شرک کی تباہ کاریاں


شرک کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ظلم عظیم سے تعبیر فرمایا ہے(إِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ )’’بے شک شرک سب سے بڑا ظلم ہے‘‘(سورۃ لقمان :۳۱)اللہ نے اپنے تمام پیغمبروں کو اس دنیا میں لوگوں کو توحید کی دعوت دینے اور شرک سے منع کرنے اور اس کے بھیانک انجام سے ڈرانے کے لئے ہی مبعوث فرمایا تھا۔مگر افسوس صد افسوس کہ آج افضل المرسلین محمد رسول اللہ ﷺ کی خیر امت میں بھی شرک جیسا گناہِ عظیم روز بروز نت نئے انداز میں بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ وہ امت جسے شرک کو مٹانے اور اس کا استیصال کرنے کے لئے پیدا کیا گیا تھا بد قسمتی سے آج اسی قوم کی اکثریت شرک و کفر کی زندگی گزار رہی ہے
میں نے اپنے اس مضمون میں اسی گناہ عظیم شرک کی ہلاکت خیزیوں اور اس کی تباہ کاریوں کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔تاکہ نادان و جاہل مسلمان شرک کی خرابیوں اور اس کے انجام بد سے باخبر ہوکر شرک سے بچ سکیں۔میں نے اپنے اس مضمون کوچارنکات پر تقسیم کیا ہے (۱)شرک کی لغوی و اصطلا حی تعریف(۲)شرک کی قسمیں(۳)شرک کاسب سے اہم سبب (۴)شرک کی تباہ کاریاں
شرک کی لغوی تعریف:علامہ ابن منظور فرماتے ہیں :’’الشِرکۃ اورالشَرکہ‘‘ دونوں ایک ہی ہیں اس کا معنی ہے دوشریکوں کا باہم ملنا،گڈمڈ ہونا۔اورحدیث میں ہے’’ من اعتق شرکاًلہ فی عبد‘‘جس کسی نے غلام میں اپنا ’’شرک ‘‘ آزاد کر دیا ،یعنی اپنا حصہ چھوڑ دیا ۔

صاحب قاموس المحیط فرماتے ہیں کہ شرک کا معنی ہو تا ہے شراکت و ساجھے داری، اس کی جمع اشراک آتی ہے۔(القاموس المحیط ص:۱۲۱۹)
امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شرک مصدر ہے اس کا لغوی معنی ہے معاملات اور زراعت وغیرہ میں دو یا تین لوگوں کا شریک و ساجھی ہونا،اور اللہ کے ساتھ شرک کا مطلب ہوتا ہے کسی کو اس کا ساجھی و شریک بنانا۔جیسا کہ اللہ کا فرما ن ہے ( وما یومن اکثرہم باللہ الا وہم مشرکون)(غریب القرآن لابن قتیبۃص:۲۷)
شرک کی اصطلاحی تعریف: علامہ مناویؒ فرماتے ہیں شرک کہتے ہیں ’’الشرک اسناد الامر المختص بواحد الیٰ من لیس معہ امرہ، ذکرہ الحرالی‘‘ ’’کسی شخص کی مخصوص شئے کی نسبت کسی ایسے شخص کی طرف کردینا جو اس کا اہل نہ ہو اسے علامہ حرالی نے ذکر فرمایا ہے ‘‘ ۔
علامہ راغبؒ فرماتے ہیں کہ شرک یا تو اکبر ہوتا ہے یعنی کسی ذات کو اللہ تعالیٰ کا شریک ثابت کرنا ۔یا اصغر ہوتا ہے یعنی بعض معاملات(ا عمال صالحہ )میں اللہ کے علاوہ کسی غیر کی رعایت کرنا(کسی دوسرے کی خوشنودی و رضاجوئی چاہنا)(التوقیف علیٰ مہمات التعاریف للمناوی ص:۴۲۸)

شرک کی قسمیں:علامہ راغبؒ فرماتے ہیں کہ دین میں شرک کی دو قسمیں ہیں:
(۱)ایک شرک اکبر:یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں کسی کو اس کا شریک ٹھہرانااور یہ بہت بڑا کفر ہے جس کی مغفرت کا کوئی چانس نہیں جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے ( إِنَّ اللّہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاءُ وَمَن یُشْرِکْ بِاللّہِ فَقَدِ افْتَرَی إِثْماً عَظِیْماً )’’ اللہ تعالیٰ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کر دے اور جس نے اللہ کاشریک مقرر کیا اُس نے بڑا بہتان باندھا‘‘ دوسرے مقام پر فرمان الٰہی ہے(ْ إِنَّہُ مَن یُشْرِکْ بِاللّہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَأْوَاہُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ أَنصَار)’’(اور جان رکھو کہ) جو شخص اللہ کیساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر جنت کو حرام کر دے گا اور اُس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ‘‘یہی وہ شرک ہے جس سے توبہ کے لئے رسول اللہ ﷺ لوگوں سے بیعت لیا کرتے تھے ۔
(۲)شر ک اصغر یعنی ریاکاری ونفاق جس کا مطلب یہ ہے کی بعض اعمال صالحہ انجام دیتے وقت کسی مخلوق کی رضامندی و خوشنودی یاسے دکھلانا یا بتلانا مقصود ہو(المفردات لغریب القرآن ص: ۶۰)
شرک اصغر کی چندصورتیں:
شرک اصغر سے مرادہر ایسا وسیلہ ہے جو شرک اکبر تک پہونچا دیتا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو اِس سے بھی ڈرایا ہے (زاد الخطیب ج ۲ص:۵۵)
(۱)ریاکاری :رسول اکرمﷺ کا فرمان ہے ’’اِنّ اَخْوَف مَا اَخَاْفُ عَلَیْکُمْ اَلْشِرْکَ الْاَصْغَرِ‘‘ یعنی’’ مجھے تم پر سب سے زیادہ شرک اصغر کا اندیشہ ہے ‘‘
صحابہء کرام نے بوچھا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ !شرک اصغر کیا ہوتا ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا شرک اصغر سے مراد ریاکاری ہے ۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا تو ریاکاروں سے کہے گا تم ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کو دکھلانے کے لئے تم عمل کیا کرتے تھے، پھر دیکھو کیا وہ تمہیں کوئی بدلہ دیتے ہیں [صحیح الجامع للالبانی ؒ :۱۵۵۵]
(۲)غیر اللہ کی قسم کھانا :عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ’’ من حلف بغیر اللہ فقد اشرک‘‘’’جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے شرک کیا‘‘[صحیح الجامع للالبانی:۶۲۰۴]
(۳)بد شگونی لینا اور بد فالی نکالنا ۔عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جس شخص کو بد شگونی کسی کام سے روک دے تو اس نے یقیناً شرک کیا‘‘(صحیح الجامع للالبانی :۶۲۶۴)
(۴)کاہنوں اور نجومیوں کے پاس جانا اور ان کی تصدیق کرنا۔جو لوگ علم غیب کا دعویٰ کرتے ہیں اور ستاروں کی گردش یا ہاتھوں کی لکیروں سے قسمت کے احوال معلوم کرتے ہیں ان کے پاس جانا اور ان کی تصدیق کرنا شرک اصغر کی ایک شکل ہے (زاد الخطیب ج۲ ص۵۶)
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے ’’جو شخص کسی کاہن یا نجومی کے پاس جائے اور اس سے کسی چیز کے متعلق سوال کرے تو ایسے شخص کی چالیس راتوں کی نماز قبول نہیں کی جاتی ‘‘[صحیح مسلم :۵۹۵۷]
