایک معمولی رپورٹر ہوا کرتا تھا۔جعفری صاحب کام کے معاملے میں اگرچہ بہت سخت تھے تاہم اچھے کام کی تعریف بھی دل کھول کر کیا کرتے تھے۔اکثر نیوز ڈیسک پر آکر خود بھی بیٹھ جاتےاور تمام لوگوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہتے ایسا ہی ایک موقع تھا،میں نے ایک خبر فائل کی جو انہوں نے اٹھا کر پڑھنا شروع کر دی مکمل خبر پڑھنے کے بعدانہوں نے میز پر سے سُرخ پین اٹھایا اورکریڈٹ لائین میں میرا نام لکھتے ہوئے کہنے لگے کہ اسے تو "بائی لائین"جانا چاہئے۔سو اُس وقت سے میں بھی اپنے آپ کو طرم خان صحافی سمجھنے لگا -

یہ وہ دور تھا جب اخبارات کی حکمرانی ہوا کرتی تھی پھر آہستہ الیکٹرونک میڈیا کا دور آگیا۔ ٹیلی ویژن چینلوں کی بھرمار ہونے لگی، پاکستان میں جیسے الیکٹرونک میڈیا کاانقلاب آگیا۔ بڑے بڑے نامی گرامی صحافی ٹی وی چینلوں کو جوائن کرنے لگے، مقابلے بازی اور ریٹنگ کا میدان سج گیا۔ الیکٹرانک میڈیا ملک میں ایک طاقتور روپ میں موجود تھا۔ پھر ایک دن ایسا بھی آیا جب ایک بہت بڑی میڈیا ایمپائر کھڑی کرنے کا اعلان سامنے آگیا۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ یہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ دنیا کا سب سے بڑا چینل ہوگا۔ صحافتی حلقوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ معلوم ہوا کہ مالک کوئی بہت بڑی کاروباری شخصیت ہیں اور ان کی ملک کے اندر اور باہر بہت سی آئی ٹی کمپنیاں ہیں۔ سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ ہونے کا دعویٰ کررہے تھے بلکہ صحافتی نکتہ نظر سے قطع نظر ایسی بہت سی مراعات دینے کی پیش کش کررہے تھے جن کا صحافتی زندگی سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ ان مراعات کو دیکھ کر بڑے بڑے جغادری صحافیوں کے منہ میں پانی آگیا۔ پھر بڑے بڑے نام اس چینل کی سمت بڑھنے لگے۔ اگرچہ ملک کے اندر معیار صحافت کو بہتر کرنے کے بارے میں اس چینل کی طرف سے کوئی بات نہیں کی گئی تاہم صحافیوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے حوالے سے بہت سی دلکش پیشکشیں ان کے پیکیج کا حصہ تھیں۔ اب بڑی بڑی لگژری گاڑیاں، زبردست رہائشیں، کیفے ٹیریا، ایکسرسائز کے لئے جدید ترین جم اور مارکیٹ سے 10 گنا زائد تنخواہیں بھلا کس کو بری لگتی ہیں۔ سو بڑے بڑے میڈیا ہائوس بڑے بڑے صحافیوں سے خالی ہونے لگے اور وہ چینل جو ابھی آن ایئر بھی نہیں ہوا تھا، آباد ہونے لگا۔لاکھوں کی تنخواہوں کا شور اٹھ رہا تھا۔ چینل میں عہدوں کے علاوہ ادارے میں حصہ دار بھی بنایا جارہا تھا۔ ایسا تو کبھی بھی نہیں ہوا تھا۔ ہر انسان کو بہتر زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے اور اگر اسے موقع مل رہا ہو تو پھر اسے گنوانا کفرانِ نعمت ہے لیکن حیرت اس بات کی تھی لوگوں کو دوگنا نہیں بلکہ کئی گنا زائد دیا جارہا تھا اور وہ بھی بٹھاکر…!!چینل تھا کہ آن ایئر ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا لیکن ہر ماہ لوگوں سے ایک دستخط کرواکر لاکھوں کی تنخواہیں دی جارہی تھیں۔ ہماری معلومات کے مطابق تو ایسا صرف ایک ہی ملک میں ہوتا تھا اور وہ تھا برطانیہ جہاں سوشل سیکورٹی کے نظام کے تحت ہر بے روز گار کو حکومت الائونس دیتی ہے اور اس کے عوض ان سے بھی فقط ایک دستخط لیا جاتا ہے۔ یہ دستخط والی نوکری تو صرف برطانیہ میں تھی، پاکستان میں کیسے آگئی۔اصل میں انسان بہت ہی لالچی واقع ہوا ہے۔اگر اسے توقع سے زائد نطر آرہا ہوتو وہ اسے ہر قیمت پر حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جائز ناجائز کے چکروں میں نہیں پڑتا، ہمارے لالچ نے بھی زورمارا اور ویسے بھی ہم اپنے آپ کو قدرے بڑے اور جغادی صحافیوں میں شمار کرنے لگے تھے۔ اس ’’آف شور‘‘ چینل میں جانے کے لئے ہاتھ پیر مارنے لگے۔سوچا بھاڑ میں جائے صحافت اور اس کا معیار، سچی صحافت نے ہمیں آج تک دیا ہی کیا ہے صرف غربت، آخر ہمارا بھی کوئی حق ہے کہ ہم اچھی زندگی بسر کریں۔ صحافت تو بہت کرلی اب ذرا کلبنگ ہوجائے۔ کوئی مرسڈیز وغیرہ چلا کر بھی دیکھیں۔ سوزکی چلا چلا کر اکتا گئے ہیں اور پھر شام کو جم میں ایکسائرز بھی تو امارت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر سوئمنگ پول جہاں بے ساختہ ایسی صورت حال میں ڈوب مرنے کو دل چاہتا ہے۔ سوہم نے بھی اسی چینل کو جوائن کرنے کی ٹھان لی۔ وسعت اللہ خان کی طرح ہم نےاپنے والد صاحب سے اس بارے میں مشورہ کرنے کا سوچا بھی نہیں کہ شاید وہ بھی یہی کہہ دیں کہ میاں شوق سے نئی نوکری کرو مگر یہ دیکھ لو کہ اگر مارکیٹ میں کسی کام کا معاوضہ سو روپے مل رہا ہے اور کوئی تم سے وہی کام ہزار روپے میں کروارہا ہے تو کہیں کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہوگی۔ اب اگر کوئی گڑبڑ ہوتی ہے تو ہوتی رہے ویسے اس قسم کی سن گن مل رہی تھی کہ مالکان کے معاملات اتنے بھی سادہ نہیں ہیں جتنے کہ نظر آرہے ہیں مگر ہمارا ضمیر اس وقت مطمئن تھا اور اطمنان کے ساتھ سویا ہوا تھا۔ ہمارے اور چینل کے درمیان ضمیر کو یوں ہی سوتا چھوڑ کر معاملات طے پاگئے۔ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا،اس رات ہمیں نیند بھی خوب آئی اوراسی میٹھی نیند میں ایک خواب بھی دیکھ ڈالا۔کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بابے کے سامنے کھڑا ہوں اور وہ پوچھ رہا ہے کہ"کاکا تم کیا چاہتے ہو" میں نے عرض کیا "کیا آپ کو واقعی سونا بنانا آتا ہے؟"بابے نے خالی خالی آنکھوں سے دیکھ کر کہا "ہاں میں نے جوانی میں سیکھا تھا"۔میں نے درخوست کی "مجھے یہ نسخہ سیکھا سکتے ہیں ؟"۔میرے اس سوال پربابے نے غورسے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا"تم سیکھ کر کیا کرو گے؟"میں نے کہا "میں دولت مند ہو جاؤنگا"۔بابے نے قہقہ لگایا وہ دیر تک ہنستا رہایہاں تک کہ اس پر کھانسی کا شدید دورہ پڑگیا،جب وہ کچھ سبنھلا تواُس نے پوچھاکہ تم دولت مند ہو کر کیا کرو گے، میں نے جواب دیا"دنیا بھر کی نعمتیں خریدوں گا ۔ اس نے پوچھا پھر کیا کروگےمیں نے جواب دیا "میں خوش رہونگا مجھے سکون ملے گا۔بابے نے تڑپ کر میری طرف دیکھااور کہا "گویا تمہیں سونا اور دولت نہیں سکون اور خوشی چاہئے"۔میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا اُس نے مجھے جھنجھوڑا اورپھر پوچھا "کیا تم دراصل سکون اور خوشی کی تلاش میں ہو؟" اگرچہ ہر نوجوان کی طرح میں بھی خوشی اور سکون سے زیادہ دولت کو اہمیت دیتا تھا مگر بابے نے مجھے تذبذب میں مبتلا کر دیا تھا اور اسی کیفیت کے زیرِاثرمیر نے اثبات میں سر ہلا دیا۔