مچھلی والے
(Dr Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
حضرت یونس بن متیٰ علیہ السلام
اﷲ ربّ العزت کے جلیل القدرانبیاء کرام میں سے تھے،قرآن کریم میں جا بجا آپ
کا ذکر آیاہے،ایک مستقل سورت ’’سورۂ یونس ‘‘آپ کے نامِ گرامی سے موسوم ہے،اﷲ
ربّ العزت نے آپ کوعراق کے مشہورشہر’’نینوا‘‘جس کاموجودہ نام موصل ہے،حسنِ
اتفاق کہیئے یا سوء ِ اتفاق کہ یہی شہر آج داعش کا دار الخلافہ ہے،کی طرف
مبعوث فرمایا،آپ اپنی قوم کوایک طویل مدت تک توحیدکی دعوت دیتے رہے ،مگرآپ
کی قوم نہایت سرکش اور نا فرمان تھی،جو آپ کی مسلسل تکذیب اور استہزاء کرتی
رہی،بالآخرآپ نے قوم کے حق میں بددعافرمائی اورانہیں شدیدعذاب کی نوید
سناکر، وحی کے ذریعے خروج ِ اذن الٰہی کا انتظار کئے بغیرشہر سے نکل گئے ،آپ
سمندرکے کنارے تشریف لائے اورکشتی میں سوارہوگئے ،ابھی کشتی کچھ دورہی گئی
تھی کہ کشتی بھنور میں پھنس جانے سے ڈولناشروع ہوگئی،ان کشتی والوں کے
عقیدے کے مطابق جب کشتی اس طرح ڈولنے لگتی ہے، تواس کامطلب یہ ہوتاہے کہ اس
کشتی میں اپنے آقاسے کوئی بھاگاہواغلام سوارہواہے،تووہ اسے سمندرمیں پھینک
دیتے ہیں۔حضرت یونس علیہ السلام کوان کے عقیدے کاعلم تھا،اس لیے جیسے ہی
کشتی نے ڈولناشروع کیا،توآپ نے فرمایاکہ کشتی میں ایک غلام اپنے مالک کی
اجازت کے بغیربھاگ آیاہے ،تولوگوں کے پوچھنے پرآپ نے فرمایاکہ وہ غلام میں
ہوں،اس لیے تم لوگ مجھے سمندرمیں پھینک دو،اورنجات حاصل کرو۔لوگوں نے آپ کی
عزت وتکریم کے خاطر پھینکنے سے انکار کیا،مگرحضرت یونس علیہ السلام اپنی
اسی بات پراصرار کرتے رہے،بالآخرآپ نے مشورہ دیاکہ قرعہ ڈال لو،جس کانام
آئے اس کوسمندرمیں پھینک دو،یہ تجویزسب نے پسندکی اوراس پرکئی بار عمل کیا
گیا،مگرہردفعہ آپ کاہی نام آتاتھا۔بادل نخواستہ آپ کولوگوں نے
اٹھایااورسمندر کے حوالے کردیا،جیسے ہی آپ کوسمندرکے حوالے کیاایک مچھلی
پہلے سے ہی اﷲ کے حکم سے منہ کھولے موجودتھی،اس نے آپ کونگل لیااورسمندرمیں
غائب ہوگئی۔
اُدھربستی والوں نے جب عذاب کے آثاردیکھے توسمجھ گئے کہ عذاب آنے والاہے ،ان
تمام لوگوں نے صدق دل سے توبہ کی اورحضرت یونس علیہ السلام کی تلاش میں نکل
گئے،حضرت یونس علیہ السلام چالیس دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہے ،ذکرکرتے رہے
اوراپنی لغزش کی اﷲ سے معافی مانگتے رہے،’’لا الٰہ الا انتَ سبحانک انی کنتُ
من الظالمین‘‘کا وِرد کیا کرتے، آخرکارارحم الراحمین نے مچھلی کوحکم دیاکہ
ان کوزمین پراُگل دو،اس مچھلی نے اپنے رب کے حکم کی تعمیل کی،اورآپ کواُگل
دیا،جب آپ مچھلی کے پیٹ سے باہرآئے ،توبہت کمزورہوگئے تھے،اورجس جگہ
پرمچھلی نے آپ کواُگلاتھااس جگہ کوئی سایہ بھی نہ تھا،اﷲ رب العزت کے حکم
سے وہاں پرایک کدویا انگورکی بیل اُگ آئی اورآپ کوسایہ فراہم کیانیزایک
پہاڑی بکری یا ہرنی کہہ لیں،آتی، جس کے تھنوں سے دودھ ٹپک رہاہو تا،آپ
روزانہ اس کے دودھ سے اپنی بھوک مٹاتے اوراس درخت کے سایہ میں آرام
فرماتے۔مچھلی کے اس واقعے کی وجہ سے آپ ؑکو ذو النون اور صاحب الحوت یعنی
مچھلی والے کا لقب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے،نون اور حوت دونوں کا
معنی مچھلی ہے، آج کی جدید سائنس نے بھی اور عام انسانی مشاہدے نے بھی اتنی