(۵)کڑا دھاگا اور تعویذ پہننا ۔کسی شر سے بچنے یا کسی بیماری سے شفایابی کے لئے کڑا یا دھاگا یا تعویذ لٹکانا شرک اصغر کی ایک شکل ہے کیونکہ یہ شرک اکبر تک پہونچانے کا ایک وسیلہ ہے [زاد الخطیب ج ۲ ص: ۵۶]
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے ’’ان الرقی والتمائم والتولۃ شرک ‘‘’’بیشک (غیر شرعی) جھاڑ پھونک ، تعویذات ، اور میں بیوی کے درمیان محبت پیدا کرنے کے لئے کوئی غیر شرعی عمل کرنا شرک ہے ‘‘۔[صحیح الجامع للالبانیؒ :۱۶۲۳]
ڈاکٹر حافظ محمد اسحق زاھدحفظہ اللہ حدیث مذکور کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ غیر شرعی جھاڑ پھونک کرنا ،اور نظر بد وغیرہ سے بچاؤ کے لئے تعویذات وغیرہ لٹکانا درست نہیں ہے ۔ ہاں شرعی طریقے کے مطابق قرآنی آیات اور اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی مسنون دعائیں پڑھ کر دم کرنا درست ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں شفا رکھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَاء وَرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْن)[الاسراء :۸۲]’’اور یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لئے تو سراسر شفا اور رحمت ہے ‘‘[زاد الخطیب ج ۲ ص:۵۷]
شرک اکبر کی قسمیں:شرک اکبر کی چار قسمیں ہیں (۱) شرک دعا (۲)شرک نیت (۳) شرک اطاعت (۴)شرک محبت ۔
(۱)شرک دعاء:یعنی دعاء و فریاد جو کہ صرف اللہ کا حق اورعظیم عبادت ہے اس میں اللہ کے ساتھ کسی نبی، ولی،پیر ،بزرگ یا فرشتے کو شریک کرنا۔ جیساکہ ارشاد ربانی ہے(فَإِذَا رَکِبُوا فِیْ الْفُلْکِ دَعَوُا اللَّہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجَّاہُمْ إِلَی الْبَرِّ إِذَا ہُمْ یُشْرِکُونَ )’’پھر جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تودین کو اللہ کے لئے خالص کرکے اس سے دعائیں مانگتے ہیں۔پھر جب اللہ ان کو نجات دے کر خشکی پر لے آتا ہے تو اسی آن شرک کرنے لگتے ہیں‘‘(سورۃ العنکبوت :۶۵۔ترجمہ ابوالکلام آزادؔ ؒ )
(۲)شرک نیت و ارادہ:یعنی خالص منافقین کی طرح تمام اعمال صالحہ کو اللہ کی خوشنودی اورنجات آخرت کی نیت کے برخلاف صرف دنیوی مفاد ،شہرت طلبی، اورریاکاری کی نیت سے انجام دینا۔جیساکہ اللہ کا فرمان ہے (مَن کَانَ یُرِیْدُ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا نُوَفِّ إِلَیْْہِمْ أَعْمَالَہُمْ فِیْہَا وَہُمْ فِیْہَا لاَ یُبْخَسُونَ *أُوْلَءِکَ الَّذِیْنَ لَیْْسَ لَہُمْ فِیْ الآخِرَۃِ إِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُواْ فِیْہَا وَبَاطِلٌ مَّا کَانُواْ یَعْمَلُونَ)’’جو کوئی صرف دنیا کی زندگی اور اس کی دلفریبیاں ہی چاہتا ہے(تو ہمارا ٹھہرایا ہوا قانون یہ ہے کہ) اس کی کوشش و عمل کے نتائج یہاں پورے پورے دے دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتاکہ دنیا میں اس کے ساتھ کمی کی جائے۔لیکن (یاد رکھو )یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت کی زندگی میں (دوزخ کی)آگ کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ جوکچھ انہوں نے یہاں بنایا ہے سب اکارت ہو جائے گا،اور جوکچھ کرتے رہے ہیں سب نابود ہونے والا ہے‘‘[سورۃہود :۱۵،۱۶۔ترجمہ ابوالکلام آزادؔ ؒ ]
البتہ اگر تمام اعمال کے بجائے صرف بعض اعما ل میں بندے کی نیت غیر خالص ہوجائے تو اس کا شمار ریاکاری میں ہوگاجس کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج نہ ہوگالیکن اس کے اعمال کا ثواب کم ہو جائے گا۔(الاعلام بتوضیح نواقض الاسلام ص:۷)
(۳)شرک اطاعت : حلال و حرام کے معاملات میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے فیصلوں کے خلاف علماء اور اولیاء کی اطاعت کرنااور یہ عقیدہ رکھنا کہ حلال و حرام قرار دینے کا انہیں بھی کچھ اختیار ہے۔یہ انہیں رب بنانے کے مترادف ہے جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے(اتَّخَذُواْ أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّہ)’’ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور مشائخ کو پردردگار بنا لیا‘‘۔(سورۃ التوبۃ:۳۱)
مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث سے بخوبی ہوجاتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے یہ آیت (اتَّخَذُواْ أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَاباً مِّن دُونِ اللّہ)سن کر عرض کیاکہ یہودو نصاریٰ نے تو اپنے علماء کی کبھی عبادت نہیں کہ پھر یہ کیوں کہا گیا کہ’انہوں نے ان کو رب بنالیا؟آپ ﷺ نے فرمایا ’’یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے ان کی عبادت نہیں کی۔لیکن یہ بات تو ہے نا ‘کہ ان کے علماء نے جس (چیز)کوحلال قرار دے دیا ‘اس کو انہوں نے حلال اور جس چیز کو حرام کردیا ‘ اس کو حرام ہی سمجھا ۔ یہی ان کی عبادت کرنا ہے ‘‘۔(صحیح ترمذی بتحقیق الشیخ الالبانی ؒ حدیث :۲۴۷۱)کیونکہ حلال و حرام کرنے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ یہی حق اگر کوئی شخص کسی اور کے اندر تسلیم کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس کو اپنا رب بنا لیا ۔اس آیت میں ان لوگوں کے لئے بڑی تنبیہ ہے جنہوں نے اپنے اپنے پیشواؤں کو تحلیل و تحریم کا منصب دے رکھا ہے اور ان کے اقوال کے مقابلے میں وہ نصوص قرآن و حدیث کو بھی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔اَعاذَنااللہ منہ(تفسیر احسن البیان ص:۴۷۷،۴۷۸)
شر ک محبت:یعنی ایسی محبت (جس میں تعظیم ،ذلت ،عجزو انکساری ،اور خشوع خضوع سب شامل ہے )جوصرف اور صرف اللہ عز وجل کاحق ہے اگر کوئی بندہ غیر اللہ سے اِس طرح کی محبت کرے گا وہ تو شرک اکبر کا مرتکب ہوگاجیسا کہ اللہ کا فرمان ہے(وَمِنَ النَّاسِ مَن یَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّہِ أَندَاداً یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللّہِ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبّاً لِّلّہِ )’’اور (دیکھو) انسانوں میں سے کچھ انسان ایسے بھی ہیں جو اللہ کے سوا دوسری ہستیوں کو اس کا ہم پلہ بنا لیتے ہیں۔ وہ انہیں اس طرح چاہنے لگتے ہیں جیسی چاہت اللہ کے لئے ہونی چاہیئے۔حالانکہ جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ان کے دلوں میں تو سب سے زیادہ محبت اللہ ہی کی ہوتی ہے ‘‘۔[سورۃ البقرۃ :۱۶۵۔ترجمہ ابوالکلام آزادؔ ؒ ]
مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اللہ پر ایمان اور اللہ کی محبت دونوں لازم و ملزوم ہیں۔پس اگر اللہ کے سواکسی دوسری ہستی کو بھی ویسی ہی چاہت سے ماننے لگے جیسی چاہت سے ماننا صرف اللہ ہی کے لئے ہے تو پھر یہ اللہ کے ساتھ دوسرے کو ہم پلہ بنادینا ہوا۔اور توحید الٰہی کا اعتقاد درہم برہم ہوگیا۔ پس مومن وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ کی محبت رکھنے والا ہے [تفسیر ترجمان القرآن ج۱ص:۳۰۳]
غیر اللہ ،انبیاء ، اولیاء کو پکارنے والے عموماً یہی عذر پیش کرتے ہیں کہ ہم ان کی پوجا نہیں کرتے اور نہ ہی انہیں مشکل کشا تصور کرتے ہیں بلکہ صرف محبت میں ان کو پکارتے ہیں۔یہ بھی شرک ہے کیونکہ اس قسم کی محبت صرف اللہ تعالیٰ کے شایان شان ہے ۔لیکن کئی مرید اپنے پیروں کی محبت میں اتنے گرفتار ہوتے ہیں کہ ان کی تعظیم اللہ کی تعظیم کی طرح کرتے ہیں ، ان کے سامنے گردن جھکاتے ،سجدے کرتے اور ان کی ہر بات شریعت سمجھتے ہیں،اور ان کی محبت میں اس قدر اندھے اور فنا ہوتے ہیں کہ ان کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ان کے پیر و بزرگ سو میل دور سے بھی پکار سنتے اور جواب دیتے ہیں ۔اور بعض لوگ اپنے فقہاء اور ائمہ کی اتباع کو(اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مقابلے میں)واجب تصور کرتے ہیں۔حالانکہ ہر مسلمان کوچاہئیے کہ کو وہ اللہ تعالیٰ سے اس طرح کی محبت رکھے۔اور یہ مومنون کی شان ہے کہ انہین سب سے زیادہ محبت اپنے خالق حقیقی سے ہوتی ہے وہ اس کی تعظیم مین کسی مخلوق کو شریک نہیں کرتے [توحید ربانی:۳۴۳،۳۴۴]
شرک کا بنیادی سبب: دنیا میں شرک کا بنیادی سبب انبیا ء و صالحین کی تعظیم میں غلو ہے جس کا ارتکا ب سب سے پہلے قوم نوح نے کیا ۔قوم نوح میں پانچ بزرگ تھے (۱) ود (۲) سواع (۳)یغوث (۴) یعوق (۵) نسر۔ جب ان کا انتقال ہو گیا تو شیطان نے نوح علیہ السلام کی قوم کو ان بزگوں کی تعظیم کے نام پر رفتہ رفتہ شرک اکبر تک پہونچا دیا۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جن بتوں کی پوجا پہلے نوح علیہ السلام کی قوم کرتی تھی بعد میں انہیں بتوں کو عرب بھی پوجنے لگے ۔(۱)ود‘دومۃ الجندل میں بنی کلب کا بت تھا ۔(۲)سواع بنی ہذیل کا (۳)یغوث بنی مراد کااور مراد کی شاخ بنی غطیف کاجو وادی اجوف میں قوم سبا کے پاس رہتے تھے ۔(۴) یعوق بنی ہمدان کا بت تھا (۵) نسر حمیر کا بت تھاجو ذو الکلاع کی آل میں سے تھے ۔ یہ پانچوں نوح علیہ السلام کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے جب ان کی وفات ہو گئی تو شیطان نے ان کے دل میں یہ بات ڈالی کہاپنی مجلسوں میں جہان وہ (بزرگ) بیٹھتے تھے ان کے بت نصب کرلیں اور ان بتوں کے نام اپنے ان بزرگوں کے نام پر رکھ لیں،چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیااس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی ۔لیکن جب وہ لوگ مرگئے جنہوں نے ان بتوں کو گاڑ رکھا تھا اور لوگوں میں علم نہ رہا تو (بعد میں) ان بتوں کی پوجا ہونے لگی[صحیح بخاری کتاب التفسیر :۴۹۲۰]
ڈاکٹرسید شفیق الرحمن حفظہ اللہ فرماتے ہیں’’شرک پھیلنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ شیطان اولیاء اللہ سے محبت کو آڑ بناکرغلو کرواتا ہے،قوم نوح کو دیکھئے ‘عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ’’ود ،سواع ،یغوث، یعوق اورنسر ،نوح علیہ السلام کی قوم کے صالحین تھے [بخاری: ۴۹۲۰ ]
اللہ نے ان کے تقویٰ کی بدولت انہیں لوگوں کا محبوب بنا دیا ،ملعون شیطان نے اولیاء اللہ سے محبت کا رخ اندھی عقیدت کی طرف موڑ دیا اور لوگ ان کی عبادت کرنے لگ گئے۔جب نوح علیہ السلام ان لوگوں کو ڈرانے کے لئے بھیجے گئے تو قوم کے سرداروں کے پاس سب سے کارگر حربہ یہی تھاکہ یہ نبی تمہیں تمہارے بزرگوں سے باغی کرنے آیا ہے( وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدّاً وَلَا سُوَاعاً وَلَا یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْراً )’’اور انہوں نے کہا کہ تم اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑ نااورود ،سواع ،یغوث، یعوق اورنسرکو کبھی نہ چھوڑ نا[نوح :۲۳]
شیطان نے یہ حربہ ہر قوم میں استعمال کیااور انبیاء کو یہی جواب ملا( إِنَّا وَجَدْنَا آبَاء نَا عَلَی أُمَّۃٍ وَإِنَّا عَلَی آثَارِہِم مُّقْتَدُون)’’ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک راہ پر پایا ہے اور ہم قدم بقدم انہیں کے پیچھے چل رہے ہیں[الزخرف:۲۳]
معلوم ہواکہ انسانوں کا انبوہ کثیراپنے بڑوں کی اندھی محبت میں جہنم رسید ہوااور جو راستہ انہوں نے بزرگوں کا سمجھ کر اختیار کر رکھا تھاحقیقتاً وہ شیطان کا راستہ تھا۔[تجدید ایمان ص:۲۹،۳۰]
شرک کی تباہ کاریاں:
(۱)عذاب الٰہی کی دھمکی: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں شرک وکفر جیسے گناہ عظیم کے ارتکاب پر شدید ترین دنیاوی عذاب کی بھی دھمکی سنائی ہے ارشاد ربانی ہے(وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَداً* لَقَدْ جِءْتُمْ شَیْْئاً إِدّاً* تَکَادُ السَّمَاوَاتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدّاً* أَن دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَداً )’’اور ان لوگوں نے(عیسائیوں نے ) کہا’’خدائے رحمان نے اپنا ایک بیٹا بنا رکھا ہے‘‘۔ بڑی ہی سخت بات ہے جو تم گھڑلائے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے ‘زمین کا سینہ چاک ہوجائے‘پہاڑ جنبش میں آکر گر پڑیں!کہ لوگ اللہ کے لئے بیٹا ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔[سورۃ مریم :۸۸تا ۹۰]