بابے نے ایک اور لمبا قہقہ لگایااورپرانی حالت میں پھر چلا گیا جب کھانسی سے کچھ سبنھلا توبولا"کاکا میں تمہیں سونے کی بجائے انسان سے بندہ بننے کا نسخہ کیوں نا سیکھادوں،میں تمہیں دولت مند کی بجائےپُرسکون اور خوش رہنے کا گُر کیوں نا بتا دو۔میری خاموشی کو دیکھتے ہوئے وہ بولا"انسان کی خواہشیں جب تک اس کے وجود اور عمر سےلمبی رہتی ہیں یہ اُس وقت تک انسان رہتا ہےتم اپنی خواہشوں کو اپنے وجود اور عمر سے چھوٹا کر لوتم خوشی ار سکون پا جاؤ گے اور اس طرح تم انسان سے بندے بن جاؤگے۔بابے نے میرے چہرے پر لکھی تشکیک پڑھ لی،وہ بولا"تم نے قرآن مجید میں نہیں پڑھااللہ تعالٰی خواہشوں میں لُتھڑے ہوئے لوگوں کو انسان جبکہ اپنی محبت میں رنگے خواہشوں سے آزادلوگوں کو بندہ کہتا ہے"۔ لو میں تمہیں انسان کو بندہ بنانے کا نسخہ بتاتا ہوں اپنی خواہشوں کواپنے قدموں سے آگے نہ بڑھنے دو،جو مل گیا اس پر شکر کرو،جو چھن گیا اس پر افسوس نہ کرو،جو مانگ لے اس کو دے دو،جو بھول جائے اس کو بھول جاؤ۔۔۔۔۔ بابے کی تقریر ابھی جاری تھی کہ میری آنکھ کُھل گئی ہو نا ہو یہ میرا سویا ہوا ضمیر تھا جو انگڑائی لے کر بیدار ہونے کی کوشش کر رہا تھا مین نے اپنے ضمیر اور اُس بابے کی ایک نا سُنی اور یوں میں بھی ان دستخط کرنے والوں میں شامل ہوگیا جنہیں کچھ نہ کرنے کی ہر ماہ برطانیہ کے سوشل سیکورٹی نظام کی طرح تنخواہ ملتی تھی کافی مہینے گزرگے لیکن چینل آن ایئر ہونے کانام نہ لے رہا تھا بس ہرطرف اس کا چرچا تھا کہ اب اس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکے گا لیکن ہوا اس کے برعکس، ایک ایسا طوفان اٹھا کہ خواب فروشوں کا یہ ادارہ دھڑم سے ایسے گر گیا جیسے وہ شلوار جس کا لاسٹک ٹوٹ جاتا ہے۔ اس کے تمام غیر قانونی کاروبار آشکار ہوگئے۔ باضمیر صحافیوں کا فوراً ضمیر جاگا اور وہ یکے بعد دیگر اسے چھوڑ کر جانے لگے جب کہ کچھ نے یہ کہہ کہ شرمندگی سے بچنے کی کوشش کی کہ وہ اس لئے نہیں چھوڑ رہے کہ وہ کارکن صحافیوں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے ان میں وہ لیڈر بھی تھے جو پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے وقت اپنے ان ہی کارکن صحافیوں کو بھول کر اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ قطار میں سب سے آگے ہوتے تھے۔ کچھ لوگوں کو تو اسی ایک ادارے سے پاکستان کے تمام صحافیوں کا مستقبل تابناک ہوتا ہوا دکھائی دے رہا تھا حالاں کہ ہر دور میں وہ اپنے مستقبل کو تابناک بنانے کے چکروں میں رہے۔ میں سوچ رہا تھاکہ اب میں کیا کروں ۔کاش میں بابے کی نصحت مان لیتا اور آج یوں ذلیل اور شرمندہ نہ ہو رہا ہوتا لیکن کیا کروں اس آنکھ کا جو خواب پورا ہونے سے پہلے ہی کُھل گئی کچھ دیر اور لگی رہتی تو شائید میں بابے کی باتوں کا قائل ہو جاتا۔۔۔ لیکن یہ کیا۔۔۔!!میری آنکھ تو اب کُھلی ہے یہ سب کچھ تو میں ایک خواب میں دیکھ رہا تھا۔۔۔میرے خواب کے ساتھ ساتھ خواب فروشوں کا ڈرامہ بھی ختم ہوچکا تھا۔
shafqat nazir
About the Author: shafqat nazir Read More Articles by shafqat nazir: 33 Articles with 32581 views Correspondent · Daily Jang London, United Kingdom.. View More