بڑی دیو ہیکل مچھلیوں کی تصدیق کردی ہے، مثلاً ’’وہیل ‘‘مچھلی کی جسامت چار
سے سو فٹ اور وزن سو سے ڈیڑھ سو پاؤنڈ کے درمیان ہوتاہے،اس کی دم ہوائی
جہاز کی دم کی طرح ہوتی ہے،جس کا ایک سرا اوپر اٹھا ہوا ہوتاہے،اس کی جلد
شفاف اور چکنی ہوتی ہے،جبکہ منہ کے قریب مونچھوں کی طرح لمبے لمبے بال ہوتے
ہیں،وہیل کے دانت یکساں اور ایک ہی قطار میں ہوتے ہیں،اسے شکار پکڑنے کی
بھی ضرورت پیش نہیں آتی،تیرتے ہوئے اس کا منہ کھلا ہو تاہے،آبی جانور اور
دیگر مچھلیاں اپنے آپ اس کا چارہ بننے کے لئے چلے آتی ہیں،اس کی زبان کا
وزن چھ پاؤنڈ کے برابر ہو تاہے،وہیل گینڈے کی طرح پیٹو ہوتی ہے، مسلسل کچھ
نہ کچھ کھاتی رہتی ہے،اس کا منہ اتنا بڑا ہوتاہے کہ بیس سے پچیس افراد ایک
ساتھ بآسانی اس میں کھڑے ہوسکتے ہیں،مال گاڑی کا ایک ڈبہ اس کے منہ میں
آسکتاہے،کلکتہ کے عجائب گھر میں وہیل کے گال کے دو حصے ہیں،جو پچیس سے تیس
ہاتھ لمبے ہیں،وہیل کا جسم جتنا لمبا ہوتاہے،اس کی ایک تہائی کے برابر اس
کامنہ ہوتاہے،اس کا حلق بہت فراخ اور وسیع ہو تا ہے ،جس سے یہ لحیم وشحیم
انسانوں جیسی مخلوق کو بآسانی نگل سکتی ہے،اور بعد میں خاص حالات میں انہیں
اُگل کر باہر پھینک سکتی ہے،اس کے حلق کے نیچے کئی جھریاں (folds)بھی ہوتی
ہیں،جب اسے معمول سے زیادہ کوئی بڑی چیز نگلنا پڑجائے،تو اس کا حلق ان
جھریوں کے سبب کھل کر وسیع تر ہو سکتا ہے،اس وقت وہ انسان سے بھی بڑی اشیاء
کو سہولت نگلنے کی قابل ہو جاتی ہے، اس کے پیٹ میں سانس لینے کے لئے آکسیجن
بھی مہیأ ہوتی ہے، اس کے پیٹ میں ایک انسان کو اتنی گرمی لگتی ہے جو بخار
کی حالت میں ہوتی ہے،ڈاکٹر امروزجان ولسن،فیلو، کوئنز کالج ،
آکسفورڈ(dr.imroz john wilson fellow queen college oxford)نے حضرت یونس ؑ
کے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنے کے متعلق ایک تحقیقی اور شاندار مقالہ تحریر
کیاہے ،جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔موجودہ زمانے میں بھی کچھ افراد کو بڑی
مچھلیوں کے نگل جانے کے دلچسپ واقعات نیٹ میں مرقوم ہیں،جنہیں دیکھ پڑھ اور
سن کر دنیا میں بہت سے لوگ مسلمان ہوئے ہیں،آ پ بھی تحقیق کی اس دنیامیں
جایئے ،اور ان حکایات کے مزے لیتے رہیئے،علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایمانی
پختگی مفت میں حاصل کریں ۔
بہرحال جب حضرتِ یونس ؑکی حالت بہترہوگئی اورکمزوری دورہوگئی توایک دن اﷲ
رب العزت کے حکم سے سورج کی تیزروشنی سے وہ بیل جل گئی،حضرت یونس علیہ
السلام نے یہ معاملہ دیکھا ،تو آپ کوشدیدرنج ہوااورآپ اس غم میں رونے لگے،اﷲ
تعالی نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو بھیجااورانہوں نے آکرفرمایا:آپ ایک
درخت کے لیے روتے ہیں،جس کواﷲ نے آپ کے لیے اُگایاتھا،مگران ایک لاکھ سے
زائد انسانوں کے لیے نہیں روتے جن کی ہلاکت کی آپ نے بد دعا کی تھی۔
اس پرحضرت یونس علیہ السلام کوسخت پشیمانی ہوئی اورآپ نے گِڑگِڑاکراﷲ سے
معافی مانگی اوراﷲ تعالی نے آپ کومعاف کردیا۔آپ علیہ السلام دوبارہ اپنی
قوم میں تشریف لائے،توقوم آپ کودیکھ کربہت خوش ہوئی،پوری کی پوری مؤمن
ہوگئی،اورآپ کی ہربات ماننے لگی۔ |
|