(۲) عذاب الٰہی کا نزول:نوح علیہ السلام کی قوم سے لے کر آج تک اللہ رب العالمین اپنی اور اپنے رسولوں کی تکذیب اور کھلم کھلم شرک کا ارتکاب کرنے کیوالی بیشمار قوموں پر اپنا درد ناک عذاب نازل کرچکا ہے بطورمثال قوم نوح کا تذکرہ ملا حظہ فرمائیں۔ اللہ فرما تا ہے(فَأَوْحَیْْنَا إِلَیْْہِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا فَإِذَا جَاء أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ فَاسْلُکْ فِیْہَا مِن کُلٍّ زَوْجَیْْنِ اثْنَیْْنِ وَأَہْلَکَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَیْْہِ الْقَوْلُ مِنْہُمْ وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِیْ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا إِنَّہُم مُّغْرَقُونَ )’’۔ پھر ہم نے اُن کی طرف وحی بھیجی کہ ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہمارے حکم سے کشتی بناؤ پھر جب ہمارا حکم آ پہنچے اور تنور (پانی سے بھر کر) جوش مارنے لگے تو سب (قسم کے حیوانات) میں سے جوڑا جوڑا (یعنی نر اور مادہ) دو دو کشتی میں بٹھا دو اور اپنے گھر والوں کو بھی، سواء اُن کے جن کی نسبت، ان میں سے، (ہلاک ہونے کا) حکم پہلے صادر ہو چکا ہے، اور ظالموں کے بارے میں ہم سے کچھ نہ کہنا وہ ضرور ڈبو دئیے جائیں گے‘‘ ۔(سورۃ ہود :۳۶،۳۷)
(کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَکَذَّبُوا عَبْدَنَا وَقَالُوا مَجْنُونٌ وَازْدُجِرَ * فَدَعَا رَبَّہُ أَنِّیْ مَغْلُوبٌ فَانتَصِرْ* فَفَتَحْنَا أَبْوَابَ السَّمَاء بِمَاء مُّنْہَمِرٍ * وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُیُوناً فَالْتَقَی الْمَاء عَلَی أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ * وَحَمَلْنَاہُ عَلَی ذَاتِ أَلْوَاحٍ وَدُسُرٍ * تَجْرِیْ بِأَعْیُنِنَا جَزَاء لِّمَن کَانَ کُفِرَ * وَلَقَد تَّرَکْنَاہَا آیَۃً فَہَلْ مِن مُّدَّکِرٍ * فَکَیْْفَ کَانَ عَذَابِیْ وَنُذُرِ *وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِن مُّدَّکِرٍ )’’ ان سے پہلے نوح کی قوم نے بھی تکذیب کی تھی تو انہوں نے ہمارے بندے کو جھٹلایا اور کہا کہ دیوانہ ہے اور انہیں ڈانٹا بھی۔ تو انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ (بارِ الٰہی) میں (ان کے مقابلے میں) کمزور ہوں۔ تو (ان سے) بدلا لے پس ہم نے زور کے مینہ سے آسمان کے دہانے کھول دئیے۔ اور زمین میں چشمے جاری کر دئیے تو پنی ایک کام کے لئے جو مقدر ہو چکا تھا جمع ہو گیا۔ اور ہم نے نوح کو ایک کشتی پر جو تختوں اور میخوں سے تیار کی گئی تھی سوار کر لیا۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی (یہ سب کچھ) اس شخص کے انتقام کے لئے (کیا گیا) جس کو کافر مانتے نہ تھے۔ اور ہم نے اس کو ایک عبرت بنا کرچھوڑ اتو کوئی ہے کہ سوچے سمجھے۔‘‘ (سورۃ القمر :۹تا۱۵)
(۳)بے غیرتی:شرک سے انسان کے اندر بے غیرتی پیدا ہو جاتی ہے اور اور جس مشرک کا شرک جتنا بڑا ہوگا اس کے اندر اسی قدر بے غیرتی زیادہ پائی جائے گی۔جس طرح زناکار مرد اور عورت اپنے شوہر و بیوی کو چھوڑ کر دوسروں سے اپنی جنسی خواہش کی تسکین حاصل کرتے ہیں بالکل اسی طرح ایک مشرک اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہونے والی پیشانی کو غیروں کے سامنے جھکا کر بے غیرتی کا مظاہرہ کرتا ہے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر زنا اور شرک کو ایک ساتھ ذکر فرمایا ہے ارشاد ربانی ہے( الزَّانِیْ لَا یَنکِحُ إلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً وَالزَّانِیَۃُ لَا یَنکِحُہَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذَلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْن)’’زانی مرد بجز زانیہ یامشرکہ عورت کے اور سے نکاح نہیں کرتا اور زناکار عورت بھی بجززانی یا مشرک مرد کے اور سے نکاح نہیں کرتی اور ایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا۔(سورۃ النور:۳ ، ترجمہ جوناگڑھی)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ فرماتے ہیں ’’بعض کہتے ہیں کہ یہاں نکاح ‘سے مراد معروف نکاح نہیں بلکہ یہ جماع کے معنی میں ہے اور مقصد زنا کی شناعت و قباحت بیان کرنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ:بدکار مرد اپنی جنسی خواہش کی ناجائز طریقے سے تسکین کے لئے بدکار عورت کی طرف اوراسی طرح بدکار عورت بدکار مرد کی طرف رجوع کرتی ہے‘مومنوں کے لئے ایسا کرنا یعنی زناکاری حرام ہے۔اور مشرک مردوعورت کا ذکر اس لئے کردیا کہ شرک بھی زنا سے ملتا جلتا گناہ ہے‘جس طرح مشرک اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کے در پر جھکتا ہے اسی طرح ایک زنا کار اپنی بیوی کو چھوڑ کر یا بیوی اپنے خاوندکو چھوڑ کرغیروں سے اپنا منہ کالا کراتی ہے۔ یوں مشرک اور زانی کے درمیان ایک عجیب معنوی مناسبت پائی جاتی ہے‘‘۔(تفسیر احسن البیان ص:۹۶۴)
(۴)جملہ اعمال صالحہ کی بربادی:شرک اکبر کے مرتکبین خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم اگر وہ بغیر توبہ کئے مرگئے تو ان کی تمام نیکیاں بروز قیامت ضائع و برباد ہو جائیں گی جیسا کہ ارشاد ربانی ہے( وَقَدِمْنَا إِلَی مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ہَبَاء مَّنثُوراً )’’اور انہوں نے دنیا میں جو نیک کام کئے تھے ان پر ہم متوجہ ہوں گے اور ان کو اڑتی خاک کی طرح کر دیں گے ‘‘(سورۃ الفرقان :۳۲، ترجمہ نواب وحید الزماں خاں حیدرآبادی ؒ )
مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں ، ’’کفار مکہ مسلمانوں سے کہا کرتیتھے کہ تم کچھ اچھے کام کرتے ہو تو ہم بھی بہت سے اچھے کام کرتے ہیں ، ہم حاجیوں کی خبر گیری کرتے ہیں ،انہیں پانی پلانے کا انتظام کرتے ہیں ،ان کی امداد کرتے ہیں ، غریبوں مسکینوں اور بیواؤں کے لئے فنڈ اکٹھا کرتے ہیں ، اور انہیں وظیفے دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
یہاں کافروں کے ایسے ہیں اچھے اعمال کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہم ان کے ایسے اعمال کی طرف بڑھیں گے تو انہیں اڑتا غبار بنادیں گے ، وجہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ اعمال اس غرض سے تو کئے ہی نہیں تھے کہ ان کو آخرت میں ان کا بدلہ ملے ۔ کیونکہ وہ آخرت پر تو یقین ہی نہیں رکھتے تھے ۔ ان کے اعمال کی کچھ بنیاد ہی نہ تھی جس پر وہ قائم رہ سکتے ۔ دنیا میں اگر انہوں نے کچ اچھے اعمال کئے تھے تو صرف اس غرض سے کہ لوگ انہیں اچھا سمجھیں اور اچھا کہیں اور یہ کام دنیا میں ہو چکا ۔ ان کے اچھے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا میں مل چکا آخرت میں ان کو اب کیا ملے گا ؟ اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الکہف میں یوں بیان فرمایا ( فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَزْناً)یعنی ہم ایسے لوگوں کے لئے میزان الاعمال رکھیں گے ہی نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے اچھے عمل تو اڑتا ہوا غبار بن گئے ، اب نیکیوں کے پلڑے میں رکھنے کے لئے کیا چیز باقی رہ گئی کہ ان کے لئے میزان رکھی جائے ۔‘‘(تیسیر القر آن ج۳ ص۳۰۵)
علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’اما الشرک با اللہ والکفر بالرسول فانہ یحبط جمیع الحسنات بحیث لا تبقی معہ حسنۃ ‘‘ (بہر حال اللہ کے ساتھ شرک اور رسول ﷺ کی رسالت کا انکار یہ دونوں (گناہ) اس طور پر تمام نیکیوں کو برباد کردیتے ہیں کہ کوئی بھی نیکی باقی نہیں رہ جاتی ہے (ہدایۃ الحیاریٰ فی اجوبۃ الیہود والنصاریٰ ج ۱ص ۱۳۱)
یہ عقیدہ رکھنا کہ’’ شرک سے متعلق تمام کی تمام آیات کفار اور ان کے بتوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں مسلمان کچھ بھی کرتا رہے مشرک نہیں ہو سکتا ‘‘قرآن مجید کے سراسر خلاف ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے ( وَلَوْ أَشْرَکُواْ لَحَبِطَ عَنْہُم مَّا کَانُواْ یَعْمَلُونَ )’’ اور اگر یہ لوگ (توحید کی راہ چھوڑ کر ) شرک کرتے تو ان کا سارا کیا دھرا اکارت جاتا (سورۃ الانعام : ۸۸ ، ترجمہ مولانا ابوالکلام آزادؔ )
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر ان الفاظ میں فرمائی ہے ’’اٹھارہ انبیاء کے اسماء گرامی (ابراہیم ؑ ، اسحٰق ؑ ، یعقوب ؑ ، نوح ؑ ، داؤد ؑ ، سلیمان ؑ ، ایوب ؑ ،یوسفؑ ، موسیٰ ؑ ، ہارون ؑ ، زکریاؑ ، یحییٰ ؑ ، عیسیٰ ؑ ، الیاس ؑ ، اسماعیل ؑ ، الیسعؑ ، یونس ؑ ، لوطؑ ) ذکر کرکے اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے ‘ اگر یہ حضرات بھی شرک کا ارتکاب کرلیتے تو ان کے سارے اعمال برباد ہو جاتے ۔ جس طرح دوسرے مقام پر نبی ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (لَءِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ )(الزمر ۔ ۶۵)’’ اے پیغمبر!اگر تونے بھی شرک کا ارتکاب کیا تو تیرے سارے عمل برباد ہو جائیں گے ‘‘ حالانکہ پیغمبروں سے شرک کا صدور ممکن نہیں ۔ مقصد امتوں کو شرک کی خطرناکی اور ہلاکت خیزی سے آگاہ کرنا ہے ۔(تفسیر احسن البیان ص :۳۵۹)
علامہ شوکانی رحمہ اللہ (لَءِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ )کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: یہ کلام بطور تعریض رسولوں کے علاوہ دوسرے انسانوں کے با رے میں نازل ہوا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جملہ پیغمبروں کو شرک سے محفوظ فرما دیا ہے ،اور اس انداز سے (پیغمبروں کو خطاب کرکے)ذ کر کرنے کا مقصدعام بندوں کو شرک سے ڈرانا ہے کہ اگر بالفرض اللہ کے انبیاء شرک کا ارتکاب کر بیٹھیں تو ان کے بھی تمام اعمال برباد ہو جائیں گے، پھر تو انبیاء کے علاوہ دوسرے انسانوں کے اعمال شرک (شرک پر موت ) کی وجہ سے بدرجہ اؤلیٰ برباد ہو جائیں گے ۔(تفسیر فتح القدیر ۔سورۃ زمر :۶۵)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ فرماتے ہیں ’’افسوس ہے کہ آج مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اکثریت بھی مشرکین عرب کی طرح توحید ربوبیت کی تو قائل ہے لیکن توحید الوہیت کی منکر ہے اس لئے وہ ما فوق الاسباب طریقے سے غیر اللہ سے بھی امیدیں وابستہ کرتی ہے، غیر اللہ کے نام کی بھی نذرو نیاز دیتی ہے ،غیر اللہ سے بھی استمدادو استغاثہ کرتی ہے، قبروں کا طواف کرتی ہے ،بہت سے لوگ قبروں کو سجدہ تک کرتے ہیں ،کیونکہ وہ غیر اللہ میں بھی اللہ وا لی صفات تسلیم کرتے ہیں،حالانکہ یہ شرک ہے ؂
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے (علامہ اقبال ؒ )
[توحید اور شرک کی حقیقت قرآن و حدیث کی روشنی میں، ص: ۵۱ ]
علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ومن المحال ان یکون دعاء الموتی ، اوالدعاء بہم او الدعاء عندہم مشروعا وعملاً صالحاًویصرف عنہ القرون الثلاثۃ المفضلۃ بنص رسول اللہ ﷺ ثم یرزقہ الخلوف الذین یقولون ما لا یفعلون ویفعلون مالا یو ء مرون،فہذہ سنۃ رسول اللہ ﷺ فی اہل القبور بضعاً وعشرین سنۃ وہذہ سنۃ خلفاۂ الراشدین وہذہ طریقۃ جمیع الصحابۃوالتابعین لہم باحسان‘‘اگرفوت شدہ بزرگوں کو پکارنااور ان کے وسیلے سے دعا کرنا یا ان کی قبر کے پاس اپنے لئے دعا مانگنادرست اور جائز ہوتا تو اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ صحابہء کرامؓ،تابعین عظام ؒ اس سے پیچھے رہ جاتے اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس امت کے افضل انسان جن کو سید المرسلینﷺ کی زبان اطہر سے خیر القرون ہونے کا سر ٹیفیکٹ ملا ہو، وہ ایسے عمل سے غافل رہے ہوں اور بعد والوں کو اس کا علم ہوا ہو جو وہ کام کرتے ہیں جس کا حکم نہیں ہے اور وہ بات کہتے ہیں جس کا اذن نہیں ہے ۔یہ ہے وہ طریقہ جسے آنحضرت ﷺ نے۲۳ سال تک اختیار کیا حتی کہ آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے ، اور یہی خلفاء راشدینؓ اور تمام صحابہء کرامؓ کی سنت ہے اور تابعین عظام کا طریقہ ہے ((رسول اللہ ﷺ نے قبروں کی زیارت اس لئے مشروع کی تھی کہ آخرت یاد رہے اور میت کو نیکی پہونچے اس طرح کہ اس کے لئے رحمت کی دعا کی جائے اور اللہ سے اس کے لئے بخشش اور عافیت کا سوال کیا جائے))[اغاثۃ اللہفان من مصائد الشیطان ج۱ ص:۲۰۲۔ ترجمہ عبد الجبار السلفی ایم اے]
(۵) دعاء مغفرت سے محرومی :اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے حق میں دعاء مغفرت کرنے سے منع فرمایا ہے چاہے وہ نبیﷺ کے گھرانے اورخاندان ہی کے کیوں نہ ہو ں۔ ارشاد ربانی ہے(َمَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ أَن یَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِکِیْن وَلَوْ کَانُواْ أُوْلِیْ قُرْبَی مِن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ أَنَّہُمْ أَصْحَابُ الْجَحِیْم)’’پیغمبر اور ان لوگوں کوجو ایمان رکھتے ہیں ایسا کرنا سزاوار نہیں کہ جب واضح ہو گیایہ لوگ دوزخی ہیں‘تو پھر مشرکوں کی بخشائش کے طلب گارہوں اگر چہ وہ ان کے عزیزو اقارب ہی کیوں نہ ہوں(سورۃ التوبۃ :۱۱۳۔ ترجمہ ابوالکلام آزادؔ ؒ )
سعید بن مسیبؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آپہونچا تونبی ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے۔اس وقت ان کے پاس ابوجہل بن ہشام،اور عبداللہ بن ابی امیہ بھی موجود تھے۔رسول اللہﷺ نے ابوطالب سے فرمایا :اے چچا! لا الہ الا اللہ کہہ دیجیئے اس کلمے کے ذریعہ میں اللہ کے پاس آپ کے حق میں (مسلمان ہونے )کی گواہی دوں گا ،۔اتنے میں ابوجہل او ر ابن ابی امیہ کہنے لگے اے ابوطالب کیا تو عبد المطلب کے دین سے اعراض کر رہا ہے؟رسول اللہ ﷺ برابر اپنی بات دہراتے رہے اوروہ دونوں (ابوجہل اورابن ابی امیہ)اپنی بات دہراتے رہے لیکن ابوطالب نے لا الہ الا اللہ نے کہنے سے انکار کردیا اورآخر میں یہ کہہ کرکہ وہ عبدالمطلب کے دین پرہیں وفات پاگئے۔تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایااے چچا ! اللہ کی قسم جب تک مجھے منع نہیں کردیا جاتا میںآپ کے لئے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا۔ اس موقع پر اللہ نے اس آیت کریمہ(مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ أَن یَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِکِیْن)کو نازل فرمایا۔(صحیح بخاری:۱۳۶۰)
(۶) بروز محشرشفاعت نبوی ﷺ سے محرومی:ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہرنبی کے لئے ایک ایسی دعا ہے جو ضرور قبول کی جاتی ہے۔ہر نبی نے اس دعا کے سلسلے میں جلدی کی اسے دنیا ہی میں مانگ لیا۔ لیکن میں نے اپنی وہ دعا بروز قیامت اپنی امت کی شفاعت کے لئے محفوظ کر رکھی ہے۔اور میری وہ شفاعت ان شاء اللہ میری امت کے ہر شخص کو نصیب ہوگی جو اس حالت میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا ۔( صحیح مسلم :۵۱۲)
(۷)مشرکوں کو قیامت کے دن زمین کی ساری دولت کا فدیہ بھی جہنم سے نہیں بچا سکے گا۔( وَلَوْ أَنَّ لِکُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِیْ الأَرْضِ لاَفْتَدَتْ بِہِ وَأَسَرُّواْ النَّدَامَۃَ لَمَّا رَأَوُاْ الْعَذَابَ وَقُضِیَ بَیْْنَہُم بِالْقِسْطِ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُون)’’اور اگر ان ظالموں کے پاس وہ سب کچھ ہوتاجو زمین میں ہے، اور اسی جیسا اور ہوتاتو قیامت کے دن برے عذاب سے بچنے کے لئے وہ سارے کا سارا دے ڈالتے، اور (اس دن ) اللہ کی طرف سے ان کے سامنے وہ کچھ ظاہر ہوگاجس کا وہ گمان بھی نہیں کرتے تھے‘‘۔(سورۃ الزمر:۴۷)
ڈاکٹر محمد لقمان السلفی حفظہ اللہ فرماتے ہیں’’ اس آیت میں عذاب آخرت کی شدت و ہولناکی بیان کی گئی ہے کہ شرک کا ارتکاب کرکے اپنے آپ پر ظلم کرنے والے جب قیامت کے دن عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو اس کی ہولناکی کا اندازہ کر کے تمنا کریں گے کہ اگر ان کے پاس زمین بھر کر دولت ہوتی اور اتنی دولت اور ہوتی ، اور سب دے کراس عذاب سے نجات مل جاتی تو وہ ایسا کرنے میں ذرا بھی تاخیر نہ کرتے، اس لئے کہ وہ ایسا خطرناک اور درد ناک عذاب ہوگاجو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا، اور دنیا میں جن گناہوں کا ارتکاب کرتے رہے تھے ان کا انجام بدان کی آنکھوں کے سامنے ہوگا، اور جس عذاب کا مذاق اڑاتے رہے تھے وہ انہیں ہر طرف سے گھیر لے گا[ تیسیر الرحمن لبیان القرآن :۱۳۰۴]
(۸)بروز قیامت تمام معبودان باطل مشرکوں سے اپنی براء ت کا اعلان کردیں گے۔( وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ وَمَا یَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہِ فَیَقُولُ أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِیْ ہَؤُلَاء أَمْ ہُمْ ضَلُّوا السَّبِیْلَ * قَالُوا سُبْحَانَکَ مَا کَانَ یَنبَغِیْ لَنَا أَن نَّتَّخِذَ مِن دُونِکَ مِنْ أَوْلِیَاء وَلَکِن مَّتَّعْتَہُمْ وَآبَاء ہُمْ حَتَّی نَسُوا الذِّکْرَ وَکَانُوا قَوْماً بُوراً )’’ اور جس دن (اللہ) ان کو اور انہیں جنہیں یہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں جمع کرے گا تو فرمائے گا کہ کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود گمراہ ہو گئے تھے؟ ۱۷۔ وہ کہیں گے کہ تو پاک ہے ہمیں یہ بات شایاں نہ تھی کہ تیرے سوا اوروں کو دوست بناتے لیکن تو نے ہی ان کو اور ان کے باپ دادا کو برتنے کو نعمتیں دیں یہاں تک کہ وہ تیری یاد کو بھول گئے اور یہ ہلاک ہونے والے لوگ تھے ‘‘(سورۃالفرقان :۱۷،۱۸)
مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’یعنی معبودوں کو بھی اور ان کی عبادت کرنے والوں کو بھی سب کو آمنے سامنے لا اکٹھا کرے گا ۔ اور اللہ تعالیٰ پہلے معبودوں ہی کو مخاطب کر کے پوچھیں گے کہ ’’کیا تم نے میرے ان بندوں کو کہا تھا کہ ہم تمہارے مشکل کشا اور حاجت روا ہیں لہذا ہمارے یہاں نذرانے پیش کیا کرو ۔ ہم قیامت کے دن تمہیں اللہ سے بخشوا لیں گے ‘‘یا ان عبادت گزاروں اور تمہارے عقیدت مندوں نے خود ہی ایسے عقیدے گھڑ لئے تھے ؟ اس سوال کے جواب میں معبود حضرات کہیں گے کہ یا اللہ!ہم تو خود تجھے ہی اپنا حاجت روا اور مشکل کشا سمجھتے رہے تیرے ہی سامنے اپنی حاجتیں پیش کرتے رہے ۔ تیرے ہی حضور جھکتے اور نذر و نیاز یں گزارتے رہے ۔ تجھے ہی اپنا کاساز سمجھتے رہے ۔ پھر بھلا ہم انہیں یہ کیسے کہ سکتے تھے کہ اللہ کو چھوڑ کر تم ہمیں یا کسی دوسرے کو اپنا کارساز بنالو۔
اس سوال و جواب سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں معبودوں سے مراد بُت نہیں ۔کیونکہ بے جان کا اللہ کو کارساز بنانے کا کچھ مطلب ہی نہیں ۔ ایسے سوال و جواب اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام سے بھی کریں گے جنہیں نصاریٰ نے اپنا معبود بنا رکھا ہے ( سورۃ مائدہ آیت نمبر ۱۱۶تا ۱۱۸)اسی طرح آگے سورہ سبا کی آیات نمبر ۴۱،۴۲ میں مذکور ہے کہ ایساہی سوال و جواب فرشتوں سے بھی ہوگا جن کی پوجا کی جاتی رہی ہے۔
رہی یہ بات کہ عموماً’’ما ‘‘ کا لفظ غیر ذوی العقول کے لئے آتا ہے اور ذوی العقول کے لئے ’’من ‘‘ کا لفظ آتا ہے تو یہ کوئی ایسا کلیہ نہیں جس میں استثنا ء نہ ہویہ ذوی العقول کے لئے آسکتا ہے جیسے(إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْْرُ مَلُومِیْن)(۲۳:۶) اور استفہامیہ ہونے کی صورت میں بھی آسکتا ہے جیسے مازید زید کیا ہے؟(منجد) [تیسیر القرآن ج۳ ص:۳۰۱،۳۰۲]
(۹) مشرکوں کو قیامت کے دن رسول و پیغمبر کی قرابت داری بھی کچھ فائدہ نہ دے گی۔
*پیغمبروں کی مشرک بیویاں بھی شرک کے سبب جہنم میں جلیں گی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے(ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلاً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا اِمْرَأَۃَ نُوحٍ وَاِمْرَأَۃَ لُوطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللَّہِ شَیْْئاً وَقِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ )اللہ نے کافروں کے لئے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال بیان فرمائی ہے دونوں ہمارے دو نیک بندوں کی زوجیت میں تھیں اور دونوں نے ان کی خیانت کی تو وہ اللہ کے مقابلے میں ان عورتوں کے کچھ بھی کام نہ آئے اور ان کو حکم دیا گیا کہ اور داخل ہونے والوں کے ساتھ تم بھی دوزخ میں داخل ہو جاؤ۔(سورۃ التحریم:۱۰)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ’’دیکھو!دو پیغمبروں کی عورتیں حضرت نوح علیہ السلام کی اور حضرت لوط علیہ السلام کی جو ہر وقت ان نبیوں کی صحبت میں رہنے والی، دن رات اٹھنے بیٹھنے والی اور ساتھ ہی کھانے پینے والی بلکہ( ساتھ ہی)سونے جاگنے والی تھیں‘لیکن چونکہ ایمان میں ان کی ساتھی نہ تھی اور اپنے کفر پر قائم تھیں ‘پس پیغمبروں کی آٹھ پہر کی صحبت انہیں کچھ کام نہ آئی ،انبیاء اللہ انہیں اخروی نفع نہ پہنچا سکے اور اخروی نقصان سے بچا سکے ‘ بلکہ ان عورتوں کو بھی دوزخیوں کے ساتھ جہنم میں جانے کو کہہ دیا گیا۔یہ یاد رہے کہ خیانت کرنے سے مراد یہاں بدکاری نہیں ‘انبیاء علیہم السلام کی حرمت و عصمت اس دسے بہت اعلیٰ اور بالا ہے کہ ان کے گھر والیاں فاحشہ ہوں،بلکہ یہاں خیانت فی الدین مراد ہے یعنی دین میں اپنے خاوندوں کی خیانت کی ‘ان کا ساتھ نہ دیا۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ’’ان کی خیانت زناکاری نہ تھی بلکہ یہ تھی کی نوح علیہ السلام کی بیوی تو لوگوں سے کہا کرتی تھی کہ یہ مجنوں ہیں ،اور لوط علیہ السلام کی بیوی جو مہمان لوط علیہ السلام کے یہاں آتے تو کافروں کو خبر کر دیتی تھی ،یہ دونوں بد دین تھیں ۔(تفسیر ابن کثیر اردو ج ۵ ص۳۷۴)
*پیغمبروں کی اولاد ،اور ان کے والدین بھی اپنے شرک کی وجہ سے بروز قیامت جہنم رسید ہو جائیں گے جیسا کہ نوح علیہ السلا م کا بیٹا جب ان کی نگاہوں کے سامنے ڈوبنے لگا اور انہوں اس کو بچانے کے لئے اللہ سے درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو یہ کہہ کر خاموش کردیا کہ تمہا را بیٹا تمہاری رسالت پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے تمہارے اہل میں سے نہیں رہا۔ارشاد ربانی ہے ( وَنَادَی نُوحٌ رَّبَّہُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابُنِیْ مِنْ أَہْلِیْ وَإِنَّ وَعْدَکَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْکَمُ الْحَاکِمِیْنَ* قَالَ یَا نُوحُ إِنَّہُ لَیْْسَ مِنْ أَہْلِکَ إِنَّہُ عَمَلٌ غَیْْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْأَلْنِ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنِّیْ أَعِظُکَ أَن تَکُونَ مِنَ الْجَاہِلِیْنَ* قَالَ رَبِّ إِنِّیْ أَعُوذُ بِکَ أَنْ أَسْأَلَکَ مَا لَیْْسَ لِیْ بِہِ عِلْمٌ وَإِلاَّ تَغْفِرْ لِیْ وَتَرْحَمْنِیْ أَکُن مِّنَ الْخَاسِرِیْن)’’ اور نوح نے اپنے پروردگار کو پکارا اور کہا کہ پروردگار! میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں سے (تو اسکو بھی نجات دے) تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر حاکم ہے۔ ۴۵۔ اللہ نے فرمایا کہ اے نوح! وہ تیرے گھر والوں میں نہیں ہے وہ تو ناشائستہ افعال ہے تو جس چیز کی تمہیں حقیقت معلوم نہیں اس کے بارے میں مجھ سے سوال ہی نہ کرو اور میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ نادان نہ بنو۔ ۴۶۔ نوح نے کہا کہ پروردگار میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ ایسی چیز کا تجھ سے سوال کروں جس کی مجھے حقیقت معلوم نہیں اور اگر تو مجھے نہیں بخشے گا اور مجھ پر رحم نہیں کرے گا تو میں تباہ ہو جاؤں گا‘‘(سورۃ ھود :۴۵تا ۴۷)
*اسی طرح ابراہیم خلیل اللہ کا باپ آزر جو بت گر، بت فروش، اور بت پرست تھا قیامت کے دن ابراہیم علیہ السلام اس کو جہنم سے بچانے کے لئے اللہ سے شفاعت فرمائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ مشرک باپ کے حق میں ہرگز ان کی شفاعت قبول نہ فرمائے گا بلکہ ابراہیم علیہ السلام کی نظروں کے سامنے ہی ان کے باپ آزر کوبجو کی شکل میں جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن جب اپنے باپ آ زر سے ملاقات کریں گے تو ان کے والد آزر کے چہرے پر سیاہی اور غبار ہوگا تو ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ سے کہیں گے کیا میں نے (دنیا میں ) آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کیجئے۔ وہ کہیں گے آج میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا ۔ اس وقت ابراہیم علیہ السلام عرض کریں گے اے میرے رب !تونے وعدہ فرمایا تھا کہ تو مجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرے گا ،آج اس رسوائی سے بڑی اور کون سی رسوائی ہوگی کہ میرے والد تیری رحمت سے سب سے زیادہ دور رہیں ۔ اللہ تعالیٰ جواب میں فرمائے گا ’’انی حرمت الجنۃ علی الکافرین‘‘ ’’میں نے جنت کافروں پر حرام قرار دے دی ہے ۔ پھر کہا جائے گا اے ابراہیم!تمہارے قدموں کے نیچے کیا چیز ہے ؟وہ دیکھیں گے تو ایک ذبح کیا ہوا جانور خون میں لت پت وہاں پڑا ہوگا اور پھر اس کے پاؤ پکڑ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔(صحیح بخاری :۳۳۵۰)
علامہ داؤد راز ؔ رحمہ اللہ نے حدیث مذکور کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’اس حدیث سے ان نام نہادمسلمانوں کو عبرت پکڑنی چاہیئے جو اولیاء اللہ کے بارے میں جھوٹی حکایات و کرامات گھڑ گھڑ کران کو بدنام کرتے ہیں ۔مثلاً یہ کہ بڑے پیر جیلانی صاحب نے روحوں کی تھیلی عزرائیل علیہ السلام سے چھین لی جن میں مومن و کافر سب کی روحیں تھی وہ سب جنت میں داخل ہو گئے ۔ ایسے بہت سے قصے بہت سے بزرگوں کے بارے میں مشرکین نے گھڑ رکھے ہیں ۔ جب خلیل اللہ جیسے پیغمبر قیامت کے دن اپنے باپ کے کام نہ آسکیں گے تو دوسرے کی کیا مجال ہے کہ بغیر اذن الٰہی کسی مرید یا شاگرد کو بخشواسکیں ۔[صحیح بخاری اردو مع شرح داؤد رازؔ ؒ ج۴ ص :۶۴۱]
*سید الانبیاء والمرسلین ،شافع المذنبین ،محمد رسول اللہ ﷺبھی قیامت کے دن اپنے مشفق و مہربان چچا ابو طالب کو حالت کفر میں وفات پانے کی بنا پر جہنم سے نہیں بچاسکیں گے۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے سامنے آپ کے چچا کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا’’ممکن ہے قیامت کے دن میری شفاعت ان کے کام آجائے اور انہیں جہنم میں ٹخنوں تک رکھا جائے گا جس سے ان کا بھیجا کھولتا رہے گا ‘‘(صحیح بخاری :۶۵۶۴)
علامہ داؤد راز ؔ رحمہ اللہ حدیث مذکور کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’قرآن شریف میں ہے(فَمَا تَنفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیْن)(مدثر:۴۸)(ان کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کام نہ دے گی )لیکن آیت میں نفع سے یہ مراد ہے کہ دوزخ سے نکال لئے جائیں ، یہ فائدہ کافروں اور مشرکوں کے لئے نہیں ہو سکتا۔ اس صورت میں حدیث اور آیت میں اختلاف نہیں رہے گا، مگر دوسری آیت میں جو یہ فرما یا (فَلاَ یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَاب)(البقرۃ :۸۶)(یعنی ان سے عذاب کم نہیں کیا جائے گا )اس کا جواب یوں بھی دے سکتے ہیں کہ جو عذاب ان پر شروع ہوگا وہ ہلکا نہیں ہوگا، یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ بعض کافروں پر شروع ہی سے ہلکا عذاب مقرر کیا جائے ‘بعض کے لئے سخت ہو۔ (صحیح بخاری اردو مع شرح داؤد رازؔ ؒ ج۸ ص:۴۰)
(۱۰) مشرک لوگ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے کبھی بھی جہنم سے نجات نہ پا سکیں گے ۔
ارشاد ربانی ہے( إِنَّ اللّہَ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاءُ وَمَن یُشْرِکْ بِاللّہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِیْداً)’’ اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا (اور گناہ) جس کو چاہے گا بخش دے گا اور جس نے اللہ کیساتھ شریک بنایا وہ رستے سے دُور جا پڑا ‘‘۔(سورۃ النساء آیت :۱۱۶۔)
اللہ کا فرمان ہے(إِنَّہُ مَن یُشْرِکْ بِاللّہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَأْوَاہُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ أَنصَارٍ) ’’(اور جان رکھو کہ) جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر جنت کو حرام کر دے گا اور اُس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ‘‘(سورۃ المائدۃ:۷۲)
دوسرے مقام پر فرمان الٰہی ہے (إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ وَالْمُشْرِکِیْنَ فِیْ نَارِ جَہَنَّمَ خَالِدِیْنَ فِیْہَا أُوْلَءِکَ ہُمْ شَرُّ الْبَرِیَّۃ)’’جولوگ کافر ہیں (یعنی) اہلِ کتاب اور مشرک وہ دوزخ کی آگ میں پڑیں گے (اور) ہمیشہ اس میں رہیں گے یہ لوگ سب مخلوق سے بدتر ہیں‘‘(سورۃ البینۃ :۶)
چھوٹے بڑے ہر طرح کے شرک سے بچنے کی دعا ۔
ا بو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے رویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’تم میں شرک چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ پوشیدہ ہوگا ، اور میں تمہیں ایک ایسی دعا بتلاتا ہوں اگر تم اسے پڑھتے رہوگے تو اللہ تم سے چھوٹے بڑے شرک کو دور کردے گا ۔تم یہ دعا پڑھنا:(اللہم اِنّی اعُوذُ بِکَ انْ اُشرِکَ وَانَا اَعْلَمُ وَ اَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا اَعْلَمُ )’’اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں جانتے ہوئے تیرے ساتھ کسی کو شریک بناؤں۔ اور اس شرک سے تیری بخشش طلب کرتا ہوں جو میں نہیں جانتا‘‘( صحیح الجامع : ۳۷۳۱) آ آخر میں دعاگوں ہوں کہ اللہ رب کائنات ہم تمام مسلمانوں کو ہر طرح کے شرک وکفر سے بچاکر خالص توحید و سنت کی روشنی میں زندگی گزارنے کی توفیق عنایت فرمائے ،اور ایمان کی موت نصیب فرمائے۔ آمین
Abul Bayan Salafi
About the Author: Abul Bayan Salafi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.